مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
حدیث:’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘کی تحقیق
مولانا آزاد ؔ نے ’’ البلاغ ‘‘ ۱۹۱۵ ء میں نکالا تو اس کے پہلے اور دوسرے نمبر میں مقالہ افتتاحیہ کے آخری صفحے میں جہاں حدیث ’’لتسوون صفوفکم اولیخالفن اللہ بین وجوھکم ‘‘ پر بحث فرمائی ہے ، وہاں تعجب وانکار کے لہجہ میں یہ بھی تحریر فرمادیا تھا ۔’’۔۔۔ اور پھر تعجب ہے کہ اس اختلاف کو اپنے لیے رحمت سمجھتا ہے اورکہتا ہے کہ امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘
جس پر مولانا علی احمد صاحب مدراسی رحمہ اللہ نے مولانا آزادرحمہ اللہ کو لکھا کہ ’’آپ کے تعجب انگیز انداز تحریر سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ مشہور ومعروف حدیث ’’ اختلاف امتی رحمۃ ‘‘ کے تسلیم کر نے میں آپ کو تامل ہے؟ براہ کرم اس موضوع پر اپنی رائے اور تحقیق سے شاد کام فرمایئے !‘‘
اس استفسار کے جواب میں مولانا آزادرحمہ اللہ نے عام فہم ، سلیس مگر دل آویز انداز میں حدیث مذکورہ کے اسنا د وطرق پر محد ثانہ رنگ میں بحث کی ہے ۔مطالعہ فرمایئے۔
’’ بلا شبہ آپ کا خیال درست ہے، کہ فاتحہ کی عبارت منقولہ کاانکار وتعجب اس حدیث کے سوال تک منتہی ہوتا ہے لیکن نفس حدیث تک نہیں ، بلکہ حدیث کے اس مطلب تک جو عام طورپر لوگوں نے سمجھا ہے، اور عموماً فتنۂ اختلاف تحزب وتمذہب کے مباحث میں اس سے استدلال کیا جاتا ہے ۔ فقیر کااس جملے سے مقصد صرف یہ تھا کہ جس وجود اقدس ا (روحی فداہ )کو اس امت کا تقدیم وتاخیر قدم میں اختلاف گوارہ نہ تھا ،اس کی امت عقائد وعبادات میں مجسمۂ اختلاف وشقاق بن گئی ہے، اور پھر کہتی ہے کہ یہ رحمت ہے، اگر یہ رحمت الہی ہے تو بقول جاحظ کے ’’ عذاب الہی یقیناًاتفاق واتحاد ہو گا ‘‘ فنعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا ۔
رہا اس حدیث کی صحت وعدم صحت کا سوال ، تو اگر میں آپ کے اور عامتہ الناس کے پیش کردہ الفاظ ہی پر اڑجاؤں ، تو بلا تامل کہہ دے سکتا ہوں کہ اس کی کو ئی اصلیت نہیں ۔
ع قصہ کو تہ گشت ورنہ رددسربسیاربود
مگر اس عاجز کا مقصود ہمیشہ تحقیق وکشف حق رہتا ہے ، نہ مکابرہ ومجادلہ ، پس واضح ہو کہ جن الفاظ کے ساتھ آپ نے اس حدیث کولکھا ہے ،اگر اس سے قطع نظر کر لیاجائے اور صرف اختلاف کو پیش نظر رکھا جائے تو بلا شبہ اختلاف اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے (نہ کہ اختلاف امت کے متعلق )۔ باختلاف الفاظ ایک روایت بعض محدثین نے درج کی ہے ۔ اورچاہئے کہ اس کے تام طرق ومسانید پرنظرڈالی جائے ۔
طرق ومسانید پر تفصیلی نظر :
حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے ’’ مقاصد ‘‘ میں اس کی تمام روایتیں جمع کر دی ہیں ، اور دیگر طرق کا حال بعض متأخرین کی کتابوں سے معلوم ہو جاتاہے، میں ان تمام طرق کو جمع کر تاہوں:
(۱)بیہقی رحمہ اللہ نے ’’مد خل‘‘ میں روایت کی ہے :عن سلیمان۔۔۔ عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ا۔۔۔واختلاف اصحابی لکم رحمۃ ۔
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کتاب اللہ پر عمل کرو ، اس کے ترک کے لیے کسی کا عذر مسموع نہیں ، اگر کتاب اللہ میں کسی معاملہ کو نہ پاؤ تو میر ی سنت پر عمل کرو، اگر میر ی سنت نہ پاؤ تو میرے اصحاب۔رضی اللہ عنہم۔کے اقوال کو ڈھونڈو ، میرے اصحاب۔ رضی اللہ عنہم۔ ایسے ہیں جیسے آسمان میں ستارے ، ان سے جو کچھ لوگے ،اس میں ہدایت ہوگی اور اختلاف میرے اصحاب رضی اللہ عنہم کاتمہارے لیے رحمت ہے ..۔۔۔انتھیٰ ملخصاً
(۲)طبرانی اور دیلمی رحمھمااللہ۔نے اپنی ’’معجم ‘‘......و.........’’مسند ‘‘ میں بھی اسی طریق سے روایت کی ہے ، اور انہی الفاظ سے ۔
(۳) نصر مقدسی رحمہ اللہ نے ’’ کتاب الحجہ ‘‘ میں مرفوعاً اسی روایت کو نقل کیا ہے اور زرکشی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے ، مگر اسناد نہیں لکھی ہے ۔
(۴) اسی طرح عراقی رحمہ اللہ نے آدم بن ایاس کا حوالہ دیا ہے ، لیکن لکھا ہے کہ مرسل اور ضعیف ہے ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’ اختلاف اصحابی رحمۃ لامتی ‘‘.
(۵) بیہقی رحمہ اللہ نے ’’رسالۂ اشعریہ ‘‘ میں درج کیا ہے، مگر بغیر اسناد ۔
(۶) بیہقی رحمہ اللہ نے ’’مدخل ‘‘ میں قاسم بن محمد کا قول بروایت ’’ سفیان عن افلح بن حمید ‘‘ نقل کیا ہے کہ ’’ اختلاف اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ لعباد اللہ ‘‘ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختلاف ، اللہ کے بندوں کے لیے رحمت ہے ۔
(۷) قتادہ کہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز کہا کر تے تھے :’’ ماسر نی لوان اصحاب محمد لم یختلفوا ، لا نھم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ ‘‘ یعنی اگر آنحضرت کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہو تا، تو امت کے لیے آسا نی اور رخصت کی وسعت نہ ہوتی ۔
یہاں تک تو ہم نے حافظ سخاوی ؒ کی ’’ المقاصد ‘‘ سے نقل کیا ہے ۔ (ص ۱۲ مطبوعہ لکھنؤ) لیکن طبقات ابن سعد میں قاسم بن محمد کا وہ قول موجود ہے جو بیہقی رحمہ اللہ نے مدخل میں نقل کیا ہے کہ ’’ اختلاف اصحاب رسول اللہ رحمۃ للناس ‘‘
ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے بھی ’’ الدرر المنتثر ہ‘‘میں اس کے مختلف طرق کو جمع کر نا چاہا ہے ، مگر ان میں جو قابل ذکر تھے وہ سب اوپر آگئے ، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان تمام مخارج مندرجہ صدر میں ایک صدا بھی ایسی نہیں ہے جس سے اس روایت کو کچھ بھی تقویت مل سکے اور جس سے حسب اصول فن وقوم ثابت ہو سکے کہ یہ حدیث قابل احتجاج واستناد ہے ۔
اس حدیث کے تمام مخارج پر نظر ڈالئے ، دفعہ ۲ سے لے کر۷تک جس قدر مخارج ہیں ، ان میں ایک حوالہ بھی ایسا نہیں ہے ، جس سے کوئی تو ثیق وسند حاصل کی جاسکے ، ’’ طبرانی ‘‘ اور ’’ دیلمی ‘‘ کا حوالہ کو ئی سند نہیں ہے، وہی روایت ہے جو بیہقی نے مدخل میں درج کی ہے ۔’’ نصر مقدسی ‘‘کے متعلق ’زرکشی‘،’ حافظ سخاوی رحمہ اللہ اور’ ابن حجر مکی ‘ سب کہتے ہیں کہ مرفوعاً روایت کی ہے مگرساتھ ہی تصریح کرتے ہیں کہ اسناد معلوم نہیں اور جب اسناد معلوم نہیں تو محدثین نے فیصلہ کردیا ہے کہ ایک منٹ کے لیے بھی قابل قبول نہیں ۔
’’حافظ عراقی ‘‘ نے بہ تغیر الفاظ اسی روایت کولکھا ہے ،مگر اسناد اس کی بھی معلوم نہیں۔ ’حافظ سخاوی ‘ کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک مرسل وضعیف ہے لیکن اگر اسناد بتلائی ہو تی تو معلوم کیا جا سکتا کہ ارسال میں بھی اس کا کیا حال ہے اور ضعف کے کیا کیا اسباب ہیں ؟
’بیہقی رحمہ اللہ ‘ نے ایک اور رسالہ میں بھی اسی روایت کو درج کیا ہے ،مگر ’’ حافظ سخاوی ‘‘ کی زبانی آپ سن چکے ہیں کہ بغیراسناد ، پس وہ کوئی نئی اور مفید سند نہیں ۔
حدیث کے مخارج تو بس اسی قدر ہیں اب اس کے بعد صحابہ وتابعین ے اقوال آتے ہیں ، ’’بیہقی ‘‘ نے مد خل میں ’’قاسم بن محمد ‘‘ کا قول نقل کیا ہے ،کہ آنحضرت ا کے اصحاب کا اختلاف بند گان خدا کے لیے رحمت ہے، لیکن یہ قاسم بن محمد کا قول ہے اسے اوپر رفع نہیں دیتے ۔
اسی طرح ’’ قتادہ ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ عمر بن عبد العزیز ‘‘ کہا کرتے تھے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اجتہاد واستخراج مسائل یا تنوع طریق وعمل میں مختلف نہ ہو تے توامت کے لیے رخصت اور وسعت وسہولت نہ ہو تی ۔ اول یہ تو چیز ہی دوسری ہے ۔’اختلاف امتی ‘ یا ’ اختلاف اصحابی‘ کے عموم سے اسے کیا تعلق ؟ پھر جو کچھ بھی ہے ۔ ’عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ ‘ کا قول ہے۔
آخر میں ’طبقات ابن سعد ‘ کا ذکر آیا ہے لیکن وہ بھی کو ئی نئی سند نہیں ۔ ’’قاسم بن محمد ‘‘ کا وہی قول ہے جو ’بیہقی‘نے مد خل میں نقل کیا ہے ۔
اب صرف وہ ایک ہی روایت رہ گئی ، جو دیلمی ؒ نے’’ مسند الفردوس ‘‘ میں ،طبرانی نے ’ معجم ‘ میں اور بیہقی ؒ نے ’مد خل ‘میں درج کی ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی اسناد ہمارے سامنے نہیں ہے ، لیکن اس کا یہ حال ہے کہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے جن سے ’ضحاک ‘نے اور ضحاک سے ’جو یبر ‘ نے روایت کی ہے ، ارباب فن ونظر کو معلوم ہے کہ حضرت ابن عباس کی روایت بذریعۂ ضحاک کا کیا حال ہے ؟ اور ائمہ نقد کا کیا فیصلہ ہے ؟۔۔۔یہ ضحاک ابن مزاحم البلخی مشہور مفسرہیں لیکن ان کی احادیث کے متعلق ’ائمہ حدیث ‘ نے اختلاف کیا ہے کہ درخورقبول ہیں یا نہیں ؟ اگر ا س اختلاف سے قطع نظرکر لیا جائے جب بھی یہ امر واضح طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ان کی ملاقات حضرت ابن عباس سے ثابت نہیں اور نہ انہوں نے خود ابن عباس سے کچھ اخذ کیا ہے ۔اس بناء پر ان کی تمام مرویات منقطع ہیں اور روایت بھی اسی میں داخل ہے۔
پھر ’ضحاک ‘ کے بعد اس کا راوی ’جویبر ‘ ہے ۔ یہ ’جویبر ‘وہی جو یبر ابن سعید الازوی الخراسانی ہیں جن سے محمد بن عبد اللہ فلسطینی اور اسلام بن یزید وغیرہ نے فضائل قرآن ونکاح وغیرہ میں بڑا ذخیرہ روایت کیا ہے ، اور ان کی مجروحیت کتب قوم میں مشہور ہے ، ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’لیس بشیء‘یعنی وہ کچھ نہیں ۔ نسائی اور دارقطنی رحمہمااللہ جیسے ائمہ فن کا فیصلہ ہے کہ ’متروک الحدیث‘،جو زجانی رحمہ اللہ نے کہا ’لایشتغل بہ‘‘ . مدراسی رحمہمااللہ ’کشف الا حوال ‘میں ابن جوزی رحمہ اللہ اور سیوطی رحمہ اللہ کا نقد نقل کیا ہے کہ ’متروک ....‘(ص:۲۹ مطبوعہ لکھنؤ)
ان تصریحات سے معلوم ہو ا کہ ’’ دیلمی ‘‘وغیرہ کی روایت کو اگر چہ ’’اختلاف امتی ‘‘ سے کو ئی تعلق نہیں ، بلکہ وہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کے اختلاف کے متعلق ہے ، تاہم ا س کی صحت کے لیے بھی کو ئی سامان ہمارے پاس نہیں ہے، اور بہتر سے بہتر مخرج جو اس کا ہو سکتا تھا ۔ اس کی اسناد بھی لائق احتجاج واعتماد نہیں چنانچہ اسی بناء پر ’حافظ سخاوی‘ نے لکھا ہے:
فقدزعم کثیر من الائمۃانہ لااصل لہ(المقاصد ص:۱۲)
(اور ائمۂ فن میں سے ایک جماعت کثیرہ نے خیا ل کیا ہے کہ اس حدیث کی کو ئی اصل نہیں !)
اس کے بعد خطابی رحمہ اللہ کی نسبت لکھا ہے ، کہ انہوں نے ’’غریب الحدیث ‘‘ میں اسے لیا ہے اور جاحظ اور مو صلی کے اس قول کا رد کیا ہے ’’ لو کان الاختلاف رحمۃ لکان الاتفاق عذاباً.لیکن سوال اس ردوتغلیط کی نسبت نہیں ہے، کسی وجہ سے ’’خطابی ‘‘کی رائے یہی ہو گی ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ’’اصول مقررۂ فن ‘‘ کے مطابق بھی انہوں نے کو ئی سند لکھی ؟ یا تو ثیق تصدیق کا خارج سے کو ئی مزید اثر ڈالا ؟ اس کا حال یہ ہے کہ خود ’’حافظ سخاوی رحمہ اللہ ‘‘ ہی لکھتے ہیں :
’’ ثم تشاغل الخطابی برد ھذاالکلام لم یقع فی کلامہ شفاء فی عزوالحدیث ولکنہ اشعر بان لہ اصلاعندہ .لیکن ’’ اصلا عندہ‘‘ کا حسن ظن ہمارے لیے کیا مفید ہے ؟
ع کہ خضر ازآب حیواں تشنہ می آرد سکند ررا
آپ پر واضح ہو کہ فن کا معاملہ نہا یت نازک ہے اور اعتماد شخصی اور حسن ظن معتقدانہ یہا ں کو ئی چیز نہیں ....... متاخرین عموماً اس اعتماد کی بناء پر اکثرروایتیں قبول کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جب علماء نے لکھا ہے ، تو گوانہوں نے سند نہیں لکھی ، مگر ضرور کو ئی نہ کو ئی سند ان کے پاس ہو گی ‘‘ ............یہ بات محض حسن ظن کے لیے تو اچھی چیز ہے لیکن اگر فن میں اس سے کام لیا جائے گا تو پھر کوئی ’’فن ‘‘ فن باقی نہیں رہے گا ۔ فن حدیث کے اصول ہیں، قواعد ہیں ، جرح ونقد ہے ، ائمہ فن کی تصریحات ہیں ، روایت ہے، درایت ہے ، اور محدثین کرام رحمہم اللہ نے بالاتفاق ہمیں بتلادیا ہے کہ جس کی سند نہ بتلائی جائے ، بلا تامل اسے رد کر د و۔پھر ہم ان بزرگوں کے اصول پر عامل ہوں یا ان کی ...... جمع وگردآوری پر ؟ .......کیا آپ کو معلوم نہیں کہ محدثین کرام کی احتیاطات فن کا یہ حال ہے ، کہ وہ بغیر سند اور حوالہ مخرج کے نقل حدیث تک کو جائزنہیں رکھتے ؟۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے مقدمہ کو دیکھئے کہ وہ نوع اول کے آخر میں کیا لکھتے ہیں ؟......... علامہ نووی رحمہ اللہ کی ’’ شرح مسلم ‘‘ کی تصر یحات پر نظر ڈالئے کہ انہوں نے نقل روایت کیلئے کیا شرائط بیان کی ہیں ؟...... انہی چیزوں کے لئے طبقۂ محد ثین متوسطین نے اصطلاح ’’الوجادہ ‘‘ (بالکسر ) وضع کی اور اسکی آٹھ (۸) قسمیں قراردیں جن کی رعایت کے بغیر نقل حدیث جائز نہیں :
’’السماع والقراء ۃ والاجازۃ والمشافۃ والمناولۃ والمکاتبۃ واعلام الشیخ والوصیۃ بالکتابۃ۔
اس کے مقابلے میں آج کل کی حالت دیکھئے کہ اگر تصوف ومواعظ کی کسی کتا ب میں کوئی روایت نظر سے گزرگئی تو بغیر علم اسناد ومخارج کے ہر صاحب عمامہ حق رکھتا ہے کہ بلا تامل استدلال واحتجاج کر لے ، اور پو رے اطمینان سے کہہ دے کہ :’’ قال رسول اللہ ﷺ ‘‘ اور اگر متأخرین فقہاء وعامۂ مصنفین کے یہاں اس کا سراغ چل گیا تو پھر تو اس کی تو ثیق میں کو ئی شبہ ہی نہیں رہا اور جو شبہ کر ے اس پر قطعاً انکار حدیث کا فتویٰ ہے ۔
اختلاف صحابہ سے کیا مراد ہے؟
آیئے!اس سے قطع نظرہی کر لیں کہ اصل روایت کا کیا حال ہے ؟ ......... اس کو دیکھیں کہ جن علماء نے اس پر اعتماد کیا ہے وہ ’’ اختلاف ‘‘ سے کو ن سا اختلاف مراد لیتے ہیں ؟ ........مختلف
مذہبوں، جماعتوں ، عقیدوں اورصورواشکال عبادات واعمال کا اختلاف یا کوئی اور اختلاف ؟
یہ تو آپ کو معلو م ہو چکا ہے کہ الفاظ مشہورہ ’’ اختلاف امتی رحمۃ‘‘ کی کوئی اصلیت نہیں ملتی ۔ البتہ اختلاف صحابہ کے رحمت ہو نے کے متعلق ایک سند بیان کی گئی ہے پس دیکھنا یہ ہے کہ بصورت صحت روایت ، صحابہ کے اختلاف سے بھی کون سا اختلاف مراد ہے؟ کیا وہ اختلاف جس نے کئی دن تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کیا ۔ غذ ااورپانی کو بند کیا اور بالآخر ان کی مظلومانہ شہادت کا باعث ہوا ۔ کیا وہ اختلاف جس کی مختلف دوجماعتیں مدینہ اور مکہ سے نکلیں اور جس کا نام تاریخ نے ’’جنگ جمل ‘‘ رکھا ہے ۔
اگر یہ نہیں تو کیا وہ اختلاف ، جس کی تلواریں ’’ صفین ‘‘میں بے نیام ہوئیں اور جس کی بدولت صد ہا صحابۂ کرام مقتول وشہید ہوئے ۔
آپ یقیناًکہیں گے کہ ’’ اختلاف صحابہ ‘‘ سے مراد یہ اختلاف تو کسی طرح نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی اور اختلاف جو مو جب قتال وجدال ہونے کی جگہ موجب رحمت وفیضان ہو سکتا ہے ، چنانچہ جن علماء نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے ان میں سے بھی بعض نے صاف صاف تصریح کر دی ہے کہ اختلاف سے مراد مذہب وجماعت اور فرقہ بند ی کا اختلاف نہیں ہے بلکہ فہم وتدبر مسائل ، اجتہاد وطرز اجتہاد ، استنباط وطرز استنباط ، مسالک مختلفۂ علم وعمل اور طریق سلوک ومجاہدات دینیہ کا اختلاف مراد ہے، یا کوئی اسی طرح کا اختلاف جو امت کیلئے ایک نظیر اور اسوہ ہونے کے لحاظ سے ، نیز نتائج واتباع کے لحاظ سے رحمت تھا ۔ اصل یہ کہ روایت میں جس طرح ’’ اختلاف ‘‘کا لفظ آیا ہے اور جس تر تیب سے آیا ہے، وہ خود بتلا رہا ہے کہ اختلاف سے مقصود کیا ہے؟ ۔
روایت کا موضوع یہ ہے کہ امت کے لئے عمل واتباع کے آصول ومخارج کیا کیا ہیں ؟ ......... فرمایا کہ سب سے پہلے کتاب اللہ ہے ، قرآن مجید میں جو کچھ تمہیں دے دیا گیا اور جو کچھ بتلا دیا گیا کسی حال میں اس سے اغماض وغفلت نہیں کر نی چاہئے لیکن اگر ایسے معاملات پیش آجائیں کہ ان کی تفصیل وجزئیات سے قرآن حکیم خاموش ہو تو سنت کی طرف متوجہ ہو اور دیکھو کہ حامل قرآن کا اسوۂ حسنہ کیا کہتا ہے ؟ اگر یہ بھی خاموش ہو تو عہد نبوت کی صحبت یا فتہ اور طیار کردہ جماعت کے اجتہاد اور قضا یا کیا ہیں، ان کو دیکھو کہ کیا روشنی بخشتے ہیں ؟ ۔
لیکن چوں کہ فہم واستنبا ط مسائل وتعلیمات میں ہر دماغ ایک خاص حال رکھتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ صحابہ کے اجتہادات میں بھی اختلاف ہو اور ایک ہی مسئلہ کے متعلق مختلف صحابہ مختلف رائے رکھتے ہوں، پس فرمایا کہ ان کے اس اختلاف اجتہاد اور تعدد طرق فہم و استنباط سے مایوس نہ ہو نا چاہئے یہ اختلاف اجتہاد طبیعی ہے ، اور یہ کو ئی مصیبت نہیں ، بلکہ رحمت ہے ، اگر فہم واجتہاد میں اختلاف نہ ہو تا تو دنیا کی عقلی ودماغی تر قی رک جاتی ۔ چنانچہ یہ بالکل بیان واقعہ ہے ، ہر شخص جانتا ہے کہ فہم استنباط مسائل وطرق استدلال واجتہادمیں صحابہ کرام مختلف تھے ، مگر چونکہ جماعت بندی اور تمذہب اور تحزب نہ تھا ،’’ الی اللہ والی الرسول ‘‘کے آگے سب کی گردنیں جھکی ہو ئی تھیں اور ہر شخص اپنی رائے وقیاس کو کتاب وسنت پر عرض کر تا تھا اس لئے ان کا اختلاف یقیناًرحمت تھا جس سے شریعت کے حقائق ابھرے اور اس کا ہر گوشہ نمایاں ہوا ، ان کا اختلاف وہ اختلاف نہ تھاجو دراصل ایک عذاب الہٰی ہے ااور جس کی نسبت امت مر حومہ کو وصیت کی گئی تھی کہ :
(وَلاَتَکُونُواْکَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْوَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم)۔(آل عمران:۱۰۵)
حضرت ابن عباسؓ ’’تمتع بالعمر ۃ الی الحج ‘‘ کے وجوب کے قائل تھے، بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے اختلاف تھا ، جب عروہ نے ان سے کہا ’’ افر اد حج ‘‘افضل ہے ، تو انہوں نے کہا : ’’ تمتع رسول اللہا ‘‘ عروہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : ’’ولکن ابو بکر وعمر لم یفعلا ‘‘( لیکن حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ) اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غضب ناک ہو کر .......... اور ’’فردوہ الی اللہ والرسول ‘‘کی روح القدس سے معمور کر فرما یا : ’’ یو شک ان ینزل علیکم الخ ۔ممکن ہے کہ تم پر آسمان سے سنگ باری ہو ،میں کہتا ہو ں کہ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس پر تم حجت لا تے ہو ، کہ کہا ابو بکر وعمر نے ؟
چو غلام آفتا بم ہمہ زآ فتاب گو یم نہ شبم ، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم
اسی واقعہ سے اندازہ کر لیجئے کہ ’’ فردوہ الی اللہ والرسول ‘‘ کا کیا جاہ وجلال صحاب�ۂکرام کی نظروں میں تھا ؟ اور جب حالت یہ تھی تو ظاہر ہے کہ ان کا اختلاف فہم واجتہاد کیوں نہ موجب رحمت ہوتا ۔
صحابہ کرام کے اندر ’’ سماع موتی ‘‘ میں اختلاف تھا ، لیلۃ الاسراء کے متعلق اختلاف تھا ، ’ تیمم جنابت ‘ کے متعلق اختلاف تھا ، ’’ وجوب غسل ازاکسال ‘‘ کے متعلق حضرت عائشہ کا فتویٰ دوسرا تھا ، حضرت علی ، عثمان ، طلحہ ،ابوایوب اور ابن کعب (رضی اللہ عنہم ) کا فتویٰ دوسرا تھا ، لیکن ا ن میں سے کوئی اختلاف بھی فتنہ تحزب وتشیع ( تشیع یعنی فرقہ بندی اور گروہ گروہ ہو جانا یہاں ’’تشیع ‘‘ مصطلحہ فرقۂ شیعہ نہیں ہے ) تک منجرنہ ہوا ، یہی معنی ’’ اختلاف اصحابی رحمۃ ‘‘ کے ہیں اور فی الحقیقت یہ اختلاف رحمت الہٰی تھا ۔
چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کا جو قول ’’ قتادہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے وہ صاف صاف واضح کر رہاہے کہ مقصود اختلاف سے اسی قسم کا اختلاف ہے نہ کہ اختلاف تمذہب وتحزب ۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ اگر اختلاف نہ ہو تا ، تو امت کیلئے تو سیع اور رخصت کی سہولت نہ ہوتی ۔
ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ :’’وقیل المراد اختلافھم فی الحرف والصنائع ‘‘ یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اختلاف سے مقصود مختلف حرفتوں اور صنا ئع کا اختلاف ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہو تا ہے کہ اختلاف تشیع وتمذہب مقصود نہیں ۔
اختلاف صحابہ اور قرآن :حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عزائم اور رخص کی طرف اشارہ کیا ہے، اور یہ بتلایا ہے کہ مقصود ’’ اختلاف افکار ‘‘ نہیں بلکہ ’’ اختلاف اعمال ‘‘ ہے یعنی اگر تمام صحابہ کرام ایک ہی طرز کی عملی زندگی بسر کر تے تو ایک طرف تو تقسیم عمل کے قدرتی اصول کی بناء پر صدہا اعمال ضرور یہ کا دروازہ بند ہو جاتا دوسری طرف جو نمونہ امت کے لیے قائم ہو تا وہ نا قا بل عمل واتباع ہوتا ۔
حضرات صحابہ کرام کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہو ں نے عمل صالح اور طلب مصالح کے وہ تمام مختلف طریقے اختیار کئے جن کا ہر امت عادلہ وصالحہ کے اندر ہونا ضرور ی ہے،سب ایک ہی راہ جہد وطلب کے عامل نہ تھے، ایک جماعت تھی جس نے تفقہ فی الدین کی طرف زیادہ توجہ کی اور علوم نبویہ کی حامل و محافظ ہو ئی ، ایک جماعت تھی جس نے زیادہ وقت جہاد وقتال فی سبیل اللہ میں صرف کیا اور دشمنان حق سے شریعت کو محفوظ کیا۔ ایک گروہ وہ تھا جس نے طلب معاش صالح اور تجارت وکسب حلال پر زیادہ وقت صرف کیا اور اس طرح ان کی تاجرانہ زندگی بھی اشاعت حق وتبلیغ احکام وتائید و نصرت دین کاذریعہ بنی ۔ غور کیجئے کہ جو کچھ کہہ رہا ہو ں کس طرح ٹھیک ٹھیک قرآن حکیم سے ماخوذ ہے، خود اللہ تعالیٰ نے ’’سورۂ مزمل ‘‘کے آخر میں صحابہ کرام کے مجموعی اعمال مقدسہ وطیبہ کی تصویر کھینچی ہے: إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ ......الأیۃ (20:73)
’’بے شک تمہارا پروردگار تمہاری ہر حالت کی خبر رکھتا ہے اور تم جو کچھ کر تے ہو سب اس کے سامنے ہے، وہ جانتا ہے کہ تم راتوں کو تقریباً دوتہائی رات تک یا آدھی آدھی رات اور ایک ایک پہر تک ذوق عبادت میں مستغرق کھڑے رہتے ہو اور تمہارے اصحاب میں سے بھی ایک جماعت اس عالم میں تمہارے ساتھ ہوتی ہے ۔ اللہ نے رات اور دن کی تقسیم اوقات کی ایک تقدیر کر دی ہے اور وہی ان کا اندازہ فرماہے ،اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ تم اوقات عبادت کو نباہ نہیں سکتے ۔ اس نے تم پر سے اس قدر شدید عبادت اٹھادی ، یہ ضروری نہیں کہ تم آدھی آدھی رات اور تین تین پہر تک خدا کے حضور کھڑے رہو ، یو ں کروکہ جس قدر بھی آسانی کے ساتھ رات کے نوافل میں قرآن پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، خدا کو معلوم ہے کہ تم میں بعض عبادت گزار ایسے ضعیف الجسم ہیں کہ اگر آدھی آدھی رات تک اسی طرح عبادت کریں گے تو بیمار ہو جائیں گے ، اور خداکا عبادت سے یہ مقصود نہیں، وہ جانتا ہے کہ کچھ لوگ ان میں ایسے ہو ں گے جو تجارت اورکسب رزق نیز حصول فوائدو نعائم کی تلاش میں سفر کریں گے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سفر کی حالت میں ایسی شدید عبادت کو بھی جاری رکھیں ،نیز وہ خبردار ہے کہ ان میں بعض لوگ حق وصداقت کے لئے دشمنان اسلام سے لڑتے ہیں ان کے شب وروز زیادہ تر اسی میں بسر ہو ں گے پس چاہئے کہ راتوں کو وقت کی قید اٹھادو ، جس قدرآسانی سے ہو سکے ، قرآن کو نماز میں پڑھو اور صلوٰۃ الہٰی کو قائم کر و ،زکوۃ ادا کرو ،اپنے مال ودولت کو خدا کی راہ میں لٹاؤ ،گو یا اللہ کو قرض حسنہ دینا ہے جس کا بدلہ اس کے خزانے سے دونوں جہانوں میں پاؤگے ۔‘‘
اللہ اللہ ! وہ کیا لوگ تھے ، جن کے اعمال کی یہ تصویر وتقسیم تھی ، اور وہ کیسی پاک روحیں تھیں جن کی جاں نثار یوں اورعبادت گزاریوں کا حال ایک عاشقانہ محبت وشفقت کے لہجہ میں خود خدا تعالیٰ نے فر مایا اور ان کے ذکر باقی کوصفحات کلام اللہ میں ہمیشہ کے لئے ثبت کردیا ۔
بہر حال اس آیت کریمہ میں ضمناً قرآن حکیم نے خود ہی بتلا دیا ہے کہ صحابہ کرام کی راہ عمل مختلف تھی ، فرمایا کہ بعض فضل الہی کی تلاش میں سیر وسیاحت کر تے ہیں اور بعض جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں، پھر کیوں آپ اس روایت میں لفظ ’’ اختلاف ‘‘کا یہی مطلب نہ قرار دیں کہ ان کا طریق کا ر حسب اصول تقسیم عمل مختلف تھا اور یہ اختلاف قطعاً ’’ رحمت ‘‘ ہے اور ایسی عظیم کہ نہ ہو تو دنیا کے عمران وتمد ن کی بنیاد یں ہل جائیں ۔
اس سے بھی ایک دو قدم اور آگے بڑھیے کہ عزائم و رخص کے لحاظ سے بھی فی الحقیقت صحابہ کرام کی راہیں مختلف تھیں اور ان میں باہم اختلاف تھا ، حضرت ابوذر زہد ونسک میں منہمک تھے، حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت عبد اللہ بن عمر پر استغراق عبادت وتر ک لذائد دنیوی کا غلبہ تھا ۔حضرت ابن کعب ، ابن مسعود، ابن عباس ،حفظ ودرس علوم پر زیادہ وقت صرف کرتے تھے ، مگر حضرت عثمان بن عفان نے کسب وتجارت پر اور و ں سے زیادہ توجہ دی ........... پس اگر صحابہ میں یہ اختلاف نہ ہو تا اور سب کے سب مثل حضرت ابوذر اور ابن مظعون کے زہد وترک لذائد میں مستغرق ہو جا تے، تو نتیجہ یہ نکلتا کہ ان کا نمونہ امت مسلمہ میں آگے چل کر وہ غلو اور حرج پیدا کر دیتا جو اہل کتاب کے رہبان میں پیدا ہو ااور جس کو اسلام نے دور کیا ، ورھبانیۃ ابتدعوھا . لیکن اگر سب کے سب مثل امیر معاویہ اور عمر وبن العاص کے دھاء سیاست اور محبت نعم وزینت وریاست میں منہمک ہو جاتے تو تمام امت محض مادیت وجسمانیت ہی میں غرق ہو جاتی اور روحانی لذتوں کاکو ئی بھو کا نہ رہتا ۔
یہ جو کچھ عرض کیا گیا ، یقین کیجئے کہ قرآن حکیم ہی کی بخشی ہو ئی روشنی ہے اور اپنی راہ یہی ہے کہ ہر روشنی جو آنکھ دیکھے ، اس کا اکتساب نوراسی آفتاب ہدایت سے کیا جائے ، خود یہی زیر بحث روایت بتلاتی ہے کہ سب سے پہلے کتاب اللہ سے اخذ فیضان کر و اور اس لئے ہر روایت کو بھی سب سے پہلے کتا ب اللہ پر عرض کرنا چاہئے ، اختلاف کی نوعیت کے متعلق ’’ سورۂ مزمل ‘‘کی آیات اوپر گذرچکی ہیں ۔ اب ایک اور آیت آخر ’’ سورۂ توبہ ‘‘کی تلاوت کیجئے :
(وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ ۔۔۔الآیۃ)2:9)َ(12
’’سارے مسلمان تو اسی کا م کیلئے ہو کر نہیں نکل سکتے ہیں ،کیوں نہ ایسا ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ اس غرض سے نکلے کہ دین کے علم واحکام کو حاصل کر ے اور دین کا مبلغ وداعی بن کر اپنی قوم میں واپس جائے اور باطل پرستی کے نتائج سے اس کو ڈرائے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بتلایا گیا ہے کہ سب لوگ خدمت دین کی ایک ہی شاخ نہیں ہو جاسکتے، تقسیم عمل کا قدر تی طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ اپنے اپنے حلقوں میں تبلیغ دین کاکام اپنے ذمہ لے لے ، اور اپنے وقت کو حصول علم دین میں خرچ کرے ، پس یہی اختلاف صحابہ کے مختلف گروہوں کا تھا ، جو امت کے لئے رحمت ہے ۔ اور یہی رحمت ہے جس سے اب ہم محروم ہیں ۔‘‘ (البلاغ ۴،۵ ص: ۷۱ تا ۷۴)
No comments:
Post a Comment