نعمت صدقی
ترجمانی :محمد خالد سیفؔ
مردوں کی خدمت میں
میں فرض سمجھتی ہوں کہ جیسے میں نے عورتوں سے گفتگو کی ہے ، ایسے ہی اب آدمیوں کی خدمت میں بھی چند گزارشات عرض کروں، کیوں کہ اس تبرج و تبذل کی وجہ سے عورتیں جس
سوء اخلاق کا شکا ر ہوئی ہیں وہ محض تنہا اس کی ذمہ دار نہیں ،بلکہ انہیں اس مقام تک پہنچانے میں مردوں نے بھی خصوصی کردار ادا کیا ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدمیوں کی جہالت ، تجاہل یا مسؤلیت کے عدم احساس ہی نے عورتوں کو اس مقام پر پہنچایا ہے ،کیوں کہ آدمیوں پر باپ ، بھائی یا خاوند ہونے کے اعتبار سے فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عورتوں پر پابندی عائد کریں اور انہیں بے راہ روی سے روکیں آنحضرت ا کا ارشادہے :’’کلکم راع کلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘۔(بخاری ؛۸۹۳)
’’تم میں سے ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی‘‘۔
آدمی اس بات کے لیے بھی مامور ہیں کہ وہ عورتوں کی تہذیب و اخلاق ، دین و دنیا اور آخرت کی باتیں سکھلائیں ؛ للہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء‘‘۔(النساء:۳۴) مر د عورتوں پر حاکم و مسلط ہیں ۔
یعنی آدمی اس بات کے نگہبان ہیں کہ و ہ عورتوں کو اچھے اعمال سکھائیں ، ان کے احوال کی پاز پرس کرتے رہیں اور تقویٰ و ادب کی تعلیم دیں ، جیسا کہ ارشاد خدا وندی ہے :
(ترجمہ)’’ اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سر کشی اور بد خوئی کرنے لگی ہیں تو پہلے ان کو زبانی سمجھاؤ اگر نہ سمجھیں تو پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو۔۔۔(النساء:۳۴)
عورتوں کو آدمیوں ہی نے خراب کیا ہے اور ان کے لیے فساد اور خرابی کے دروازے کو اس باپ یا خاوند نے کھولا ہے ، جو خدا شناس نہیں ہے ، صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہے ، دین و اخلاق سے بیگانہ ہے ۔ کتنی ہی بد بخت بچیاں ایسی ہیں جو اپنے باپ کی گمراہی کی وجہ سے گمراہ ہیں اور حیا اور دین سے ناواقف ہیں، کیوں کہ انہوں نے شیطانوں کی گود میں پر ورش پائی ہے ، اور پھر جب یہ گمراہ اور شیطان صفت باپ اپنی بچیوں کو فاسق وفاجر خاوندوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ، تو ان کے دین و ایمان کا بالکل دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایمان کے دعوے دار ہونے کے باوجود احکام الٰہی کی اطاعت نہیں کرتے ، حالاں کہ مومنوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ : (ترجمہ)’’مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کر یں توکہیں کہ ہم نے حکم سن لیا اور مان لیا اوریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ (النور:۵۱)
اگر یہ حقیقی طور پر مومن ہوتے تو احکام خداوندی سے تجاہل اور تغافل سے کام نہ لیتے بلکہ نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
(ترجمہ)’’اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔‘‘ (الذاریات :۵۵)
قرآن مجید پر ایمان رکھنے والے باپ کو خدا کی قسم دے کر کہتی ہو ں کہ بتاؤ کہ یہ تقویٰ اور ایمان کی بات ہے کہ تم قرآن مجید میں پردہ سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام کو تو پڑھو لیکن اپنی بچیوں کو ان کی نافرمانی سے نہ روکو ؟ کیا یہ بچیوں کے لیے محبت اور شفقت ہے کہ تم انہیں غضب الٰہی کا شکار دیکھو لیکن انہیں شیطان کے چنگل سے نہ بچاؤ ؟ کیا تم نے ارشاد باری تعالیٰ کو نہیں سنا :
(ترجمہ)’’مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے بچاؤجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔‘‘ (التحریم :۶)
اے سنگ دل باپ۔۔۔ افسوس! کہ تو نے اپنی بچیوں کی دینی تربیت کا خیال نہ رکھا اور انہیں ابدی سعادت سے محروم کردیا ۔ تو نے انہیں دنیوی سازو سامان مہیا کرنے ، اجنبی زبانیں سکھانے اور پورپین لوگوں کی عادتیں سکھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا ،لیکن افسوس کہ تو نے انہیں اللہ کی اطاعت اور قرآن کی تعلیم نہ سکھائی ۔ افسوس !تمہیں اور تمہاری بیٹیوں کو روز محشر کس قدر بد بختی اور شقاوت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
کتنے ہی خاوند اور باپ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنی بیویوں اور بچیوں کو مخلوط مجلسوں اور شرم و حیا سے عاری لہو لعب کے کلبوں میں بھی لیے پھرتے ہیں اورستم بالائے ستم یہ کہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنی ان بیویوں اور بچیوں کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا لباس زیب تن رکھا ہے کہ ان کے جسم پرہوتے ہوئے بھی وہ بر ہنہ ہی ہیں ، خود آدمیوں کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتی ہیں اور آدمیوں کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبورکرتی ہیں ، چلتے وقت سینوں کو پھیلاتی اور سرینوں کو خوب ہلاتی ہیں اور بالوں کے نت نئے اسٹائل بناتی رہتی ہیں ، یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود ان نام کے مسلمان شوہروں یا باپوں کے منہ کبھی غیرت سے لال نہیں ہوئے بلکہ انہیں دیکھ کر وہ خوشی اور فخر کا اظہار کرتے ہیں ۔ آہ ! ہم اس غیر ت و حمیت سے کس قدر محروم ہوگئے ہیں جو ہمارے اسلاف کی طرّہ امتیاز تھی ۔
مجھے تو تعجب ہے کہ یہ کیسے مرد ہیں جو اپنی بیویوں اور بچیوں کو اس حالت میں دیکھتے ہیں اور ان کی مردمی غیرت جوش میں نہیں آتی ۔ یہ کیسے برداشت کرتے ہیں کہ اجنبی آدمیوں کی نگاہیں ان کے خاندان کی عورتوں کے چہروں یا جسموں پر پڑیں ؟ یا ان غیر محرم آدمیوں کے کان ان کی خوش الحانی اور
نغمہ سرائی سے محظوظ ہوں ؟آہ !یہ کیسی خون کے آنسو رلا دینے والی بات ہے کہ یہ آدمی آدمیت اور رجولیت سے محروم ہوگئے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرد نہیں بلکہ مردوں کے چلتے پھر تے لاشے ہیں کیوں کہ رجولیت کرخت آواز مونچھوں اور داڑھی کا نام نہیں بلکہ شخصیت ، روح ، غیرت اور نخوت کا نام ہے ۔
مرد ہونے کے دعویدار و! کیا یہ مرد میت ہے کہ تم لوگوں کو کھلی اجازت دے دو کہ وہ تمہارے خاندان کی عورتوں کی طرف بلا جھجک دیکھتے رہیں اور ا ن کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہوتے رہیں گویا یہ حسن و جمال تمہارے اور ان کے درمیان مشترک ہے ، حالاں کہ تمہیں چاہیے تو یہ تھا کہ جو کوئی تمہاری مستورا ت کی طرف غلط انداز نگاہوں سے دیکھے تو تمہاری حمیت و غیرت کی آگ بھڑک اٹھتی اور تمہارے غیض و غضب کا آتش فشاں پھٹ پڑتا ۔ کیا بیویوں ، بچیوں اور خاندان کی دیگر عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت سے بڑھ کر کوئی مقدس اور اہم فریضہ ہوسکتا ہے ؟
افسوس صد افسوس! ان لوگوں پر جو اپنی عزت اور اپنے شرف کو نہیں پہچانتے اپنی رعیت کی حفاظت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی نگہداشت کا جو فریضہ عائد کیا ہے اس سے
عہدہ برآ نہیں ہوتے ۔
مسلمانو! بتاؤ تو سہی کہ تمہاری عقلوں اور تمہاری حمیت و غیرت کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ تمہاری عورتیں فسق و فجور کا اظہار کر رہی ہیں ، سچ ہے ارشاد ربانی کہ :
’’ فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُورِ‘‘(الحج:۴۶)
’’ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔
تمہاری عزتیں بھی تمہاری روحو ں کی طرح ہوتی ہیں لیکن تم نے اس معاملے میں نہایت افراط کیا ہے ، ذرا غور وفکر کرو!
مسلمانو !تمہاری عورتیں فتنہ و فساد کی اس حد تک محض تمہاری وجہ سے پہنچی ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے ہر گز غافل نہیں ہے ۔ اس نے تمہیں عورتوں کے امور کا نگران تو اس لیے بنایا ہے کہ تم اصلاح کرتے لیکن افسوس کہ تم نے خرابی کی ہے ، خدا سے کچھ تو خوف کرو!
مسلمانو! افسوس کہ تم نگہداشت کے فریضہ سے عہدہ بر آنہ ہوئے ، گمراہی وضلالت کی حوصلہ افزائی کی اور خطرات پر سوار ہوگئے تو تم اپنے ہی نفسوں کو ہلاک کر رہے ہو اور تمہیں شعور ہی نہیں ، تم سر کشی کا مظاہر ہ کر رہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب و عتاب سے نہیں ڈر تے ہو بلکہ ہلاکت اور تباہی اور بر بادی کی طرف بڑھتے جارہے ہو ،کیا باز نہیں آؤگے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّہُمْ طَاءِفٌ مِّنَ الشَّیْْطَانِ تَذَکَّرُواْ فَإِذَا ہُم مُّبْصِرُونَ‘‘
جو لوگ پر ہیز گار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور دل کی آنکھیں کھول کر دیکھنے لگتے ہیں ۔(الاعراف:۲۰۱)
مسلمانو !اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور اللہ تعالیٰ نے جو فرض تم پر عائد کیا ہے اسے بجالاؤ ۔
کیوں کہ یہ تمام فرائض میں سب سے زیادہ مقدس ہے ۔ آنحضرت ا نے بھی ’’کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘۔ ’’تم میں سے ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے رعایا کے متعلق با ز پرس ہوگی ‘‘۔
فرماکر تمہیں مسؤلیت کا احساس دلا یا ہے ؛ چنانچہ ہر باپ سے بچی کے متعلق ،ہر شوہر سے بیوی کے متعلق سوال کیا جائے گا ، اسی طرح ہر آدمی سے اس کی اولاد اس کے تابع عورتوں اور ہر اس چیز کے متعلق جو اس کے ماتحت ہو باز پرس کی جائے گی ، لہٰذا اے مسلمانو! اے مومنو! اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور سب کے سب خدا کے آستانے پر جھک جاؤ ، فلاح و بہبودی کے راز اسی میں مضمر ہیں۔
No comments:
Post a Comment