مولانا ریاض احمدریاضی
استاذ : المعہد ،رچھا ،بریلی
روزہ کے چند اہم احکام و مسائل
روزہ ایک اہم عبادت ہے ، اس کے کچھ آداب و احکام ہیں ، ان میں سے بعض شر ط، بعض وجوب اور بعض استحباب کا درجہ رکھتے ہیں ، ایک روزہ دار کے لیے ان احکام کی معرفت و جانکاری انتہائی ضروری ہے تاکہ اس کا روزہ صحیح اور عند اللہ مقبول ہو ۔
۰ فرض روزہ کی نیت رات میں کرنی ضروری ہے، طلوع فجر سے پہلے اگر کسی نے فرض روزہ کی نیت نہیں کی تو اس کا روزہ درست نہ ہوگا ۔ نبی کریم انے ارشاد فرمایا : ’’ من لم یبیت الصیام قبل طلوع الفجر فلا صیام لہ ‘‘۔ (رواہ اصحاب السنن)جس نے طلوع فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہیں کی تو اس کا روزہ درست نہیں ۔
نفلی روزہ کی صحت کے لیے رات میں نیت ضروری نہیں ہے ،جیسا کہ نبی کریم ا کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ آپ ا امہات المومنین کے پاس تشریف لاتے اور ان سے پوچھتے کہ گھر میں کچھ کھانا ہے ، اگر جوا ب نفی میں ملتا تو آپ ا فرماتے:’’ فانی اذا صائم‘‘
کہ تب میں روزہ سے ہوں ۔ (مسلم )
یہا ں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ روزہ دل کے ارادے کا نام ہے زبان سے نیت خلاف سنت ہے ۔
۰سحری کھانا مستحب اور باعث برکت ہے ۔ نبی کریم انے فرمایا :
’’ تسحروا فان فی السحور برکۃ ‘‘ سحری کھا ؤ اس لئے کہ سحری کے اندر برکت ہے ۔(مسلم )
بلکہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے روز وں کے درمیان سحری ہی سے فرق ہے ، نبی کریم ا
نے فرمایا: ’’ فصل مابین صیامنا و صیام اہل الکتاب اکلۃ السحر‘‘(مسلم )
ہمارے اور یہود و نصاری کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے ۔
سحری تاخیر سے کھانا مستحب ہے، عن زید بن ثابت قال تسحرنا مع رسول اللہ ﷺ ثم قمنا الی الصلاۃ قال انس قلت لزید کم کان بین الآذان والسحور قال قدر خمسین آیہ ۔(صحیحین )
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زید سے پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ۔ کہا پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۔
۰ افطار میں جلدی کرنا مستحب ہے ۔ غروب آفتاب کے بعد روزہ دار کو بلا تاخیر روزہ افطار کرنا چاہیے ۔ نبی کریم ا نے فرمایا : لایزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر‘‘۔(صحیحین)
لوگ ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ افطار ی میں جلدی کرتے رہیں گے ۔
۰ اگر کوئی شخص پورا دن سویا رہا تو اس کا روزہ درست ہے اس لیے کہ نیند سے ادراک واحساس ختم نہیں ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص پورا دن بے ہوش رہتا ہے تو اس پر اس دن کی قضا لازم ہے اس لیے کہ بے ہوشی کی وجہ سے شعور واحساس کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے ۔ (من احکام الصیام ، عبدالعزیز بن عبداللہ الراجحی؍۵)
۰ حالت جنابت میں روزہ رکھنا جائز ہے ۔ اگر کوئی شخص جنبی تھا، اس نے حالت جنابت میں سحری کھائی اور غسل نہیں کیا یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی تو اس کا روزہ درست ہے بشرطیکہ طلوع فجر کے وقت اس نے کھانا پیناودیگر مفطرات صوم ترک کر دیا ہو ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ’’ ان رسول اللہ ﷺ کا ن یدرکہ الفجر وہو جنب من اہلہ ثم یغتسل و یصوم‘‘(بخاری، کتاب الصوم ، باب الصائم یصبح جنباً)
رسول اکرم ا کو بعض اوقات اس حالت میں فجر ہوجاتی کہ آپ ا ہم بستری کرنے کی وجہ سے جنبی ہوتے پھر غسل کر کے روزہ رکھ لیتے ۔
۰دوران روزہ محتلم ہوجانا ؛روزہ دار کو اگر روزہ کی حالت میں احتلام ہوجائے تو اس سے اس کاروزہ فاسد نہیں ہوگا۔ ایسا شخص غسل کرے گا اور اس کا روزہ صحیح ہے کیوں کہ احتلام کے اندر اس کا کوئی ارادہ اور اختیار نہیں ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ‘‘
اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا ہے ۔ اور نبی کریم ا نے اسے مفسد صوم بھی نہیں بتلایا ہے ۔(فتاویٰ ارکان اسلام:۴۸۰)
۰ روزہ دار کا بیوی کو بوسہ لینا: روزہ دار کے لیے اپنی بیوی سے بوس وکنار کرنا جائز ہے بشر طیکہ شہوت کے ہیجان اور انزال منی سے مطمئن و مامون ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : ’’ کان النبی ﷺ یقبل وہو صائم و یباشر وھو صائم ولکنہ املککم لا ربہ ‘‘۔
نبی کریم ا بوسہ دیتے تھے اس حال میں کہ آپ روزہ سے ہوتے تھے اور آپ مباشرت کرتے تھے اس حال میں کہ آپ روزہ سے ہوتے تھے، لیکن آپ ا تم سب لوگوں سے زیادہ اپنی خواہشات پرقابو رکھتے تھے ۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بو س وکنار کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے، لیکن اگر بوس و کنار کرنے سے خروج منی کا اندیشہ ہو تو بوس وکنار سے پرہیز لازم ہے ۔
اگر کسی روزہ دار نے بو س وکنار کیا اور منی نکل گئی تو اس کا روزہ فاسد ہے اسی طرح اگر کوئی شخص شہوت کی نگاہ سے با ر بار دیکھتا ہے اور انزال ہوجاتا ہے تو اس کا روزہ بھی فاسد ہے ۔ (عمدۃ الفقہ لابن قدامۃ:۴۲)
اسی طرح اگر کسی نے استمنا ء بالید(مشت زنی )کیا اور منی نکل گئی تو اس کا بھی روزہ فاسد ہے ۔ مذکورہ صورتوں میں صرف روزہ کی قضا ہے اور کفارہ نہیں ہے اس لئے کہ کفارہ جماع کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (الشرح الممتع لابن عثیمین۶؍۳۷۳۔۳۷۴)
۰ جو شخص روزہ دار کو بحالت روزہ بھول سے کھاتا پیتا دیکھے تو اسے روزہ دار کو روکنا اور ٹوکنا واجب ہے، اس کے لیے سکوت اختیار کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ بعض عوام کا خیال ہے کیوں کہ یہ نہی عن المنکر ہے اور اس کا تعلق تعاون علی البر و التقویٰ سے ہے ۔(فتاویٰ ارکان الاسلام لابن عثیمین؍۴۶۷)
۰ روزہ دار کے لیے دن کے پورے حصہ میں مسواک مشروع ہے ، عوام کے یہاں جو یہ بات معروف و مشہور ہے کہ ظہر کے بات مسواک مکروہ ہے، وہ غلط ہے بلکہ دن کے کسی بھی جز کی تقیید و تخصیص کے بغیرمسواک مسنون ہے ، نبی کریم ا نے فرمایا : السواک مطہر ۃ للفم و مرضاۃللرب‘‘۔ (اخرجہ البخاری معلقاً ،کتاب الصیام باب السواک الرطب والیابس للصائم)مسواک سے منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے ۔
دوسری حدیث کے اندر ارشاد ہوا ’’ لولا ان اشق علی امتی لامرتہم بالسواک عند کل صلاۃ ‘‘۔( مسلم ) اگر میر ی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔
۰ پھوڑاپھنسی سے خون نکلنے ، نکسیر پھوٹنے، (ناک سے خون نکلنے ) زخم سے خون نکلنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ۔ (فتاویٰ الطب والمرضیٰ)
اسی طرح دم استحاضہ سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ، اس لیے کہ ان اشیاء سے روزہ کے متاثر ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اصل روزہ کا صحیح ہونا ہے الا یہ کہ اس کے فاسد ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو اور اس سلسلہ میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔(من احکام الصیام:۱۹)
۰ جان بوجھ کر کسی بھی طریقہ سے قے کرنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے لیکن اگر بلا قصد و ارادہ کسی کو قے آجائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ نبی کریم ا نے فرمایا: من ذرعہ القی فلیس علیہ قضاء ومن استقاء عمدا فلیقض۔‘‘( ترمذی:۷۲۰)
جس پر قے غالب آجائے تو اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص عمداً (جان بوجھ کر) قے کرے تو چاہیے کہ وہ قضا کرے ۔
۰ جوچیز کھانے یا پینے کے ہم معنی ہو جیسے طاقت کا انجکشن جو کہ کھانا پانی کا کام کرتا ہے، اسی طرح خون چڑھوانا، اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ البتہ وہ انجکشن ،جو امراض کے ازالہ کی خاطر
لگایا جاتا ہے اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے ۔ (فتاویٰ ارکان الاسلام :۴۷۰)
۰ اگر کوئی شخص گمراہی کے راستہ پر چل رہا تھا، غفلت و سستی کی وجہ سے روزہ رکھا نہ نماز پڑھی، لیکن بعد میں اسے ہدایت مل گئی تو ان عبادتوں میں کوتاہی کے تعلق سے ایسے شخص پر سچی توبہ عائد ہوتی ہے ، توبہ سابقہ گناہوں کو مٹادیتی ہے ، اسے اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونا چاہیے ۔ انہیں دوبارہ نہ کرنے کا
پختہ ارادہ کرنا چاہیے اور بکثرت نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے، اس لیے کہ نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں ۔
۰ اگر کوئی شخص رمضان میں صرف روزہ رکھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا ہے تو اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں پہونچائے گا ۔ (فتاویٰ اسلامیہ۲؍۱۱۸)
۰ وہ عورت جس کے یہاں ماہ رمضان میں ولادت ہوئی ، رمضان ختم ہونے کے بعد دودھ
پینے والے بچے کی صحت کے متاثر ہونے کے ڈر سے قضا نہیں کی پھر، وہ دوبارہ حاملہ ہوگئی اور آنے والے رمضان میں اس کے یہاں ولادت ہوئی تو ایسی خاتون پر صرف چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے اس لیے کہ وہ عذر کی بنیاد پر آنے والے رمضان سے پہلے رمضان کے روزوں کی قضا نہ کرسکی ہے، تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ موسم سرما میں روزہ رکھنا مر ضعہ کے لیے بھی دشوار نہیں ہے اس لیے ایسی عورت کو اگلا رمضان آنے سے قبل پچھلے رمضا ن کے روزوں کی قضا کی پوری کوشش کرنی چاہیے ۔ (فتاوی اسلامیہ۲؍۱۴۸)
۰ جس شخص کے اوپر رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاتھی اور اس نے بلا عذر شرعی ان کی قضا نہ کی یہاں تک کہ اگلا رمضان آگیا تو اس پر قضا کے ساتھ ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے ۔ (فتاویٰ صالح بن فوزان ۲؍۴۲۲)
۰ طلوع فجر سے پہلے اگر عورت کو حیض یا نفاس آنا بند ہوجاتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس دن کاروزہ رکھے اگرچہ وہ طلوع فجر کے بعد غسل کرے ،لیکن طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرکے نماز فجر ادا کرنی ضروری ہے ۔
No comments:
Post a Comment