- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 25, 2016


مولانا ابوا لکلام آزادرؔ حمہ اللہ
زکوٰۃ کا نظمِ شرعی 

قرآن نے زکوٰۃ کا معاملہ ایک خاص نظام سے وابستہ کر دیا ہے اور اسی نظام کے قیام پر اس کے تمام مقاصد و مصالح کا حصول موقوف ہے ۔ زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے، بالکل اسی طرح کا ٹیکس جس طرح آج کل انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ پس اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ہر شخص خود ہی اپنا ٹیکس نکالے اور خود ہی خرچ بھی کر ڈالے ، بلکہ یہ تھا کہ حکومت اپنے کلکٹروں کے ذریعے ہر شخص سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرے اور پھر ضروریاتِ وقت کے مطابق جس مصرف کو مقدم دیکھے اس میں خرچ کرے ۔ جب ایک شخص نے حکومت کے مقررہ عامل کو اپنی زکوٰۃ دے دی، اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ۔ چنانچہ اسی لیے کلکٹروں اور عاملوں کی تنخواہ کا بار بھی اسی فنڈ پر ڈال دیا اور صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’ والعالمین علیھا ‘‘ جو کارندے وصول کے لیے مقرر ہوں ان کے ضروری مصارف ۔ اگر ادا ئیگی کے لیے یہ بات ضروری نہ ہو تی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مصارف کی مد میں مستقلًا عمال حکومت کا ذکر کیا جاتا ۔
اور پھر یہی وجہ ہے کہ صاف و صریح لفظوں میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس باب میں عمال حکومت کی اطاعت کریں اور بلا عذر زکوٰۃ ان کے حوالے کردیں ۔ حتی کہ عمال اگر ظالم ہوں یا بیت المال کا روپیہ ٹھیک طور پر خرچ نہ ہو رہا ہو جب بھی اصلاح حال کی سعی کے ساتھ ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے ۔ یہ نہیں کرنا چاہیے کہ زکوٰۃ بطور خود خرچ کر ڈالی جائے ۔ بشیر بن خصامہ کی روایت میں ہے کہ لوگوں نے کہا :’’ان قوما من اصحاب الصدقۃ یعتدون علینا‘‘ عمال کا ایک گروہ صدقہ لینے میں ہم پر زیادتی کرتا ہے ۔ کیا اس کا مقا بلہ کریں ؟ فرمایا : نہیں (ابو داؤد)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں صاف موجود ہے کہ :’’ ادفعوا الیہم ما صلوا‘‘جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انہیں دیتے رہو ۔ 
بنو امیہ کے زمانے میں جب نظام خلافت بد ل گیا اور حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں ؟ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انہیں کو دینی چاہیے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر ڈالو۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ایک شخص نے پوچھا : اب زکوٰۃ کسے دیں ؟کہا :وقت کے حاکموں کو ۔اس نے کہا : ’’اذا تیخذون بھا ثیا بااو طیبا‘‘ وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ فرمایا :’’ وان ‘‘اگر چہ ایسا کرتے ہوں مگر دو انہیں کو ۔
(ابن ابی شیبہ) ، کیوں کہ زکوٰۃ کا معاملہ بغیر نظام کے قائم نہیں رہ سکتا ۔ 
صدر اول سے لے کر آخر عہد عباسیہ تک یہ نظام بلا استثناء قائم رہا ۔ لیکن ساتویں صدی ہجری میں جب تا تاریوں کا سیلاب تمام اسلامی ممالک میں امنڈ آیا اور نظامِ خلافت معدوم ہوگیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ فقہاء حنفیہ کے جس قدر شروح و متون اور کتب فتاویٰ آج کل متداول ہیں ، زیادہ تر اسی دور میں یا اس کے بعد لکھے گئے ہیں ۔ اس وقت پہلے پہل اس بات کی تخم ریزی ہوئی کہ زکوٰۃ کی رقم بطور خود خرچ کر ڈالی جائے ، کیوں کہ غیر مسلم حاکموں کو نہیں دی جاسکتی۔مگر ساتھ ہی فقہاء نے اس پر بھی زور دیا کہ جن ملکوں میں اسلامی حکومت قائم نہیں رہی ہے اور اعادۂ حالت فوراً ممکن نہیں ، وہاں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنا امیر مقر ر کر لیں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہے ، معدوم نہ ہوجائے ۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کو بتدریج اس نظام کی اہمیت سے مسلمان غافل ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا زکوٰۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خود حساب کر کے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود ہی خرچ کر ڈالیں ۔ حالاں کہ جس زکوٰۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعاً یہ طریقہ نہیں ہے ، اور مسلمانوں کی جو حماعت اپنی زکوٰۃ کسی امین زکوٰۃ یا بیت المال کے حوالے کرنے کی جگہ خود ہی خرچ کر ڈالتی ہے ، وہ دیدہ و دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقیناًعند اللہ اس کے لیے جواب دہ ہوگی ۔ 
اگر کہا جائے کہ ہندوستا ن میں اسلامی حکومت موجود نہیں ، اس لیے مسلمان مجبور ہوگئے اور انفرادی طور پر خرچ کر نے لگے تو شرعاً و عقلاً یہ عذر مسموع نہیں ہوسکتا ، اگر اسلامی حکومت کے فقدان سے جمعہ ترک نہیں کر دیا گیا جس کا قیام امام و سلطان کی موجودگی پر موقوف تھا تو زکوٰۃ کا نظام کیوں ترک کردیا جائے ؟ کس نے مسلمانوں کے ہاتھ اس بات سے باندھ دیے تھے کہ اپنے اسلامی معاملات کے لیے ایک امیر منتخب کر لیں یاایک مرکزی بیت المال پرمتفق ہوجائیں یااقلاً(کم ازکم) ویسی ہی انجمنیں بنالیں جیسی انجمنیں بے شمار غیر ضروری باتوں کے لیے ، بلکہ بعض حالتوں میں بدع و محدثات کے لیے انہوں نے جا بجا بنالی ہیں ۔ 
اسلام نے اجتماعی زندگی کا ایک پورا نقشہ بنایا تھا ۔ جہاں اس کے چند خانے بگڑے سمجھ لو پورا نقشہ بگڑ گیا ۔ چنانچہ اس ایک نظام کے فقدان نے مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی مختل کردی ہے۔لوگ اصلاح کے لیے طرح طرح کے ہنگامے بپا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں انجمنوں اور قومی چندوں کے ذریعے وقت کی مشکلوں اور مصیبتوں کا علاج ڈھونڈھ نکالیں گے ، حالاں کہ مسلمان کے لیے اصلی سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی نیا طریقہ ڈھونڈھ نکالیں ، سوال یہ ہے کہ اپنے گُم گشتہ طریقے کا کھوج لگائیں : 
درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست
زبخت من خبر آرید تاکجا خفتست
اگر محض دولت مند افراد کے عطیوں اور قومی انجمنوں کے نظام سے قوم کا اقتصادی مسئلہ حل ہو سکتا تو آج یورپ اور امریکہ سے بڑھ کر کون ہے جو ان دونوں باتوں کا انتظام کر سکتا ہے ؟ لیکن معلوم ہے کہ ان کا کوئی قومی فنڈ اور کوئی قومی نظام بھی نچلے طبقوں کی بے کاری اور متوسط طبقے کا افلاس روک نہ سکا اور اب اجتماعی مسئلے کا ہلاکت آفریں خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں ، قوم کی اجتماعی زندگی کے قیام کے لیے کبھی کفیل نہیں ہو سکتیں ۔ اس صورت حال کا علاج صرف وہی ہے جو اسلام نے تیرہ سوسال برس پہلے تجویز کیا تھا ، یعنی قانون سازی کے ذریعے قوم کی پوری کمائی کا ایک خاص حصہ کم زور افراد کی خبر گیری کے لیے مخصوص کر دینا کہ ’’ تؤخذ من اغنیاۂم فترد فی فقراۂم‘‘ اور ’’ کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ 
بہر حال یہ بات یاد رہے کہ زکوٰۃ کی نوعیت عام خیرات کی سی نہیں ہے ، بلکہ یہ اپنے پورے معنوں میں ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت نے ہر کمانے والے فر د پر لگا دیا تھا ، بشرطیکہ اس کی کمائی اس کی ذاتی ضروریات زندگی سے زیادہ ہو۔ موجودہ زمانے کے انکم ٹیکسوں میں اور اس میں صرف دو باتوں کا فرق ہے ۔ایک یہ کہ اپنی نوعیت میں یہ زیادہ وسیع ہے ۔ یعنی صرف کاروبار کی گھٹتی بڑھتی آمدنی ہی پر عائد نہیں ہوتا ، بلکہ اندوختہ پر بھی واجب ہوجاتا ہے ، اگر چہ اس سال کوئی نئی آمدنی نہ ہوئی ہو ۔ نیز اس طرح کی تمام ملکیتیں بھی اس میں داخل ہیں جو بڑھنے کی استعداد رکھتی ہوں ، مثلاً مویشی ۔ دوسری یہ کہ مقصد کے لحاظ سے یہ ایک خاص مصرف رکھتا ہے جس کی مختلف صورتیں معین کردی گئی ہیں ۔ اسٹیٹ کو حق نہیں کہ ان مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے ۔ 
قرآن نے یہودیوں کی اس گم راہی کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے احکام شرع کی تعمیل سے بچنے کے لیے شرعی حیلے نکال لیے تھے ۔ افسوس!ہے کہ مسلمانوں میں بھی اس گمراہی نے سراٹھایا ، 
حتی کہ حیلے کا معاملہ بعض کتب فقہ کا ایک مستقل باب بن گیا ، ازآں جملہ ایک حیلہ زکوٰۃ کے باب میں بھی مشہور ہے ۔ طریقہ اس کا یہ بتلایا جاتا ہے کہ جو شخص زکوٰۃ سے بچنا چاہے وہ کسی آدمی سے بخش دینے اور بخشوالینے کا فرضی معاملہ کر لے اور قبل اس کے کہ برس پورا ہو ، اپنا تمام معاملہ اس کے نام ہبہ کردے ، پھر وہ برس ختم ہونے سے پہلے وہی مال اس کے نام ہبہ کردے گا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں پر سے باوجود مال دار ہونے کے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گا ۔ مثلاً شوہر نے اپنی بیوی سے رجب کے مہینے میں کہہ دیا : میں نے اپنا مال تجھے ہبہ کر دیا ۔ اس نے کہا قبول۔ اب شوہر پر زکوٰۃ نہیں رہی ، کیوں کہ قبل اس کے کہ سال تمام ہو وہ صاحب نصاب نہ رہا ۔ البتہ بیوی پر پڑگئی ، بشرطیکہ بارہ مہینے گزر جائیں ، لیکن وہ بارہ مہینے کیوں گزرنے دے گی ؟ وہ جمادی الاولیٰ میں شوہر سے کہہ دے گی : میں نے تمام مال اب تمہیں ہبہ کردیا ۔ اس طرح اس نیک بخت پر سے بھی زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔
قصہ کوتاہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود 
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنی فسق وضلالت کا انتہائی مرتبہ ہے اور جوشخص اس طرح کی مکاریاں کر کے احکام الٰہی سے بچنا چاہتا ہے ، اس کی معصیت ان لوگوں سے بدرجہا زیادہ ہے جو سیدھی سادی طرح ترک اعمال کے مر تکب ہوئے ہیں ۔ یہ بات کہ ایک شخص سے جرم ہوگیا ، محض جرم ہے ، مگر یہ بات کہ ایک شخص جرم کو 
بے جرمی و پاک عملی بنا کر کرتا ہے ، صرف جرم ہی نہیں ہے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور صرف اس کی عملی زندگی ہی کو نہیں بلکہ ایمان و فکر کو بھی تاراج کر دینے والا ہے ۔ 
یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اس طرح کے حیلوں کا چرچا پھیلا ، تمام سلف امت نے اس کاانکار عظیم کیا اور ائمہ و فقہاء میں کوئی نہیں جس نے انہیں جائز رکھا ہو۔ 
ایک اور غلط فہمی اس باب میں یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اپنے مفلس رشتہ داروں کی خبر گیری کا یہی طریقہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقوم سے ان کی مدد کی جائے۔ 
بلا شبہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ غیروں سے پہلے اپنے محتاج رشتہ داروں کی خبر لے اور قرآن نے صدقات و خیرات کے معاملے میں جو اصلاحات کی ہیں ، من جملہ ان کے ایک بڑی اصلاح یہ ہے کہ رشتہ داروں کی اعانت کو بھی خیرات قرار دے دیا ، بلکہ خیرات کا سب سے پہلا اور بہتر مصرف :’’ قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین‘‘(آل عمران:۲۱۵) ہے۔
لیکن زکوٰۃ جو خیرات کی ایک خاص قسم ہے اس لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ لوگ خیرات کی دوسری قسموں سے ہاتھ روک لیں اور اپنے محتاج رشتہ داروں کی مدد کا بوجھ بھی اسی پر ڈال دیں ۔ زکوٰۃ وہی دے گا جو صاحب استطاعت ہو۔ اور اگر ایک شخص خوش حال ہے اور اس کے رشتہ دار تنگی
و محتاجی میں مبتلا ہو گئے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس کا فرض ہے کہ ان کی خبر گیری کرے ۔ اگر نہیں کرے گا تو یقیناًعنداللہ جواب دہ ہوگا ، کیوں کہ صلہ رحمی کا حق خدا کا ٹھہرایا ہوا حق ہے’’واتقوا اللہ الذی تسا ء لون بہ والارحام‘‘بلا شبہ اس کی یہ خبر گیری اس کے لیے خیرات کا بہترین عمل ہوگی ، لیکن خبر گیری ہر حال میں اس کا اسلامی فرض ہے ۔ یہ طریقہ کسی حال میں بھی شرعی نہیں ہوسکتا کہ باوجود خوش حال ہونے کے اپنے رشتہ داروں کو فقر و فاقے میں چھوڑ
دیا جائے اور پھر اگر کچھ دیا بھی جائے تو اسے زکوٰۃ کی مد میں شمار کرلیا جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کوئی خاص اسلامی عمل ہی ترک نہیں کر دیا ہے ، بلکہ ان کی پوری زندگی غیر اسلامی ہوگئی ہے۔ ان کی فکری حالت غیر اسلامی ہے ، ان کی عملی رفتار غیر اسلامی ہے، ان کا دینی زاویۂ نگاہ غیر اسلامی ہوگیا ہے ، وہ اگر اسلامی احکام پر عمل بھی کرنا چاہتے ہیں تو غیر اسلامی طریقے سے اور یہ دینی تنزل کی انتہا ہے: ’’ فما لآولاء القوم لا یکا دون یفقہون حدیثا‘‘(۴:۷۸)
ایک عام اور سب سے زیادہ مہلک غلط فہمی یہ پھیل گئی کہ لوگ سمجھتے ہیں زکوٰۃ دے دینے کے بعد انفاق و خیرات کے اور تمام اسلامی فرائض ختم ہوجاتے ہیں ۔ جہاں ایک شخص نے رمضان میں اٹھنیوں اور روپیوں کی پڑیا ں باندھ کر تقسیم کے لیے رکھ دیں ، سال بھر کے لیے اسے ہر طرح کے انسانوں و اسلامی تقاضوں سے چھٹی مل گئی !
حالاں کہ ایسا سمجھنا یک قلم اسلام کو بھلادینا ہے ۔ اسلام نے مسلمانوں کو جس طرح کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے ، وہ محض اپنے بیوی بچوں کے پیٹ ہی کی زندگی نہیں ہے ، بلکہ منزلی ، خاندانی ، معاشرتی ، جماعتی اور انسانی فرائض کی ادائیگی کی ایک پوری آزمائش ہے اور جب تک ایک انسان اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا اسلامی زندگی کی لذت اس پر حرام ہے ۔ 
اس پر اس کے نفس کا حق ہے ، اس کے والدین کا حق ہے ، رشتہ داروں کا حق ہے ، بیوی بچوں کا حق ہے ، ہمسایہ کا حق ہے اور پھر تمام نو ع انسانی کا حق ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق یہ تمام فرائض ادا کرے اور انہیں فرایض کی ادائیگی پر اس کی زندگی کی ساری دنیوی اور اخروی سعادتیں موقوف ہیں :واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربیٰ والیتٰمٰی والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم‘‘(۴:۳۶)
یہ تمام فرائض ادا نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ انفاق و خیرات کے لیے انسان کا ہاتھ کشادہ نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعمال میں سے کسی عمل پر اتنا زور نہیں دیا جس قدر نماز اور انفاق پر ۔ اور منافقوں کی سب سے بڑی پہچان اسی سورت میں (سورۂ توبہ)یہ بتلائی کہ ان کی مٹھیاں بند رہتی ہیں،انفاق کے لیے کھلتی نہیں :’’ ویقبضون ایدیہم‘‘(۹:۶۷)اور اگر کچھ دیتے بھی ہیں تو مجبور ہو کر ’’ ولا ینفقون الا وہم کٰرہون‘‘(۹:۴۵)اور مومنوں کی نسبت فرمایا : ’’ینفقون اموالہم بالیل والنھار سرّا وعلانیۃ‘‘(۲:۲۷۴)مومن وہ ہیں جن کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہتا ہے رات ،دن ، پوشیدہ اور ظاہر ،ہر حال میں سر گرم انفاق رہتے ہیں ۔ نیز فرمایا: یہ شیطانی خیال ہے کہ خرچ کرنے سے ہم محتاج ہوجائیں گے ۔ اور اس راہ میں بخل’’ فحش ‘‘ ہے ، یعنی سخت قسم کی برائی۔ اور اللہ انفاق کا حکم دے کر تمہیں مغفرت اور خوش حالی کی راہوں پر لگاتا ہے :’’ الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃ وفضلا‘‘(۲:۲۶۷)پس یہ سمجھنا کہ جہاں سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ کا ٹیکس دے دیا ؛انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالبات پورے ہوگئے ، صریح قرآن کی تعلیم سے اعراض کرنا ہے ۔ زکوٰۃ تو ایک خاص قسم کا ٹیکس ہے اور ایک خاص مقصد کے لیے لگایا گیا ہے جو سال میں ایک مرتبہ دینا پڑتا ہے ، لیکن ہماری زندگی کا ہر چوبیس گھنٹا ہم سے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر ہم اسلامی زندگی کا توشہ لے کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حسب استطاعت اس کے تمام مطالبات پورے کریں ۔

No comments:

Post a Comment