شیطانی مزاج
قال تعالیٰ:(وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَاءِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہِ أَفَتَتَّخِذُونَہُ وَذُرِّیَّتَہُ أَوْلِیَاء مِن
دُونِیْ وَہُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِءْسَ لِلظَّالِمِیْنَ بَدَلا) (الکہف:۰۵)
ترجمہ:۔اور جب ہم نے فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے لیے کہا تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ جنات میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کی حکم عدول کی تو کیا تم اس کو اور اس کی ذریت کو اپنا دوست بنا لوگے حالاں کہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ایسے ظالموں کا کیا ہی برابدلہ ہے۔
قرآن مجید نے شیطانی ہتھکنڈوں کا ذکر کیا تاکہ انسان ان سے ہوشیار ہوکر اپنا بچاؤ کرسکیں اور راہ ضلالت پر قدم زن ہونے سے اپنے آپ کو بچاسکیں۔ آیئے اس حوالے سے کچھ آیات دیکھتے ہیں۔ فرمایا:”اے لوگو! زمین سے حلال اور طیب چیزیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کی باتوں کا حکم دے گا اور اس بات کا بھی کہ تم اللہ کے خلاف بلا علم جھوٹی باتیں کہو“۔ (البقرہ:۹۶۱-۰۷۱) گویا شیطان یہ چاہتاہے کہ انسان حلال اشیاء کو چھوڑ کر حرام چیزوں کو مرغوب جانیں،ان کے شوقین ودلدادہ ہوں۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھیں اور حلال کردہ کو حرام، اپنی طرز زندگی خود طے کریں۔ احکام خداوندی سے آزاد ہوجائیں اور اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے فیصلے کریں، اسلام میں جو رب کی تابعداری کا اصل الاصول ہے اس کے برعکس نفسانی خواہشات اور خودساختہ اصول وآداب کا خود کو پابند کرلیں۔ برائی، زناکاری بے حیائی لواطت اور دیگر فحش امور کا ارتکاب کریں،دین کے نام پر اپنی جانب سے نئی نئی بدعات ایجادکریں اور اللہ کے خلاف بلاعلم باتیں کرتے پھریں۔
قرآن یہ چاہتاہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں ہمہ وقت، وہمہ جہت، ہمہ تن مسلماں ہو رب کا تابعدار اور فرماں بردار ہو، اس کی پوری زندگی کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، صنعت وحرفت، معیشت وتجارت، رنج وغم، فرحت وشادمانی کے لمحات رب کی مرضی کے مطابق ہوں۔ جب کہ شیطان اس کے برعکس اصلاکلی طورپر اسلام سے عاری دیکھنا چاہتاہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جزوی اسلام، آدھی ادھوری فرماں برداری میں ہی مست ومگن رکھنا چاہتاہے۔ قرآن کہتاہے:(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ)
شیطان چاہتاہے کہ مسلمانوں میں آپسی اتحاد، باہمی اخوت وبھائی چارہ نہ رہے بلکہ اس کی جگہ آپسی نفرت وعداوت پروان چڑھے اور مسلمان آپس میں کبھی متحد نہ ہوسکیں۔ اللہ کے ذکر اور بطور خاص اپنے خصوصی ہتھیار دعا و نماز سے دور رہیں۔ اس کے لیے وہ مختلف تدبیریں کرتاہے۔ فرمایا: ”اے مومنو! بے شک شراب، جوا، بت، قسمت آزمائی کے پانسے وغیرہ یہ سب گندی چیزیں اور شیطانی کام ہیں۔ تو ان چیزوں سے تم پرہیز کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ۔ اس میں شک نہیں کہ شیطان چاہتاہے کہ وہ تم میں نفرت وعداوت پیداکردے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے تو کیا تم پھربھی (ان امور سے) باز نہ آؤگے۔بہر حال شیطان اپنے کام میں لگاہوا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ازلی دشمن کی تدبیروں کو
سمجھے اور صرط مستقیم پر ڈٹارہے۔ اللہ نیک سمجھ دے۔آمین!
------------------------------------------------------------------------------------
عبد الرؤف عبد الحفیظ السلفی
شاہجہانپور
حق تحفظ اسلام اور ہم
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال جاء رجل الی رسول اللہ ﷺ فقال یا رسول اللہ ارأیت ان جاء رجل یرید أخذ مالی……الحدیث (صحیح مسلم:۰۴۱)
ترجمہ مع مفہوم:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی آدمی آکر مجھ سے میرا مال-ناحق جبراً-لینا چاہے تو کیا میں اسے اپنا مال بلا چوں وچرا دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنا مال نہ دو۔ اس نے کہا اگر وہ مجھ سے میرا مال لینے کے لیے قتال اور لڑائی کرے تو میں کیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: تم بھی اس سے قتال کرو۔ اس نے کہا اگر وہ مجھ کو قتل کردے(تو میرا کیا معاملہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: آپ شہید(حکمی) ہوں گے۔ اس نے کہا اگر میں اس کو قتل کردوں (تو مجھ پر قتل نفس کا گناہ تو نہ ہوگا؟)آپ ﷺ نے فرمایا (گناہ تو دور کی بات ہے خود)وہ جہنم میں ہوگا۔ یعنی آپ پر کوئی گناہ بھی نہ ہوگا اور وہ جہنم رسید ہوگا۔
اگروہ مقتول کافر ہے تب تو اس کا جہنمی ہونا واضح ہے اور اگر مسلم ہے تو جہنمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہنم میں داخل ہوئے بغیر جنت میں داخلہ نصیب نہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ قتل مومن کو جائز اور حلال سمجھتاہے باوجود آیت حرمت کے علم کے توآیت کریمہ:(وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْما) (النساء:۳۹) کی رو سے وہ مخلدفی النار ہوگا(کما صرح بہ غیرواحد من الائمۃ)
تشریح:بلا ریب مذہب اسلام امن وعافیت اور صلح وآشتی کا مذہب ہے مگر امن وعافیت محض امن پسندی اور صلح جوئی ہی سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے، کیوں کہ یہ دنیا جہاں ایک طرف انبیاء اتقیاء اور صلحاء کا موطن ومسکن ہے تو وہیں دوسری طرف اسی سماج میں امن و سلامتی کے قزاقوں کا ایک جم غفیر بھی خیمہ زن ہے، جو مختلف موقعوں پر مختلف اغراض ومقاصد کے لیے امن وآشتی کو لہولہان کرتارہتاہے، وہ اغراض ومقاصد خواہ ذاتی قسم کے ہوں یا قومی، مذہبی، وطنی یا پھر سیاسی۔
اس لیے ضروری قرار پاتاہے کہ ان امن کے قزاقوں کو ان کی قزاقانہ روش سے باز رکھنے اور ان کے پنجہئ ظلم واستبداد کو شل کرنے کے لیے ہر فرد اپنے آپ میں مادی اور معنوی ہر دو لحاظ سے اس قدر مستعد ہوکہ ضرورت پیش آنے پر نہ صرف یہ کہ خود اپنا تحفظ کرسکے بلکہ دوسروں پر ہونے والے ظلم وستم کے لیے بھی سد سکندری بن سکے۔
یہ وہ حق ہے جسے ”حق خو دتحفظ“ یا "Right to Self Defence" کے نام سے جانا جاتاہے، جو بعض شرائط اور تفاصیل کے ساتھ ہر ملک میں، اس کے شہریوں اور باشندوں کو یکساں طورپر حاصل ہے،ہمارے ملک بھارت میں بھی۔
بھلا ایسے اہم نازک فطری اور متفق علیہ معاملے میں مذہب اسلام کیوں خاموش رہ سکتاہے، چنانچہ اس نے اپنے متبعین کو صاف لفظوں میں اس بات کی ہدایت دے رکھی ہے کہ ”جو آدمی اپنے مال، اپنی جان اور اپنے اہل خانہ کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے دشمن سے مقابلہ و مقاتلہ کرے اور نوبت قتل کی آجائے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نظر نہ آئے تو دشمن کو قتل بھی کرسکتاہے، یہاں تک کہ اگر اس مدافعت کے دوران خود جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اسے عنداللہ شہادت (حکمی، نہ کہ حقیقی) کا عظیم الشان مقام بھی حاصل ہوگا۔
اسی قسم کی ایک حدیث آج کا موضوع سخن ہے، جس میں آپ ﷺ نے ایک شخص کے سوال کرنے پر آپ ﷺ نے اپنا مال ومتاع کسی غاصب اور ظالم کو ناحق دینے سے منع فرمایا، وہ مال خواہ کم ہو یازیادہ، چوں کہ وہ بہر صورت آپ کا مال ہے، آپ کا ذریعہئ معاش ہے، نعمت خداوندی اور قرآن کی زبان میں ”فضل“ اور ”خیر“ ہے، اسی لیے بعد استحقاق کسی ظالم وجابر اورقزاق کے ہاتھوں بلا مزاحمت اسے ضائع ہونے دینا کسی صورت زیبا نہیں، ہر صورت اپنے مال واسباب کا تحفظ اپنا حق ہے اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینا نہ صرف یہ کہ معیوب ومذموم نہیں بلکہ امر مستحسن ومندوب ہے، اور جب دنیوی مال ومتاع کے تحفظ کی اس قدر تاکید اور اہتمام ہے تو اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اپنے مذہب،اپنی عزت وآبرو اور جسم وجان کے تحفظ کے لیے اسلام ہم سے کس درجہ مستعدی، مدافعت، جرأت وبسالت اور حوصلہ وقربانی چاہتاہوگا۔
آج کی موجودہ دنیا میں ہم مسلمانوں کوجس قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے، جگ ظاہر ہے، نہ مال ومتاع محفوظ ہے، عزت وآبرو نہ جسم وجان۔ قزاق اور راہ زن تواپنی جگہ، یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ کئی قزاقوں کو اور بھیڑیا نما درندوں یہ سارے قزاقانہئ رہزنانہ اور ظالمانہ واقعات خواہ فسادات کی شکل میں ہوں،جبرواستحصال کی شکل میں ہوں یا موب لنچنگ اور ہجومی تشدد کی شکل میں، باقاعدہ انہیں رہبروں کے لباس میں ملبوس رہزنوں کے اشارے،ان کی قیادت اور نگرانی میں
انجام پارہے ہیں۔
انجام پارہے ہیں۔
ایسی صورت میں ہم مسلمانان ہند کی بالخصوص اور مسلمانان عالم کی بالعموم یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ حدیث بالا اور اس موضوع کے دیگر نصوص کتاب وسنت کی روشنی میں اپنے مال ومتاع، اپنی عزت وآبرو اپنے جسم وجان اپنے معاشرہ اور اپنے اسلامی تشخص وشناخت کو باقی وبرقرار رکھنے کے لیے ”اپنی حفاظت خود آپ“ کرنے کا اصول اپنائیں، اس کے لیے ضروری معلومات اور ممکنہ اسباب ووسائل اختیار کریں،ا ور اب ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں، علامہ گوگل کی بارگاہ میں جایئے اور "Self Defence" سرچ کیجئے تمام ضروری معلومات آپ کے سامنے ہوں گی۔
لیکن کیا یہ حیرت واستعجاب کا مقام نہیں ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اخلاق سے لے تبریز تک ہونے والے تقریباً دوسو بیس موب لنچنگ کے واقعات میں دوچار حالیہ واقعات کے سوا کوئی ایک واقعہ بھی آپ کو ایسا نظر نہیں آئے گاجس میں مظلوم اور صاحب معاملہ نے اپنے تحفظ کے لیے کوئی ممکنہ کوشش اور جدوجہد بھی کی ہو۔ الا ماشاء اللہ۔
میں مانتاہوں کہ ایک نہتا اور بے سروسامان آدمی ایک حیوان صفت خاص ذہنیت کے حامل، ٹرینڈ اور مشاق ہجوم کے مقابلے میں کربھی کیا سکتاہے؟
مگر کیا کوشش کرنا بھی حرام اور جرم ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اپنے آپ کو بچانے والا جب اپنی جان ہتھیلی پر لے کر نکل پڑے تو جان لینے کا ارادہ رکھنے والے سے زیادہ خطرناک اور خونخوار ہوجاتاہے؟ کیا یہ حق نہیں کہ ظالم وجابر مظلوم اور حق پرست کے بالمقابل ہمیشہ بزدل اور کمزور ہوتاہے؟ کیا یہ قرآنی اعلان مبنی بہ صداقت نہیں کہ ”کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ“ کیا یہ فرمان الہٰی ”نقش کالحجر“ کی طرح اٹل اور بے ریب نہیں کہ ”ان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا“
خلاصہ: اپنی حفاظت کی ممکنہ کوشش کے بغیر قتل ہوجانا اسلام کے احکام "Self Defence" کی صریح خلاف وزری اور ایک قسم کی ”خودسپردگی بلکہ خودکشی“ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
------------------------------------------------------------------------------------
یہ مجرمانہ خاموشی کب تک
غلو عقیدت، بہت پرانی،موذی اور بے حد ضدی بیماری ہے، اس بیماری کے جراثیم مسلسل جہالت بھری زندگی، اندھ وشواس اور خیالی تک بندیوں سے پنپتے اور پروان چڑھتے ہیں اور کوئی چراغ ہدایت جلائے تو بعض سعید ونیک بخت روحیں تو بے شک اس بیماری سے شفایاب ہوجاتی ہیں مگر اکثریت باپ دادا اور اکثریت کی روش کو دلیل بناکر مزید اندھ وشواس میں مبتلا ہوجاتی اور ایمان ویقین کی راہ دکھانے والے کی دشمن بن جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جو اس بیماری میں مبتلا قوم کی طرف نبی ورسول بناکر بھیجے گئے، آپ نے کمال خلوص، ہمدردی، خیرخواہی، نرم مزاجی اور مسلسل جدوجہد سے اپنی قوم کو ایک لمبی مدت تک اس بیماری سے نکال کرایمان ویقین سے وابستہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کئی صدیاں گذرجانے کے بعد بھی قوم میں ایمانی کیفیت پیدانہیں ہوئی تو اللہ کے اس صابر وحلیم نبی نے آخر دربار الٰہی میں درخواست کی کہ اے اللہ! میں نے اپنی قوم کو ایمان ویقین کی طرف بلانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، قوم جس بیماری میں مبتلا ہے،اس سے شفایاب ہونے کی امید باقی نہیں رہی، اگر ان کا ایک فرد بھی باقی بچا تویہ بیماری یونہی باقی رہے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی متعصب، جاہل اور اندھ وشواسی ہی پیداہوں گی۔ سوائے اس کے کہ ان کی پوری نسل کو ہی ختم کردیا جائے اور کوئی علاج ممکن نہیں، اس نبی کی شب وروز کی تگ ودو اور اخلاص بھری کوششوں کا نتیجہ چوں کہ اس کی بات کو سچ ثابت کررہا تھا اور جس قدر مدت اصلاح پزیرہونے کے لیے اس قوم کو دی گئی تھی، اتنی مدت کسی اور قوم کو نہیں دی گئی،پھر بھی ان کا اصلاح پزیر نہ ہونا حضرت نوح کی دعا اور ان کے نکالے ہوئے نتیجہ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کافی تھا، اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو ایک طوفان عظیم کے ذریعہ ہلاک وبرباد کردیا۔
مدتوں غلوعقیدت کی اس بیماری سے نسل انسانی محفوظ رہی، لیکن شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس نے پھر ہمیں باربار اس موذی مرض کا شکار بنایا اور انبیائے کرام کی دعوتی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اس کو بطور ہتھیار اپنایا۔
سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ ﷺ جب اس دنیا میں ہادی ومرشد بن کر آئے اور انہوں نے اپنی دعوتی سرگرمیوں کا آغاز کیا توکسی اور نسخہ سے نہیں شیطان نے اسی پرانے نسخے سے آپ کی دعوت کو ناکام بنانے کا کام کیا۔ باپ دادا کی محبت، معبودان باطلہ کی عظمت وعقیدت کو بنیاد بناکر ہی وہ آپ سے برسرپیکار تھے اور ان کے پاس سوائے اس کے کہ یہ معبود ہمارے بڑی عظمتوں والے اور بڑے چمتکاری ہیں، فلاں موقعہ پر یہ کیا، فلاں واقعہ میں انہوں نے یہ کیا، ہمارے آباء واجداد اسی بنیاد پر ان سے حاجت روائی مشکل کشائی کرتے تھے ہم ان کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کو خالق ارض وسماء، مارنے، جلانے والا، بارش برسانے والا ماننے کے باوجود وہ اپنے ان بزرگوں کو، جن کو ان کے آباء واجداد حاجت روا، مشکل کشا مانتے تھے، مانتے رہے اور فتح مکہ تک یونہی اپنی عادتوں، عقیدتوں اور ہٹ دھرمیوں پر ڈٹے رہے۔
آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ ان کھوکھلی اور بے سود، بے حقیقت عقیدت مندیوں کو پاش پاش کردیا، لیکن شیطان نچلانہ بیٹھا اس نے خود رحمۃ للعالمین اولیائے امت فضلائے ملت کے متعلق غلوعقیدت کی اس پرانی بیماری کو قوم مسلم کے رگ وریشہ میں پیوسط کردیا۔
اطاعت رسول جو اصل عظمت رسول کا عنوان ہے اس کو اپنی زندگیوں سے نکال کر صرف سوکھی نعرے بازی، دھوم دھڑکا، جھانکیاں، آتش بازیاں، راگ رنگ اور باجے گاجے سے لے کر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ڈانس بھنگڑا یہ سب وہ کرتوت ہیں جن کو دیکھ ایک ایمان والا شرم سے پانی پانی ہوجائے۔
مگر افسوس! ان تمام کا رہائے معصیت کو وہ لوگ اپنی شرکت، رضامندی اور اندھی عقیدت میں اپنی سرپرستی میں کروارہے ہیں،جن کو حقیقی عظمت رسول کا وارث اور معاصی ومنہیات کا منع کرنے والا ہونا چاہیے تھا، سوشل میڈیا کے سبب ہندوپاک میں ولادت رسول کے عنوان سے جو کچھ جاہل مسلمان کررہے ہیں، یہ سب منہیات شرعیہ ومکروہات اسلامیہ، جن حضرات کی سرپرستی میں انجام دیئے جارہے ہیں، ان میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو اصحاب جبہ دستار کہلاتا ہے۔ اس موقع پر جمع ہونے والی بھیڑکو یہ حضرات کاروبار پیری مریدی سے جوڑ کر ارباب اقتدار کو یہ یقین دلانے کے لیے کرتے ہیں کہ ہمارے پیچھے اتنے مرید ہیں، حکومت یا کسی اورکو مسلمانوں کاووٹ چاہیے تو ہم سے بات کرے۔ اسی طرح دوسرا طبقہ وہ ہے جو یا تو مسلمانوں کے ووٹ کے بل پر سَتہّ کی ملائی کے مزے لوٹ رہاہے یاسیاست نے اس کو کنارے لگادیا ہے اور اس کے پاس حکمراں طبقہ کو اپنی طاقت اور اپنے پیچھے ووٹ پاور دکھانے کے لیے کوئی اور ذریعہ میسر نہیں۔
عیدمیلاد النبی یا جشن عیدمیلاد، یااسی سے ملتے جلتے ناموں سے ہونے والے یہ سارے ہنگامے ہمارے سامنے وجود پزیر ہوئے ہیں، ان ہنگاموں سے قبل جلوس محرم یا چہلم پر یہ سب کچھ کیا جاتاتھا اور مظلومِ کربلا کی دردناک شہادت کو ڈھول وباجے گاجے سے گلی کوچوں میں ان کے مزارات کی شبیہ گھمائی جاتی تھی۔علمائے اہل حدیث وسنت ایک زمانہ تک عوام کو ان کے پیشوا کے فتوے ان تعزیوں کی حرمت میں دکھاتے رہے اور پوچھتے رہے کہ آخر تم کس کے پیرو ہو؟علمائے حق اہل حدیث ودیوبندتو اس کو ناجائز بتاتے اور اس کو حرام قرار دیتے ہیں، علمائے بریلی بھی اس کو ناجائز، حرام اور احترام اولیاء واحترام اہل بیت کے خلاف قراردیتے ہیں، توآپ لوگ کس کے کہنے سے یہ سب کررہے ہیں؟ تقریبا پچاس سال کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور خود علمائے بریلی نے اپنی مجالس ومواعظ میں ان رسومات کو غلط کہنا شروع کیا۔ اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور تعزیہ داری کی رسومات پر کافی بندش لگ گئی، لیکن غلو عقیدت ایسی موذی بیماری ہے کہ اگر کسی سبب ایک بد رسم بند ہونے لگے تو بہت جلد دوسری رسم نکلوالیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ نام احترام اولیاء کا نہ ہو کراحترام رسول کا رکھ لیا جائے۔
اندھی عقیدت کبھی یہ نہیں سوچنے دیتی کہ جو کام رسول نے اپنی ۳۶/سالہ زندگی میں نا کیا ابوبکر نے اپنی زندگی میں اور عمر فاروق نے اپنی زندگی میں اس کا نام تک نا سنا ہو، عثمان غنی، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین نے جس کی ضرورت محسوس نا کی ہو، ائمہ اربعہ نے اپنی کتابوں میں یاان کے شاگردوں نے اپنی اپنی کتابوں میں نااس کا ذکر کیا ہو، نا اس کا باب قائم کیا ہو،نا اس کے آداب قلم بند فرمائے ہوں، وہ کام چودھویں صدی میں اس قدر ضروری کیوں کر ہوگیا؟
احترام رسول کے نام پر لڑکوں لڑکیوں کے ڈانس، ڈھول ڈھماکے اور بھنگڑے اگر دین ہیں یا دین کا حصہ ہیں یا کارثواب ہیں تو ذرایہ بھی بتایا جائے کہ یہ دین کون ساہے، اور کس کاہے؟ دین محمدتو نہیں ہوسکتا۔ عہد رسول، عہد تابعین، تبع تابع عہد خلفائے راشدین، امامان دین ومجتہدین میں جس کا کوئی وجود نہ ہو، جس کا ذکر تابعین تبع تابعین امامان دین نے اپنی کتابوں میں نا کیا ہو، محدثین نے کسی کتاب میں ایک لفظ اس کے متعلق نا لکھا ہو،اس کو اس قدر ضروری اور کار دین بنالینا اور علماء کا اس پر چپ سادھ لینا کیا مجرمانہ خاموشی نہیں ہے؟ کیا انکار منکر، ردباطل اور دین کی حفاظت علماء کا کام نہیں ہے،کیا علماء نما جہلاء ان معاصی کو احترام رسول کے نام پر کرواکر امت کو اندھی عقیدت کے جام پلاکر ان کو حقیقی محبت رسول عظمت رسول، احترام رسول سے دور نہیں کررہے ہیں؟؟
ضرورت ہے علماء کرام اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور امت کی صحیح رہنمائی فرمائیں۔ وماعلینا الا البلاغ۔
رہے نام اللہ کا!
------------------------------------------------------------------------------------
مولانا ابوالکلام آزاد /رحمہ اللہ
دعوت اسلام
دین حق کے تین بنیادی اصول:سورہئ اعراف میں ہے:(قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَأَقِیْمُواْ وُجُوہَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن)(الاعراف:۹۲) تم کہومیرے پروردگار نے جو حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ ہر بات میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ اپنی تمام عبادتوں میں خداکی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کرکے اسے پکارو۔ اس آیت میں دین حق کے تین بنیادی اصول واضح کردیے، عمل میں اعتدال، عبادت میں توجہ اور خدا پرستی میں اخلاص۔ یہ آیت باب توحید میں اصل اصول ہے۔ دین کو خدا کے لیے خالص کرکے پکارو یعنی دین کی جتنی باتیں ہیں وہ صرف خداہی کے لیے مخصوص کردو۔
’خلق‘ اور ’امر‘ دونوں اللہ ہی کی ذات سے ہیں یعنی وہی کائنات ہستی کا پیداکرنے والا ہے اور اسی کے حکم وقدرت سے اس کا انتظام ہورہاہے۔
دکھاوے کی خیرات:دکھاوے کی خیرات اکارت جاتی ہے۔ جو شخص نیکی کے لیے نہیں، نام ونمود کے لیے خیرات کرتاہے اور خدا کی جگہ انسانوں میں بڑائی چاہتاہے وہ یقینا خدا پر سچا ایمان نہیں رکھتا۔ ایسی خیرات سے روکا گیا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب تک چوری چھپے خیرات نہ کرسکو، خیرات کروہی نہیں، یا پوشیدگی کا تعلق بجائے خود عمل خیر سے مانع ہوجائے(چھپائے رکھنا ممکن ہوتو نہ چھپانا رفتہ رفتہ ریا ونمایش کا باعث بن سکتاہے۔ نیت پاک ہو اور خدا کی رضا کے سوا کچھ منظور نہ ہو تو کسی کے سامنے بھی خیرات کردینا نامناسب نہیں بلکہ بعض اوقات کھلم کھلا خیرات دوسروں کے لیے وسیلہئ ترغیب بن جاتی ہے۔ مقصود حقیقی یہ ہے کہ نمود ونمایش سے نیت کا آئینہ آلودہ نہ ہونے پائے۔)
نیکی اور بے کار چیزیں خیرات کے نام سے محتاجوں کو نہ دو۔ سوچو کہ اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے تو لینا پسند کروگے؟
محبت وہمدردی کے تقاضے:نیکی کی راہ میں خرچ کرنے کی استعداد نشوونما نہیں پاسکتی تھی، اگر اس کا حکم دیتے ہوئے ایسی باتوں سے روک نہ دیا جاتاجو ٹھیک ٹھیک اس کی ضد ہیں۔ پس انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) کے ساتھ ساتھ سود کی بھی ممانعت کردی گئی۔
دین حق انسانوں میں محبت وہمدردی پیداکرنا چاہتاہے، اسی لیے خیرات کا حکم دیا کہ ہر انسان دوسرے کی احتیاج، اپنی احتیاج سمجھے۔ سود خور کی ذہنیت بالکل اس کی ضد ہے۔ وہ چاہتاہے دوسرے کی احتیاج سے خود انتہائی فائدہ اٹھائے اور محتاج کو دولت جمع کرنے کا ذریعہ بنائے(گویا سود خور کے دل میں ہم جنسوں کے لیے محبت وہمدردی کا کوئی احساس باقی ہی نہیں رہتا)۔
مومن اور امید ویقین:قرآن نے ہر جگہ یہ حقیقت واضح کی کہ ایمان، امید اور یقین ہے۔کفر، شک اور مایوسی ہے وہ بار بار اس بات پر زور دیتاہے کہ مایوس نہ ہو، امید کا چراغ روشن رکھو۔ ہر حال میں امید وار فضل وسعادت رہو۔ یہی مقتضائے ایمان ہے۔ یہی سرچشمہ زندگی ہے۔ اسی سے تمام دنیوی اور اخروی کامرانیوں کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔
جس انسان نے امید ویقین کی جگہ شک ومایوسی کی راہ اختیار کی، خواہ دنیا کی زندگی کے لیے ہو، خواہ آخرت کے لیے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے صرف یہی چارہ کار رہ جاتاہے کہ گلے میں پھندا ڈالے اور زندگی ختم کردے۔
ایمان نام ہی امید کا ہے اور مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔ اس کا ذہنی مزاج کسی چیز سے اتنا بیگانہ نہیں، جس قدر مایوسی سے۔ زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کریں لیکن وہ پھر سعی کرے گا۔ لغزشوں اور گناہوں کا ہجوم اسے کتنا ہی گھیر لے،لیکن وہ پھر توبہ کرے گا نہ تو دنیا کی کامیابی سے وہ مایوس ہوسکتاہے، نہ آخرت کی نجات سے۔ وہ جانتاہے کہ دنیا کی مایوسی موت ہے اور آخرت کی مایوسی شقاوت۔ وہ دونوں جگہ رحمت الہٰی کو دیکھتااور اس کی بخششوں پر یقین رکھتاہے کہ ”لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً“اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اللہ سبھی گناہ بخش دیتاہے۔ ہاں، وہ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔
قبول حق کی استعداد: بارش سے صرف وہی زمین فائدہ اٹھاسکتی ہے جس میں اس کی استعداد ہو۔ شورزمین پر کتنی ہی بارش ہو سرسبز نہ ہوگی۔ اسی طرح قرآن کی ہدایت سے بھی وہی روحیں شاداب ہوں گی جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے۔ جنہوں نے استعداد کھودی، ان کے حصے میں محرومی ونامرادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آباء واجداد کی اندھی تقلید، گھڑی ہوئی بزرگیوں اور روایتی عظمتوں کی پرستش ہے۔ ابتداء میں جبل وفساد سے کوئی عقیدہ گھڑ لیا جاتاہے۔ ایک مدت تک لوگ اسے مانتے رہتے ہیں۔ جب ایک عرصے کے اعتقاد سے اس میں شان تقدیس پیداہوجاتی ہے تواسے شک وشبہ سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں اور عقل وبصیرت کی کوئی بھی دلیل اس کے خلاف تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن اسی کو (اسماء سمیتموھا انتم وآباؤکم) (نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباواجداد نے گھڑ لیے ہیں) سے تعبیر کرتاہے کیوں کہ بنائے ہوئے ناموں کے سوا وہ کوئی حقیقت اور معقولیت پیش نہیں کرسکتے۔
دعوت اسلام کی تین خصوصیتیں:سورہئ اعراف کی آیت نمبر ۶۵۱ میں پیغمبر اسلام کی دعوت کی تین خصوصیتیں بیان کیں:
۱۔ نیکی کا حکم دیتاہے، برائی سے روکتاہے۔
۲۔ پسندیدہ چیزوں کا استعمال جائز ٹھہراتاہے، ناپسندیدہ چیزوں کے استعمال کو روکتاہے۔ قرآن نے اس معنی میں ”طیبات“ اور”خبائث“کا لفظ اختیار کیا ہے۔
۳۔ جو بوجھ اہل کتاب پرپڑگیا تھا اور جن پھندوں میں وہ گرفتارہوگئے تھے، ان سے نجات دلاتاہے۔ یہ بوجھ کیا تھا اور یہ پھندے کیا تھے، جن سے قرآن نے نجات دلائی؟ قرآن نے دوسرے مقامات پر اسے واضح کردیاہے۔ مذہبی احکام کی بیجا سختیاں، مذہبی زندگی کی ناقابل عمل پابندیاں، ناقابل فہم عقیدوں کا بوجھ، وہم پرستیوں کا انبار، عالموں اور فقیہوں کی تقلید کی بیڑیاں، پیشواؤں کے تعبد کی زنجیریں، پیغمبر ﷺ اسلام کی دعوت نے ان سب سے نجات دلادی۔ سچائی کی ایسی سہل وآسان راہ دکھادی جس میں عقل کے لیے کوئی بوجھ اور عمل کے لیے کوئی سختی نہیں۔
درخشاں حقائق: چند حقایق ملاحظہ فرمایئے:
۱۔ قرآن کے نزدیک کسی جماعت کے مسلمان ہونے کی عملی شناخت دوباتیں ہیں۔ نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ کا نظام۔ جو جماعت یہ دو عمل ترک کردے گی (وہ عملاً) مسلمان متصور نہ ہوگی۔ زکوٰۃ کے نظام سے مراد ہے کہ حکومت یہ انتظام نہ کرسکے یا کسی جگہ مسلمان خدانخواستہ محکوم ہوجائیں تو وہ خود زکوٰۃ کا نظام سنبھالیں۔
۲۔ شرف وبزرگی کے رسمی مناصب کوئی چیز نہیں۔ بزرگی اسی کے لیے ہے جو عمل وایمان کی بزرگی رکھتاہے۔
۳۔ قرآن کے نزدیک سب سے بڑا درجہ ان انسانوں کا ہے جوایمان وحق پرستی کی راہ میں قربانیاں کرنے والے ہیں، نہ کہ ان لوگوں کا جورواجی نیکیوں اور رسمی نمایشوں میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
۴۔ مومن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی محبت غالب نہ آسکے۔
۵۔ جماعت کی زندگی اور فتح وکامرانی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرہ نہیں کہ مذبذب اور دو دلے آدمی اس میں موجود ہوں۔
۶۔ کاروبار حق میں دار ومدار شخصیتوں پر نہیں۔ شخصیت اس لیے ہے کہ بیج بودے۔ باقی رہے برگ وبار، توہوسکتاہے، اس کی زندگی ہی میں سب نمودار ہوجائیں۔ ہوسکتاہے، کچھ زندگی میں، کچھ اس کے بعد ہوں۔ اس تاخیرسے کاروبار حق پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
۷۔ حلت وحرمت اشیاء میں قرآن کے اصول اربعہ:
أ۔ ا صل اباحت ہے نہ کہ حرمت، الا یہ کہ وحی الٰہی نے کسی چیزکو حرام ٹھہرادیاہو۔
ب۔ کسی چیز کو حرام ٹھہرادینے کاحق خدا کی شریعت کوہے۔
ج۔ کسی چیز کو حرام ٹھہرادینے کا حق خداکی شریعت کو ہے۔
د۔ انسان کے عقائد واعمال کی بنیاد علم ویقین پر ہونی چاہیے، نہ کہ وہم وگمان پر۔
تذکیروتوکیل:پیغمبر کا کام ”تذکیر“ و ”تبلیغ“ ہے ”تبشیر“ و ”تنذیر“ ہے۔ وہ داعی اور مذکر ہے۔ ”وکیل“ یعنی نگہبان نہیں جو زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جائے، پھر اس سے نکلنے نہ دے۔ سورہئ یونس میں ہے:(وَمَا أَنَاْ عَلَیْْکُم بِوَکِیْل)(یونس:۷۰۱)دوسری جگہ پیغمبر ﷺ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے یہی مطلب یوں اداکیا:(وماانت علیھم بجبار) تو ان لوگوں پر حاکم جابر کی طرح مسلط نہیں کہ جبراً وقہراً بات منوادے۔ نیز فرمایا:(لست علیھم بمصیطر) تجھے ان پر داروغہ بناکر نہیں بٹھادیا ہے کہ مانیں یا نہ مانیں لیکن تو انہیں راہ حق پر چلادینے کاذمہ دار ہو۔ پھر فرمایا:(فانما علیک البلٰغ وعلینا الحساب)جو کچھ تیرے ذمے ہے یہی ہے کہ پیغام پہنچادیا جائے۔ ان سے ان کے کاموں کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔
قرآن صاف صاف کہتاہے کہ خدا کے رسولوں کا منصب تذکیر وتبلیغ کے اندر محدود تھا حالاں کہ وہ خدا کی طرف سے مامور تھے۔ پھر ظاہر ہے کہ کسی دوسرے شخص کے لیے وہ کب گوارا کرسکتاہے کہ وکیل، مصیطر اور جبار بن جائے۔
تذکیر وتبلیغ اور پسند وقبول:دراصل اعمال انسانی کے تمام گوشوں میں اصل سوال حدود ہی کا ہے اور ہر جگہ انسان نے اسی میں ٹھوکر کھائی ہے، یعنی ہر بات کی جو حد ہے اس کے اندر نہیں رہنا چاہتا۔ دو حق ہیں۔ دونوں کو اپنی اپنی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ ایک حق ہے تذکیروتبلیغ کا، ایک پسند وقبولیت کا۔ ہرانسان کو اس کا حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھتاہے، اسے دوسروں کو بھی سمجھائے لیکن اس کا حق نہیں کہ دوسروں کے حق سے انکار کردے، یعنی یہ بات بھلادے کہ جس طرح اسے ایک بات کے ماننے نہ ماننے کا حق ہے، ویساہی دوسرے کو بھی ماننے نہ ماننے کا حق ہے اور ایک فرد دوسرے کے لیے ذمہ دار نہیں۔
تاریخ کو بارہ صدیوں تک اس بات کا انتظار کرنا پڑاکہ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اختلاف عقاید کی بناپر ذبح نہ کرے۔ اتنی بات سمجھ لے کہ ”تذکیر“ و ”توکیل“ میں فرق ہے۔ اب ڈیڑھ سو برس سے یہ بات دنیا کے عقلی مسلمات میں سے سمجھی جاتی ہے، لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعلان کی تاریخ امریکہ اور فرانس کے ”اعلان حقوق انسانی“ سے شروع نہیں ہوئی۔ اس سے بارہ برس پہلے (نزول قرآن کے ساتھ) شروع ہوچکی تھی۔
خوف وحزن:قرآن نے اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بھی بات اس قدر نمایاں نہیں جس قدریہ کہ ”لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون“ اور یہ قرآن میں کئی مقامات پر ارشاد ہواہے۔ یعنی وہ خوف اور غم دونوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دولفظوں میں سمٹی ہوئی ہے۔ خوف اور دکھ۔ جونہی ان دوباتوں سے اسے رہائی مل گئی، اس کی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں۔ زندگی کے جتنے کانٹے بھی ہو سکتے ہیں سب کو ایک ایک کرکے چنو، خواہ جسم میں چبھے ہوں، خواہ دماغ میں۔ خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں، خواہ آخرت کی۔ تم دیکھو گے کہ ان دوباتوں سے باہر نہیں، یا خوف کا کانٹاہے یا غم کا۔ قرآن کہتاہے کہ ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے، جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کے لیے دونوں کا نٹے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا، نہ کسی طرح کی غمگینی۔ ……جاری
عبدالخبیر محمد شفیق السلفی
پرنسپل المعہد،رچھا
مروجہ میلاد کی شرعی حیثیت
اسلام ایک مکمل دین ہے، جس کی تکمیل اس وقت ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرحجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں یہ وحی نازل ہوئی ”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا“ (المائدہ: ۳) یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا تم پر اپنا انعام پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔ اب اس میں کسی قسم کی کمی و زیادتی جائز نہیں اگرچہ اس میں حسن نیت اور بھلائی کا ارادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ”من احدث فی امرنا ھذا ما لیس علیہ امرنا فھو رد“ (متفق علیہ) مسلم شریف کی ایک روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں ” من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد“ یعنی جس شخص نے دین میں کوئی بدعت ایجاد کی یا جس کسی نے کسی نئے کام کو انجام دیا جس کا تعلق دین سے نہیں تو وہ مردود ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ چند اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس آئے تاکہ آپ کی عبادت کے بارے میں دریافت کریں، جب ان لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے اس کو کم جانا اور کہا کہ کہاں ہم اور کہاں نبی ﷺ؟آپ تو بخشے بخشائے ہیں، اس لئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میں رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا کی میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، اور افطار نہیں کروں گا تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا اور کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ باتیں معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ایسا ایسا کہا ہے؟ سن لو! اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور میں نے شادی بھی کر رکھی ہے، سن لو! ”فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔ (متفق علیہ) ان احادیث سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اپنے طور پر کسی چیز کو اچھا جان کر کرنے لگ جانا جب کہ صاحب شریعت سے اس بارے میں کوئی اجازت منقول نہ ہو محمود نہیں بلکہ مردود ہے، نماز و روزہ جیسی عبادات بھی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہوں تو شریعت میں ان کا بھی کوئی اعتبار نہیں بلکہ ایسے شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں۔
اتنی سخت وعید کے باوجود امت کا ایک فرقہ جو بزعم خویش اپنے آپ کو اہل سنت بھی کہتا ہے بدعات و خرافات کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہے اور جو اس کی ان بدعات کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ نبی ﷺکے فرمان کے مطابق ان کو برا کہتا ہے تو ان کو یہ فرقہ اسلام سے خارج، کافر، وہابی اور نجدی وغیرہ کے الفاظ سے پکارتا ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی ان بدعات سے بری ہیں، جیسا کی احادیث سے معلوم ہوا۔دیگر مہینوں کی طرح ماہ ربیع الاول میں بھی اس فرقہ نے بدعات ایجاد کر رکھی ہیں،خاص طور سے ۲۱ /ربیع الاول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے نام پر انواع و اقسام کی بدعات انجام دی جاتی ہیں، جن میں سے بعض کفر و شرک تک پہنچانے کا باعث ہیں۔ جشن و جلوس، سبیلیں لگانا، رنگ برنگ کے کاغذوں کی جھنڈیاں بنا کر جلوس نکالنا، موضوعات و ضعاف کا سہارا لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بے جا غلو کرنا جو کہ شریعت میں ممنوع ہے۔ اسی طرح سے یہ عقیدہ رکھنا کہ نبی ﷺ جشن و جلوس کی ان محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں، آپ ﷺ کی تعظیم میں کھڑے ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔یہ چند وہ بدعات ہیں جو اس ماہ میں انجام دی جاتی ہیں۔ علماء سو ان کو ثابت کرنے کے لئے اور عوام سے داد و تحسین حاصل کرنے کے لئے نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے ایک پمفلیٹ ہے جس کا عنوان ہے ”عید میلاد کا ثبوت قرآن عظیم سے“ اس کے لکھنے والے کوئی ابو طاہر محمد طیب صدیقی داناپوری ہیں، جو محمد عبد الرشید قادری پیلی بھیتی کے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ اس پورے پمفلیٹ میں علامہ صاحب نے قرآن مجید کی آیات کو توڑمروڑ کر اپنے مطلب کے لئے پیش کیا ہے، اس کا جواب دینے سے قبل ہم محفل میلاد کی تاریخ پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
محفل میلاد کا موجد: تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے لے کر ساتویں صدی ہجری کی ابتداء تک محفل میلاد کے منعقد کرنے کا رواج نہیں تھا ”خیر القرون مشھود لھا بالجنۃ“ اس بدعت سے یکسر خالی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ کرام کا زمانہ اس بدعت سے نا آشنا تھا۔سب سے پہلے جس نے اس بدعت کو رواج دیا وہ فاطمی خلفاء تھے،جنہوں نے کرسمس کی نقل میں ”عید میلاد“ کو منایا۔ سب سے پہلا شخص جس نے اس کا باقاعدہ اہتمام کیا ملک مظفر ہے جو عراق کے شہر ’موصل‘ کے علاقہ ’اربل‘ کا حکمراں تھا اس کا پورا نام ابو سعید زید بن علی تھا، اور لقب ملک المعظم مظفر الدین تھا، یہ شخص مسلکا شیعہ تھا۔ ابو الخطاب عمر بن دحیہ نے میلاد کے جواز میں ایک کتاب ”التنویر فی مولد البشیر و النذیر“ لکھ کر ابو سعید کی خدمت میں پیش کی، جس سے خوش ہوکر ابوسعید نے ابن دحیہ کو ایک ہزار دینار انعام میں دیئے، یہ وہی ابن دحیہ ہے جس کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ کذاب، ساقط الاعتبار،غیرصحیح النسب بے تکی اور اٹکل پچو باتیں کرنے والا تھا، (البدایہ و النھایہ، ۷/۲۱/۷۳۱، لسان المیزان ۴/۶۹۲۔۷۹۲)تعجب ہے کہ جو بدعت کئی صدی بعد ایجاد کی گئی اور جس کے موجد شیعہ اور کذاب و مکار لوگ ہوں وہ دین کا حصہ قرار دے دی گئی اور جو اس میں حصہ نہ لے اس کو برے بھلے القاب سے نوازا جاتا ہے! فالی اللہ نشتکی وھو
المستعان!
المستعان!
مجوزین میلاد کے دلائل کا رد:
پہلی دلیل:اللہ تعالی فرماتا ہے ”لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم“اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو مؤمنین پر ایک احسان بتلایا گیا ہے، نبی کی بعثت نعمت جلیلہ ہے، نعمت کا چرچا کرنا واجب ہے جیسا کہ سورہ الضحی کی آیت نمبر:۱۱اور سورہ الاعراف آیت نمبر ۹۴ سے معلوم ہوتا ہے۔ ملخصا۔
جواب: بیشک نبیﷺ کی بعثت عظیم نعمت ہے، اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی، اسی طرح یہ بھی مسلم ہے کہ نعمت کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے؛ لیکن تحدیث نعمت کے لئے مجلسیں منعقد کرنا اہتمام کرنا امر زائد ہے جو ثبوت کا تقاضہ کرتا ہے۔نبی ﷺ کی زندگی میں ۲۱/ربیع الاول ۰۶سے زائد بار آتا ہے، لیکن کبھی بھی آپ ﷺ نے اس نعمت کے شکریہ میں محفلیں منعقد کیں؟ نبی ﷺ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کا اہتمام کیا؟ اگر نعمتوں کے شکریہ میں اس طرح کی محفلوں کی اجازت دے دی جائے، تو شاید ہی کوئی دن، مہینہ یا سال ہوگا جس میں اس طرح کی محفلیں منعقد نہ کی جائیں؟ کیوں کہ اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں، ارشاد باری تعالی ہے ”ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا“ (النحل ۸۱، ابراھیم ۴۳) صرف سورہ رحمن میں تقریبا ۱۳ نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ہر نعمت کے آخر میں بطور احسان کہا گیا ہے ” فبای آلاء ربکما تکذبان“ یعنی اے جن و انس! تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
دوسری دلیل: محفل میلاد میں روشنی و چراغاں وغیرہ کرنا یہ سب امور زینت ہیں، اور زینت کے سلسلہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ“ (الاعراف: ۲۳) یعنی اے نبی ﷺ کہہ دیجئے کون ہے؟ اللہ کی اس زینت کو حرام کرنے والا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے نکالی ہے۔
جواب: یہ آیت کریمہ مشرکین کے تعلق سے نازل ہوئی ہے جو خانہ کعبہ کا ننگے طواف کرتے تھے، کپڑے جو کہ زینت کے لئے ہوتے ہیں مشرکین نے ان کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا، آیت میں ان کی اس روش پر تنبیہ کی گئی ہے، اس کا محفل میلاد میں کی جانے والی فضول خرچی سے کوئی تعلق نہیں؛ اگر یہ سب امور زینت میں ہوتے تو خود نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو سب سے پہلے کرتے۔ واضح رہے کہ چراغاں وغیرہ کرنا یہ غیر مسلموں کی دین ہے جیسا کہ ہنود و مجوس اپنی عبادت کے وقت خاص طور سے اس کا اہتمام کرتے ہیں، اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے!آمین!
لطیفہ: اہل بدعت کے سامنے جب قرآن مجید کی وہ آیات جن میں شرک اور غلوفی الصالحین کی مذمت ہے پیش کی جاتی ہیں جن سے ان کی قبر پرستی پر ضرب پڑتی ہے تو بڑی ڈھٹائی سے ان کا یہ جواب ہوتا ہے کہ یہ آیات مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ احادیث جو خوارج سے متعلق ہیں ان کو اہل توحید پر فٹ کرتے ہیں لیکن جب اپنی باری آئی تو سب بھول گئے، اب خوارج سے متعلق احادیث یاد نہیں رہیں؟ اسی کو کہتے ہیں میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو!
تیسری دلیل: حدیث شریف سے چند آدمیوں کا آوازملا کر نعت شریف پڑھنا اور نبی ﷺ کا اس کو سن کر دعا دینا ثابت ہے۔
جواب: خوشی کے موقع پر سادہ انداز میں نعت گوئی کرنا معیوب نہیں، جب کہ یہ نعت گوئی شریعت کے مطابق ہو اور شرکیہ الفاظ استعمال نہ کئے گئے ہوں جیسا کہ ایک بار چند لڑکیاں شہدائے بدر کا تذکرہ کر رہی تھیں، اسی درمیان انہوں نے نبی ﷺ کے لئے غلو آمیز کلمات کہے اور کہا کہ ہم میں ایک نبی ﷺ ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے ان کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ وہی کہو جو اس سے پہلے کہہ رہی تھیں۔ موجودہ زمانہ کی نعت گوئی کو جس میں غلو،شر ک کی آمیزش ہوتی ہے نبی ﷺ کے زمانہ کی نعت گوئی پر قیاس کرنا نری دھاندلی ہے۔
چوتھی دلیل: نبی ﷺ کی عزت و توقیر کاحکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”وتعزروہ و توقروہ“ (الفتح: ۹)
جواب: نبی کریم ﷺکی عزت و توقیر ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر کسی کا بھی ایمان مکمل نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجودہ نام نہاد مسلمانوں سے کہیں زیادہ نبی ﷺ کی عزت و توقیر کرتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی آپ ﷺ کی عزت و توقیر میں اس طرح کی مجلسیں منعقد نہیں کیں۔ جو طریقہ صحابہ کرام کے زمانہ میں عزت و توقیر کا باعث نہ تھا، وہ آج بھی عزت و توقیر نہیں ہو سکتا، البتہ بدعت ہونے کے سبب باعث ذلت ضرور ہوگا۔
پانچویں دلیل: اللہ تعالی کا ارشاد ہے ” قل بفضل اللہ و برحمتہ فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون“ (یونس: ۸۵) یعنی اے نبی ﷺ آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر مسلمانوں کو خوش ہونا چاہئے یہ ان کے لئے اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کر تے ہیں۔
جواب: خوشی اس کیفیت کا نام ہے جو کسی نعمت کے حصول کے وقت ہوتی ہے، اس کا میلاد میں کی جانے والی غلط رسوم سے کوئی تعلق نہیں، صحابہ کرام نے کبھی بھی اس آیت سے وہ مفہوم نہیں سمجھا جو آج کل یہ مولوی سمجھا رہے ہیں۔ اگر اس کا تعلق میلاد سے ہوتا تو صحابہ کرام ضرور محفل میلاد منعقد کرتے کیوں کہ صحابہ خیر میں ہم سے زیادہ سبقت کرنے والے تھے۔
چھٹی دلیل: اللہ کا فرمان ہے ”و ذکرھم بایام اللہ“ (ابراھیم: ۵) یعنی اے موسیٰ تم اپنی امت کو اللہ کے دن یاد دلاؤ۔
جواب: ”ایام اللہ“ سے مراد اللہ تعالی کے وہ احسانات ہیں جو اللہ تعالی نے کئی بار بنی اسرائیل پر کئے تھے۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالی کے ان احسانات کو بھلا دیا تو حضرت موسی علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ ان کو ہمارے احسانات یاد دلاؤ۔ بھلا اس آیت کا مروجہ میلاد سے کیا تعلق؟ رہی بات تحدیث نعمت کی تو اس کا جواب پہلی دلیل کے ضمن میں آ چکا ہے۔ فللہ الحمد!
ساتویں دلیل: اللہ تعالی کا فرمان ہے ”قال عیسیٰ ابن مریم اللہم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء تکون لنا عیدا لاولنا ولآخرنا“ (المائدۃ: ۴۱۱) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اے ہمارے رب!ہمارے لئے آسمان سے خوان نازل فرما تاکہ وہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہو۔ جب خوان اترنے کا دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی امت کے لئے عید ہو سکتا ہے تو بھلا نبی ﷺ کی پیدائش کا دن مسلمانوں کے لئے عید کیوں نہیں ہو سکتا؟
جواب: پہلی بات تو یہ کہ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب ہے کہ اس دن اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی تکبیر و تحمید بیان کی جائے۔ اس کا تعلق میلاد کے موقع پر کئے جانے والے جشن و جلوس و چراغاں سے قطعا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہ ہماری شریعت سے پہلے کی بات ہے، اگر اس کو باقی رکھنا ہوتا تو اس کی وضاحت کر دی جاتی۔ تیسری بات یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت نزول مائدہ سے کہیں بڑھ کر تھی، تو جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت پر جشن منانا اللہ کی مرضی کے خلاف ہے، اسی طرح سے نبی ﷺ کی ولادت پر جشن منانا بھی رضائے الہی کے خلاف ہے۔
یہ چند دلائل تھے جنہیں مجوزین میلاد پیش کرتے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے کی تو یہ سب اچھی صفات ہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرے، لیکن اس کے لئے بدعات کا سہارا لینا جائز نہیں جیسا کہ اس کی وضاحت گذر چکی ہے، اسی طرح نبی ﷺ کا جب نام آئے تو درود پڑھنابھی ضروری ہے۔ الحمد للہ! اہل حدیث اس پر عامل ہیں، البتہ انگوٹھے چومنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور حجر اسود کے بوسا لینے کو اس پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، کیوں کہ حجر اسود کو بوسا دینا سنت و مطلوب ہے،جب کہ انگوٹھے چومنا بدعت اور مردود ہے۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو بدعات سے بچائے آمین! فالحمد للہ تعالی و صلی اللہ علی النبی وسلم۔
------------------------------------------------------------------------------------
محمد شاہد عبدالطیف سنابلی
استاذ: المعہد،رچھا
یادماضی
بنیادی طورپر میں کاغذات، حروف اور لکیروں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہوں، زمانہئ قدیم سے ہی مجھے ”کتاب“ کے نام سے پکاراجاتاہے۔ ماہرین تاریخ کے بقول میرے وجود کے ابتدائی ایام میں مجھے درختوں کے پتوں، چھالوں، ہڈیوں اور چمڑوں وغیرہ پر لکھا جاتاتھا اور مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد میں نے ورقی شکل اختیار کی اور مسلسل ترقی کے منازل طے کرتی رہی۔
ایک دور تھا کہ میں بہت خوش تھی، لوگ مجھے بڑے شوق سے پڑھتے تھے، مجھے حاصل کرنے کے لیے جی جان لگادیتے تھے، یہاں تک کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی مجھے اپنے قیمتی خزانے کا حصہ بنانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ علماء وادباء میری تعریف کرتے ہوئے اپنی زبان وقلم سے اکثر یہ جملہ استعمال کرتے تھے کہ ”کتاب بہترین دوست ہے“ جسے سن کر میں خوشی سے جھوم اٹھتی، پھر یہ خوشی بھی اس وقت دوچند ہوجاتی جب انہیں کسی طویل سفر میں جانا ہوتاتو واقعی معنوں میں وہ اپنے ساتھ کسی عزیز انسانی دوست کے بجائے مجھے لے جاتے اور راستے بھر مجھے پڑھتے ہوئے مجھ سے ہم کلام ہوتے۔
مدارس ومعاہد میں پڑھنے والے طلبہ بھی مجھے اپنا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے، اپنے محدود جیب خرچ میں سے تھوڑا تھوڑا بچاکر مجھے خریدتے اور گئے رات تک مجھے پڑھنے میں محو رہا کرتے تھے، نہ تو انہیں کھانے پینے کی فکر ہوتی تھی اور نہ ہی سونے وآرام کرنے کا دھیان۔ ان میں سے بعض کو تو کتابی کیڑا بھی کہا جاتاتھا۔
پھر وقت کے چلتے ہوئے پہئے کے ساتھ حالات نے پلٹاکھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوبت بہ ایں جارسید کہ اب تلاش بسیار کے بعد بھی کتابی کیڑے تو نہیں ملتے البتہ موبائل، لیپ ٹاپ اور سوشل نیٹ ورکنگ کے کیڑوں کاایک بہت بڑا ہجوم ضرور دکھائی دیتاہے جوا نہیں جدید برقی آلات کے ساتھ ہمہ وقت چپکے رہتے ہیں، یوں لگتاہے گویا ان چیزوں نے لوگوں کا سارا وقت اپنے پاس گروی رکھ لیا ہو، اپنا بیشتر وقت فضول اشیاء میں لگاکر دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں، اپنے کان، اپنا ذہن یا یوں کہئے کہ اپنی پوری صحت خراب کررہے ہیں۔
وہ طلبہ جوکل تک مجھے انتہائی دلچسپی اور لگن سے پڑھتے تھے اب وہ بے رخی اور پژمردہ طبیعت کے ساتھ صرف اساتذہ اور والدین کے خوف سے پڑھتے ہیں۔ لائبریریاں دن بدن ویران سی ہونے لگی ہیں، مجھے ایسا لگتاہے کہ شاید اس نئی نسل کے دل سے رفتہ رفتہ میرامقام گھٹ رہا ہے۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، اس کی بھی ایک طویل کہانی ہے، ابتداء لوگوں نے مجھے پڑھنا کم کردیا اور سیلفوں و المار یوں میں سجاکر رکھنا شروع کردیا،پھر بھی میں کسی حد تک خوش تھی اور مطمئن تھی کہ چلو پڑھنا نہ سہی کم ازکم ان کے دلوں میں میرا احترام تو باقی ہے لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے میری رہی سہی خوشی بھی چھین لی اورمجھے ڈرائنگ روم کی الماریوں سے نکال کر سڑک کنارے بنے ہوئے فٹ پاتھ پر پہونچادیاگیا، جہاں عام چیزوں کی طرح میں بیچی اور خریدی جانے لگی۔
میرے ساتھ ہورہے اس ظلم وناانصافی کے باوجود نہ تو میں کسی سے لڑ جھگڑ سکتی ہوں اور نہ ہی چیخ وچلا سکتی ہوں،بس ایک آخری امید لے کر قارئین ترجمان السنہ کے توسط سے تمام لوگوں تک اپنا گذارش نما پیغام پہونچانے کی کوشش کرسکتی ہوں کہ خدا را آپ مجھ سے منہ مت موڑیئے، میں بہترین دوست کل بھی تھی، آج بھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گی۔مجھ سے سوائے فائدے کے اورکچھ بھی ملنے والا نہیں ہے۔ اس لیے اپنے قیمتی اوقات میں سے کم ازکم کچھ وقت مجھے پڑھنے کے لیے ضرور نکالیں۔
کسی مفکر کا قول ہے کہ ”اگر دود ن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن انداز تکلم بدل جاتاہے“۔جب کوئی شخص میرا مطالعہ کرتاہے تواس کے دماغ کی ورزش ہوتی رہتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتاہے جب کہ موجودہ دور کے برقی آلات مثلاً موبائل وغیرہ سے دماغ پر زیادہ زور پڑتاہے اور ان کی شعائیں انسانی دماغ کو تھکادیتی ہیں۔
سمجھدار توآپ ہیں ہی، میں بس آپ کے فیصلے کا منتظر ہوں کہ آپ مجھے اپنائیں گے یا پھر …………
------------------------------------------------------------------------------------
عرفان احمدعبدالواحد صفوی
استاذ:المعہد،رچھا،بریلی
بوڑھے افراد اورہمارا معاشرہ
اداس چہرہ، سفید داڑھی، ہاتھ میں لاٹھی، کھال میں سلوٹ، چال میں سستی، آواز میں لرزہ، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم ”بوڑھا“ کہتے ہیں، انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچتی ہے،آج جو بچہ ہے وہ جوان ہوتا ہے اور پھر اس پر بڑھاپا آجاتا ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے،لیکن اکثر اوقات ضعف عمری میں کمزوری اور بیماریوں کا حملہ تو ہوتا ہی ہے،اپنی اولاد یا دیگر عزیز وں کی جانب سے قدر وعزت نہ کرنے کا دکھ بھی ان کو گھیرے رہتا ہے۔
آج جو صورتحال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے عمر رسیدہ افراد کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے؛آج جو جوان ہے کل وہ بچہ تھا، اسے جس نے پالا پوسا اپنی جوانی اس کو جوان کرنے پر صرف کی آج وہ بوڑھا ہے، والد نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر کو بھی توڑ دیتا ہے، دیکھا گیا ہے کہ ان بزرگوں کی خوشیاں اکثر اوقات تلخیوں میں بدل جاتی ہیں، وہ پل پل جیتے اور پل پل مرتے ہیں۔اب وہ مجبور بھی ہوتے ہیں اور بے بس بھی اور شائد ان کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی، اس لیے ان کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ تمام اہل جہاں کے لئے رحمت وشفقت بناکر بھیجے گئے تھے،اللہ تعالی نے فرمایا:(وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن)(الأنبیاء:۷۰۱)اورہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحم کرنے کے لئے بھیجا ہے، چنانچہ جہاں ایک جانب معاشرہ کی یہ صورتحال ہے، دوسری جانب نبی اکرم ﷺ کا اسوہ کہ آپ نے بوڑھوں، کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، جہاں آپ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمررسیدہ افراد کی قدردانی کی تعلیم دی، وہیں خوداپنے عمل کے ذریعہ بھی قدردانی کا ثبوت آپ نے مہیا فرمایا۔
نبی اکرم ﷺنماز کے انتہائی حریص تھے، اس حرص وطمع کے باوجود بھی کمزور لوگوں پر آپ کی شفقت اس قدر وسیع ہے کہ نماز میں بھی آپ نے ان کا خیال رکھا ہے،بوڑھوں اور کمزوروں کی رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی، آپ نے نماز پڑھانے والے ائمہ کو تلقین فرمائی:
”إذا أم أحدکم الناس فلیخفف فإن فیہم الصغیر والکبیروالضعیف والمریض فإذا صلی وحدہ فلیصل کیف شاء“(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب أمرالأئمۃ بتخفیف الصلوۃ)
جب تم میں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے،کیوں کہ ان میں چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی، کمزوربھی ہوتے ہیں اوربیمار بھی، البتہ جب کوئی اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طویل کرے“۔
ایک دوسری روایت میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ میں ظہر کی نماز میں فلاں شخص کی طویل قرأت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر نبی کریمﷺ کو جس غضبناک کیفیت میں دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، پھر آپ نے صحابہئ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا:
إنکم منفرون فمن صلی بالناس فلیخفف فإن فیہم المریض والضعیف وذاالحاجۃ(صحیح بخاری،کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم إذا رأی مایکرہ ح:۰۹) تم میں سے کچھ ائمہ لوگوں کو متنفر کردیتے ہیں، چنانچہ جو شخص بھی لوگوں کی امامت کرے وہ مختصر نماز پڑھائے، کیوں کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور کام کاج والے بھی شامل ہوتے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بزرگ شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا، لوگوں نے اس کے لئے جگہ بنانے میں سستی کی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقر کبیرنا“(جامع الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی رحمۃ الصبیان،ح:۹۱۹۱) ”جو شخص چھوٹے پر شفقت اور بڑے کی عزت نہیں کرتا، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں“۔
یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہیے ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے۔ اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواہش مند اور خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
کئی مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بچے انھیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں، بڑوں کے اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے،آپ نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (بخاری: ۶۲۳۴ باب تسلیم الصغیر علی الکبیر)
فتح مکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انھیں میں ایک اہم واقعہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیا۔ لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے لیے انھیں آپ کی مجلس میں حاضر کیا، آپ نے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں نہ چھوڑا؟ میں خود ان کے گھر پہنچ جاتا۔ (مستدرک حاکم: ۵۰۶۵ ذکر مناقب ابی قحافہ)
مجالس میں کوئی مشروب آتا تو اس میں آپ اس بات کا لحاظ کرتے کہ اس کو اولاً بڑے نوش فرمائیں، بڑوں سے آغاز ہو، ایک دفعہ مجلس میں بائیں جانب بزرگ صحابہئ کرام تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا اور مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چونکہ تم دائیں جانب ہواس لیے اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا؛ چنانچہ آپ نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ (بخاری: ۲۳۶۶، باب من رأی أن الحوض الخ)
غور طلب امر یہ ہے کہ آپ نے بڑوں کی موجودگی بائیں جانب ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لئے بچے سے اجازت بھی مانگی؛ لیکن بچے نے نبی کریمﷺکے نوش کردہ برکت کی وجہ سے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی۔
اسی طرح آپ نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت فرمائی (سنن ابوداؤد: کتاب الطھارۃباب فی الرجل یستاک، ح:۰۵)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشی عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اسے نہ دیکھا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا، لوگوں نے کہا:”اس کی تو وفات ہوگئی“آپ نے فرمایا:”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ کی؟انھوں نے گویا اس معاملے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، فرمایا:”مجھے اس کی قبر دکھاؤ“پھر آپ قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں جنازہ پڑھی۔(بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب کنس المسجد والتقاط الخرق والاذیٰ،ح:۸۵۴)
بے کسوں کی بے کسی اور کمزوروں کی دادرسی کا ایک واقعہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،کہتے ہیں:ایک ایسی خاتون جس کی عقل ٹھکانے نہ تھی؛نبی اکرمﷺ کواس نے راستہ میں روک لیا اور آپ کو علیحدہ لے جاکر اپنا مسئلہ بتانا چاہا،آپ نے اس کی دل جوئی کرتے ہوئے فرمایا:فلاں کی ماں!جہاں دل چاہے وہاں لے چلو،میں تمہارا مسئلہ حل کروں گا،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ برابر اس کے ساتھ رہے بازار کی ایک سائڈ پر وہ بیٹھ گئی،نبی اکرم ﷺ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ اس کا مسئلہ حل کردیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبی ﷺمن الناس وتبرکہم بہ، ح:۶۲۳۲)
ایک بار نبی اکرمﷺ کا گزر ایک لڑکے کے پاس سے ہوا،وہ بکری کی کھال اتاررہاتھا، اسے دقت ہورہی تھی،آپ نے اس کی پریشانی دیکھی توفرمایا:”تنحَّ حتی أُریک“ تم کنارے ہوجاؤ میں تم کو دکھاتا ہوں۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان داخل کردیااور اسے دھنسادیاحتی کہ سارا بازو بغل تک اندر چلاگیا،پھر فرمایا:
”یا غلام!ھکذا فاسلخ“برخوردار اس طرح کھال اتارا کرو۔(سنن ابوداؤد: کتاب الطھارۃباب الوضوء من مس اللحم، ح:۵۸۱)
کمزوروں اوربوڑھوں کی قدردانی کی ترغیب دیتے ہوئے ایک بار فرمایا:”أبغونی الضعفاء، فإنما تنصرون وترزقون بضعفائکم“(سنن ابوداؤد، کتاب الجھاد، باب فی الانتصار برذل الخیل والضعفۃ، ح:۶۹۵۲) ”مجھے کمزور لوگوں میں تلاش کیا کرو، یاد رکھو انہیں کمزوروں کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے“۔
ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایا،ہر بوڑھے کا اکرام آپ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے، ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں، کسی چیز کے ذریعہ بڑھاپے میں انھیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاؤں میں شامل ہوں، بڑھاپے میں ہونے والی خطاؤں کو نظر انداز کریں۔
------------------------------------------------------------------------------------
عربی سے ترجمہ: محمد شاہد یار محمد سنابلی
صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو
میں نے پورے قرآن کریم کے اندر تسبیح / سبحان اللہ کے بارے میں تلاش کیا تو مجھے اس کے متعلق درج ذیل عجیب و غریب معلومات حاصل ہوئیں:
تسبیح پڑھنے سے اللہ تعالیٰ تقدیر کو بدل دیتا ہے جیسا کہ یونس علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
(فَلَوْلَا أَنَّہُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ. لَلَبِثَ فِی بَطْنِہِ إِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ)(سورۃ الصافات 143-144)ترجمہ: اگر یونس علیہ السلام تسبیح پڑھنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں پڑے رہتے۔اور یونس علیہ السلام ان الفاظ کے ذریعے اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے: (لا إلہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین)
تسبیح ایسا ذکرہے ہے جس کا ورد پہاڑ اور پرندے بھی اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کے ساتھ کیا کرتے تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ) (سورۃ الأنبیاء: 79)ترجمہ: داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے۔
تسبیح کائنات کی ساری مخلوقات کا ذکر ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے:(أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُسَبِّحُ لَہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)(النور/41)ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔
اور اللہ کے نبی زکریا علیہ السلام جب اپنے محراب سے نکلے تو انھوں نے اپنی قوم کو تسبیح پڑھنے کا حکم دیا۔ آیت کریمہ ہے:(فَخَرَجَ عَلَیٰ قَوْمِہِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَیٰ إِلَیْہِمْ أَن سَبِّحُوا بُکْرَۃً وَعَشِیًّا) (سورۃ مریم11) ترجمہ: اب زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں اشارہ کرتے ہیں کہ تم صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو۔
اور موسی علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے بطور خاص یہ دعا کی کہ ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو ان کا وزیر بنا دے تاکہ تسبیح اور ذکر و اذکار کرنے میں ان کے معاون اور مددگار ثابت ہوں۔ وہ دعا یہ ہے:(وَاجْعَلْ لِی وَزِیرًا مِنْ أَہْلِی ہَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِہِ أَزْرِی وَأَشْرِکْہُ فِی أَمْرِی کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیرًا) (سورۃ طہ)ترجمہ: اور میرے خاندان میں سے میراایک وزیر بنا دے، میرے بھائی ہارون کو، اسے میرا پشت پناہ بنا دے، اور اسے میرے امر(رسالت) میں شریک بنادے، تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں، اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔
اسی طرح میں نے پایا کہ تسبیح جنتیوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: (دَعْوَاہُمْ فِیہَا سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَتَحِیَّتُہُمْ فِیہَا سَلَامٌ) (سورۃ یونس 10)ترجمہ: ان کے منہ سے یہ بات نکلے گی ”سبحان اللہ“ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا ”السلام علیکم“۔
تسبیح یہ فرشتوں کا بھی ذکر ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: (وَالْمَلَاءِکَۃ ُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِی الْأَرض) (سورۃ الشوریٰ 5) ترجمہ: اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لئے استغفار کر رہے ہیں۔
یقینا تسبیح بہت ہی عظیم الشان ذکر ہے اور اس کی تاثیر اور اس کا فائدہ اس قدر ہے کہ اللہ رب العزت اس کے ذریعے تقدیر کو بدل دیتا ہے جیسا کہ یونس علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔
اے اللہ! ہم سب کو ان لوگوں میں سے بنا دے جو کثرت سے تیری تسبیح پڑھتے ہیں اور بکثرت تجھے یاد کرتے ہیں۔
(سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ، عَدَدَ خَلْقِہِ وَرِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ)اس ذکر کے اندر دو نمایاں چیزیں ہیں ''تسبیح اور نفسیاتی راحت و اطمینان'' ان دونوں چیزوں کے درمیان باہم کیا ربط ہے مجھے پہلے معلوم نہیں تھا لیکن ایک مرتبہ قرآن کریم کی ایک آیت میری نظر سے گزری جس نے اس راز کو میرے لئے واضح کردیا کہ پورے دن اللہ کی تسبیح پڑھنا کس طریقے سے نفسیاتی راحت و اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ وہ آیت کریمہ یہ ہے: (وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَیٰ) (سورۃ طہ 130)ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہو جائے۔
اس آیت کریمہ میں غور کیجئے کہ کس طریقے سے دن کی تمام گھڑیوں میں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی طلوع آفتاب سے پہلے، غروب آفتاب سے پہلے، رات کے اوقات میں، دن کے شروع میں، اور دن کے آخر میں الغرض دن کا کوئی بھی حصہ باقی نہیں بچا ہے کہ جس میں تسبیح پڑھنے کا حکم نہ دیا گیا ہو۔اور اس آیت کریمہ میں مذکور ''رضا'' سے دنیا و آخرت دونوں کی رضا مقصود ہے۔
سورۃ الحجر کی آخری آیات میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:(وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُن مِّنَ السَّاجِدِینَ)ترجمہ: اور بلاشبہ یقینا ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔
غور کیجئے اس عظیم الشّان آیت کریمہ نے کس طریقے سے اس دوا اور تریاق کی طرف رہنمائی کی ہے جو سینے کی تنگی کے لئے علاج اور دلوں کی تمام بیماریوں کے لیے شفا ہے۔
اور ایک انتہائی عجیب و غریب چیز جو ہمیں قرآن کے ذریعے سے معلوم ہوئی وہ یہ کہ ہم لوگ ایسی دنیا میں جیتے اور بستے ہیں جو دنیا ہمیشہ تسبیح کی صدا سے گونجتی ہے۔ چنانچہ آسمان کی گرج اللہ کی تسبیح کرتی ہے، پہاڑ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پرندے اللہ کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں الغرض آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح میں مصروف و مگن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم انسانوں کو ان ساری مخلوقات کی تسبیح و تعریف کا شعور و ادراک نہیں ہوتا۔اے ہمارے رب! یقینا تیری ذات پاک و صاف اور لائق تعریف ہے۔ حقیقت میں آج ہم نے جانا کہ ہماری زندگی کے کتنے قیمتی لمحات یوں ہی ضائع و برباد ہوگئے۔ ہم نے انہیں تیری تسبیح و تعریف میں نہیں استعمال کیا۔
اللہ تعالی ہم سب کو کثرت سے تسبیح پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
------------------------------------------------------------------------------------
حافظ صلاح الدین یوسف
پردے کے احکام وآداب
پردے کا حکم اور مردوں سے اختلاط کی ممانعت: مسلمان عورت کے لیے پردے کا حکم بھی ان امتیازات میں سے ہے جس میں وہ مردوں سے ممتاز اور اس کی وجہ سے اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز ہے، اور مقصد اس سے مسلمان عورت کا تحفظ ہے۔ مسلمان عورت کی عزت وناموس اور اس کی کرامت ونجابت کی حفاظت اور اس کو شبہات سے بچانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک تو مرد اور عورت کو باہمی اختلاط (مل کر پڑھنے مل کر کام کرنے، مل کر بے محابا گفتگو کرنے اور بے باکانہ میل ملاقات) سے روک دیا ہے اور دوسرے عورت کے لیے حجاب (پردے) کی پابندی کو ضروری قرار دیا ہے۔ پس عورت کے لیے پردہ ایسے درخت کی حیثیت رکھتاہے جس کے سائے میں وہ سکون محسوس کرتی اور اس کے دامن میں پناہ حاصل کرتی ہے۔
حجاب کوئی قید اور قدغن نہیں جس سے گھٹن محسوس کی جائے، کوئی بوجھ نہیں جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدبیر کی جائے اور کوئی ناروا پابندی نہیں جس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے، جیساکہ اسلام دشمن عناصر، لادین قسم کے لوگ اور مغرب زدہ حضرات باور کراتے ہیں، بلکہ پردے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک نہایت بیش قیمت متاع قرار دیا ہے، اسی لیے اس کی حفاظت وصیانت کا خصوصی اہتمام کیا ہے، کیوں کہ ہر قیمتی چیز کو چھپاکر رکھا جاتا اور اس کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتاہے۔
اس لیے دشمنوں کے مکروکید کو سمجھنا اور ان کے حسین جالوں سے بچنا اور ان کی سازشوں کو ناکام بنانا ضروری ہے۔
بنا بریں ہرمسلمان عورت حجاب کے شرعی تقاضوں کی پابندی کرکے اپنے ایمان کی بھی حفاظت کرے اور دشمنان اسلام کے مذموم اور مکروہ عزائم کو بھی خاک میں ملادے۔
پردے کی اہمیت اور اس کی افادیت وضرورت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مارکیٹ میں اس موضوع پر بہت مواد موجود ہے، اس لیے ذیل میں صرف شرعی پردے کے آداب وشرائط اور اختلاط کی ممانعت کے ضروری مسائل بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ ہر مسلمان عورت ان کو سامنے رکھے اور ان کی پابندی کرے۔ مردوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی جوان بچیوں، بہنوں، ماؤں اور بیویوں کو تلقین کریں کہ وہ ہرجگہ گھر کے اندر ہوں یا گھر سے باہر ان پابندیوں کا اہتمام کریں۔
پردے کا حکم اور اس کے آداب:عورت کو پردے کا جو حکم دیا گیاہے، اس کے تقاضوں کی ادائیگی کے لیے علماء نے اس کے آٹھ آداب بیان فرمائے ہیں، تاکہ صحیح معنوں میں پردہ ہوسکے، ان آداب وشرائط کے بغیر شرعی پردہ نہیں ہوتا، یہ آداب حسب ذیل ہیں:
٭ چادر یا برقع ایسا ہو جو سر سے لے کر پیروں تک پورے جسم کو ڈھانپ لے، چہرہ نظر آئے نہ بازو، چھاتی نظر آئے نہ گدی، حتیٰ کہ ہاتھ اور پیر بھی نظر نہ آئیں۔
٭ چادر یا برقع بھی بجائے خود زینت یعنی جاذب نظر نہ ہو، جیسے اس پر کڑھائی کا کام کیا گیا ہو، یا پرکشش رنگ کا حامل ہو یا اتنا خوب صورت اور نفیس ہو کہ بے اختیار مردوں کی نظریں عورت کی طرف اٹھ جائیں۔ گویا مذکورہ قسم کی چادر یا برقعے سے بھی پردے کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔
٭ حجاب، ایسے باریک اور شفاف کپڑے کا نہ ہو جس میں عورت کا جسم چھلکے، گویا چادر یا برقع کا کپڑا سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ موٹا بھی ہو۔
٭ حجاب ڈھیلا ڈھالا ہو۔ اس طرح تنگ نہ ہو کہ جسم کا انگ انگ اس سے نمایاں ہوتاہو، یا فتنے میں ڈالنے والی جگہیں واضح ہوں یا اس سے جسمانی ساخت اور اس کے خدوخال کی غمازی ہوتی ہو۔
٭ اس کے کپڑے سینٹ یا خوشبو سے معطر نہ ہوں۔
٭ مردوں کے لباس کی طرح نہ ہوں۔
٭ اسی طرح کافر عورتوں کے لباس کی طرح نہ ہوں، جیسے منی اسکرٹ، یا ساڑھی، لہنگا وغیرہ۔ اس لیے کہ کافروں کی مشابہت بھی ممنوع ہے۔ ”من تشبہ بقوم فھو منھم“(ابوداؤد:۱۳۰۴) اور جو جس کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔
٭ شہرت وناموری والا لباس نہ ہو۔ اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:”من لبس ثوب شھرۃ البسہ اللہ یوم القیامۃ مثلہ“(ابوداؤد:۹۲۰۴) جس نے شہرت کا لباس پہنا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اس جیسا ہی لباس پہنائے گا، پھر اس میں جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا۔
کن کن لوگوں سے پردہ ضروری اور اختلاط (میل جول) منع ہے: لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت کے لیے پردہ اسی وقت ضروری ہے جب وہ گھر سے باہر نکلے اور اسی طرح میل جول بھی صرف انہی سے منع ہے جو بیگانے ہیں ورنہ گھر میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ جس طرح چاہے رہے، پردے کے منافی نہیں۔ اسی طرح اپنے رشتے داروں کے ساتھ جس طرح چاہے میل جو ل رکھے ان سے ہنسی مذاق کرے اور ان سے خلوت و جلوت میں بے باکانہ گفتگو کرے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔
ایسے گھروں میں جہاں خاوند کے دوسرے بھائی بھی رہتے ہوں، عورت کو ڈھیلے ڈھالے اور ساتر لباس میں رہنا چاہیے، جس سے عورت کے بازو نظر آئیں نہ چھاتی اور گدی وغیرہ۔ اسی طرح عورت کے لیے دیوروں اور جیٹھوں سے پردہ کرنا بھی ضروری ہے اور یہ پردہ اس طرح نہایت آسانی سے ممکن ہے کہ ایک تو مذکورہ انداز میں ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے جس سے اس کی زینت کا اظہار اور فتنے والی جگہیں آشکارا نہ ہوں۔ دوسرے دیور اور جیٹھ وغیرہ کے سامنے آنے پر گھونگھٹ نکال لے، علاوہ ازیں ان سے بے باکانہ انداز میں گفتگو نہ کرے بلکہ حسب ضرورت مختصر بات کرے اور ان کے ساتھ تنہائی بالکل اختیار نہ کرے۔
حسب ذیل رشے داروں اور لوگوں سے اختلاط ممنوع ہے: بہر حال شرعی ہدایات کی روشنی میں جن جن رشتے داروں سے پردہ کرنا ضروری اور ان سے اختلاط منع ہے ان کی تفصیل علماء کی وضاحت کی روشنی میں حسب ذیل ہے:
٭ چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد بھائی کا اپنی چچا زاد،ماموں زاد، خالہ زاد اور پھوپھی زاد بہن سے اختلاط۔
٭ عورت کا اپنے دیور، جیٹھ، بہنوئی سے اختلاط۔
٭ عورت کے رضاعی بھائی کا اپنی رضاعی بہن کی بہنوں سے اختلاط۔
مذکورہ تمام اختلاط ممنوع ہیں۔ اختلاط کا مطلب، ان سے بے پردہ ہوکر بلاتکلف گفتگو اور ہنسی مذاق کرنا اور خلوت میں بھی ان سے ملاقات کرناہے۔
٭ منگیتر کا اپنی منگیتر سے اختلاط بھی ممنوع ہے، البتہ نکاح سے قبل ولی کی موجودگی میں اسے ایک نظر دیکھ لینا مستحب ہے۔
٭ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بیروں یا نوجوان لڑکوں کا عورتوں کی خدمت پر مامور ہونا۔
٭ نکاح کے بعد دولہا دلہن کا اپنے رشتے داروں کے ساتھ لوگوں کے سامنے گروپ کی صورت میں بیٹھنا اور تصویریں اتروانا، وغیرہ۔
٭ اسی طرح دولہا دلہن کے رشتے داروں کا عورتوں کے سامنے گروپ بناکر بیٹھنا، وغیرہ۔
٭ عمر رسیدہ خواتین کا اجنبی مردوں کے ساتھ تنہائی میں خلوت اختیار کرنا۔
٭ عورت کا اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ تو ہمارے ہی قبیلے یا برادری کے افراد ہیں۔
٭ یا اس نقطہئ نظر سے مردوں سے اختلاط کہ اصل پردہ تو دل کا پردہ ہے، یعنی دل پاکیزہ ہوں، آنکھ میں حیا ہو، تو یہی پردہ ہے۔ جسمانی پردہ ضروری نہیں۔
٭ ان بچیوں کے ساتھ اختلاط میں تساہل جو قریب البلوغت ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ تو ابھی بچیاں ہیں۔
٭ ٹیکسی، رکشے میں اکیلی عورت کا سفر کرنا، جب کہ ڈرائیور اجنبی ہو۔
٭ بغیر محرم کے عورت کا حج کے سفر پر جانا۔
٭ کالجوں اور یونیورسیٹویوں میں لڑکیوں کا لڑکوں کے ساتھ مل کر پڑھنا اور اسی طرح جامعات کی دیگر سرگرمیوں میں ان کا باہم اختلاط۔
٭ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر مدارس میں عورتوں کا مردوں کو پڑھانا یا مردوں کا عورتوں کو پڑھانا۔
٭ حتیٰ کہ پرائمری کلاسوں میں بھی عورتوں کا بچوں کو پڑھانا بتدریج اختلاط کی راہ ہموار کرناہے۔
٭ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے نام پر مغرب کی یونیورسٹیوں میں بھیجنا، ان کو مغربی افکار اور اس کی حیاباختہ تہذیب کا شکار بنانا ہے۔
٭ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں عملی تربیت کے نام پر لڑکیوں کا اختلاط۔
٭ یونیورسٹیوں میں ایم اے اور پی ایچ ڈی وغیرہ کے مقالات کی تیاری میں بطور رہنما اور نگراں کے مردوں کا عورتوں کے ساتھ خلوت (تنہائی) میں میل ملاقات۔
٭ علمی اجتماعات، کانفرنسوں، مشاعروں اور اس قسم کی دیگر تقریبات میں مردوعورت کا پہلوبہ پہلو بیٹھنا۔
٭ نرسوں اور خاتون ڈاکٹرکا اجنبی مردوں، حتی کہ ڈاکٹروں اور ہسپتال کے دیگر مرد ملازمین کے ساتھ اختلاط۔
٭ ڈاکٹرکی نرس یا لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ خلوت۔
٭ ڈاکٹر کی غیرمحرم مریضہ کے ساتھ خلوت۔
٭ بغیرحاجت یا ضرورت کے یا لیڈی ڈاکٹر کی موجودگی میں عورت کا مرد ڈاکٹر کے سامنے چہرہ وغیرہ ننگاکرنا۔
٭ استقبالیہ یا الوداعی وغیرہ مجلسوں میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط۔
٭ طبی تجربہ گاہوں سے عملی تربیت کے عنوان پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط۔
٭ کھیل کود کے میدانوں اور مواقع پر عورتوں کا مردوں سے اختلاط۔
٭ ہوٹلوں یا کھانے پینے کی دیگر تقریبات میں عورتوں اور مردوں کا اختلاط۔
٭ دکان یا شو روم وغیرہ میں عورت کا مردوں سے اختلاط یا خلوت۔
٭ مارکیٹوں میں عورتوں کا مردوں سے اختلاط۔
٭ بغیرمحرم کے عورت کا بس، ریل یا ہوائی جہاز میں سفرکرنا۔
٭ عورتوں کا فوٹوگرافروں سے تصویریں کھنچوانا۔
٭ بدعات پر مبنی اجتماعات (جیسے میلاد، محفل شب معراج وغیرہ) اور اسی طرح تبلیغی جلسوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط۔
٭ مرد ٹیوٹر کا کسی بھی عمر کی بچیوں کو پڑھانا یا عورت ٹیوٹر کا لڑکوں کو پڑھانا۔
اختلاط کی مذکورہ تمام صورتیں اور اس قسم کی دوسری صورتیں جن کی شرعا اجازت نہیں، سب ممنوع اور حرام ہیں۔ مغربی تہذیب کی نقالی میں بے پردگی وبائے عام کی شکل اختیار کرگئی ہے، جس کی وجہ سے اب مرد وعورت کے اختلاط کا فتنہ بھی بڑھتاجارہاہے۔ حالاں کہ جب بے پردگی ہی جائز نہیں، تو پھر اختلاط کا جواز کیوں کر ممکن ہے؟ یہ تو بنائے فاسد علی الفاسد کی واضح صورت ہے۔
بنابریں مسلمان عورتوں کو اختلاط کی مذکورہ صورتوں سے اپنے کوبچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو پردے کی اہمیت و ضرورت سے بھی آگاہ کریں اور بے پردگی اور مردوں سے اختلاط کے مفاسد وخطرات سے بھی انہیں خبردار کریں، تاکہ وہ ان سے بچنے کا اہتمام کریں۔
------------------------------------------------------------------------------------
اخبار جہاں
حوثی شیعوں نے کیا سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملہ: سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل فراہم کرنے والی کمپنی آراکو کی دو تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے۔ حملوں کے بعد دونوں تنصیبات میں لگنے والی آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے‘رائٹرز’کے مطابق سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ دو تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جس میں وہاں پرلگنے والی آگ کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔خیال رہے کہ آراکو سعودی عرب کی سرکاری کمپنی ہے جبکہ یہ دنیا کو تیل فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بھی بتائی جاتی ہے۔قطر کے نشریاتی ادارے‘الجزیرہ’کے مطابق سعودی عرب کے دو الگ الگ مقامات خریص اور بقیق میں تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی ہے۔بقیق دارالحکومت ریاض سے 330 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں آرمکو کی خام تیل کی سب سے بڑی تنصیبات بتائی جاتی ہیں۔رپورٹس کے مطابق یہاں یومیہ 70لاکھ بیرل تیل پروسیس کیا جاتا ہے۔خیال رہے کہ بقیق میں تیل کی تنصیبات کو پہلی بار نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ 13 سال قبل 2006 میں القاعدہ نے بھی یہاں خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔دوسری تیل کی تنصیب خریص جسے نشانہ بنایا گیا ہے یہ سعودی دارالحکومت ریاض سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔آرمکو کے مطابق خریص میں 20 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر سے یومیہ 10 لاکھ بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔آرمکو کی تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں فوری طور پر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں پر اثر نہیں پڑا۔گزشتہ ماہ کے آخر میں حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے شہر ابہا کے ایئر پورٹ سمیت دو تنصیبات پر ڈرون حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔باغیوں کے ترجمان نے‘المسیرا ٹی وی’پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ابہا ایئر پورٹ اور خامس ایئر بیس کو نشانہ بنایا گیا۔واضح رہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں مارچ 2015 سے یمن میں باغیوں کے خلاف جنگ جاری ہے دوسری جانب یمن میں باغی حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
لندن میں ۸۱/قیراط سونے کا ٹوائلٹ ہواچوری: برطانیہ کے آکسفورڈ شا ئر میں واقع بلینہم پلیس کی آرٹ نمائش میں رکھے گئے 18 قیراط سونے سے تیار'امریکہ' نام کے قیمتی ٹوائلٹ کو چوروں نے چرا لیا۔ٹیمز ویلی پولس نے ہفتہ کو بتایا کہ آج صبح چار بج کر 57 منٹ پر ہمیں ٹوائلٹ چوری ہونے کی اطلاع ملی۔ اٹلی کے آرٹسٹ موریجیو کیٹلان نے آکسفورڈ ڈشائر میں واقع بلینہم پلیس کی آرٹ نمائش میں اس ٹوائلٹ کو رکھا تھا۔ جمعرات کو نمائش عام لوگوں کے لئے کھول دیا گیا تھا اور بیت الخلا کی قیمت 35.5 کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔2017 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اس سونے کے ٹوائلٹ کو دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ پولس نے بتایا کہ چوری کے دوران عمارت کو بھی نقصان پہنچایا گیاہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ٹوائلٹ چرانے کے لئے چوروں نے دو گاڑیوں کو استعمال کیا ہو گا۔ اس معاملہ میں شبہ کی بنیاد پر ایک 66 سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔
سعودی عرب میں آباد ہے ۹/ہزار سال پرانا گاؤں:سعودی عرب کے جنوب میں جزیرہ فرسان کے وسط میں ایک ایسا گاؤں بھی آباد ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے سے موجود ہے۔ پانی کے چشموں کھجوروں کے نخلستان کے درمیان واقع اس گاؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 9 ہزار سال پرانا ہے۔ اس تاریخی یادگار گاؤں کے مکان گارے، پتھروں اور کھجور کے تنوں سے بنائے گئے ہیں اور ان کے کھنڈرات اور باقیات آج بھی موجود ہیں۔
'القصار' ہیریٹیج ویلج ایک تاریخی اور سیاحتی مقام ہے۔ یہ جازان سے 40 کلومیٹر دور بحیرہ احمر کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ہے۔یہ گاؤں جزیرہ فرسان میں کھجور کا سب سے بڑا نخلستان ہے اور کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس میں موجود عمارتیں قومی تاریخی ورثے کا حصہ اور سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔ سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے سیاحت اور قومی ورثہ نے ثقافتی ورثہ کے تحفظ اور سیاحت کو فروغ دینے کے منصوبوں کے ایک حصے کے طور پر اس گاؤں کو محفوظ بنانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔مملکت کے آثار قدیمہ، عجائبات کے محقق اور سعودی ایسوسی ایشن آف ٹور گائیڈز کے ایک رکن طراد العنزی نے 'العربیہ ڈاٹ نیٹ' سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ''مؤرخین کے مطابق یہ گاؤں رومن عہد کا ہے۔ اس میں نوشتہ جات اور نقاشی بھی شامل ہیں، جب کہ 400 پرانے مکانات آج بھی موجود ہیں۔ یہ بستی حمیری دور سے ہی کھجوروں اور پانی کے چشموں کی وجہ سے مشہور ہے۔
سال ۹۱۰۲ میں جعلی انڈین کرنسی کے گراف میں بڑا اضافہ:نئی دہلی، 14 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ریزرو بینک کی سال 2018-19ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق بھاری تعداد میں بینک فراڈ کے معاملوں کے علاوہ نقلی یا جعلی نوٹوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران بینکنگ سیکٹر میں پائے گئے جملہ نقلی ہندوستانی کرنسی نوٹوں (ایف آئی سی این)میں سے ریزرو بینک میں 5.6 فیصد اور دیگر بینکوں کے ذریعے 94.4 فیصد نوٹوں کا پتہ لگایا گیا ہے۔ ریزرو بینک کے مطابق گزشتہ سال (2017-18)کے مقابل 10، 20 اور 50 روپے کے جعلی نوٹوں میں ترتیب وار 20.2 فیصدی، 87.2 فیصدی اور 57.3 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال 10 روپے کے کل 287 نوٹ، 20 روپے کے 437 نوٹ اور 50 روپے کے 23447 نوٹ پکڑے گئے تھے۔ لیکن جاریہ مالی سال 10 روپے کے 345 نوٹ، 20 روپے کے 818 نوٹ اور 50 روپے کے 222,218 نوٹ پکڑے گئے۔
اس طرح اس سال کے مقابل 2018-19 میں 100 روپے کے نقلی نوٹ تقریباً 25 فیصدی بڑھ گئے۔ اگست 2017 میں 200 روپے کے نئے نوٹوں کو چلن میں لایا گیا تھا۔ آر بی آئی کے مطابق سال 2017-18 کے تقریباً سات ماہ میں 200 روپے کے جملہ 79 نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ 2018-19ء کے دوران اس میں بھاری اضافہ ہوا اور یہ تعداد 12728 نقلی نوٹوں تک پہنچ گئی۔اس طرح تقریباً ایک سال کے اندرون بینکوں نے 200 روپے کے تقریباً 161 گنا زیادہ نوٹوں کا پتہ لگایا۔ اسی طرح 500 روپے کے نئے نوٹوں میں 121 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2017-18ء میں 500 روپے (نئے نوٹ) کے جملہ 9892 نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے جبکہ رواں سال یہ تعداد بڑھکر 21865 (221 فیصدی) نقلی نوٹوں تک پہنچ گئی ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------
شذرات
آئینہ معہد
ڈائننگ ہال کا افتتاح: معہد میں ابھی تک طلباء کے لیے کھانے کا نظم یہ تھا کہ طلباء اپنا کھانا بھگونوں میں لے کر جاتے تھے جس سے اکثر اوقات چھوٹے طلبا کو دقت ہو جاتی تھی۔ لہٰذا جدید طرز کے ڈائننگ ہال کی تعمیر ہونے تک فی الحال عارضی ڈائننگ ہال کی تعمیرکرائی گئی اور۷۱/اکتوبر سے ڈائننگ ہال میں طلبہ کو کھلانے کی شروعات کردی گئی۔ نظم بنادیا گیا ہے، طلبہ آرام سے ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
عاملہ کمیٹی المعہدالاسلامی السلفی کی میٹنگ: ۷۱/اکتوبر بروز منگل مجلس عاملہ المعہد الاسلامی السلفی کی ایک غیر معمولی میٹنگ مسجد المعہدالاسلامی السلفی میں منعقد ہوئی، جس کی شروعات مولانا عبدالحفیظ صاحب کی تلاوت سے ہوئی۔صدارت صدر معہد امام وفاء الرحمن صاحب نے کی۔ ناظم اعلیٰ شیخ رضاء اللہ عبدالکریم المدنی نے پچھلی میٹنگ کی کاروائی پڑھ کر سنائی،ہاؤس نے اس کی توثیق کی۔ بعدہ آپ نے موجودہ میٹنگ کا ایجنڈا سنایا اور پہلی شق پر گفتگو کرتے ہوئے انتخاب جدید کے بعد کی گئی تعمیری، تعلیمی اصلاحات کی مختصر رپورٹ پیش کی، آپ نے بتایا کہ عارضی ڈائننگ ہال اور مزید وضوخانوں وغسل خانوں کی تعمیر کے ساتھ مسجد کی پتائی کا کام کرایا گیاہے۔ طلبہ پہلے مغرب بعد فوراً کھالیا کرتے تھے پھر پڑھنے بیٹھتے تھے اب یہ تبدیلی کی گئی کہ مغرب بعد فورا پڑھنے بٹھایاجاتاہے اور کھانا عشاء بعد دیا جاتاہے۔ گیارہ بجے کے بعد جگنے پر پابندی ہے سب کے لیے سونا لازمی ہے تاکہ طلبانماز فجر میں پوری نشاط کے ساتھ آسکیں اور فجر بعد مکمل بیداری کے ساتھ اسباق خواندگی کریں۔
دوسری شق پر بات کرتے ہوئے شیخ نے کہا کہ کچھ لوگ واٹس اپ اور سوشل میڈیا پر معہد مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے اور غلط پروپ گنڈے کررہے ہیں۔ یہ حرکت انتہائی گھناؤنی اور قابل مذمت ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ یہ غلط پروپ گنڈے ترک کرکے معہد کی ترقی میں تعاون کریں۔ ہاؤس نے اس کی تائید کی۔ بہیڑی مسجد میں حفظ کے قیام میں کچھ پریشانی درپیش ہے، ان کا حل تلاش کرنے اور وہاں حفظ کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی۔ اساتذہ کا انکریزمنٹ شروع سال میں بجٹ کو دیکھتے ہوئے روک دیاگیا تھا اس کو بحال کیا گیا انکریزمنٹ کے ساتھ سو روپئے کے اضافہ کا بل بھی ہاؤس نے پاس کیا۔ناظم اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ آگے اضافہ، استاد کی کارکردگی کے مطابق ہوا کرے گا۔
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین یا شیخنا الفاضل
ReplyDeleteبارک اللہ فیک و زادک اللہ علما