- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, February 7, 2017

د؍ رضا ء ا للہ محمد ادریس المدنی رحمہ اللہ
تقلید سے امت کو کیا حاصل ہوا؟ (۲۔آخری)
مذہبی تعصب کا شا خسا نہ: تقلید ی مذاہب کی وجہ سے پیدا ہو نے والی مناظر ہ بازی ، آپسی عداوت ودشمنی اور نفرت وکراہیت تاریخ کے بعض ادوار میں اس حد تک پہنچ گئیں تھیں کہ مقلد ین مذاہب کے مابین زبردست خو نی تصادم اور حد درجہ ہو لناک فتنے رونما ہو ئے جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہیں، جن میں بے شمار جانیں ضائع ہوئیں ،اموال تلف ہو ئے ، بستیا ں اور شہر ویران ہو گئے ، اور ان ہلاکت خیز فتنوں کے سبب کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہ گئے ، چنانچہ اصفہان ایک زمانہ میں ایران کا ایک نہایت زرخیز سر سبزوشاداب شہر اور والیان اصفہان کی علم دوستی کی وجہ سے علم وفن کا عظیم مر کز تھا ،یا قوت الحموی (ف۳۲۶ھ) اس کی سابقہ عظمت وشوکت کا تذکرہ کر نے کے بعد نہایت ہی کر ب والم کے سا تھ شہر کی مو جودہ حالت زار کا نقشہ کھینچتے ہو ئے رقم طراز ہیں : ’’ شوافع اور احناف کے مابین کثرت فتن ، مسلکی تعصب اور مسلسل خونی تصادم کے باعث اس شہر کے مختلف علاقوں میں ویرانی چھائی ہو ئی ہے ، (حالت یہ ہے کہ ) جب بھی کو ئی گروہ غالب آتاہے دوسرے گروہ کے محلوں میں بغیر کسی رورعایت کے لوٹ مار مچا تا،آتش زنی اور تباہی پھیلاتا ہے ، یہی حالت قصبوں اور دیہاتوں کی بھی ہے۔ ‘‘(معجم البلدان ۱؍۲۰۹) اسی طرح شہر ’’ری ‘‘ کے تذکرے میں بھی ۶۱۷ ھ میں وہاں اپنی آمد اور وہاں کی تباہی کا آنکھوں دیکھا حال ذکر کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :۔ 
اہالیان شہر تین فرقوں میں منقسم تھے (۱) شوافع ،وہ اقلیت میں تھے ، (۲) احناف ، ان کی کثرت تھی ، (۳) اہل تشیع ، ان کو اغلبیت حاصل تھی ، ابتداءً سنیوں اور شیعوں کے مابین گروہی عصبیت پیداہوئی ، احناف اور شوافع نے شیعوں کا بالکل صفایاکردیا ، جب ان سے چھٹی ملی تو شوافع اور احناف کے مابین مسلکی تعصب نے جگہ لے لی ، اور ان کے درمیان جنگی سلسلہ شروع ہو گیا ، تمام جنگو ں میں قلت تعداد کے باوجود شافعیوں کا پلہ بھاری رہتا ، مضافاتی علاقوں کے باشندے جو حنفی المسلک تھے مسلح ہو کر اپنے ہم مذہب لوگوں کی مددکے لیے شہر پہنچتے لیکن ان کا آنا بے سود ہو تا ، اس کا سلسلہ برابر جاری تھا یہاں تک کہ سب فنا کے کھاٹ اتاردیے گئے ، اہل تشیع اور احناف میں وہی شخص زندہ بچ سکا جس نے اپنے مذہب کو مخفی رکھا ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مکانات زمین دوز اور اتنی تنگ وتاریک گلیوں کے اندربنانا شروع کیا جہاں تک رسائی سخت دشوار گزار ہو تی تھی ، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید ان میں سے کوئی شخص زندہ نہ بچتا ۔(معجم البلدان ۴؍۳۵۵-۳۵۶)
اسی قسم کے متعدد واقعات حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیے ہیں ، چنانچہ عزیز مصر ملک افضل ابن صلاح الدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ۵۹۵ھ میں یعنی جس سال ان کی وفات ہو ئی تھی اپنے شہر سے حنابلہ کو نکال باہرکر نے کا عزم مصمم کر لیا تھا ، اور اپنے بھا ئیو ں کو بھی اسی مقصد سے خط لکھنے والے تھے ۔(البدایۃ ۱۳؍۱۸) 
فخرالدین رازی جب شاہ غزنہ کے پاس پہنچے تو شاہ غزنہ نے رازی کا خیر مقدم کیا اور نہایت عزت واکرام کے ساتھ ان کا استقبال کیا ،ہرات میں ان کے لئے ایک مدرسہ بھی بنوایا ، چونکہ اہل خراسان ابن کرام(فرق�ۂ کرامیہ کا بانی محمد بن کرام سجستانی م؍۲۵۵ھ، مختلف مبتدعانہ عقائد کا حامل تھا ، اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کا قائل تھا۔ ( سیراعلام البنلاء ۱۱؍۵۲۳) کے معتقد تھے اس لیے شاہ غزنہ کے اس عمل پر خراسان میں ایک مناظرہ بازی ہو ئی ،جو سب وشتم اور گا لی گلوج پر انجام پذیر ہو ا ایک شخص نے جا مع مسجد میں تقریر کی ، اور رازی کے افکار ونظریا ت پر نکیر کرتے ہو ئے عوام کو ان کے خلاف خوب ورغلایا ، مجبور اً شاہ غزنہ کو انہیں ملک چھوڑ دینے کا حکم دینا پڑا ۔ (البدایۃ ۱۳؍۱۹)
دمشق میں بھی ایک دوسرے بڑے فتنہ کا تذکرہ کیا ہے جو علامہ عبد الغنی مقدسی کے سبب بھڑک اٹھا تھا ۔ مسجد اموای میں حنابلہ کے لئے جو جگہ مخصوص کردی گئی تھی اس میں آپ درس دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ اثناء درس آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفات کامسئلہ چھیڑدیا،جس پر دیگر مذاہب کے لوگ بپھر گئے ، امیر صارم الدین بر ٖغش نے ایک مجلس مناظرہ کا اہتمام کیا جس میں فقہاء نے آپ سے مناظرہ کیا ، جو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا ،امیرنے آپ کو شہر چھوڑ دینے کا حکم دیا ، اور قیدیوں کو آزاد کر دیا جنہوں نے جا کر حنا بلہ کے منبر کو تو ڑڈالا ، اس دن شورش اور ہنگامہ کی وجہ سے حنابلہ کے محراب میں ظہر کی نماز نہیں پڑھی جا سکی ، اور وہاں محفوظ صندوقوں اور الماریوں کو لوگ نکا ل کر لے بھا گے ، ایک عظیم تباہی مچی رہی ۔ (البدایۃ ۱۳؍۲۱)
ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کی صورت حال بہت بعد میں چل کر پیدا ہو ئی تھی ، تاریخ کی کتابوں میں چو تھی صدی ہجری کے اواخر سے ہی مسلکی تعصب کی بناء پر فضا مکدر دکھائی دیتی ہے، یہ وہی زمانہ ہے جس کے با رے میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے بقول ائمہ اربعہ کی تقلید کا رواج ہواتھا ۔ عباسی خلیفہ قادرباللہ نے ۳۹۳ھ میں شافعی عالم ابو حامد اسفرائینی کے مشورے پر قاضی بغداد محمد ابن الاکفانی حنفی کو معزول کر کے ابوالعباس احمد محمد البارزی شافعی کو منصب قضاء پر متعین کر دیا تھا ۔
اسفرا ئینی نے محمود بن سبکتگین اور اہل خراسان کواس کی اطلاع دیتے ہو ئے خط لکھا کہ ’’خلیفہ نے منصب قضا احناف سے لے کر شوافع کو دے دیا ہے ‘‘ جس سے اس مسئلہ کو کا فی شہرت حاصل ہو گئی ، اہالیان بغداد گروہو ں میں تقسیم ہو گئے اور ان کے ما بین فتنے کی آگ بھڑک اٹھی ، مجبور اًً خلیفہ وقت نے اعیان شہر کو اکٹھا کیا ، اور ان کے سا منے ایک خط رکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسفرا ئینی نے نصح و خیر خواہی کے نام پر امیر المو منین کے کا ن بہت سی باتوں سے بھردئیے تھے ، بعد میں خلیفہ پر واضح ہو گیا کہ یہ ساری باتیں خیر خواہی وامانتداری نہیں بلکہ مطلب براری اور بددیانتی کے تحت کہی گئی تھیں لٰہدا علامہ بارزی کو معزول کر کے منصب قضاء احناف کو دیا جاتا ہے ، اور انہیں جو مقام وعزت پہلے حاصل تھی دوبارہ بحال کی جاتی ہے ۔(نظرۃتاریخیۃفی حدوث المذاھب لأحمد تیمور ۹،۱۰)
اس سال بغداد میں حنابلہ کو کافی غلبہ حاصل ہو گیا تھا ، اور ان کی طاقت وقوت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے عمائدین اور عوام کے گھروں پر چھاپہ مارنا شروع کردیا تھا ، اگر وہ کہیں نبیذ پاتے اسے بہادیتے ، گانے بجانے والی عورتیں ملتیں توزدوکوب کر تے ، آلات موسیقی کو تو ڑڈالتے ، غرض کہ انہوں نے بغداد میں ایک شورش بر پا کر رکھی تھی ، پولیس آفیسر نے شہر بغداد کے دونوں کناروں پر منادی کراکر حنابلہ پر دفعہ ۱۴۴؍ نافذ کررکھا تھا کہ کہیں بھی دوحنبلی شخص اکٹھا نہیں ہو سکتے ، نماز کی امامت جہری نمازوں میں ’’بسم اللہ ‘‘ جہرا (بلند آواز سے ) پڑھنے والا ہی کراسکتا ہے ، لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں حاصل ہوا ،ان کا معاملہ عروج پر تھا ، مسجدوں میں پناہ لینے والے نابیناوں کے توسط سے دیگر مذاہب والوں کو اذیت پہنچاتے، خصوصا کسی شافعی کو گذررتے دیکھتے تو اس پر نابینا لوگوں کو للکار دیتے اور وہ اسے اتنا زدوکوب کر تے کہ وہ قریب المرگ ہو جا تا ، لہٰذ ا خلیفہ راضی کے دستخط سے ایک حکم نامہ صادر ہوا جو خصوصی طور پر حنابلہ پر پڑھاگیا جس میں حنابلہ کے عمل پر کا فی نکیر اور ان کی توبیخ کی گئی تھی ۔ (الکامل ۸؍۱۰۶، ظہر الاسلام ۱؍۷۹-۸۰)
قارئین کرام نے بعجلت تمام پیش کردہ ان واقعات کی روشنی میں مذہبیت (تقلید )کی برکت اور تقلیدی مذاہب کی کا رستانیاں ملا حظہ کرلی ہوں گی ،ایسا نہیں ہے کہ آج اس کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے ، آج بھی موقع ملے تو ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے لوگوں کو زندہ نہ رہنے دیں، بلکہ موجود حالات میں بھی ایسی مثالیں سننے کو ملتی ہیں کہ مسلکی تعصب کی بناء پر لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے گریز نہیں کیا جاتاہے،طلاقیں دیدی جاتی ہیں ، سماجی بائیکاٹ کر کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنادی جاتی ہیں، معاشرہ کے امن وامان کو درہم برہم کرنے میں ترددسے کام نہیں لیا جاتا ہے ،خونریزفتنوں کو ہوادی جاتی ہے، سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود کچھ بھی کریں کچھ بھی انجام دیں ،امام شافعی جیسے ائمہ سلف کی مذمت میں حدیثیں وضع کریں اور ان کو ابلیس سے بھی زیادہ ضرررساں قراردیں، ان کے ماننے والوں کو اہل کتاب کے زمرے میں شامل کریں، یا کتوں اور چوپایوں جیسا سلوک کریں ، امام بخاری کو طفل مکتب سے بھی زیادہ جاہل ، تنگ نظر اور متعصب بتلائیں ،اپنے مذہب ومسلک کوبر حق ثابت کر نے کے لئے مستقل کتابیں لکھیں ، اور اپنے ائمہ وعلما ء کے اقوال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے سینہ سپررہیں (یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ان ہی لوگوں کے بزرگ مورخین کا کہنا ہے ۔اگر یقین نہ آئے تو ’نقش دوام ‘مؤلفہ انظرشاہ مسعودی ص؍۱۷۶؍ ملا حظہ فرماکراطمینان حاصل کرلیں )دوسرے علماء کرام اور ائمہ مذہب صحابہ کرام وتابعین عظام کے احترام وتقدس کو بالائے طاق رکھ کر ان کی تنقیص وتوہین کا رویہ اختیار کریں، گالیاں دیں (اگر گالیوں کے نمونے ملاحظہ کرنے ہوں تو مؤلف ’انتقادصحیح بجواب ذیل رکعات ترایح ‘نے کتاب کے شروع میں ان کے اکابرین کے اچھوتے نمونے خود ان کی کتابوں سے جمع کردیئے ہیں ،ان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ، ص ۲۵ ومابعد )کتر بیونت اور عبارتوں میں خیانت کا عمداًارتکاب کرکے دیگر علماء کرام کو تہمتوں اور الزام تراشیو ں کی سان پر چڑھانے کاکا م انجام دیں ،ہمہ دانی کے زعم میں مبتلا ہو کر عبارتوں کو غلط سمجھیں اور ان کا غلط مفہوم متعین کر یں اور پھر علمائے اہل حدیث کو ان کی بنیاد پر جاہل قراردیں ،ان کی عبارتوں میں کیڑے نکالنے بیٹھیں ،آ یات واحادیث میں مبینہ طور پر کمی وبیشی کا عمل انجام دیں اور اس کے دفاع میں بعض بظاہر سنجیدگی ومتانت سے متصف حضرات قلم سنبھال لیں ۔ ان تمام حرکتو ں سے کو ئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ، یہی حضرات پارسائی ، سنجیدگی ، صحابہ کرام وائمہ عظام کی تو قیر واحترام ، امت کی صفوں میں وحدت ، شیریں زبانی ، کردار کی بلندی اور ان جیسے دیگر تمام اوصاف حسنہ کے تنہا اجارہ دار ہو تے ہیں، اس کے بر خلا ف اگر ا ہل حدیثوں کی جانب سے کسی ایک جزئی مسئلے پر کو ئی ایک معمولی مضمون آگیا تو ان کی صفوں میں بھو نچال آجاتا ہے ، ان کی دور بین نگاہیں اسی میں سارے فتنوں کو محسوس کر لیتی ہیں امت کی صفوں میں انتشار نظر آنے لگتا ہے ،حرم میں چار مصلے قائم کر کے امت میں اتحاد کے یہی دعویدار ہر چہار جانب سے مراسلوں، مستقل مضامین ، کتابوں ااور سیمنار وں کے ذریعہ سد باب کی جان توڑ کو شش کر تے ہیں ، اپنے ماضی اور حال پر غبار ڈال کر دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں ، اور اسے تقرب الی اللہ کا باعث سمجھا جاتاہے ۔مصر کی بین الا قوامی شہرت کی حامل شخصیت علامہ رشید رضا رحمہ اللہ نے بھی مقلدین مذاہب کی صور ت حال کا اجمالی نقشہ کھینچتے ہو ئے لکھا ہے کہ ’’ ہر ایک نے اپنے مذہب کی تقلید کو حتمی قراردینے، اور مقلدین مذہب کوضرورت کے پیش نظر بھی دوسرے مذہب کی تقلید کی عدم اجازت میں شدت سے کام لیا ہے اور اس سلسلے میں ان کی مناظرہ بازی اور ایک دوسرے کی طعن وتشنیع اور تنقیص کے واقعات سے تاریخ اور سیر وتراجم وغیرہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔مو جودہ دور میں فقہی اختلاف اور ان کے نتیجے میں واقع ہو نے والے فتنہ وفساد کی شدت میں کمی کا تذکرہ کر نے کے باوجود لکھتے ہیں: لیکن برابر اس قبیل کے ناپسندید ہ واقعات کی خبر ین سننے میں آرہی ہیں ، انہیں واقعات میں سے ایک حنفی المسلکی افغانی کا یہ واقعہ بھی ہے جس نے صف کے اندراپنے بغل میں ایک شخص کو سورہ فاتحہ کی قرأت کر تے ہو ئے سنا تو اس کے سینہ پر ایک زبردست گھونسہ رسید کر دیا جس سے وہ اپنی پشت کے بل گر پڑا اور قریب تھا کہ اس کی موت واقع ہو جاتی ۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بعض مقلدین مذہب نے تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت دینے پر ایک نمازی کی انگلی ہی کو توڑدیا ۔ پچھلی صدی کے اواخر کی بات ہے کہ شام طرابلس میں بعض متعصبین مذہب کی ایذارسانی سے تنگ آکر کچھ شافعی علماء ملک کے مفتی اعظم جو صدارت علماء کے منصب پر بھی فائز تھے کے پاس گئے اور مطالبہ کیا کہ ہمارے اور احناف کے مابین مساجد تقسیم کر دی جائیں، کیونکہ فلاں حنفی عالم ہمیں ذمیوں کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں کیو نکہ انہوں نے آج کل حنفی مرد کی شافعی عورت سے شادی کے مسئلے میں احناف کے اختلاف ، بعض کے عدم جواز اوربعض دوسرے لوگوں کے جواز کے فتوی کو شہرت دے رکھی ہے، جو عدم جواز کے قائل تھے ان کی دلیل یہ تھی شافعی عورت اپنے ایمان میں شک کرتی ہے، یعنی شافعیہ واشاعرہ وغٖیرہ کے نزدیک یہ کہنا درست ہے کہ میں ان شاء اللہ مومن ہو ں ۔اور بعض دوسرے حنفی فقہاء شافعی عورت کو ذمی عورت پر قیاس کر تے ہو ئے اس سے شادی کو جائز اور درست قراردیتے ہیں ۔ اس کے بعد علامہ موصوف نہایت ہی پر سوز اور درد بھرے لہجے میں سوال کرتے ہیں ، سلف صالح کی رواداری ، شریعت میں اللہ تعالی کی پیداکردہ آسانی اور رفع حرج کی خاص رعایت اور اجتہادی آراء کے ذریعہ مسلمانوں کے مابین تفریق سے ان کی دوری کیے مقابلے میں متاخرین کے تعصب اور ان کی تنگ نظری ، ایذاء رسانی اور اجتہادی آراء کے ذریعہ مسلسل ان کے مابین تفریق کتنی تعجب خیز ہے؟(مقدمہ بر المغنی لابن قدامہ ازقلم: علامہ رشید رضا ص؍۱۸)
ملاحظہ فرمائیں ! یہ کسی ایسے شخص کا نقد وتبصرہ نہیں ہے جو بر صغیر کی نومولود فتنہ پرور جماعت جسے یہ لوگ غیر مقلدین کا نام دیتے ہیں سے منسوب ہے ، بلکہ یہ ایک ایسے شخص کا نقد وتبصرہ ہے جوپچھلی صدی میں اسلامی اتحاد کا علم بردار اور سب سے بڑا داعی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر یہ حضرات اپنے اس دعوی میں حق بجانب ہو تے کہ تقلید امت اسلامیہ کے شیرازہ کو انتشار سے بچا نے اور اس کی صفوں میں اتفاق واتحاد پیداکر نے کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ ہے تو کھی بھی تقلید کے برے عواقب اور انجام بد کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے ۔ ان حضرات کو اپنے اس دعوی پر نظر ثانی کر نا ہو گا کہ لا مذہبیت ضلالت وگمراہی کا پل اور وسیلہ ہے، اور تقلید سے امت میں اتفاق وتحاد کی فضاقائم ہوتی ہے ، کیونکہ اس سے بڑھ کر ضلالت وگمراہی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعہ احکام الہی سے فرار اختیا ر کرنے کی راہیں ملتی ہیں، مطلب براری کے لئے اسلام سے ارتداد کی بھی اجازت نصیب ہوتی ہے ،اور اس سے بڑھ کرن انتشار اور تفرقہ بازی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ تقلید کی وجہ سے ایک مذہب کے لوگ دوسرے مذہب کے لوگوں کو اہل کتاب ،ذمی بلکہ چوپایوں کے درجہ میں رکھتے ہیں۔ 
اسی طرح بر صغیر کی جماعت اہل حدیث کے بارے میں ان کا پروپیگنڈہ بھی غلط ہو جاتا ہے کہ یہ جماعت تقلید کا انکا ر کر کے ائمہ کرام کی گستاخی ، ملت میں تفرقہ بازی ، انتشار اور فتنوں کا سبب بنتی ہے لیکن یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ یہ حضرات ہر چیز میں تبدیلی برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنے افکار ونظریات سے کبھی بھی تقلید مذہب کے نام پر سر موانحراف نہیں کر سکتے خواہ ان میں امام مذہب ہی کی سراسرمخالفت کیو ں نہ پائی جاتی ہو۔

No comments:

Post a Comment