مولا نا ابو الکلام آزاد
علوم جدیدہ کا فریب
ساٹھ ستر برس سے لوگوں نے شور مچا رکھا ہے کہ علوم جدیدہ! علوم جدیدہ! اور اس لیے علم کلام جدید! علم کلام جدید! یعنی جس طرح الحاد جلی کی صورت بدلی ہے ،اسی طرح الحادِ خفی کا چولا بھی بدلا جائے اور جب ایک فتنہ واپس آگیا ہے ،تو دوسرے فتنوں کو بھی کیوں نہ جگا دیا جائے ! حالاں کہ اس بارے میں قدیم و جدید کی تفریق کر نا ہی سرے سے غلط ہے؛ اور ایسی غلطی جو صدہا غلطیوں کو اپنے دامن میں رکھتی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ سائنس مذہب سے برسر پیکار ہے یا فلسفہ،اور قطع نظر اس کے کہ موجودہ عہد کے مذاہبِ فلسفہ پر جدید و حدیث کا اطلاق اصلاً کہاں تک درست ہے، اگر ’’علوم جدیدہ‘‘کی ترکیب کو علی الاطلاق صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے ، جب بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شریعت الٰہی کے حفظ و دفاع کے پچھلے ہتیار بے کار ہوگئے۔ سب سے پہلی غلطی اس بارے میں یہ ہوئی کہ علوم سماویہ کے برخلاف شکوک و شبہات کا اصل مبدالوگوں نے معلوم نہیں کیا، اور نہ کبھی اس کی کوشش کی کہ علوم و دعوت انبیاء کے خلاف انسانی شکوک و شبہات و اعتراضات کو جو مختلف زمانوں میں ظاہر ہو تے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں اصولاً یکجا کریں ،اور بطریق قواعد و جوامع منضبط کر کے دیکھیں کہ اس وادی میں کوئی نیا قدم بھی اٹھتا نظر آتا ہے ، یا وہی ’’ اناعلی آثارھم مقتدون‘‘ کا سا معاملہ ہے ؟ لیکن ایسا کر تا ،تو کون کرتا؟ ذریعہ اس کا صرف ایک ہی ہے یعنی قرآن و حدیث پر تدبر و تفکر ، اور وہی صدیوں سے مہجور۔
ہمیں ورق کہ سیہ گشتہ، مدعا اینجاست!
اصل یہ ہے کہ انسان کے عارضۂ شک و شبہات اور موت انکار و حجود کا اصلی سر چشمہ خود اس کی ضلالت فکر و نظر کی ایک طبیعت ثانیہ ہے جو بحکم ’’وماکان الناس الا امۃ واحدۃ فاختلفوا‘‘ اور ’’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین‘‘اور ’’وعلم آدم الاسماء کلھا‘‘ انسان کی ھدایت اصلی و اولیٰ کے بعد ہی اسباب مذکورۂ قرآن و سنت کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی ،اور جس طرح بحکم ’’ان الدین عند اللہ الاسلام وما اختلف الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیاً بینھم ‘‘ اور’’ شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسی و عیسیٰ۔۔۔الخ‘‘ ظہورِ ہدایت و دعوت الی الیقین میں حقیقت کا ظہور یکساں رہا ہے ، ٹھیک ٹھیک اسی طرح اس طبیعتِ ثانیہ و عارضہ کا ظہور بھی ایک ہی صورت ، ایک ہی رنگ روپ، ایک ہی لب و لہجہ ، بلکہ ایک ہی طرح کی آوازوں اور بولیوں میں ہمیشہ ہو تا رہا۔ اسی لیے قرآن حکیم نے جابجا اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:’’بل قالوا مثل ما قال الاولون ‘‘ اور’’کمثل الذین من قبلھم‘‘ اور جا بجا سلسلۂ ہدایت اور سلسلۂ انکار و ضلالت ،دونوں کو ایک ساتھ بیان کر کے واضح کیا کہ جس طرح پہلے سلسلے کی ہر کڑی ہمیشہ ویسی ہی رہی جیسی باقی کڑیاں تھیں، اسی طرح دوسرے سلسلے کی کڑیاں بھی ہمیشہ یکساں وہم آہنگ رہیں۔ اگر ہمیشہ ملائکہ حقیقت و یقین کا پیام ایک ہی تھا،تو ابلیسِ شک و انکار کا جواب بھی ایک ہی رہا: ’’کلما جاء امۃ رسولھا کذبوہ، کل کذب الرسل فحق وعید، مایاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزوُن‘‘ اسی لیے منکرینِ حق ہمیشہ یہی کہتے رہے : ’’ان ھذا الا اساطیر الاولین‘‘ اور داعیانِ حق کی صدا بھی برابر یہی رہی : ’’سمیتموھا انتم و ابا کم ‘‘اور ’’انھم الفواآباء ھم ضالین، فھم علی آثارھم یھرعون، و لقد ضل قبلھم اکثر الاولین‘‘ یعنی شبہات و انکار کی گمراہی کا ظہور خارج سے نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک عارضۂ طبیعت ہے منجملۂ عوارض اُخریٰ و شتی کے ، اور چوں کہ طبیعت کی استعداد اکتساب عوارض میں یکساں اور غیر مبدّل ہے، اس لیے نفسِ عارضہ بھی اپنی کیفیت میں یکساں و غیر مبدّل ،اگرچہ کمیت میں بڑھنا گھٹنا جاری رہتا ہے۔
جسمانی بیماریوں کی مثال سامنے لاؤ تو مطلب زیادہ صاف ہو جائے گا کیوں کہ سنت اللہ کا ر خانۂ ہستی کی ہر شاخ کے لیے ایک ہی ہے ۔ جس وقت سے انسان اور انسان کی اصلی و فطری تندرستی موجود ہے، اس کے بعد ہی سے عارضی بیماری کا بھی وجود شروع ہو گیا ہے ؛ اور معلوم ہے کہ بیماریوں کے اقسام و جزئیات میں برابر ترقی ہو تی گئی ۔ حتی کہ بعض بیماریوں کی نسبت انسان نے فیصلہ کیا کہ پہلے نہ تھیں۔ لیکن چوں کہ یہ عارضۂ طبیعت ہے اور سبب اس کا اکتساب و انفعالِ طبیعت، و زوال اعتدال اخلاط، و ضعفِ قوت دافعۂ داخلیہ وغیرہ ذٰلک۔
اس لیے ایسا تو کبھی نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے کہ زمانے کے بدلنے سے بیماری بھی بدل گئی ہو ،اور مثلاً حمیٰ و موی یا صفراوی بقراط کے عہد میں جس طرح کا ہوا کر تا تھا،بعد کے زمانے میں اس طرح کا نہ ہو تا ہو! بخار جب کبھی آئے گا ،ویسا ہی ہوگا جیسا ہمیشہ بیمارانِ بخار کو ہوا کر تا ہے ۔ خواہ بقراط کا زمانہ ہو، خواہ شیخ کا،اور ہمارے عہد کے حاذق الملک کا۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر علم طب کی ساری تحقیقات بے کار ہو جائیں اور ہر نئے برس کے لیے نئے طب کی ضرورت ہو۔
تمام اطبائے شرق نے اتفاق کیا کہ مرض سفلس پہلے یہاں نہ تھا، یورپ سے آیا ۔اسی لیے عربی میں اس کا نام ’’داء الافرنج‘‘ اور فارسی و ترکی میں ’’فرنگی‘‘ مشہور ہوا، اور خود یورپ بھی کہتا ہے کہ یہ ہمارے یہاں نہ تھا ، بعض جزائر سے آیا۔ مع ہذااس کے اسباب و طرق تولید اور علاج میں کوئی بھی نئی بات پیش نہ آئی ،وہی بات ہوئی جو پہلے سے ’’قانون‘‘ و ’’اسباب ‘‘میں پڑھی پڑھائی جا رہی ہے : سود اے احتراقی اور اس کی سمیت محرقہ اور اسی لیے تعدیہ اور التہاب اس کا خاصہ ۔ علاج بھی وہی جو پہلے سے اس طرح کے مواد کا کیا جا رہا ہے۔ یعنی تنقےۂ داخل اور قواطع سمیات و تصفےۂ خون، اور بس ۔ جراثیم خورد بینی (MICROSCOPIC Examination Germs) کا نظریہ (جواب فی الحقیقت مشاہدہ و استقراء تک پہنچ چکا ہے) اطباے مشرق کے لیے گو نیا سمجھا جائے ؛لیکن عرفائے مشرق کے لیے نیا نہیں ہے ؛ اور پھر جو کچھ بھی ہو ،اس سے نفس مرض و علاج پر کوئی اثر نہیں پڑتا، طرق و وسائل پر پڑے تو پڑے۔ اسی طرح اگر چیچک کی طرح امراض خبیثہ و سمیہ کے لیے بھی ٹیکہ کہ ایجاد میں کامیابی ہو جائے (جس کا تجربہ شاید امریکہ میں قریب تکمیل ہے) جب بھی اصول و قواعد فن پر اثر نہیں پڑسکتا۔
یہاں یہ نقطہ بھی پیشِ نظر رہے کہ انسانی معلومات کے عدم سے حقیقت معدوم نہیں ہو سکتی اگر کسی دوا کا خاصہ ابوبکر رازی و ابن بیطار سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھا ،تو اس کے یہ معنی نہیں کہ دنیا میں اس سے پہلے وہ دوا موجود بھی نہ تھی ۔ کونین ہمیشہ سے موجود ،اور جب سے موجوداسی وقت سے دافع تپ؛یہ دوسری بات ہے کہ اس کا خاصہ تمہیں کل معلوم ہوا۔
بہرحال یہی مثال بعینہ امراض معنویہ از قبیل شکوک و شبہات و انکار حجود اور ان کے علاج کی بھی ہے ۔ شک و شبہ و انکار کا مرض ایک ہی ہے اور اس کا علاج بھی ایک ہی ہے۔ ہمیشہ سے یکساں مرض اور ہمیشہ سے یکساں علاج؛ یہ بات نہیں ہے کہ معلومات و مکشوفات کے بدلنے سے وہ بھی بدل جائے ۔ علوم قدیمہ و جدیدہ کی تقسیم ہی اس بارے میں یکسر غیر مؤثر ہے۔ بلاشبہ انسان کی سمجھ کی بے راہی اور نظر کی کجی اور عقل کی خامی معلومات و مکشوفات عقلیہ سے بھی فی زعم مدد لیتی ہے اور اسی کے مطابق شک و شبہہ کا رنگ و نقشہ درست کر تی ہے ،لیکن نفس شبہات کی بنیاد علوم و فلسفہ نہیں ہیں کہ ان کی مزید توسیع و انشعاب سے شبہات کے اصول و مبانی بھی بدل جائیں۔
علوم سماویہ کے خلاف آج کوئی اعتراض ایسا نہیں کیا جاتا جو پہلے نہ کیا گیا ہو ، اور قرآن و سنت و حاملین علوم نبویہ نے ان کی ضلالت فہم و نظر کا پردہ چاک نہ کردیا ہو۔ پس اگر آج نام و نہاد علومِ جدیدہ کی بنا پر شبہات و ایرادات کا ہجوم ہے ،تو علم کلام جدید! علم کلام جدید! کا شور و غوغا نہیں مچانا چاہئے ،بلکہ قرآن و سنت اور صرف قرآن و سنت کے علوم مہجورہ و متروکہ کی باز گشت اور تجدید و احیاء کے لیے ماتم کر نا چاہئے ۔
پھر جو لوگ آج علم کلام جدید کی جستجو و سراغ میں جاں بلب ہو رہے ہیں ،ان کو سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہئے کہ علوم قدیمہ اور شکوک و شبہات ماضیہ ہی کے مقابلے میں علم کلام و متکلمین نے کون سی فتح پالی ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر آج جدید علم کلام دنیا کے تمام حصوں و جنودِ مادیہ کو فتح کر لے گا! علم کلام قدیم کے سب سے بڑے علمبردار معتزلہ تھے اور ان کے بعد متاخرین اشاعرہ، لیکن خود ان دونوں جماعتوں نے بجزا اس کے اور کیا کیا کہ دفع شبہات کی سعی میں خود اپنے وجود ہی کو دعوت تشکیک و شبہات بنا دیا، اور آخر میں دنیا سے گئے تو یہ کہتے ہوئے گئے : ’’لقد خضت البحر الخضم، و خلیت اہل الاسلام وعلومھم ،ودخلت فی الذی نھو نی عنہ، والان فان لم یتدارکنی ربی برحمتہ فالو یل لا بن البحوینی، وھا اناذا اموت علی عقیدۃ امی!‘‘۔ یعنی ساری کاوشیں کر کے آخر میں یہ حال ہوا کہ اپنی ماں کے عقیدے پر دنیا کو چھوڑتا ہوں ! کسی نے کہا: ’’اناأ موت علی عقیدۃ عجائز نیشابور!‘‘ یعنی تمام زندگی کیوں اور کیا میں بسر ہوئی ؛لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر نیشاپور کی بڑھیا عورتوں کے عقیدے پر دنیا سے جا رہا ہوں! کسی نے ساری عمر بادےۂ کلام میں بسر کر کے آخر کہا تو یہ کہا:’’ماعرفت مما حصلت شےئا سوی ان الممکن مفتقرۃ الی المرجح‘‘ اور کسی نے علم کلام میں پچاس کتابیں تصنیف کر کے مرتے وقت کہا:’’اموت وما عرفت شےئاً‘‘ سب سے زیادہ اور فیصلہ کن عبرت حضرت امام غزالی کے حالات میں ہے ۔ مذہبِ کلام و تاویل میں ان کی آسمان پیمائیوں کا جو حال رہا ہے معلوم ہے ،لیکن بالآخر نتیجہ کیا نکلا؟ ’’احیاء‘‘ ہی کو دیکھ لو ۔ ان کے دلنشین الفاظ میری زبان پر چڑھ گئے ہیں : ’’وھذا اذا سمعتہ من محدث او حشوی انما خطر ببالک ان الناس اعداء لما جھلوا، فاسمع ھذا ممن خبر الکلام ثم قلاہ بعد حقیقۃ الخبرۃ والتغلغل فیہ الی منتھیٰ درجۃ المتکلمین وجاوز ذلک الی التعمق فی علوم اخری وتحقق ان الطریق الی حقائق المعرفۃ من ھذالوجہ مسدود!‘‘یعنی اگر یہ بات کوئی محدث تم سے کہتا تو تم کہہ دیتے کہ اس ظاہر پرست اور حدثنا و اخبرنا میں گم رہنے والے کو علم کلام و فلسفہ کے دقائق کیا معلوم؟ پس یہ بات تم سے وہ شخص کہتاہے جس نے علم کلام اور نیز تمام علوم عقلیہ میں علم و نظر کا وہ درجہ حاصل کیا جو متکلمین کا منتہا ے درجہ ہو سکتا ہے، تاہم آخر میں یہی معلوم ہوا کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ راہ بالکل بند ہے۔
حضرت امام رازی کی ’’تفسیر‘‘ اور’’اساس التقدیس‘‘ اور ’’مطالب عالیہ‘‘ پڑھ چکے ہو مگر معلوم ہے کہ ان کی آخری تصنیف میں جو اقسامِ ذات کی نسبت ہے، ان کے اعماقِ قلب سے کیا صدا نکلی؟ ’’لقد تاملت الطرق الکلامےۃ والمناھج الفلسفےۃ فمارأیتھا تشفی علیلاً ولا تروی غلیلاً، ورایت اقرب الطرق طریق القرآن۔ اقرأ فی الاثبات: الرحمٰن علی العرش ا ستوی وفی النفی: لیس کمثلہ شئی،ومن جرب مثل تجربتی عرف مثل معرفتی، کذا نقلہ ملا علی القاری فی شرح الفقہ الاکبر‘‘۔ یعنی میں نے علم کلام و فلسفہ کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا، لیکن آخر میں یہی ثابت ہوا کہ نہ تو یقین کے دکھ کا یہاں علاج ہے ،اور نہ شک کے اضطراب کے لیے چین، بہتر و اقرب طریقہ وہی ہے جو قرآن کا ہے ،اور جس شخص نے میری طرح اس معاملہ کا تجربہ کیاہوگا وہ میری طرح سمجھ لے گا۔ یا سبحان اللہ! انہی امام رازی کا آخری اعتراف ہے جن کی کتاب ’’اساس التقدیس‘‘ ہم پڑھ چکے ہیں! بالآخر یہی کہنا پڑا کہ ’’اقرأ فی الاثبات: الرحمٰن علی العرش استوی، والیہ یصعد الکلم الطیب‘‘۔
فی المحبۃ ما ادق بیانہ
متحیر فیہ امام الرازی
No comments:
Post a Comment