- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, February 7, 2017

ڈاکٹر ابوعدنان سہیل
مرو جہ نعت گوئی پر ایک نظر (۱)
بر صغیر ہند و پاک میں گذشتہ کئی صدیوں سے یہ رواج چلاآرہا ہے کہ فارسی اور اردو زبان کے شعراء جناب رسول اللہ اسے اظہار تعلق کے لیے اشعار کے ذریعہ اپنے جذبات عقیدت پیش کرتے رہے ہیں ، جس کو عموما ’’ نعت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور اب اس کی حیثیت اردو شاعری میں غزل ، نظم ،قصیدہ ، رباعی ،مثنوی اور مر ثیہ وغیرہ کی طرح ہی ایک مستقل ’’ صنف سخن ‘‘ کی ہو گئی ہے ۔ تمام شعراء بالالتزام لازمی طور پر اس صنف سخن پر طبع آزمائی کرتے ہیں خواہ وہ مسلمان شاعر ہو ں یا غیر مسلم ! اردو مشاعروں کی ابتدا ء میں شمع روشن کرنے کی رسم کی ادائیگی کے بعد پہلی چیز جو لازمی طور پر پڑھی جاتی ہے وہ نعت رسول ہی ہے ۔ 
نعت کو صاحب فیروز اللغات اگر چہ عربی زبان کا لفظ بتاتے ہیں مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ عربی زبان کی قدیم ، مستند اور متداول لغات میں نعت کا لفظ کہیں نہیں ملتا ۔ صاحب مصباح اللغات ابو الفضل عبدالحفیظ بلیاوی رحمہ اللہ نے اس لفظ کو فارسی الاصل بتایا ہے ۔ ملا حظہ ہو :
نعتہ نعتا(ف)تعریف کرنا ، بیان کرنا ، اکثر اس کا استعمال صفات حسنہ کے لیے ہوتا ہے ۔ 
نعت (باب سمع یسمع سے ) بہ تکلف عمدہ صفات دکھانا۔
نعت ، ( باب کرم یکرم سے ) نعایۃ الرجل ، خلقتاً عمدہ صفات والا ہونا ۔ (مصباح اللغات ص:۸۸۷)
اسی طرح عربی زبان کی شاعری میں ، غزل ، قصیدہ ، مثنوی ، مسدس ، رباعی ،قطعات وغیرہ غرض سبھی کچھ موجود ہے ، مگر نعت نام کی کسی صنف سخن سے عربی زبان کے قدیم شعراء نا آشنا نظر آتے ہیں ۔ دور نبوی کے اسلامی شعراء میں حضرت حسان بن ثابت ر ، عوف بن مالک ، عبداللہ بن رواحہ ، اور کعب بن زہیر سلمی رضی اللہ عنہم ، وغیرہم اور بعد کے ادوار میں نابغہ الجدی، اعشی قیس، فرزدق اور ابو العلاء معری جیسے قادر الکلام عرب شعراء کے کلام میں جو بھی تعریف و توصیف نبوی ا کے اشعار نظر آتے ہیں وہ ’’ قصائد ‘‘ کی قبیل سے ہیں کہ نہ موجودہ نعت گوئی کی صنف سخن سے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
نعت ایک فارسی لفظ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت گوئی کا آغاز گذشتہ صدیوں میں سر زمین ایران سے ہوا تھا ۔ فارسی شعراء میں سب سے پہلے نعتیہ اشعار کہنے والے شیخ سعدی ہیں ان کی نعت کے وہ اشعار جو انہوں نے غالباًحضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کے قصیدہ بانت سعاد سے متاثر ہوکر لکھے تھے ، آج بھی بر صغیر ہندو پاک کے علاوہ تمام اسلامی دنیا میں مشہورو معروف ہیں۔ یعنی :
یا صاحب الجمال و یاسید البشر من وجھک المنیر لقد نور القمر
ترجمہ: اے حسن و جمال میں یکتا ہستی اور اے تمام انسانوں کے سردار! بلا شبہ آپ ہی کے روشن چہرے سے چاند نے ضیاء پائی ہے۔
لایمکن الثناء کم کا ن حقّہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر!
آپ کی تعریف و توصیف کا حق ادا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے ۔ قصہ مختصر ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے بعد سب سے بزرگ و برتر اور بلند ہستی فقط آپ کی ہی ہے ۔ 
ان اشعار میں شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے رسول اللہ اسے اظہار عقیدت میں حسن بیان کے ساتھ توازن فکر ، ادب و احترام نبوی کا مظاہرہ ، حقیقت بیان کا التزام اور غلوئے مفرط سے اجتناب کی جو عمدہ روش اختیار کی ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ بعد کے دور کے فارسی یا اردو زبان کے شعراء نعت گوئی کے اس بلند معیار پر قائم نہ رہ سکے ۔ اور رسول اللہ ا سے اظہار عقیدت میں آپ ا کی شان میں غلواور اطراء کی ساری شرعی حدیں پا ر کر کے آپ ا کو رب العالمین کا ہمسر ٹھہرا نے کو ہی نعت گوئی کا حسن ومعیار اور لازمہ تصور کرنے لگے ۔
دراصل نعت اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ایسا لا شعوری ردّعمل اور جذباتی سانحہ ہے کہ اگر اس جذبہ پر شروع ہی سے مؤثر کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ بے قابو ہوکر انسانی ذہن کو جنون کی سرحدوں میں پہنچادیتا ہے ۔ لیلیٰ مجنوں ، شیریں فرہاداور ہیر رانجھا وغیرہ کی روایتی عشقیہ داستانیں اس بات کی گواہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے علاوہ تمام مخلوق سے محبت کرنے کی حدود پہلے ہی متعین فرما دی ہیں ۔ تاکہ انسان ان حدود میں رہتے ہوئے ذہنی انتشار اور دیوانگی سے محفوظ رہ سکے ، جیسے شوہر ، بیوی اور اولاد سے محبت ، ماں باپ سے محبت ، بہن بھائی کا پیار ، دوست احباب سے الفت و دلی تعلق اور رسول اللہ یا بزرگان دین اور اولیاء اللہ سے محبت و عقیدت کے تقاضے وغیرہ وغیرہ ۔ بے قید جذباتِ محبت کا اظہار جس کو قرآن مجید میں اشّدحبا للہ کہا گیا ہے ، وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ہی کی جاسکتی ہے کسی اور سے نہیں ! 
مروجہ نعت گوئی میں جذبات عقیدت کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کیا جاتاہے ، وہ محتاج بیاں نہیں ۔ اس کی ایک اہم وجہ شاید یہ ہے کہ شاعری ۔۔۔ خصوصاً اردوشاعری میں مبالغہ آرائی کو شاعری کا حسن اور اس کی معراج تصور کیا جاتا ہے ۔ جو شخص اپنے اشعار میں جس قدر خوبصورت ڈھنگ سے اور موزوں الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مبالغہ آرائی کا مظاہرہ کر سکتا ہے ، اتنا ہی وہ عمدہ اور پسندیدہ شاعر کہلاتا ہے ۔ جس طرح بقول مرزا غالب مشاہدۂ حق کی گفتگو شاعری میں بادہ و ساغر کی تمثیلات کے بغیر حسن بیان کا جامہ نہیں پہن سکتی ، ٹھیک اسی طرح اظہار عقیدت کے لیے بھی اشعار میں تاثیر حسن و خوبی اور شوکت بیان پیدا کرنے کے لیے مبالغہ آرائی کے الفاظ اور شگفتگئی جذبات ایک لازمی چیز ہے ، قطع نظر اس کے کہ یہ روش دینی امور اور شرعی احکام میں کتنی مہلک اور ایمان کے منافی ثابت ہوتی ہے ۔
حب رسول کا معیار :
جہا ں تک جناب رسول اللہا فداہ امی و ابی سے محبت وعقیدت کی بات ہے ، تو قرآن حدیث کی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ حب رسول ا کا معیار صرف اور صرف اطاعت رسول ا ہے۔ رسول اللہا کی بے چوں و چرا اطاعت کے بغیر محبت رسول ا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 
جناب رسول اللہ اکا ارشاد گرامی ہے :
من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔ اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (تاریخ ابن عساکر ۳؍۱۴۵)
قاضی عیاض رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ الشفاء ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
قال سفیان : المحبۃ اتباع الرسول ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ (تابعی ) فرماتے ہیں کہ محبت رسول ا کا مطلب در حقیقت ابتاع رسول ا ہے ۔ 
بے شمار قرآنی آیات اور احادیث رسول ا کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ حب رسول ا کا تقاضایہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات اور شعبوں میں قدم قدم پر آپ ا کی اطاعت کی جائے ،وہ محبت جو سنت رسول اللہ ا پرعمل کرنا نہ سکھائے محض دھوکہ اور فریب ہے ۔ آپ ا کی اطاعت اور پیروی کے بغیر دعویٰ محبت رسول امحض لفاظی اور منافقت ہے۔ 
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : 
کل امتی یدخلون الجنۃ الا من ابی: قالوا یارسول اللہ ! ومن یابی قال من اطاعنی دخل الجنۃومن عصانی فقد ابیٰ۔(بخاری شریف :۷۲۸۰)
ترجمہ :میری امت کا ہر فرد جنت میں داخل ہوگاسوائے اس کے جس نے انکار کیا ۔ صحابہ نے پوچھا ؟ اے اللہ کے رسول ا ! وہ کون شخص ہے جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا ؟ آپ انے ارشاد فرمایا : جس نے میر ی اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔ 
اس بات میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ ا کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔ اور تکمیل ایمان کے لیے رسو ل اللہ اکی صرف ظاہری اطاعت اور پیروی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قلبی تسلیم و رضا اور دل جاں سے آپ ا کے احکامات و فرامین اور ہدایت پر عمل کرنے کا جذبہ بھی بے حد ضروری ہے ۔ 
قر آن میں اس ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَلاََ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما (النساء :۶۵)
نہیں ! تمہارے رب کی قسم ! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی نزاع و اختلا ف میں آپ ا کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ۔ پھر جو کچھ آپ ا فیصلہ فرمادیں ، اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ، بلکہ دل وجان سے اسے تسلیم کرلیں ۔
بالکل یہی بات حدیث نبوی میں فرمان رسول ا کی صورت میں اس طرح موجود ہے: لایومن احدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ (مشکوٰۃ للالبانی ، ص:۱۶۷)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات نفس کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے ۔ 
حب رسول ا کا لازمی اور اہم ترین تقاضہ ،احترام اور تعظیم رسول ا ہے ۔ یہ ایسی بارگاہ ہے جہاں حکم عدولی کی گنجائش توکیا ہوتی ، یہاں تو اونچی آواز میں بولنا بھی غارت گر ایمان ہے سورۃ الحجرات کی ابتدائی چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ا کے ادب وا حترام کے تقاضوں کا ذکر اور اس کے مختلف پہلوؤ ں پر روشنی ڈالی ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(ترجمہ )اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول ا سے پیش قدمی نہ کیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔ اے ایمان والو! تم لوگ اپنی آوازیں نبی کریم ا کے سامنے بلند نہ کرو اور ہی ان کو اونچی آواز میں پکارو ، جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال بر باد ہوجائیں اور تمہیں اس کی کوئی خبر بھی نہ ہو ۔ بلا شبہ جو لوگ رسول اللہ اکے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے ۔ ان لوگوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے ۔ اے نبی ا ! جو لوگ آپ ا کو حجروں کے باہر سے پکارتے اور آواز دیتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ۔ اگر یہ لوگ صبر سے کام لیتے تا آنکہ آپ ان کی طرف خود ہی نکلتے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر تھی۔ اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ (الحجرات :۱تا ۴)
ان آیات کے نزول کے بعد ایک صحابی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جن کی آواز قدرتی طور پر بلند اور پاٹ دار تھی ، ایمان ضائع ہونے کے خوف سے گھر میں محصور ہوکر بیٹھ گئے تھے آپ انے ان کی غیر حاضری محسوس فرماکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ان کے بارے میں دریافت فرمایا ۔ اورجب آپ ا کو اصل صورت حال کا علم ہوا تو آپ ا نے ان کو پیغام بھجوایا ۔ تم اہل دوزخ میں نہیں ہو بلکہ اہل جنت میں سے ہو ۔ یہ سن کر انہیں اطمینان ہوا ۔ حالانکہ اس سے قبل ان کا حال یہ تھا کہ ایک صحابہ رضی اللہ عنہ نے جب ان سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ : 
میر ا حال یہ ہے کہ میں ہمہ وقت اس تشویش اور غم میں مبتلا ہو ں کہ میری آواز ہی آنحضرت اکی آواز سے بلند ہے اور اس طرح مجھے یہ خدشہ ہے کہ میں تو اہل دوزخ میں سے ہوجاؤ ں گا ۔ (بخاری : کتاب التفسیر :۴۶۔۴۸)
صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کے ادب و احترام اور محبت نبوی کا یہ عالم تھا کہ وہ دربار نبوی ا میں بغیر طہارت کیے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے حاضر خدمت ہونا گوارہ نہیں کرتے تھے راستہ میں کبھی حضور ا کا ساتھ ہوجاتا تو اپنی سواری کو وہ آنحضور ا کی سواری سے آگے نہ بڑھنے دیتے تھے ۔ غایت ادب کی وجہ سے کسی بات میں بھی آپ ا سے مسابقت گوارہ نہ تھی ۔ دستر خوان پرہوتے تو جب تک آپ ا خود کھانے تناول کرنا شروع نہ فرماتے کوئی بھی کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا تھا اگر آپ ا مکان کے نچلے حصے میں قیام پذیر ہوتے تو وہ دوسری منزل پر اس خیال سے کہ رسول اللہ ا کے اوپرچلنے پھرنے سے بے ادبی ہوگی ، خود کو ایک کونے میں قید کر لیتے ۔ آپ ا جب بولتے تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی آوازیں فوراً پست اور نگاہیں نیچی ہو جاتی تھیں اور وہ آپ ا کی طرف نگاہ بھر کر دیکھنا بھی سوئے ادب میں شمار کرتے تھے۔ (بخاری :۲۷۳۲)
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت جذبہ دروں کا نام ہے ۔ یہ ایک ایسی دھیمی دھیمی آگ ہے جو د ل میں سلگتی ہے اور پھر اس کی حیات بخش آنچ اور لذت آمیز حرارت حس کے رگ رگ میں تحلیل اور ریشہ ریشہ میں سرایت کر جاتی ہے ۔ حقیقی محبت کا جذبہ اخفاء راز کا متقاضی ہوتا ہے ، اظہار کانہیں ! البتہ : تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ وہ اس کی حرکات و سکنات سے راز محبت کو جان لیتے ہیں ۔ آپنے یہ مثل سنی ہوگی کہ عشق اور مشک چھپانے سے نہیں چھپتا ہے ۔ اور یہ کہ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید یعنی اصلی مشک اپنے وجود کا اعلان اپنی خوشبو سے خود ہی کر دیتا ہے ۔ عطار کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ مشک ہے ۔ اصلی محبت کا جذبہ بھی مشک ہی کے مانند ہوتا ہے ۔ اپنی محبت کا ڈھول پیٹنا اور محبوب کا نام لے کر اس کے گیت گانا کم ظرف اورچھچورے لوگوں کا کام ہوتا ہے ۔ شرفاء اپنی محبت کا راز افشا نہیں ہونے دیتے کیوں کہ راز محبت کے طشت از بام ہونے میں محبت کی توہین ہے اور محبوب کی رسوائی ! اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود جو شخص اظہار محبت کی بے باکی میں مبتلا ہوتا ہے تو بلا شبہ اس کا جذبہ محبت جھوٹا ہے اور وہ خود منافق ہے ۔ 
بہر صورت !رسول اللہ ا کی محبت جس کسی کے دل میں پوری طرح جاں گزیں ہوجائے گی ،اسی تناسب سے اس کی زبان سے اظہار محبت کے بجائے اس کے عمل میں اتباع رسول ا اور تقوی ٰ کی صفت نمایاں ہوتی جائیں گی ۔ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ زبان یا اشعار کے ذریعہ دعوی عشق رسول کرنے والا اگر سنت نبوی ا کی پیروی سے دور اور بدا عمالی میں دن رات مبتلا ہے ، وہ داڑھی منڈاتا ہے ، نماز نہیں پڑھتا ہے ، جوا ، شرب ، زنا کاری اور جھوٹ بولنے سے ذرا بھی نہیں شرماتا ۔ ایسا شخص اگر عشق رسول اکا دعوی دار ہواور وہ اسٹیج پربیٹھ کر نعت رسول ا کے نام پر اپنے اشعار میں حب رسول کا جھوٹا اظہار کرے تو آپ اس کو کیا کہیں گے ؟ ظاہر ہے ایسا شخص منافق اور کذاب کہلائے گا نہ کہ عاشق رسول !کیوں کہ حدیث نبوی کے مطابق اتباع رسول اکے بغیر حب رسول اکا دعوی کھلی ہوئی منافقت اور صریح جھوٹ ہے ! اس قسم کے منافقین کے نعتیہ اشعار کو سن کر ان کی پذیرائی اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسانا حب رسول اکے بجائے نفاق کی تائید اور حوصلہ افزائی کے ضمن میں شمار ہوگا ۔

No comments:

Post a Comment