’’فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی قبولیت ایک جائزہ jul-sep 2011 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Sunday, September 23, 2012

’’فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی قبولیت ایک جائزہ jul-sep 2011

مولانا عبد الرؤف عبد الحفیظ السلفی
(قسط۲)
مقدمۃ الکتاب۔ایک تجزیاتی مطالعہ
’’فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی قبولیت ایک جائزہ‘‘
جاء الحق حصہ دوم کا آغاز دو صفحہ پر مشتمل ایک دیباچے سے کرنے کے بعد مؤلف نے ’’مقدمۃ الکتاب‘‘ ذکر کیا ہے جو تیرہ قواعد پر مشتمل ہے ۔بعض قواعد کے ضمن میں ذیلی قواعد بھی ہیں ، یہ مقدمہ اس کتاب کے لیے وہی اہمیت و حیثیت رکھتا ہے ،جو علم منطق میں صغریٰ کبریٰ کو حاصل ہوا کر تا ہے چناں چہ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مؤلف ان قواعد کو ذکر کر نے سے قبل لکھتے ہیں : ’’اصل کتاب کے مطالعہ سے پہلے حسب ذیل قواعد اچھی طرح مطالعہ فرماکر یاد فرمالیں، یہ قواعد بہت ہی کار آمد ہیں‘‘۔
لیکن ان قواعد کی حیثیت کسی کاہن کے اٹکل سے مشابہ ہے جو شیاطین کی القاء کی ہو ئی کسی ایک بات میں سو جھوٹ شامل کر کے لوگوں کے درمیان ان کی نشرو اشاعت کر تا اور لوگوں کو شرک و بدعت کی عمیق گڑھے میں ڈھکیلتا رہتا ہے۔
اس لیے میں بعض ایسے قواعد سے صرف نظر کر تے ہوئے جو کسی حد تک صحت کے قریب ہیں ذیل میں صرف انہیں قواعد کا تجزیہ حوالہ قرطاس کر رہا ہوں جو بظاہر نہایت سادہ اور عمدہ مگر حقیقتاً حد درجہ بودے اور باطل ہیں اور طرفہ ایں کہ یہی اصول و قواعد پوری کتاب کا محور و مرکز بھی ہیں۔
قاعدہ نمبر (۱) و (۲):
قاعدہ نمبر ۱؂ کے تحت مؤلف،حدیث صحیح ،حسن اور ضعیف کی تعریف کر تے ہوئے قاعدہ نمبر ۲؂ کے تحت لکھتے ہیں:
’’پہلی دو قسمیں یعنی صحیح اور حسن احکام اور فضائل سب میں معتبر ہیں لیکن حدیث ضعیف صرف فضائل میں معتبر ہے ، احکام میں معتبر نہیں اس سے حلال و حرام احکام ثابت نہ ہوں گے،ہاں اعمال یا کسی شخص کی عظمت و فضیلت ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔
تجزیہ:
درج بالا قاعدہ میں مؤلف نے ضعیف روایات کو فضائل اعمال اور منقبت رجال میں مطلقاً معتبر قرار دیا ہے اور اس قدر محکم اور مطلق انداز میں بیان کیا ہے کہ گویا یہ قاعدہ یونہی مطلقاً تمام محدثین ، فقہاء اور اصولیین کے نزدیک متفق علیہ ہو، حال آں کہ اتفاق کا دعوی اور گمان سراسر مبنی بر بطلان ہے، چنانچہ مولانا عبد الحئی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کے متعلق اتفاق کا دعویٰ باطل ہے ، اگر چہ جمہور کا مذہب یہی ہے ،مگر مشروط ہے ‘‘ ۔ (۱)
چونکہ یہ قاعدہ ان بنیادی قواعد میں سے ایک ہے جو مؤلف اور ان کے ہمنوا جماعت کے نزدیک قطب الرحیٰ سے کسی درجہ کم نہیں، اس لیے ضروری معلوم ہو تا ہے کہ اس مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈال دی جائے۔
حدیث ضعیف کی تعریف: ’’کل حدیث لم یجتمع فیہ صفات الحدیث الصحیح ولا صفات الحدیث الحسن المذکورات فیما تقدم فھو حدیث ضعیف‘‘۔ (۲)
یعنی ہر وہ حدیث جس میں حدیث صحیح اور حسن کے صفات مذکورہ (یعنی اتصال، عدالت، ضبط ، متابعت مستور،عدم شذوذ اور عدم علت) جمع نہ ہوں، بلکہ ایک یا ایک سے زائد صفات مفقود ہوں تو وہ حدیث ضعیف کہلاتی ہے۔
اسی مفہوم کی تعریف امام نووی(۳) علامہ جمال الدین قاسمی(۴) شاہ عبد الحق محدث دہلوی(۵) شیخ عبد الرحمٰن بن عبید اللہ مبارکپوری(۶) حافظ زین الدین عراقی(۷) علامہ جلال الدین سیوطی اور حافظ ابن کثیر(۸) رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی کی ہے۔
نوٹ: اگر چہ بہت سے محدثین نے حدیث ضعیف کی تعریف میں حدیث صحیح کے صفات کے مفقود ہو نے کا تذکرہ کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف حدیث حسن کے صفات کا سقوط ہی ضعیف کے لیے کافی ہے ، حدیث صحیح کے تذکرہ کی اصلاً کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ،کیوں کہ جب کسی حدیث میں، حدیث حسن کے صفات مفقود ہوں گے تو اس میں حدیث صحیح کے صفات بدرجۂ اولیٰ مفقود ہوں گے ۔ چناں چہ شیخ ابو عبد الرحمٰن صلاح بن محمد بن عویفہ محشی مقدمہ ابن الصلاح، حدیث ضعیف کی تعریف مذکور پر تعلیقاً رقمطراز ہیں: ’’لاحاجۃ الی ضم الصحیح، فانہ حیث قصر عن الحسن کان عن الصحیح أقصر‘‘۔ ( ۱۰) 
نیز امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:(اما الضعیف فھو مالم یبلغ مرتبۃ الحسن، ولو بفقد صفۃ من صفاتہ، ولا احتیاج لضم الصحیح الیہ، فانہ حیث قصر عن الحسن کان عن الصحیح أ قصر)۔ (۱۱)
حدیث ضعیف کی وقعت و حیثیت : ضعیف حدیث پر کس حدتک اعتماد اورکس قسم کے معاملات میں عمل اور استدلال کیا جا سکتا ہے ، اس تعلق سے علماء کے چار مذاہب ہیں:
۱۔ ضعیف حدیث مطلقاً قابل قبول اور قابل عمل ہے بشر ط یہ کہ اس باب میں کوئی صحیح اور مقبول روایت موجود نہ ہو، کیوں کہ ضعیف حدیث قیاس اور رائے پر عمل کر نے سے اولیٰ و بہتر ہے۔ اس قول کی نسبت امام ابو داؤد اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کی طرف کی گئی ہے ۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وقیل یعمل بہ مطلقاً و تقدم عزو ذالک الی ابی داؤد و احمد و انہما یریان ذالک أقوی من رای الرجال ‘‘۔ (۱۲)
یہی نظریہ امام نسائی، امام احمد بن صالح المصری اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ (مذاہب اربعہ فی الباب اور تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ضعیف احادیث کی معرفت :ص:۲۳۶،۲۳۷ ص:۲۵۰تا ۲۵۸، ص: ۲۶۴تا ۲۳۹، ص: ۳۲۱ تا ۳۴۸)۔
۲۔ علماء کا دوسرا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ احکام و عقائد میں ضعیف حدیث مطلقاً قابل قبول نہیں البتہ فضائل اعمال، منقبت رجال اور ترغیب و ترھیب میں ضعیف احادیث ماسوائے موضوع مطلقاً بلا کسی شرط کے مقبول اور لائق عمل ہوں گی۔
اس نظریہ کے حاملین میں سے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابو زکریا عنبری، عبد الرحمٰن بن مہدی، حافظ ابن عبد البر، حافظ ابن الصلاح رحمہم اللہ وغیرہ محدثین و محققین بھی ہیں ۔
۳۔ تیسرا طبقہ ان علماء کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ ضعیف احادیث سے صفات باری تعالیٰ اور احکام و مسائل اخذ کر نا کسی طرح جائز نہیں ،البتہ فضائل اعمال ، منقبت رجال اور ترغیب و ترھیب وغیرہ میں ضعیف احادیث مقبول ہو تی ہیں مگر چند شرائط اور اصول و ضوابط کے ساتھ ۔
اس بات کے قائلین میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شارح صحیح بخاری، علامہ ابو محمد بن عبد السلام، ابن دقیق العید، شیخ علاء الدین الحصفکی، صاحب در مختار الحنفی، ابن عابد ین الحنفی،صاحب رد المحتار، علامہ جلال الدین سیوطی صاحب تدریب ، علامہ محمد زاہد الکوثری الحنفی، علامہ ابن الہمام الحنفی، علامہ ابو الحسنات عبد الحئی لکھنوی الحنفی وغیرہ رحمہم اللہ ہیں بلکہ بقول علامہ لکھنوی یہی جمہور کا مذہب ہے۔
۴۔ چوتھا طبقہ ان علماء کا ہے جو ضعیف احادیث پر عمل کر نا احکام و مسائل میں جائز تصور کر تے ہیں اور نہ فضائل اعمال ، منقبت رجال اور ترغیب و ترہیب میں۔ 
اس طبقہ میں مشہور تابعی حضرت قتادہ، امام یحییٰ ابن معین،امام ابن حبان، امام بخاری امام مسلم ،امام ابن حزم، امام خطیب بغدادی، علامہ ابن تیمیہ، امام شوکانی رحمہم اللہ اور ماضی قریب یا دور حاضر کی شخصیات میں سے علامہ البانی ، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا شمس پیر زادہ، مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی حنفی، ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد الجبار فرایوائی ، مولانا محمد اسحاق بھٹی وغیرھم ہیں۔حقیقت اور واقعیت تو یہ ہے کہ علمائے کرام کے اسی آخر الذکر (چوتھے )طبقے نے جو نظریہ اختیار کیا ہے وہی سب سے زیادہ صحیح، محتاط اور لائق اعتبار ہے۔
اس لیے کہ کسی عمل کی فضیلت کوثابت ماننا درحقیقت اس فضیلت اور ثواب وغیرہ کی صاحب شریعت کی جانب نسبت کرنے کے مساوی ہے اور جب تک واقعی اور معتمد طور پر کوئی بات صاحب شریعت سے ثابت نہ ہوجائے تب تک صاحب شریعت کی جانب اسے منسوب کر نا یا نسبت کو درست ماننا قطعاً درست نہیں ہے ،خواہ وہ بات احکام سے متعلق ہو یا فضائل سے۔زیادہ اور اہم ہو یا ذرہ برابر اور حد درجہ معمولی، دونوں صورتوں میں نسبت لازم آتی ہے جو ازروئے حکم صاحب شریعت( من قال علیّ مالم اقل فلیتبو�أ مقعدہ من النار)۔ (۱۳)حرام و نا جائز اور موجب دخول جہنم ہے۔
اس کے مزید وجوہ و اسباب پر اپنی جانب سے کوئی تبصرہ یا تجزیہ کر نے کے بجائے سطور ذیل میں چند ماےۂ ناز شخصیات کے اقتباسات حوالۂ قرطاس کر نے پر اکتفا کروں گا جو حقیقت امر کی توضیح کے لیے کافی و شافی ہوں گے ۔ ان شاء اللہ الرحمٰن۔
*امام مسلم صاحب الصحیح رحمہ اللہ خطبۂ صحیح مسلم میں رقمطراز ہیں :’’وبعد یرحمک اللہ فلو لا الذی رأینا من سوء صنیع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین‘‘۔ 
یعنی اطراف و جوانب میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ لوگوں کا احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ضعیف اور منکر احادیث کو اپنا شعار بنا لینا ہے ۔جب تک کہ اس شخص پر جو صحیح اور ضعیف احادیث کی معرفت رکھتا ہو،لازم اور واجب امر ہے کہ وہ صرف صحیح احادیث ہی روایت کرے ،متہم و معاندین (کتاب و سنت) کی روایت سے بچے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :’’ یا ایھا الذین آمنوا ان جا ء کم فاسق بنباء فتبیّنوا‘‘۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان :’’ممن ترضون من الشہداء ‘‘ اور ’’ و اشہدوا ذوی عدل منکم‘‘ اسی کے متقاضی ہیں کہ فاسق کی خبر ساقط اور غیر مقبول ہو۔۔۔ اگر چہ خبر اور شہادت میں باعتبار وجوہ یکسانیت نہیں ہو تی؛ لیکن بیشتر اور بعض اہم اعتبارات سے دونوں میں اشتراک اور یکسانیت بھی پائی جا تی ہے اس لیے ( معتبر) اہل علم کے نزدیک جس طرح فاسق کی شہادت مردود اور غیر مقبول ہے، اسی طرح اس کی خبر بھی ساقط اور مردود ہے۔ (مفہوم، ملخص)
*شیخ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ضعیف روایت کے اخذ نہ کرنے سے متعلق احکام اور فضائل اعمال وغیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں بلکہ کسی شخص کے لیے رسول اللہ ﷺ سے مروی صحیح اور حسن احادیث کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے ‘‘۔ (۱۴)
*علامہ ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جب کسی حدیث کا ضعف ثابت ہو جائے تو اس پر عمل کر نے کا جواز باقی نہیں رہتا، فضائل اعمال میں اس پر عمل کرنے کا اصرار در اصل اس ضعیف حدیث کے اثبات اور اسے شریعت بنا دینے کے ہم معنی ہے جو انتہائی مذموم فعل بلکہ قواعد شریعت سے بعید تر ہے۔ (۱۵)
*’’شہد شاہد من اہلہ‘‘ کے طور پر مولانا حبیب الرحمٰن صدیقی حنفی کاندھلوی کا وہ اقتباس برادران احناف کے تسکین قلب کے لیے ذیل میں ذکر کر رہا ہوں جسے موصوف نے ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’الموضوعات الکبیر‘‘ کے اردو ترجمہ میں ’’ فائدہ‘‘ کے تحت درج کیا ہے کہ ضعیف روایت کے بارے میں علمائے حدیث کا اختلاف ہے ، اس امر پر تو سب متفق ہیں کہ احکام اور عقائد میں نہ تو ضعیف روایت قبول کی جائے گی اور نہ اسے بیان کیا جائے گا اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ، اگر چہ فقہائے متاخرین نے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا ہے ، لیکن فضائل اور ترغیب و ترہیب میں علماء کا اختلاف ہے ، مذکورہ جماعت حدیث ضعیف کی روایت کی اجازت دیتی ہے اور اکثر احناف کا بھی یہی مذہب ہے ،لیکن کبارمحدثین اسے جائز تصور نہیں کر تے ، خود ائمہ میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ روایت حدیث میں بہت شدید تھے ،ان کے علاوہ امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی، امام نسائی رحمہم اللہ ضعیف روایت کو قبول نہیں کر تے ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہاں تک فرماتے ہیں : ’’لا یقبل احادیث الفضائل الا مارواہ البخاری و مسلم والترمذی‘‘ یعنی فضائل کی کوئی روایت قبول نہ کی جائے سوائے اس کے جو امام بخاری، امام مسلم ، امام ترمذی رحمہم اللہ نے روایت کی ہو۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
’’ أحادیث الفضائل کلہا موضوعۃ أو ضعیفۃ الا مارواہ البخاری و مسلم والترمذی ‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور جامع ترمذی کے علاوہ تمام فضائل کی احادیث یاتو موضوع ہیں یا ضعیف اور علی الخصوص موجودہ دور میں اہل بدع انہی روایات کے ذریعہ منکر ین احادیث اور دہریہ قسم کے لوگ دین پر معترض ہو تے ہیں، ایسی صورت میں علماء کا فرض ہے کہ وہ ضعیف روایات بیان کر نے سے احتیاط کریں اور ضعیف بہر صورت ضعیف ہے، چاہے وہ احکام میں ہو یا فضائل میں ، عقائد میں یا ترغیب و ترھیب میں اور پھر اس پر مسائل کی بنیاد رکھنا گویا کہ بالفاظ دیگر اسے تسلیم کر نے کے مترادف ہے ،تو یہ کیوں کہ جائز ہو گا۔ (۱۶)۔
مذکورہ بالا بیانات سے حقیقت امر پورے طور پر ظاہر و باہر ہو چکی ہے مگر چوں کہ ہماری گفتگو کا رخ بلا واسطہ برادران احناف کے ہر دوطبقہ (دیوبندیہ و بریلویہ) کی طرف ہے ،جن کے بارے میں ہمیں قوی امید ہے ۔اللہ کرے، میری یہ امید سراسر غلط ثابت ہو۔۔ کہ وہ ’’انا وجدناعلیہ آبآء نا ‘‘ کہہ کر بیان کر دہ حقائق سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ ، اس لیے مناسب سمجھتا ہو ں کہ کم از کم ان کے اپنے اختیار کر دہ نظریہ کی توضیح و تبیین کر دوں، جو در اصل موضوعات و مناکیر، ضعاف و ابا طیل سے کنارہ کشی کا بہترین ذریعہ ہے بشرط یہ کہ اسے صحیح طور پر سمجھ کر واقعی طور پر عملی جامہ پہنا یا جا سکے ۔
احکام و مسائل اور اعتقاد کے باب میں ضعیف احادیث سے سراسر اجتناب البتہ فضائل و منقبت کے باب میں ضعیف احادیث کا سراسراخذ قبول اکثر احناف کا مسلک اور مذہب ہے مگر چند شرائط کے ساتھ ۔
چناں چہ مولانا عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ’’ الآثار المرفوعۃ‘‘ میں ’’حرمۃ رواےۃ الحدیث الضعیف‘‘ کے تحت فرماتے ہیں :’’موضوع روایت کے بر خلاف ضعیف حدیث اگر احکام سے متعلق نہ ہو تو اس میں تساھل کیا جا تا ہے اور شرائط کے ساتھ اس کو قبول کیا جاتا ہے‘‘۔موصوف علیہ الرحمہ ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جمہور کا مذہب ہے، لیکن مشروط ہے ‘‘ ۔ (۱۷) 
مولانا لکھنوی رحمہ اللہ اپنے مذکورہ نظریہ کے متعلق ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’یہ مسلک معتمدد ہے ‘‘۔ (۱۸)
علامہ شیخ محمد جمال الدین قاسمی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ مذہب ائمہ کے نزدیک معتمد ہے‘‘ ۔( ۱۹)
مولانا لکھنوی رحمہ اللہ ایک موقع پرقدرے تفصیلی بحث کر تے ہوئے ’’ صلوٰۃ التسبیح‘‘ کی روایت کے ضمن میں رقمطراز ہیں: ’’لہٰذا اس روایت کو ضعیف بتا کر اس پر عمل کو نا جائز بتا نا صریح مغالطہ ہے، کیوں کہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً نا جائز ہو نا قطعی باطل ہے ، ہاں ایسی ضعیف حدیث جس کی سند متروک،ساقط،کذاب اورمتہم رواۃ سے خالی نہ ہو وہ شدت ضعف کے باعث لائق عمل نہیں ہو تی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ (۲۰)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ کے مؤلف شیخ علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ بھی مذکورہ شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’فائدہ: شروط العمل بالحدیث الضعیف : عدم شدۃ ضعفہ و أن یدخل تحت أصل عام و أن لا یعتقد سنےۃ ذالک الحدیث‘‘۔ ( الدر المختار کتاب الطہارۃ ص:۲۳) 
شیخ نظام الدین کیرانوی حنفی مؤلف ’’ کشف الأستار شرح الدر المختار ‘‘ اور علامہ ابن عابدین مؤلف رد المحتار ‘‘ رحمہما اللہ نے شیخ علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ کے بیان کر دہ شرائط کو نہ صرف بلا کسی جرح کے قبول کیا ہے بلکہ اس کی تعلیق و تشریح بھی فرمائی ہے ، چناں چہ ’’عدم شدۃ ضعفہکی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’ شدۃ الضعف ھو الذی لا یخلوا طریق من طرقہ من کذاب أو متہم بالکذب قالہ ابن حجر‘‘۔ یعنی ضعف شدید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کی سندوں میں سے کوئی سند کذاب یا متہم بالکذب راوی سے خالی نہ ہو ، یہی بات ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے ۔ نیز ’’ وان لا یعتقد سنےۃ ذالک الحدیث ‘‘ کا مطلب سنےۃ العمل بہ کے ذریعہ بیان فرمایا ہے ،یعنی در مختار کی عبارت میں بیان شدہ شرط’’ اس حدیث کی سنیت کا عقیدہ نہ رکھا جائے ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ حدیث پر عمل کر تے وقت اس عمل کو سنت نہ سمجھا جائے ۔ (۲۱)۔
مولانا سعید احمد پالن پوری حنفی (استاذ دار العلوم دیوبند) ’’تحفۃ الدر‘‘ میں اس طرح رقمطراز ہیں :
حدیث ضعیف کا حکم : معتمد قول یہ ہے کہ اعمال ثابتہ کے فضائل میں ، پند ووعظ میں اور مناقب رجال میں حدیث ضعیف پر عمل جائز ہے بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو یا وہ کسی معمول بہ کے تحت آتی ہو‘‘۔ (۲۲) 
مذکورہ بالا بیانات سے مجموعی طور پریہ بات ثابت اور واضح ہوئی کہ احناف کے نزدیک مطلق طور پر ضعیف احادیث فضائل اعمال میں بھی مقبول نہیں بلکہ اس کی قبولیت مشروط ہے ۔ اور وہ شروط بقول علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے۔
چناں چہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کردہ شرائط اس طورپر تحریر فرماتے ہیں: (۱) حدیث کا ضعف شدید نہ ہو لہٰذا کذاب متہم بالکذب اور فحش غلطی کر نے والے راوی کی حدیث خارج ہو جائے گی جب کہ وہ روایت کر نے میں منفرد ہو۔
(۲) وہ حدیث ضعیف (باعتبار مضمون) کسی اصل عام کے تحت داخل ہو، لہٰذا ہر موضوع حدیث خارج ہو جائے گی کیوں کہ اس کے لیے کوئی اصل نہیں ہوتی۔
(۳) اس حدیث ضعیف پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہئے، تاکہ نبی ﷺ کی جانب کسی ایسی بات کا انتساب نہ ہو ،جسے آپ نے ارشاد نہیں فرمایا ہے ۔ (۲۳)
حافظ ابن حجر اور علامہ ابن الحاج رحمہما اللہ نے شرائط مقررہ کی رعایت کر تے ہوئے عمل کر نے والے کے لیے ایک نہایت اہم اور قابل لحاظ بات یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ شخص’’اس حدیث ضعیف کی تشہیر نہ کرتا پھرے تاکہ کوئی دوسرا انسان ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے یا اس چیز کو شریعت سمجھ نہ بیٹھے جو فی الواقع شریعت نہیں ہے یا اس طرح اس کو عمل کرتا دیکھ کر بعض جاہل لوگ یہ نہ گمان کر لیں کہ وہ صحیح سنت ہے۔ (۲۴) 
نوٹ: مذکورہ سبھی شرائط و اصول صرف ان اعمال کی فضیلت سے متعلق ہیں جن کا ثبوت صحیح طور پر مأخذ شرعیہ صحیحہ سے موجود ہو وگر نہ اگرکوئی عمل پہلے سے مسلّم الثبوت نہیں ہے تو اس کی فضیلت کے لیے ضعیف روایات کا مذکورہ شرائط کے ساتھ بھی سہارا لینا درست نہیں ہے جیسا کہ اس تفصیل کا اجمالی اشارہ مولانا سعید احمد پالن پوری حنفی استاذدار العلوم دیوبند کے مذکورہ عبارت کے وارد لفظ ’’اعمال ثابتہ‘‘ میں واضح طور پر موجود ہے۔
*****
حوالہ
(۱)۔ الآثار المرفوعۃ ص:۸۱ بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت، مؤلفہ غازی عزیز ص:۲۳۶۔ (۲)۔ مقدمۃ ابن الصلاح ص:۳۹۔ (۳)۔التقریب للنووی ص:۹۰۔( ۴)۔قواعد التحدیث ص:۱۰۸۔ (۵)۔مقدمہ در مصطلحات حدیث عبد الحق مع مشکوٰۃ مترجم ص:۸ بحوالہ سابق۔ (۶)۔تحفۃ أ ہل الفکر ص:۱۴۔(۷)۔الفےۃ للعراقی ص:۲۵،توضیح الأفکار ۱؍۲۴۶۔بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت۔ (۸)۔تدریب الراوی ص:۹۰۔ (۹)۔الباعث الحیثیت ص: ۲۲۔ (۱۰)۔حاشیہ مقدمۃ ابن الصلاح ص:۳۹۔۴۰۔ (۱۱)۔فتح المغیث ۱؍۱۱۳۔ (۱۲)۔تدریب الراوی ص:۱۵۲۔ (۱۳)۔صحیح ابن حبان، فصل ذکر ایجاب دخول النار لمن نسبہ الشئی الی المصطفیٰ ﷺ وھو عالم الصحۃ ج۱ ص:۲۷۔(۱۴)۔الباعث الحثیث ص:۸۶۔۸۷۔(۱۵)۔مشکوٰۃ المصابیح تحقیق الألبانی ۱؍۲۱۲۔ (۱۶)۔موضوعات کبیر ص:۵۱۔۵۳، بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت ص:۳۴۱۔۳۴۲۔(۱۷)۔الآثار المرفوعۃ ،بحوالہ سابق۔ (۱۸)۔الأ جوبۃ الفاضلۃ ص:۵۳ ،بحوالہ سابق ص:۲۶۴۔ (۱۹)۔قواعد التحدیث ص:۱۱۳ بحوالہ سابق۔ (۲۰)۔الآثار المرفوعۃ ص: ۱۴۱ بحوالہ سابق ص: ۲۲۹۔ (۲۱)۔رد المحتار کتاب الطہارۃ ص: ۲۵۳و کشف الأستار ،کتاب الطہارۃ ص:۲۳۔ (۲۲)۔تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر ص:۴۵۔ (۲۳)۔تدریب الراوی للسیوطی ص:۱۵۲۔ (۲۴)۔تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر ص: ۲۱، المدخل لابن الحاج ص:۱؍۲۹۱ بحوالہ ضعیف احادیث کی معرفت ص:۲۶۶۔۳۶۷۔

No comments:

Post a Comment