مولانا ابو الحسن عبدالمنا ن راسخؔ
عزت ملے گی ۔۔۔ مگر کیسے؟
قارئین کرام ! ہر انسان اور مسلمان تین چیزوں سے بہت محبت کرتا ہے ، مال ، اولاد اور عزت، اور عزت کو باقی تینوں پر فوقیت حاصل ہے ، انسان اپنی عزت کو بچانے کے لیے اپنے مال اولاد کی قربانی دے دیتا ہے ، کہ کسی طرح میری عزت بچ جائے ، اللہ کی تو فیق سے میں آج بتلانا چاہتا ہوں کہ عزت کس چیز کا نام ہے ، معزز کون ہے اور عزت کیسے حاصل ہوتی ہے ۔
جو عزت چاہتا ہے
ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس پر کسی کا دباؤ نہ ہو اور تمام لوگ اس کی عزت کریں اور اس کی بات کا احترام کریں ، جو آدمی یہ چیزیں حاصل کر لے اسے معزز کہا جاتا ہے ۔ اسی عزت کے لیے کوئی کسی جگہ دھکے کھا رہا ہے اور ہر کوئی اپنا زور لگا رہا ہے ، کوئی اہل حکومت کے ہاں چکر لگا رہا ہے ، کہ مجھے عزت مل جائے اور میں معاشرہ میں معزز ہو جاؤں ، آئیے ! اللہ کا قرآن پڑھیے اللہ نے قرآن مجید میں بڑے پیارے انداز میں عزت کے متلاشیوں کو مخاطب کیا ہے : ’’مَن کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً‘‘(سورہ فاطر:۱۰)
جو عزت کا متلاشی ہے اور عزت چاہتا ہے ، وہ سن لے!سب عزتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ، زمین و آسمان اور آخرت کا مالک اللہ ہے اور آپ کی عزت کا مالک بھی اللہ ہی ہے ، ساری کی ساری عزت اللہ کے درسے ملے گی اور تمام عزتیں اللہ کے ہاں محفوظ ہیں ، عزت حاصل کرنے کے لیے اللہ کے سامنے گر جایا کرو۔
اللہ کی عزت کا خیال رکھو
ہمیں اپنی عزت کی بہت فکر ہے کہ ہمیں کوئی ذلیل نہ کر دے ،کبھی ہم نے اللہ کی عزت کی بھی فکر کی ہے اور کبھی اللہ کی عزت کا بھی خیال کیا ہے ، اگر ہم اللہ کو عزتیں دیتے اور اس کی عزت کرنے کا حق ادا کردیتے تو اللہ کبھی ہم سے یہ شکوہ نہ کرتے :
’’وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُون‘‘۔(سورہ زمر : ۶۷)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جیسے میری عزت کرنے کا حق تھا اس طرح تم لوگوں نے میرا احترام اور میری تکریم نہیں کی ۔اللہ کو عزت دینے کا مطلب یہ ہے کہ سارا جہان چھوڑ کر اپنے اللہ کے وفا دار بن جاؤ اور اللہ کے لیے ہر چیز چھوڑ دو ، کوئی دنیا دار ناراض ہوجائے تو کوئی بات نہیں لیکن اللہ کو ناراض نہ کیا کرو ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’قُلِ اللَّہُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْکَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِیَدِکَ الْخَیْْرُ إِنَّکَ عَلَیَ کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْر‘‘ ۔(سورہ آل عمران : ۲۶)
میرے بندو! میری نافرنانیاں کر کے عزت تلاش کرتے ہو ، عزت اور ذلت کے اختیارات میرے پاس ہیں ، میں عرش معلیٰ پر بیٹھ کر اگر کسی کو عزت دینے کا فیصلہ کر لو ں تو ساری کائنات مل کر بھی اس آدمی کو ذلیل نہیں کرسکتی اور جس کو میں ذلیل کرنے کا ارادہ کرلوں اس کو کوئی عزت نہیں عطا کر سکتا ۔
معلوم ہوا کہ اگر ہمیں عزت چاہیے اور دنیا اورآخرت میں عزت پانا چاہتے ہیں تو اللہ کے در پر آجائیں اور اپنے اللہ کی قدر کرلیں جو اللہ کی قدر کرتے ہیں اللہ ان کی عزت سب سے کرواتے ہیں ۔
حصول عزت کے لیے غلط راستہ نہ اپنائیں
آج ہم نے عزت کا معیار تبدیل کر لیا ہے ہمارے یہاں معزز وہ ہو تا ہے جو امریکہ و یورپ چلا جائے اور اس خاندان کا ہر فرد ہر کسی کو بتلاتا ہے کہ ہمارا فلاں صاحب امریکہ گیا ہوا ہے ، ہم نے عزت کا معیار انگریز کی غلامی کوقرار دے دیا ہے ، جب مسلمانوں نے مکہ کے کافروں کو دیکھا کہ ان کی بہت عزت اور وقار ہے ۔ان کمزور ایمان والوں نے ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے شروع کر دئیے تو اللہ نے فوراً قرآن میں اعلان کر دیا :
’’ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ أَیَبْتَغُونَ عِندَہُمُ الْعِزَّۃَ فَإِنَّ العِزَّۃَ لِلّہِ جَمِیْعا‘‘ (سورہ نساء:۱۳۹)
میرے پیغمبر کے جانثارو! کیا تم ان سے دوستی اور ان سے تعلقات عزت پانے کے لیے قائم کرتے ہو ، جان لو کہ ساری عزتوں کا مالک تمہار ا اللہ ہے ، اپنے اللہ سے عزت مانگا کرو۔
معلوم ہو اکہ کہ یورپ جانا اور امریکہ جانا عزت نہیں ہے ، ہر نوجوان اسی کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ اگر میں دوسرے ملک چلا گیا تو میں معزز بن جاؤں گا ، میری عزت بڑھ جائے گی ، حالاں کہ یہ عزت نہیں ہے ۔ نبی کریم ا پر مکہ والے جملے کسا کرتے تھے جیسے ہر آدمی کہتا ہے کہ اپنے بیٹوں کو عالم کیوں بناؤں مولویوں کی کون سی عزت ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ وَلاَ یَحْزُنکَ قَوْلُہُمْ إِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّہِ جَمِیْعاً ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔ (سورہ یونس : ۶۵)
میرے نبی ! ان لوگوں کی باتوں سے پریشان نہ ہونا کیوں کہ ساری عزت اللہ کے ہاں ہے ، وہ جسے چاہے با عزت بنا سکتا ہے ۔ اگر عزت چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ تعلق قائم کر لو۔
مومن صاحب عزت ہے اور منافق ذلیل
نبی کریم ا غزوۂ تبوک پر تشریف لے گئے ، صفوں میں عبداللہ بن ابی سلول بھی موجود تھا ، اس نے انصاری صحابیوں رضی اللہ عنہم سے کہا کہ جب تم مدینہ پہنچو گے ، ہم مہاجرین کا کھانا بند کردیں گے اور ان ۔ نبی کریم ا۔ کے ساتھیوں کو ان کے نبی سمیت مدینہ سے نکال دیں گے ،
معاذ اللہ!عبداللہ بن ابی سلول کی باتیں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے سن لیں اور دوڑتے ہوئے
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت جوشیلے نو جوان اور
جاہ و جلال کے مالک تھے ، ان کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن ابی اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو سیدھے
نبی کریم ا کے پاس چلے گئے اور بتلایا کہ رئیس المنافقین یہ باتیں کرتا ہے ۔ نبی کریم ا نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ باتیں کی ہیں ؟ اس نے قسمیں اٹھا کر انکار کر دیا ۔ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ
کو غلط قرار دے دیا ۔حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہوا کہ اللہ میری عزت کی حفاظت فرما اور مجھے سچا ثابت کر دے ، اللہ نے قرآن نازل کر دیا :
’’یَقُولُونَ لَءِن رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُون‘‘(سورۃ المنافقون:۸)
میرے پیغمبر ان لوگوں نے یہ باتیں کی ہیں کہ ہم مدینہ جاکر ان ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے ، اللہ کہتے ہیں: نہیں! بلکہ عزت اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے اور ان منافقین کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں ۔ نبی کریم ا کو اللہ نے اتنی عزت عطا کی کہ ایک تو قرآن نازل کر کے اللہ نے اس کو ذلیل کر دیا اور جب مدینہ میں داخل ہونے لگے تو اس عبداللہ بن ابی کا سگا بیٹا تلوار پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ جب تک نبی کریم ا اجازت نہ دیں گے آپ مدینہ میں پاؤں بھی نہیں رکھ سکتے ، اللہ نے بیٹے کے ہاتھوں ذلیل کر دیا ، جس آدمی کے دل میں نفاق ہے اسے اللہ اپنوں کے ہاتھوں رسوا کر وا دیتا ہے اوراللہ نے عزت مومنوں کو عطا فرمائی ہے ۔ (بخاری:۴۹۰۰، ۴۹۰۱)
تکلفات میں عزت نہیں
آج ہم حصول عزت کے لیے اور معاشر ہ میں معزز بننے کے لیے ہزاروں تکلفات کرتے ہیں ،ریاء اور نفاق کے ذریعہ عزت کی بلندی چاہتے ہیں ، جبکہ پوری انسانیت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان تکلفات کے لبادوں میں عزت تلاش کرنے والے بالآخر بری طرح ذلیل ہوئے اور اسلام ہی کو حصول عزت کا سب سے بڑا ذریعہ ماننے پر مجبور ہوگئے ۔ مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ ایک دفعہ دریائی گز ر گاہ میں داخل ہوئے اور اپنے جوتے اتا ر کر کندھوں پر رکھ لیے اور اونٹنی کی لگام پکڑ کر چلنا شروع کر دیا، حضر ت ابو عبید رضی اللہ عنہ کہنے لگے امیر المومنین ! آپ اس قدر معزز ہیں کہ پور ی امت مسلمہ کے قائد ہیں ،مگر یہ کیا کیا ؟ ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے تاریخی کلمات کہے : اے ابو عبیدہ!
انا کنا اذل قوم فاعزّنا اللہ بالاسلام ۔ (مستد رک حاکم :۲۰۴)
حصولِ عزت کے لیے ضروری اعمال
جن باتوں کی وجہ سے اللہ آدمی کو معزز بنا دیتے ہیں نبی کریم ا نے بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایاہے:ان اللہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواما و یضع بہ اٰخرین۔(صحیح مسلم ، فضائل القرآن :۱۸۹۹)جو اللہ کے قرآن سے محبت اور پیار کر تے ہیں، اللہ انہیں ساری دنیا میں عزت عطا کر دیتے ہیں اور اگر آدمی قرآن پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی کھول کر دیکھا اور ترجمہ بھی نہیں جانتا اور کہتا پھرے کہ میں چودھری اور معزز ہوں تو یہ جعلی عزت ہے ،اگر حقیقی عزت چاہتے ہو تو قرآن کی تنہائی میں بیٹھ کر تلاوت کیا کرو ۔
غزوہ احد میں اہل قرآن کی عزت
غور کیجئے! قرآن پڑھنے والوں کو اللہ نے کیسی عزتیں عطا کی ہیں ؟ غزوہ احد کے موقع پر
نبی کریم ا کے ستّر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے اور آپ ایک قبر میں دو دو اور تین تین صحابہ
رضی اللہ عنہم کو دفن کر رہے ہیں ، جب شہید کو قبر میں اتارتے تو پوچھتے کہ ان میں قرآن کو ن زیاد ہ پڑھتا اور جانتا تھا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم جس شہید کی طرف اشارہ کرتے نبی کریم ا اس کو پہلے قبر میں اتارتے ، بعد میں دوسروں کو اتارتے کیوں کہ قرآن پڑھنے والے کا مقام بلند ہے ۔
قرآن سے قابل رشک عزت
نبی کریم ا کے ایک صحابی فوت ہوئے تو آپ ا نے بہت لمبا جنازہ پڑھایا اور رو رو کر ان کے لیے دعائیں کیں اور اسی دوران سورج غروب ہوگیا ۔ نبی کریم ا نے لالٹین اٹھائی اور قبرستا ن کی طرف روانہ ہوئے ، آپ نے اپنے ہاتھوں سے اس کو قبر میں رکھا اور رو کر اس کے لیے دعائیں شروع کردیں :
رحمک اللہ ان کنت لاوّاھا ،کان تلّا ء للقرآن ۔( ترمذی :۱۰۵۷)
اے اللہ اسے معاف فرما ، کیا بات ہے کہ آپ نے اتنے خشوع کے ساتھ جنازہ پڑھایا اور اب پھر دعائیں مانگے جا رہے ہیں، وجہ کیا ہے ؟ نبی کریم انے فرمایا : اس کے اندر خوبی یہ تھی کہ یہ اللہ کا قرآن پڑھا کرتا تھا ، آئیے ! قرآن سیکھنے کی کوشش کیجئے اور قرآن کو سمجھ کر پڑھا کرو، جسے قرآن کا پیا ر ملا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگیا ۔
حصول عزت کے لیے دوسرا عظیم عمل ؍ تواضع
آج کل ہم عزت کے لیے اکڑتے ، جھگڑتے اور ہر ایک سے الجھتے ہیں جب کہ
حقیقی عزت عاجزی ، انکساری اور تواضع سے ملتی ہے ۔ نبی کریم انے فرمایا : ما تواضع احد للہ الا رفعہ اللہ۔ ( صحیح مسلم :۶۵۹۲)
حصول عزت کے لیے تیسرا عظیم عمل ؍معافی
معافی سے عزت نصیب ہوتی ہے ۔ بلکہ معافی کا جذبہ عظمت کی بلندیوں پر لے کر جاتا ہے نبی کریم انے فرمایا : ما زاد اللہ عبداً بعفو الا عزا۔ معافی سے عزت ہی میں اضافہ ہوتا ہے ۔
افسوس ! ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں نہیں آرہی، آج ہم لوگوں سے تعلقات منقطع کیے بیٹھے ہیں اور اگر کوئی صلح کروانے کی کوشش کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں مجبور نہ کرو ہمیں صلح نہیں کرنی ، ہمیں معاف نہیں کرنا ، لیکن اگر تو نے معاف کردیا تواللہ تجھے عزت عطا کر دے گا ۔
قارئین کرام ! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی پر تہمت لگ گئی ، تو آپ بڑے پریشان ہوئے ، کیوں کہ بیٹیوں اور بہنوں کی عزت والی چادر بڑی ہی حساس ہوتی ہے اور اگر ایک مرتبہ داغدار ہوجائے تو پھر وہ داغ ساری زندگی جاتا نہیں ، ابو بکر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ
نے بھی عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دے دیا ہے ، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کا خرچہ بند کر دیا تواللہ نے قرآن نازل کر دیا کہ اے ابو بکر کیا تجھے یہ منظور نہیں کہ تو اسے معاف کر دے اور میں قیامت کے دن تجھے معاف کر دوں ؟
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو اتنی عزت عطا کی کہ آج اتنا عرصہ گزر نے کے بعد بھی صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت کو کائنات سلام کرتی ہے ، آج ہم عہدکر لیں کہ اے اللہ!جس نے مجھے دکھ دیا ہے یا میرے ساتھ زیادتی کی ہے میں اسے معاف کرتاہوں ، اللہ تمہیں عزتیں عطا کر دیں گے ۔
سرکار مدینہ کا قسم اٹھانا
آج ہر شخص عزت ،عظمت اور شان و شوکت کا متلاشی ہے اور عزت وہاں تلاش کرتا ہے جہاں ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے ہیں، جہاں عزت کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔ رسول اللہ انے اللہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایاکہ قیامت تک آنے والے مسلمانو! میں اللہ کا رسول قسم اٹھاتا ہوں تاکہ تمہیں یقین ہو اور عمل کرنے میں ذرہ بھر تردد نہ رہے ،میری اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو اور ذہن نشیں کر لو ۔
وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا الا زادہ اللہ عزا۔ (ترمذی :۲۳۲۵)
جس پر ظلم کیا گیا اگر وہ اس پر صبر کرلے تو اللہ یقیناًعزت کو بڑھا دیتے ہیں ۔‘‘
مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جوابی کارروائی کی بجائے ، ظلم کا جواب ظلم میں دینے کی جگہ، اگر صبر ، خاموشی اور برداشت سے کام لیا جائے تو ایسے شخص کی عزت کو چار چاند لگ جاتے ہیں مگر افسوس کہ ہم جذبات میں وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں پورا خاند ان مرنے تک عدالتوں میں ذلیل ہوتا رہتا ہے ۔
حصول عزت کے لیے کتنی در گزری ؟
آپ ا سے پوچھا گیا کہ ہم غلطی ، زیادتی اور نا انصافی کرنے والے سے کتنی مرتبہ
در گزر کریں ؟ آپ ا نے فر مایا: فی کل یوم سبعین مرۃ ۔(ابو داؤد:۵۱۶۴، سلسلۃ احادیث صحیحۃ :۴۸۸)ہر دن میں ستر بار معاف کیا کرو ۔
قارئین کرم ! آپ آزما کر دیکھ لیں جو زیادہ در گزر کرنے والا اور معافی دینے والا ہوگا اس کی عزت ، مقام اور شان بھی زیادہ ہوگی اور جو شخص ہمیشہ کے لیے موڈ بنا لے اور معافی کی طرف آنے کی کوشش ہی نہ کرے وہ جہاں اپنی زندگی کو بد مزہ کرتا ہے وہیں دنیا وآخرت میں بھی ذلیل ہوتا ہے ۔
حصول عزت کے لیے چوتھا مبارک عمل؍ رات کا قیام
کائنات کے معزز ترین ، سرتاج الرسل ، شافع محشر حضرت محمد ا نے قیامت تک کے مسلمانوں اور عزت کے متلا شیوں کے لیے عزت و عظمت کے آسان ترین ذرائع بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی نماز تہجد کا اہتمام کرے ، یا کم از کم رات کو وتریا دو رکعت ہی پڑھ لے، اللہ دین دنیا ہر قسم کی بھلائیاں عطا فرما دیتے ہیں ۔ آپ ا نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا : واعلم ان شرف المومن قیامہ باللیل۔
’’ اے پیغمبر ا آپ بھی جان لیں ایمان والے کی سر بلندی و سرداری اسی میں ہے کہ وہ رات کو قیام کرے ۔ ‘‘(مستدرک حاکم ۴؍۳۲۴، حلیۃ الاولیاء۳؍۲۵۳)
قارئین کرام !آج ہم نے عزت و بلندی کے حصول کے لیے با زاروں ، جلوسوں اور اشتہاروں کا رخ کر لیا ہے جب کہ حقیقی عزت کے لیے راتوں کو مصلے کا رخ کرنا چاہیے۔ آئیے !
ہر بلندی کے لیے راتوں کو مصلے کی زینت بنیں ۔
حصول عزت کے لیے پانچواں عمل ؍ بے نیازی
لوگوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے والے ہمیشہ ذلت ہی کا سامنا کرتے ہیں ، بھکاری کم ہی عزت پاتا ہے، عزت کو جانے والے تمام راستے براستۂ محنت ہی جاتے ہیں ۔
امام کائنات حضر ت محمد انے ارشاد فرمایا: ’’ وعزّہ استغناء الناس‘‘ (شعب الایمان ۷؍۳۴۹، المعجم الاوسط طبرانی ۱؍۶۱؍۱)
مسلمان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ لوگوں کی طرف للچائی نظروں سے نہ دیکھے ، مانگتا نہ پھرے ، بلکہ لوگوں سے بے نیاز ہوجائے اور ہر قسم کی ضرورت کا مطالبہ صر ف اپنے رب سے کرے، وہ مطلوبہ چیز بھی دے گا اور دنیا و آخرت میں عزت بھی عطا کرے گا ۔
حصول عزت کے لیے چھٹا عمل ؍ یاد موت
رسول اللہ ﷺ نے عزت کے عالی شان محل کی طرف لے جانے والے تمام رستے بڑی وضاحت سے بیان فرما دیے اور آخر میں ایک ایسا بے مثال رستہ بیان کیا ہے کہ جس کی حیثیت
موٹر وے کی ہے ، اگر آپ اپنے اندر یہ وصف پیدا کرلیں تو آپ کی عزت کو چار چاند لگ سکتے ہیں اور وہ وصف یہ ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ اپنی موت کو یاد کریں ۔ موت کو یاد کرنے والے ہر قسم کی آوارگی سے سے بچ کر عزت و عظمت کے محل میں پہنچ جاتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ اکے ارد گرد دس انصاری صحابی بیٹھے ہوئے تھے :
ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے اور کہا اے اللہ کے رسول ا! لوگوں میں سب سے زیادہ سمجھ دار، عقل مند اور دانا کون ہے ؟آپ انے فرمایا :لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند اور سمجھ دار وہ شخص ہے جو ان میں سے موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کے لیے تیاری کرتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کی عزت اور آخرت کی بلندی پاگئے۔(الترغیب والترھیب:۴؍۲۳۸،
مجمع الزوائد۱۰؍۱۰۹)
اس چھٹے عمل میں رسول اللہ ا نے ایک ایسا جامع عمل بیان کر دیا ہے کہ جس کو یاد کرنے سے اور جس کی فکر کرنے سے انسان جہاں دنیا کی عزت پاتا ہے وہاں وہ قیامت کے دن کی
سر بلندی بھی حاصل کرلیتا ہے اور وہ ذکر موت ہے ۔ آپ معاشرے میں سروے کر لیں جن لوگوں نے موت بھلادی ہے، موت کے لیے تیاری نہیں کر رہے ایسے لوگ ہی معاشرے میں سب سے زیادہ ذلیل ہیں اور ان کو لعنت اور پھٹکار کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ۔ چاہے وہ بڑے بڑے محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہی کیوں نہ ہوں اور اس کے مقابلے میں موت کو یاد رکھنے والا شخص اور نیک اعمال سے موت کی تیاری کرنے والا خوش نصیب چاہے کسی معمولی گھر سے تعلق کیوں
نہ رکھتا ہو وہ حد درجہ محترم ، مکرم اور معزز سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ حقیقت سمجھنے کی تو فیق
عطا فرمائیں۔ ہم نے حصول عزت کے لیے جوناجائز دھندے اپنا رکھے ہیں اللہ ان کو چھوڑنے کی
تو فیق دے اور ارشادات نبویہ کے مطابق گارنٹی شدہ چھ اعمال جو انسان کو با عزت بناتے ہیں اللہ وہ ہمیں اپنانے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین!
حقیقی عزت کیا ہے ؟خواتین متوجہ ہوں
ایک آدمی کوئی وزیر یا مشیر بن جائے تو اس کے نعرے لگتے ہیں ، اخبارات میں اس کے بیانات چھپتے ہیں ، لوگو ! یہ جعلی عزت ہے حقیقی عزت یہ ہے کہ ایک عورت حبشی اور با پردہ عورت ہے ، فوت ہونے پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا اور نبی کریم انے پوچھا کہ وہ عورت نظر نہیں آرہی ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا : وہ معمولی عورت تھی ہم نے جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا ہے ، نبی کریم انے فرمایا : وہ معمولی عورت نہ تھی ، مجھے اس کی قبر پر لے چلو ، میں اس کا جنازہ دوبارہ پڑھوں گا ۔ صحیح حدیث کے مکمل الفاظ اس طرح ہیں : افلا اذنتمونی؟ فکانہم صغروا امر ھا فقال دلونی علی قبرھا فدلو فصلی علیھا۔( بخاری:۱۳۳۷، صحیح مسلم : الجنائز)
نیک عورتوں کو اس حدیث پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کی اللہ اور اس کے رسول کے ہاں کیا مقام ، حیثیت اور عزت ہے ۔ میں آج کی عورت کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بے پردگی ، اور فیشن میں عزت نہیں ہے ، اور مغرب سے آنے والے اسٹائل اپنانے میں عزت نہیں ہے ، ننگے منہ بازار جائے اور آدمی اسے عزت سمجھے ،یہ عزت نہیں یہ بے غیرتی اور دیوثیت ہے، آئیے اللہ سے معافی مانگیے، اللہ عزتیں بر کتین اور رحمتیں عطا کر ے گا ۔
تین افراد کی عزت کرنا اللہ کی عزت کرنا ہے :
نبی کریم انے فرمایا:جو آدمی تین آدمیوں کا دل سے حیا کرتا ہے وہ سمجھے کہ میں ان کا حیا نہیں کر رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ادب و احترام کر رہا ہوں ، وہ تین آدمی یہ ہیں :
۱۔سفید ریش مسلمان بزرگ ۔۲۔ عادل اور انصاف پسند حکمراں۔ ۳۔عالم دین۔
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول رحمت انے ارشادفرمایا:
(ترجمہ)’’ بزرگ مسلمان کی ، قرآن والے کی جو اس میں غلو اور بے رخی اختیار کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا ، اللہ تعالیٰ کی عزت کرنے کے ہم معنیٰ ہے یعنی ان کی عزت ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی عزت کرنا ہے ۔ ‘‘(ابو داؤد:۴۸۴۳)
عموماً معاشرہ میں دیکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا اشخاص کو عزت دینے والا ہمیشہ خو د بھی
با عزت رہتا ہے اور مذکورہ بالا تین ہستیوں کو بنظر حقارت دیکھنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار ہی رہا ہے،
اللہ تعالیٰ ہمیں عزت والا اور عزت دینے والا بناد ے۔
حدیث رسول ا کے طالب علم کی انمول بات
ایک محدث امام ابراہیم بن شیبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : العز بالتقوی والشرف بالتواضع ۔ (مدارج السالکین۲؍۳۴۲)
عزت تقویٰ میں ہے اور فضیلت تواضع انکساری میں ہے ۔ غریبوں کی تذلیل کر کے عزت تلاش کرنے والو! ان چیزوں میں عزت نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمعیا۔ جو عزت کا متلاشی ہے وہ اللہ کا تابع دار بن جائے ، اللہ اسے عزت اور شرف عطا کر ے گا۔
No comments:
Post a Comment