آہ !مظلوم عورت - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, November 14, 2014

آہ !مظلوم عورت

محمد سلیمان قاسمی

ظلم کیا ہے اور ظلم کسے کہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب تو یہ ہے کہ تصرف الشئی فی ملک غیرہٖ یعنی دوسرے کی ملکیت میں تصرف کرنا،مالک کی منشاء ، مرضی اور اجازت کے بغیر اس کی جائیداد میں اپنے اختیار سے خرد برد کرنا یا اسے استعمال کرنا ظلم ہے ۔
اس سوال کا دوسرا جو اب یہ ہے کہ وضع الشئی فی غیر مکانہ ۔ یعنی کسی چیز کو اس کی جگہ کے بجائے کسی دوسری جگہ پر رکھنا ، کسی غلط جگہ پر فٹ کرنے کی کوشش کرنا۔ ان دونوں جوابات سے ظلم کی تعریف ہمارے سامنے واضح ہو کر آگئی اور معلوم ہو گیا کہ ظلم کسے کہتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہوگیا کہ عورت کی مظلومیت پر غور کرنے سے پہلے یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ (۱)کائنات میں عورت کی حیثیت کیا ہے ؟وہ کسی کی ملکیت ہے یا خود مختار ہے ؟ اگر کسی کی ملکیت ہے تو کس کی ملکیت ہے ؟ اور (۲)یہ کہ انسانی معاشرہ میں عورت کا مقام اور مرتبہ کیا ہے؟ اور سماج میں اس کی وہ کیا اور کون سی جگہ ہے جہاں سے ہٹا کر اگر کسی دوسری جگہ رکھا جائے گا تو اس پر ظلم ہوگا؟
۱۔کائنات میں عورت کی حیثیت مخلوق کی ہے ،مردبھی اللہ کی مخلوق ہے ۔اس حیثیت میں اسے اپنے اور کائنات کے خالق کا وفادار ، فرماں بردار اور شکر گزار ہونا اور رہنا لازم اور ضروری ہے ۔ اگر ابلیس یا اس کے چیلے یا خود عورت کا نفس اسے اس کی فطرت کے خلاف اللہ کا باغی ، نافرمان اور ناشکرا بناتے ہیں تو اس پر ظلم کرتے ہیں ۔
۲۔کائنات میں عورت کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی مملوک ہے ، اس کا خالق ہی اس کا مالک ہے، اور وہ اپنے خالق کی ملکیت ہے ، اپنے خالق و مالک کی منشا اور مرضی کے خلاف اس کی حیثیت ، مقام اور مرتبہ متعین کرنا ، اس پر ظلم ہے ۔ اور اگر وہ خود ایسا کرتی ہے تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتی ہے ۔ کیوں کہ کسی کی ملکیت کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مالک کی مرضی اور منشا کے خلاف اس کی ملکیت سے نکل جانے کی کوشش کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے تو یہ بغاوت ہوگی اور مجرم جرمِ بغاوت کی سزا پانے کا مستحق ہوگا۔
۳۔کائنات میں عورت کی حیثیت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ، مالک اور حاکم کی محکوم ہے ۔ اور اس کے احکام ، قوانین اور ہدایات پر کا ربند رہنے کی پابند ہے ۔ اگر وہ اس سے بغاوت کرتی ہے ، اس کی ہدایات سے رو گردانی کرتی ہے تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتی ہے ۔ اور اگر کوئی فرد یا کوئی جماعت یا حکومت یا معاشرہ اسے حاکم حقیقی کے خلاف تصورات اختیار کرنے ، ذہن بنانے ، انفرادی ، اجتماعی، ازدواجی یا قومی و ملکی زندگی کے کسی ایک یا چند پہلوؤں میں بغاوت پر مجبور کرتی ہے تو ایسے افراد، ایسا معاشرہ، ایسی جماعت اور حکومت عورت پر ظلم کرتی ہے ۔
انسانی معاشرہ میں عورت کا مرتبہ فطری اور طبعی طور پر مرد کے مساوی ہے ۔اگر کوئی فکر
و فلسفہ ، کوئی نظریہ اور نظام ، کوئی تہذیب و تمدن کوئی دین اور مذہب ، کوئی مت اور دھرم یاکوئی ازم عورت کو مرد سے فروتر سمجھتا ہے اور اسے پست قرار دیتا ہے تو وہ صرف عورت ہی پر نہیں بلکہ انسانیت ، شرافت اور انسانی تمدن پر بھی ظلم کرتا ہے ۔
عورت اور مرد کے ملاپ اور قضاء شہوت اور جنسی عمل کو محض تفریح ،لطف اندوزی سمجھنا اور جنسی عمل کو مقصود حیات بنانا اور یہ کوشش کرنا کہ حمل قرار نہ پائے، دراصل عورت پر ظلم ہے ۔بلکہ انسانیت پر بھی ظلم ہے ۔ حمل قائم ہوجانے پر اسقاط کے تدابیر اور طریقے اختیار کرناعورت اور انسانیت دونوں پر ظلم ہے ، ا ور یہ معلوم ہونے پر کہ جنین لڑکی ہے حمل ساقط کرادینا، عورت اور انسانیت پر ظلم ہے ۔ اگر لڑکی پیداہوجائے تو اس کا گلا گھونٹ کر یا زہر دے کر یا کسی اور طریقے سے مارڈالنا عورت پر ظلم ہے ، بلکہ انسانیت اور شرافت ہر ایک پر ظلم ہے ۔ لڑکی کی تعلیم و تربیت ، پرورش وپرداخت ، کھلانے پلانے ، پہنانے اڑھانے ، علاج معالجہ ، معاملہ اور بر تاؤ میں لڑکوں کے مقابلہ میں کوئی کوتاہی یا بے توجہی برتنا عورت اور انسانیت پر ظلم ہے ۔
لڑکیوں کو ایسی تعلیم دینا جن سے ان کے اندر مرد کے مقابلے میں احساس کمتری پیدا ہو اور وہ اپنی نسائیت ، شرم و حیا او ر عفت و عصمت کو مصیبت اور وبال جان سمجھنے لگیں، عریانیت اور بے پردگی کو اپنانے کی عادی ہو جائیں ، بدکاری کو محض تفریح شمارکرنے لگیں ، مخلوط معاشرہ اور غیر مردوں کے ساتھ
سیرو تفریح اور ناچنے گانے اور راتیں گزارنے کو ترقی اور آزادی شمارکرنے لگیں تو یہ عورت پر ظلم ہے۔
لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی یاشادی کے قابل ہوتے ہی ان کے لئے جہیز فراہم کرنے میں ماں باپ اوراہل خاندان اس قدر منہمک ہو جائیں کہ ان کی تعلیم و تربیت اور صحت و عافیت کی طرف سے غافل ہو جائیں یہ بھی عورت پر ظلم ہے ۔ لڑکی کے نکاح اور شادی بیاہ کے لئے صرف نسل ونسب دیکھنا ، صرف دولت و ثروت دیکھنا اور لڑکے کی سیرت اور اخلاق و کردار کو نہ دیکھنا ، لڑکے کی تعلیم و تربیت ، تہذیب و شائستگی ، علم و ادب اوردینداری کے پہلو کو نظر انداز کردینا، عورت پر ظلم ہے ۔ لڑکی سے یا لڑکی والوں سے جہیز کی فرمائش لڑکے کی اور لڑکے والوں کی بے غیرتی ہے اور عورت پر ظلم ہے ۔ جہیز کم لانے پر یا مزید مطالبات پورے نہ ہونے پر لڑکی کو ستانا دھمکیاں دینا ، بر ا بھلا کہنا ، مار نا پیٹنا، جان سے مار ڈالنایا خودکشی پر مجبور کرنا ، عورت پر سراسر ظلم ہے اور بھیانک ظلم ہے ۔
حسب حیثیت بیوی کو نان نفقہ نہ دینا اور اس کو لونڈی یا نوکرانی سمجھنا عورت پر ظلم ہے ۔ اس کی بساط اور قوت سے زیادہ اس سے گھر کا دھنداکرانا اور امور خانہ داری میں اس کا ہاتھ نہ بٹانا عورت پر ظلم ہے ۔ عورت کو ستانے کے لئے ساس نندوں کو کھلی چھوٹ دینا یا ماں کے مقابلے میں بیوی کی غلط حمایت کرنا بھی عورت پر ظلم ہے ۔ بیوی اور ماں دونوں عورت ہی تو ہیں ۔ دونوں میں کسی کی بھی بے جا حمایت اور نا روا سلوک عورت ہی پر ظلم ہے ۔
عورت کو حقِ وراثت نہ دینا اس پر ظلم ہے ۔ بیوی کو بلا وجہ ڈانٹنا ، مارنا پیٹنا ، بر ابھلا کہنا ، بات بات پر طلاق کی دھمکی دینا اس پر ظلم ہے ۔ ایک سے زائد بیوی رکھنا اور ان میں عد ل نہ برتنا عورت پر ظلم ہے ۔ ماں ، بیوی، بیٹی ، بہن، پڑوسن، معلمہ، رشتہ دارغرض کہ جس حیثیت سے عورت کے جو حقوق ہیں ان کو ادا نہ کرنا در اصل عورت پر صریح ظلم ہے ۔
عورت کو جنسی حیثیت سے حراساں کر نا، اس کو عریانیت ، بدکاری، اور فحاشی پر مجبورکرنا، اس کی عفت و عصمت کو داغدار کرنا اس پر سراسر ظلم ہے ۔
عورت کو آزادی اور مساوات کا فریب دے کر رقص وسرود کی محفلوں ، کلبوں اور مردانہ جگہوں میں کھینچ کر لے جانا اور اس کی نسائیت ، شرم وحیا اور عفت وعصمت کو داؤں پر لگانا اس پر ظلم ہے۔
عورت کو پولیس اور فوج میں بھرتی کرکے ، دفاتر میں لے جاکر ، اسمبلی اور پارلیمنٹ ، مرد پولس افسران ، مرد کمانڈروں ، دفاتر کے مرد بابوؤں ، مرد وزیروں ، اور آفیسروں کے لئے جنسی آسودگی کے مواقع فراہم کرنا عورت پر ظلم ہے ۔
آج امریکہ ، روس، فرانس، برطانیہ، چین اور دیگر سیکولر ممالک کی فوج ، پولیس اور عام دفاتر میں عورتوں پر مظالم ہو رہے ہیں اور اس سے نجات کا کوئی راستہ دور دور تک نظر نہیں آتا ۔۔۔
ہاں ،صرف انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ نظریے اور دین و شریعت کے تحت عورت اور مرد بلکہ انسانیت کو ہر قسم کے ظلم وستم اورزور زبردستی سے نجات مل سکتی ہے اور وہ محفوظ و مامون زندگی گزار سکتی ہے ۔ اس کے بغیر کہیں سے انصاف کی توقع فضول ہے ۔ انسانی ساخت کے افکار و نظریات ، قوانین و احکام اور نظاموں نے عورتوں ، بچوں اور مردوں سب ہی پر نت نئے مظالم ڈھائے ہیں اور ان کا سلسلہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنی پوری حشر سامانی کے ساتھ جاری ہے ۔۔۔۔آہ !مظلوم عورت !

No comments:

Post a Comment