- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 25, 2016


عامر محمد عامر الھلالی 
ترجمانی :حافظ عبداللہ سلیم
(مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں؟  (۴

نواں طریقہ:جان رکھو! ہر آزمائش و مصیبت پر ناراض ہونااور اس کو برا سمجھنا تمہارے حق میں ضرر رساں ہے ۔
’’حزن ‘‘کا معنی ہے ماضی میں آکرگزر جانے والے مصائب اور تکالیف پر غم و افسوس کرنا اور ’’تسخط‘‘ کا مطلب ہے نازل ہونے والی آزمائش پر تنگ دل اور بوجھل ہونا اور اس پر 
بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کرنا ۔ 
’’ساخط‘‘ (ناراض ہونے والا ) وہ ہے کہ جب اس پر اللہ کے کسی ایسے فیصلے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کو وہ نا پسند کرتا ہے تو وہ اس پر تنگ دلی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بے صبری اور عدم رضا کا اظہارکرتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ بلا شبہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور یقیناًاس کے حق میں بہتر ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اس کے لیے اس میں بڑے فائدے ہیں لیکن وہ اس کی بجائے تنگ دل ہوتا ہے اور تکلیف محسوس کرتا ہے توایسے شخص کے لیے نہ مستقبل میں کسی خیر و بھلائی کی امیدکی جاسکتی ہے اور نہ موجودہ حالت میں کسی راحت وسکون کی ،کیوں کہ اس نے اللہ کے فیصلے اور تقدیر پر صبر کیا ہے اور نہ ہی اس پر راضی ہوا ہے ۔ 
لہٰذا اللہ کی تقدیر و فیصلے پر ناراض ہونے سے بچو اور جان لو کہ اللہ کی تقدیر و فیصلے پر ناراض ہونا فکر ، غم ، حزن ، دل کے منتشر ہونے، بدحال ہونے اور اور اللہ کے متعلق ایسے گمان کا دروازہ کھول دیتا ہے جو اس کے لائق نہیں ہے ۔ (مدارج السالکین۲؍۲۰۰)
نیز اللہ کی تقدیر و قضاء پر ناراض ہونا بندے پر اللہ ، اس کے فیصلے ، اس کی تقدیر ، اس کی حکمت اور اس کے علم کے متعلق شک و شبہہ کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ پس تقدیر و قضاء پر ناراض ہونے والا لا شعوری طور پر اس شک سے کم ہی بچ پاتا ہے جو شک اس کے دل میں داخل ہوکر اس میں پیوست ہوجاتا ہے ۔ پس اگر وہ اپنے دل کی خوب جانچ پڑتال کرے تو وہ اپنے یقین کو
شک و شبہ کی بیماری میں مبتلا پائے گا ۔ بلا شبہ رضااور یقین دو بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور شک و ناراضگی بھی دو اکھٹے رہنے والے ساتھی ہیں ۔ (مدارج السالکین۲؍۲۰۱)
اور جب بندے پر اس کے مقدر میں کی ہوئی آفت و آزمائش نازل ہوتی ہے اور وہ اس پر تنگ دل ہوتا ہے تو اس پر اس (آفت و آزمائش) کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، لیکن اگر اس کی ناراضگی اس کی عاجزی و در ماندگی کو فائدہ پہنچانے والی ہوتو اس کے لیے اس میں راحت و سکون ہوگا۔ (مدارج السالکین۲؍۲۰۰)
آپ انے فرمایا : ’’ وان اللہ اذا احب قوما ابتلاہم فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط‘‘۔ (سنن ترمذی:۲۴۰۱)
اور بلا شبہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں ، پس جو (آزمائش پر ) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ کی ) رضا ہے اور جو ناراض ہو ا اس کے لیے (اللہ کی ) ناراضگی اور غصہ ہے ‘‘۔
آزمائش پر ناراضگی کے نقصانات:
آزمائش پر جزع وفزع کرنے ،ناراض ہونے کے بعض نقصانات کا خلاصہ درج ذیل ہے : 
۰ بلا شبہ جب بندہ اپنے مقدر پر ناراض اور غصے ہوتا ہے تو اس کا غم ، فکر اور صدمہ بڑھ جاتا ہے ۔ 
۰ یقیناًمقدر پر ناراضگی انسان پر مایوسی کا دروازہ کھو ل دیتی ہے اور اس کے سامنے امید و آرزو کا دروازہ بند کردیتی ہے ۔ تصور کرو کہ مایوسی کی حالت کس قدر غم ناک ہوگی ؟
۰ بے شک جب وہ اپنے مقدر پر ناراض ہوگا تو اس کو (صبرکرنے کا ) اجرو ثواب نہیں ملے گا ، بلکہ اس کا گناہ بڑھ جائے گا اور اس کی برائیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ 
۰ جب بندہ اپنے مقدر پر ناراض ہوتا ہے تو اس پر اس کا رب جل جلالہ ناراض ہوجاتا ہے اور جب اس کارب ہی اس پر ناراض ہوگیا تو اس کے لیے اس کے بعد کون سی فلاح و کامیابی کی امید کی جاسکے گی؟
۰جب وہ آزمائش سے ناراض ہوتا ہے تو اس پر آزمائش کی تکلیف بڑھ جائے گی اور آزمائش پر ناراضگی ، آزمائش کی تکلیف کو کچھ بھی کم نہیں کرے گی ۔
۰ جب انسان آزمائش پر ناراض ہوتا ہے تو اس آزمائش کے ٹل جانے کے بعد اس کے لیے کسی اچھے انجام کی امید نہیں کی جا سکے گی اور وہ آزمائش کے وہ ثمرات حاصل نہیں کر پائے گا جو ثمرات صبر کرنے والے ، ثواب کی امید رکھنے والے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ 
۰ جب وہ اس آزمائش پر ناراض ہوگا تو جو آزمائش اس کے بعد آئے گی وہ لازمی طور پر اس سے زیادہ تکلیف دہ اور غم ناک ہوگی۔
دسواں طریقہ:اللہ نے جو تم پر مصیبت نازل کی ہے اس کے متعلق تم اللہ سے راضی رہو!
جو تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے اس پر ناراضگی و غصے کا اظہار نہ کرو ، بلکہ اس آفت پر جو اللہ نے تمہیں پہنچائی ہے ، اللہ سے راضی اور اس کے سامنے جھکے رہو اور اللہ نے تمہارے لیے جو تدبیر کی ہے اس پر خوش رہو۔ بندہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر پر کیوں خوش نہ ہو حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بلا شبہ
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و لطف سے اس کے لیے اچھی چیز کا انتخاب کیا ہے اور اس کو خیر و بھلائی سے نوازا ہے اگرچہ اس میں قدرے تکلیف اور مشقت ہے ، لہٰذا اول و آخر ، ظاہر و باطن اسی کے لیے حمد ہے اور اس کی احسان مندی ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ ومن یومن باللہ یھد قلبہ۔(التغابن:۱۱)
’’اور کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ (اللہ)اس(ایمان لانے والے) کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔ ‘‘
امام علقمہ رحمہ اللہ نے کہا: ’’ہی المصیبۃ تصیب الرجل ، فیعلم انھا من عنداللہ ، فیسلم لھا ویرضی‘‘(تفسیر الطبری۱۲؍۱۱۶)
اس مذکورہ آیت میں اس مصیبت کا ذکر ہے جو بندے کو پہنچتی ہے تو وہ یہ جان کر کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اس پر راضی ہو کر سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے ۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم اسے بیا ن کرتے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا:’’ وان اللہ اذا احب قوما ابتلاہم ، فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط‘‘۔(ترمذی:۲۴۰۱)
’’ یقیناًاللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں ، پس جو شخص اس پر راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ کی) رضا ہے ، اور جو اس پر ناراض ہوا تو اس پر (اللہ کی ) ناراضگی ہے ۔ ‘‘
نبی کریم ااپنی ایک دعا میں یہ پڑھا کرتے تھے :
’’ واسألک الرضا بعدالقضاء‘‘(النسائی :۱۳۰۶)
’’ اورمیں تجھ سے تیرے فیصلے کے بعد اس پر راضی ہونے کا سوال کرتا ہوں ‘‘۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ بلا شبہ جب اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس پر لوگ راضی ہوں ‘‘۔
اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ یقیناًاللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف کے ساتھ یقین و رضا کا بدلہ خوشی رکھا ہے اور شک و ناراضگی کا بدلہ غم و حزن رکھا ہے ، لہٰذا جو شخص اللہ کی رضا پر راضی ہوتا ہے وہ تنگی اور خوش حالی میں سے جس حالت میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے علاوہ کی تمنا اور خواہش نہیں کرتا ‘‘۔
اسی طرح کی روایت حضر ت عمر ، ابن مسعود اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ۔
حضر ت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کہا:’’ میں اس حا ل میں صبح کرتا ہوں کہ میں صرف اللہ کی تقدیر اور اس کے فیصلے پر ہی خوش ہوتا ہوں ‘‘۔
پس جو شخص صبر کے اس درجہ کو پہنچ گیا اس کی ساری زندگی عیش و آرام میں گزرتی ہے اور وہ خوش و خرم رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
’’ من عمل صالحا من ذکر و انثی وھو مومن فلنحینہ حیٰوۃ طیبۃ‘‘۔(النحل:۹۷)
’’ جو بھی نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناًہم اسے ضرور زندگی 
بخشیں گے ، پاکیزہ زندگی ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض سلف نے کہا ہے کہ ’’ حیات طیبۃ‘‘ سے مراد رضا اور قناعت و فرماں برداری والی زندگی ہے ۔ 
عبدالواحد بن زید نے کہا : اللہ کی طرف سے آزمائش پر صبر و رضا للہ کی خوشنودی کا بہت بڑا دروازہ ہے اور دنیا میں ہی جنت اور عبادت گزار لوگوں کا عیش و آرام ہے (الحکم۱؍۴۸۶،۴۸۷)۔ 
جو شخص اللہ کے افعال پر اس سے راضی ہونے کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے تو وہ
رسول اللہ اکے احوال پر غور و فکر کرے ۔ آپ کا اللہ کے متعلق یہ اعتقاد تھا کہ وہ خالق اور مالک ہے اور جو مالک ہوتا ہے اس کو مملوک ، (جس کا وہ مالک ہوتا ہے )میں تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے ۔
نیز آپ اکا اللہ کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ حکیم ہے اس کا کوئی کام عبث اور بے کار نہیں ہے ، تو 
آپ انے اللہ کے سامنے یونہی سر تسلیم خم کر دیا جیسے ایک مملوک اپنے حکیم مالک کے سامنے سر تسلیم خم کیا کرتا ہے ، پس آپ ﷺ پر عجیب و غریب حالات گزرتے تھے مگر آپ اکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آتی تھی اور نہ ہی آپ اکی طبیعت میں کوئی تنگی اور ملال آتا تھا ۔ 
آپ ااپنی زبان مبارک پر کبھی یہ الفاظ نہیں لاتے تھے : ’’ اگر ایسے ہوتا ( تو یہ تکلیفیں نہ آتیں ) ‘‘ بلکہ آپ االلہ کی تقدیر وں پر یونہی ثابت قدم رہتے جیسے پہاڑ تند و تیز آندھیوں کے سامنے ثابت اور قائم رہتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment