- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, October 20, 2017

محمد فاروق محمد الیاس سلفی
پرنسپل:المعہد،رچھا،بریلی
اولاد کی تربیت میں ماں کا کردار
معاشرے کی تشکیل میں خواتین کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتاہے اسی وجہ سے مذہب اسلام نے اس تعمیر وتشکیل میں خواتین اور بالخصوص ماؤں کے کردار کو سب سے اہم قراردیا ہے، خاندان کو قائم کرنے اور اس کو برقرار رکھنے میں ماں کا کردار ایک اہم اور غیر معمولی کردار ہوتاہے، ساراخاندان اسی کے اردگرد گھومتاہے، خاص کر اولاد کے لیے ماں کی اہمیت مرکزی ہوتی ہے، ہرفرد کو بنیادی طورپر دو قسم کا ماحول میسر آتاہے ایک داخلی یعنی گھریلوماحول اور دوسرا خارجی یعنی بیرون خانہ ماحول، گھر کا ماحول، بیرون خانہ ماحول سے زیادہ اہم ہے گھر میں اچھا یا برا جس قسم کا ماحول بچے کو ملے گا وہ اسی قسم کے کردار کا مالک ہوگا۔ (الا ماشاء اللہ) گھر کے ماحول کے ذمہ دار ماں اور باپ دونوں ہیں دونوں کا اپنا اپنا کردار، دائرہ کار اور فرائض ہیں، بچوں کی تربیت اگرچہ باپ کی ذمہ داری بھی ہے لیکن اس میں ماں کا کردار اس لیے زیادہ اہم ہے کہ وہ زیادہ وقت گھر میں گزارتی ہے اور اولاد سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ اس لیے اولاد کی تربیت میں ماں کے کردار کو زیادہ عمل دخل حاصل ہے، بچے کی نفسیات اور اس کے رجحانات ومیلانات کو ماں سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔
مشہور کہاوت ہے کہ ’’ماں کی آغوش پہلا مدرسہ ہے‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ ماں کی گود میں بچے کے دل و دماغ پر جو نقوش ثبت ہوتے ہیں وہ بہت گہرے اور پائیدار ہوتے ہیں ،ماں اپنی ذمہ داری سے اس وقت سبک دوشی کا دعویٰ نہیں کرسکتی جب بچہ دودھ پینا چھوڑ دیتاہے اور اپنے ہاتھ سے کام لینا شروع کردیتاہے اس وقت تو ماں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتاہے کیوں کہ بچے کے بننے یا بگڑنے کا آغاز عمر کے اسی دور سے ہوتاہے ۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کے لیے ابتدائی مکتب ہے اگر اس مکتب میں اس کی بہترین تربیت ہوئی توپھر آخر تک اس کی اسی طرز پر تعلیم وتربیت ہوتی رہتی ہے اور اگر خدانخواستہ بچپن ہی سے بری صحبت اور غلط تربیت ہوئی تو بہت مشکل ہے کہ پھر آئندہ اس کی اصلاح ہوسکے۔ (عظیم ماؤں کی عظیم اولادیں:۱۲)
امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک والدین نے طے کیا کہ امید کے ان دنوں میں کوئی گناہ نہیں کریں گے تاکہ بچے پر اس کا غلط اثر مرتب نہ ہو چنانچہ بچہ پیدا ہوااس کے بعد بھی اس کی نگرانی کی گئی ایک دن دیکھا کہ اس نے پڑوس کی ایک کھجور اٹھا کر چپ چاپ کھالی۔ اس کو دیکھ کر والدین کو بہت افسوس ہوا آخر کار بات یہ کھلی کہ امید کے دنوں میں ایک دن اس کی ماں کو بہت سخت بھوک لگ رہی تھی اور کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا پڑوس کے گھر کے درخت کی شاخ جو اس کے گھر میں آئی ہوئی تھی اس میں سے اس نے ایک کھجور چپ چاپ کھالی تھی جس کا اثر بعد میں بچے پر بھی ہوا۔ (حوالہ سابق:۱۴) 
ایک عدالت نے ایک چور کو جب چوری کرنے پر سزا سنائی تواس چور نے بآواز بلند یہ کہا کہ میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کی زبان کو کاٹا جائے۔ لوگوں نے اس کی وجہ معلوم کی تو اس نے کہا کہ جب پہلی مرتبہ میں اپنے پڑوس کے یہاں سے انڈا چوری کرکے گھر لایا تو میری والدہ نے مجھ کو اس پر کچھ نہیں کہا، اگر وہ پہلے ہی دن مجھ کو اس سے روک دیتی تو آج میں چور نہ بنتا۔ (حوالہ سابق:۵۹) 
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ماں کا کردار باپ سے زیادہ اہم ہے کیوں کہ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے، بچہ ماں کے ایک ایک قطرۂ شیر کے ساتھ اس کے اخلاق وعادات کو بھی اپنے دل ودماغ میں اتارتاجاتاہے ماں اگر مؤمنہ ،مسلمہ اور پابند شریعت ہے تو بچے سے بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ چل کر صاحب ایمان اور پابند شرع ہوگا۔ اگر بدقسمتی سے ماں دین وایمان سے خالی، آزاد خیال اور فیشن کی دلدادہ ہے تو اس سے پیدا ہونے والی نسل بھی فیشن پرست ،دین بیزار اور اسلامی تربیت سے عاری ہوگی۔لہٰذا ماؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود برائیوں سے بچیں اور احکام شریعت پر کاربند ہوں اور اپنی اولاد کو بھی برائیوں واچھائیوں میں فرق ذہن نشین کراکے انہیں صالح اقدار کی طرف مائل کریں ،انہیں نبی اکے حالات، آپ کی سیرت طیبہ ، صحابہ کرام کے واقعات اور کار نامے سنائیں ،خود بھی سیکھیں اور اولاد کو بھی سکھانے کا اہتمام کریں ،یہ بہت ضروری ہے کہ ماؤں کا کردار بھی درست ہو ،مؤثر ترین تعلیم وتربیت بذریعہ عمل ہوتی ہے ایک فلسفی کہتا ہے کہ : تمہارا اپنا عمل دوسروں کے لیے ہزار نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہے ،اولاد تبھی نیکی کی راہ پر گامزن ہوگی جب مائیں اپنے قول وفعل میں مطابقت پیداکریں گی کیوں کہ جیسا ان کا کردار ہوگا اولاد بھی وہی کچھ سیکھے گی لہٰذا مائیں اپنے کردار میں زیادہ سے زیادہ دینی رنگ بھریں تاکہ ان کی اولاد بھی ویسے ہی اوصاف وکردار کی مالک بنے ،ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ چند ماؤں کا تذکرہ کرتے چلیں تاکہ عصر حاضر کی ماؤں کے لیے تربیت اولاد کا ایک نمونہ سامنے موجود رہے۔
* حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں چھوٹے بچے تھے، ایک بار کھیل ہی کھیل میں لڑپڑے پھر دونوں والدہ ماجدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت کرنے لگے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دونوں صاحبزادوں کی شکایتیں سنیں پھر فرمایا میں یہ کچھ سننا نہیں چاہتی کہ حسن نے حسین کو پیٹا یا حسین نے حسن کو ،میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ تم دونوں لڑے اور لڑائی اللہ کو پسند نہیں تم دونوں نے اللہ کو ناراض کیا جس سے اللہ ناراض اس سے میں بھی ناراض ،چلو بھاگو یہاں سے، دونوں بھائیوں نے ماں کی نظر دیکھی جھٹ پٹ آپس میں صلح کرلیا اور ننھے منے ہاتھ اٹھاکر اللہ سے معافی مانگی۔ (عورت اسلام کے سائے میں:۲۰۶)
* حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جب مسلمان ہوئیں تو ان کے شوہر مالک بن نضر کو بڑا دکھ ہوا ،ان کا ایک بچہ تھا نام انس تھا حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بچے کو ہر روز کلمہ یاد کراتی تھیں مالک بن نضر سنتے تو خفا ہوکر کہتے کہ میرے بچے کو بھی بے دین کئے دیتی ہو پھر وہ ایسا ناراض ہوئے کہ ملک شام چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے آٹھ برس کے بیٹے کو لے کر نبی اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ اس بچے کو اپنی خدمت کے لیے اپنے پاس رکھ لیں، آگے چل کر یہی بچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نام سے جانا پہچانا گیا، حضرت انس رضی اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کو جزائے خیر دے انہوں نے مجھے خوب ہی پالا او ر تربیت کا حق اداکردیا۔ (حوالہ سابق:۲۰۷)
* امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بچپن ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا ،والدہ بیٹے کو خراسان سے لے کر بغداد آگئیں، یہاں انہوں نے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا انتظام فرمایا، ان کی نگرانی سخت تھی ہروقت ان کی توجہ بیٹے کی تعلیم وتربیت کی طرف رہتی تھی، اس تعلیم وتربیت کے نتیجہ میں یہ نوجوان امام اہل سنت اما م احمد بن حنبل بن گئے ورنہ بغیر باپ کے بچے کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ (حوالہ سابق:۲۰۷)
* یہ ماں کی دعا اور حسن تربیت کا اثر تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ دنیائے اسلام کے ایک عظیم محدث اور دین کے بے مثال خادم وداعی قرارپائے یہاں تک کہ بچپن میں جب ان کی بینائی چلی گئی تو ان کی والدہ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی لوٹادی تھی۔ (بچوں کی تربیت کیسے:۱۰۳)
* امام ربیعہ الرائے کی تعلیم وتربیت تنہا ان کی والدہ نے کی تھی یہ ان کے صبرو استقلال اور تربیت کا ثمرہ تھا کہ ربیعہ اپنے وقت کے سب سے بڑے فقیہ بن گئے۔ (حقوق ومعاملات:۱۹۰)
محترم قارئین! ان مذکورہ واقعات سے آپ نے بخوبی اندازہ لگالیا ہوگا کہ اولاد کی تربیت میں ماں کا کردار کتنا اہم ہے ،حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا مشہور واقعہ محتاج بیان نہیں کہ انہوں نے کس طرح بچپن میں ماں کی ہدایت کے مطابق ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے سچ بولا تو ڈاکوؤں کا سردار اتنا شرمندہ ہواکہ یہ ننھا سا بچہ اپنی ماں کا اتنا فرماں بردار ہے اور میں اتنا بڑا ہوکر اپنے مالک کا نافرمان ہوں ،اسے اتنی ندامت ہوئی کہ وہ اور اس کا پورا قافلہ سب نے چور ی ڈکیتی سے توبہ کی اور مخلص مومن بنے، گویا ان سب کے راسخ العقیدہ مسلمان بننے کا سارا محرک حضرت عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ کی پرخلوص نصیحت اوراسلامی رنگ میں رنگی ہوئی بچے کی تربیت تھی۔ (اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ:۹۰) 
تاریخ کی عظیم شخصیتوں کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بہت سی عظیم ہستیوں کو مقام سربلندی ماں کی بہترین تربیت کے نتیجے میں حاصل ہوا۔
ایک ننہا سعودی بچہ کا حیرت انگیز جواب: ٹیچر نے ایک دن کلاس اول کے طلبہ سے پوچھا تم کیا بننا چاہتے ہو؟ سب نے جواب دیا :پائلٹ، ڈاکٹر ، پولس، لیکن ان میں سے ایک طالب علم نے بالکل اچھوتا اور حیرت انگیز جواب دیا، کہا میری خواہش ہے کہ میں صحابی بنوں ۔ٹیچر نے تعجب سے پوچھا تم کیوں صحابی بننا چاہتے ہو؟ اس ننھے سے لڑکے نے جواب دیا کہ میری ماں ہر روز سونے سے پہلے کسی نہ کسی صحابی کا قصہ بیان کرتی ہیں، صحابہ اللہ سے محبت والے ، جانباز،بہادر،جرنیل ۔۔۔میری تمنا ہے کہ میں ان کے جیسا بنوں، ٹیچر بچے کے اس جواب پر خاموش ہوگئے اور اپنی آنکھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے کہا یقیناًاس بچہ کے پیچھے ایک عظیم ماں ہے اسی لیے تو اس کے مقاصد بھی عظیم ہے۔ (پیام توحید نئی دہلی ماہ جون۲۰۱۳ ؁ء) 
ہر ماں سوبار یہ سوچے کہ وہ اپنے بچے کے سامنے کیا کردار پیش کرتی ہے۔

No comments:

Post a Comment