- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Saturday, October 21, 2017

سید فاروق احمد سید علی
ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی ہوگی!
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہنگامی صورت حال سے کس طرح نمٹا جاتاہے؟ حملہ ہوجائے توایمرجنسی میں کیا کرنا چاہیے؟ خود کو ساتھیوں سمیت کس طرح بحفاظت نکالاجائے؟ آگ لگنے کی صورت میں فوری طورپر کیا کیاجائے؟ ایکسیڈینٹ میں زخمی ہونے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کس طرح بہم پہنچائی جائے؟ اور ان سب سے زیادہ خود کی حفاظت کیسے کی جائے؟ ۹۰؍فیصد یااس سے بھی زیادہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بنیادی لازمی معلومات نہیں اور کیوں معلوم ہوں، نہ ہی نصاب میں کبھی پڑھایا گیا اور نہ ہم نے خود سے قرآن وحدیث کی روشنی میں سیکھنے کی کوشش کی۔ پہلے زمانے میں آزادی سے قبل مختلف قسم کی ٹریننگ دی جاتی تھی جس میں سیلف ڈیفنس، ابتدائی طبی امداد، ہنگامی حالات سے نمٹنے کی مشقیں اور اسلحہ چلانے کی بنیادی مہارت سکھائی جاتی تھی۔ یہ ایسی تربیت تھی جو اس وقت کسی بھی مشکل صورت حال میں مشکل فیصلے آسانی سے لینے میں مدددے، جو جنگ جیسی صورت حال میں زندہ رہنے اور ایک دوسرے کا مددگار بننے کا حوصلہ بخشے، جوزخمیوں کی مرہم پٹی سے لے کر بڑے زخموں کامرہم بننے والوں کو ایک بنیاد مہیاکرسکے۔ لیکن جیسے جیسے ہندوستان اور دیگر ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کا اثر ورسوخ بڑھتاگیا ویسے ویسے اس قسم کی تربیت کو بالکلیہ طورپر ختم کرنے کی سازش رچی گئی جبکہ اسرائیل ایسی تربیت کے لیے سب سے آگے ہے جہاں ہر ۱۸؍سالہ نوجوان کو لازمی ہے کہ وہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرے اور اس طرح کی تربیت اس کی آنے والی زندگی اور نوکری پر براہ راست اثراندازہوتی ہے۔ اور دشمنوں سے بچنے کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ فرقہ پرستوں کے اقتدار میں آتے ہی قتل وغارت گری کا بازار ایک دم سے گرم ہوگیاہے۔ خصوصاً اقلیتوں پر ہورہے مظالم بڑے ہی دردناک اور افسوسناک ہیں۔ فی الحال ملک اپنے سب سے خطرناک دور سے گزررہاہے، البتہ خوشی کی بات یہ ہے کہ دانشوروں، ادیبوں اورطلبا میں ابھی ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جو اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بے باکی سے سب کچھ کرنے کو تیارہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ملک بھارت آرایس ایس اور اسرائیل کی زیر سرپرستی میں جس تیزرفتاری سے ’’غنڈاسٹیٹ‘‘، پولیس اسٹیٹ‘‘ ایمرجنسی اسٹیٹ‘‘ اور ’’نسل پرست، غیرروادار، متعصب اور فرقہ پرست آمریت ‘‘ میں تبدیل ہوتاجارہاہے اس کے خلاف اٹھنے والی آوازیں کافی کمزور ہیں ،ان میں وہ شدت اور اخلاص نہیں جو اس کو دباسکے۔ اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ محمد اخلاق، زاہد رسول بھٹ، محمد مظلوم، محمد آزاد، ابوحنیفہ، ریاض الدین، پہلوخان، غلام محمد، ظفر حسین، جنید،منہاج انصاری سے لے کرعلیم الدین انصاری تک زعفرانی دہشت گردی کے کسی بھی غنڈے کے خلاف کسی نے بھی اپنی جان کی حفاظت (Self Defence) کے لیے دفاع نہیں کیا۔ دنیا کا ہرقانون، بلامبالغہ اور بلا استثنا ،نہتے انسانوں کو ’’حفاظت خود اختیاری میں حملہ آور ، دشمن ، ڈاکو اور دہشت گرد سے اپنی حفاظت کا حق دیتا ہے اور اگر اس حق کے استعمال کے دوران اس کے ہاتھوں کسی کی جان بھی چلی جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔ پھر کیوں کوئی بھی مسلمان اپنی حفاظت کے لئے اپنا دفاع نہیں کرتا اور چاروں خانے چت ہوجاتا ہے بہر کیف یہ اور بات ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق حفاظت خود اختیاری اور اپنے دفاع کے لئے ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کا غیر مشروط حق نہیں دیتا ۔ ایک سابق ڈپٹی کمشنر نے لکھا تھا کہ’’میں نے اپنے چھہ سالہ ڈپٹی کمشنری کے زمانے میں کسی ڈاکو، چور، لٹیرے، مفرور مجرم یا تخریب کار (دہشت گرد) کو اسلحہ لائسنس کی درخواست دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ اپنا یہ حق بزور بازو خود حاصل کرلیتے ہیں اور ہم محض ملک کے شریف شہریوں کو اسلحہ لائسنس کے لیے پولیس تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگواکر رسوااور ذلیل کرتے ہیں۔ ‘‘
جب سے انگریزوں نے یہ اسلحہ ایکٹ 1878میں بنایا ہے، شریفوں، کمزورں، اقلیتوں اور بالخصوص شرفاکا جینا دوبھر ہوگیاہے۔ جب کہ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ا کے وصال کے بعدان کے گھر میں مال دنیا سے صرف آٹھ تلواریں نکلی تھیں۔ سید الانبیاء کے اس اصول پر جن قوموں نے عمل کیا وہاں آج امن وآشتی اور سکون کا بول بالا ہے اور جنہوں نے اسے ترک کردیا، چھوڑدیا اور اپنے اس نقصان کے احساس سے بھی محروم ہوگئے ،بے حس ہوگئے، وہاں آج غنڈوں، بدمعاشوں، دبنگوں، نسل پرستوں، فرقہ پرستوں، جاہلوں، ظالموں اور گھمنڈیوں کا قبضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں حفاظت خوداختیاری کے تعلق سے فرماتاہے کہ ’’اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ قوت (طاقت حاصل کرو) اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھوتاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتاہے ( کہ وہ تمہارے دشمن ہیں) خوف زدہ رکھ سکو ،اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدلہ تمہاری طرف پلٹادیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں ہرگز کسی جارحیت یا جارحانہ اقدامی کارروائی اور جہاد کا حکم نہیں۔ 
گجرات، آسام اور بھارت کے دیگر گاؤں اور دیہاتوں میں ہوئے فسادات میں بہت سارے لوگ گاؤں چھور کر فرار ہوگئے مگر کچھ ایسے بھی تھے جو فسادات کے دوران بھی پوری طرح محفوظ رہے تھے۔ صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے گھر گاؤں کو چھوڑکر راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھر گاؤں میں رہ کر اپنی حفاظت خود کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ نتیجے میں ظالم فسادی ٹولے کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ ادھر کا رخ کریں۔ لیکن یہ بات بھی لکھنا ضروری ہے کہ گجرات کے ایک گاؤں میں باپ بیٹوں نے مل کر فسادیوں پر گولی چلائی تھی اور اپنی جان بچائی تھی لیکن انہیں پولیس نے گرفتار کرلیا اور ان پر قتل کے مقدمات چلے لیکن بالآخر وہ دونوں باعزت بری بھی ہوگئے۔ 
آج بھارت سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ اور مسلمانوں کے خلاف جو انسانیت سوز مظالم ہورہے ہیں اس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی قرآن وسنت سے دوری ہے۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ کن حالات میں کس طرح کا لائحہ عمل ہمیں اسلام تیارکرنے کے لیے کہتاہے، بس نکاح طلاق اور ختنے میں ہمیں بڑااسلام نظرآجاتاہے لیکن جہاں اپنی جان پر بن آئے تو ہم بغلیں جھانکتے رہتے ہیں۔ نبی کریم ا نے فرمایا کہ ’’جو شخص اپنے اہل وعیال کا دفاع کرتے ہوئے ظلم کے ساتھ مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے ہمسائے کا دفاع کرتے ہوئے ظلم کے ساتھ ماراجائے وہ شہید ہے اور جوشخص خداکی ذات کے لیے قتل کیا جائے (یعنی صرف اس لیے کہ وہ الٰہ واحد لا شریک کو اللہ مانتاہے) وہ بھی شہید ہے۔ (کنز العمال:۱۱۲۳۸) آپ ا نے فرمایا: ’’جو شخص اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ کرے اور ماراجائے وہ شہید ہے‘‘( نسائی:۴۰۹۴) آپ ا نے فرمایا ’’جو شخص اپنے اوپرہونے والے ظلم کا دفاع کرتے ہوئے ماراجائے وہ شہید ہے‘‘(نسائی:۴۰۹۳) اور صرف یہی نہیں آپ انے یہ بھی فرمایا کہ ’’جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے ماراجائے وہ شہید ہے‘‘(صحیح بخاری:۲۴۸۰) آپ ا نے فرمایا:’’اپنے مال کا دفاع کرنے کے لیے لڑویاتواپنے مال کو بچالوگے یا پھر قتل کر دیے جاؤگے ایسی صورت میں آخرت میں شہداء میں شمار ہوگے‘‘(مفہوم حدیث صحاح ستہ) ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور محمد اخلاق سے سے لے کر علیم الدین انصاری تک ہمارے جو ۱۲؍جوان اور دیگر دلت بھائی زعفرانی ٹولوں، فرقہ پرستوں اور تشدد پسندوں کی بھیڑ کے حملے میں اپنی جان سے گئے ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی کہیں یہ لکھا ہوانہیں پایاگیا اور نہ ہی پولس نے ریکارڈ جمع کیا کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنی جان ومال کے دفاع میں حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہویا قاتلوں کے ظالم ٹولے میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچایا ہو! وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے حملہ آوروں کے مقابلے میں صرف مارکھانے کے بجائے اگر اپنے دفاع کا شرعی وقانونی حق اداکرتے تو بہت ممکن تھا کہ ان میں سے کچھ بچ بھی جاتے اور جو مارے جاتے وہ یقینی طورپر درجہ شہادت پر فائز ہوتے۔ اگر آپ کی جان خطرے میں ہواور اس بات کا یقین آپ کو ہوگیا ہے کہ آپ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھنے والے ہیں ایسے میں آپ دشمنوں سے صلح کے طالب ہیں تواس کامطلب یہ ہے کہ آپ یا توڈرپوک ہیں یا آپ کو دفاع کرنا ہی نہیں آتا، دفاع کرتے ہوئے جام شہادت پی لیجئے مگر کمزوروں بے بسوں اور لا چاروں کی طرح اپنی جان سے ہاتھ مت دھو بیٹھئے۔ 
موجودہ حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم علمائے کرام ودانشوران حضرات کی نگرانی اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر قرآن وحدیث کی وہ تعلیمات حاصل کریں اور سیکھیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کا مکمل تحفظ ممکن ہو۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے حالات میںSelf Defenceکی کلاسیس شروع کریں، آپس میں مل بیٹھیں ،محلہ محلہ ،گلی گلی مارشل آرٹ (کراٹے) کی تربیتی کلاسیس شروع کریں، گھوڑسواری، تیراندازی، بندوق چلانے کی مشق حکومت سے اجازت لے کر شروع کی جائے۔ چستی پھرتی والے کھیلوں کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ حضور اکرم ا نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس نے تیراندازی سیکھااور بھول گیا اور جس نے تیرنا سیکھا اور بھول گیا وہ ہماری جماعت میں سے نہیں۔ لہٰذا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان بچانا افضل قرار دیا گیا ہے اس لیے اس کی فکر کیجئے۔ حالات حاضرہ سے باخبر رہئے۔ دھوکہ دو،نہ دھوکہ کھاؤ !چوکنے رہو اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کمر کس لو ،اپنے آپ سے انصاف کرو ،کوئی حکومت اور تنظیم ہمارے ساتھ ناانصافی نہیں کررہی ہے بلکہ ہم خوداپنے ساتھ نا انصافی کررہے ہیں اور ایک سب سے اہم بات سچے اور پکے مسلمان بن جاؤ اور بنتے رہنے کی تلقین کرتے رہو۔ پھر دیکھئے اللہ ہمیں دنیا وآخرت میں کیسے سرخروکرتاہے۔ اللہ حافظ۔

No comments:

Post a Comment