رقیہ اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت jul-sep 2011 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Sunday, September 23, 2012

رقیہ اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت jul-sep 2011

شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی ؒ 
رقیہ اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت 
رقیہ اور جھاڑ پھونک قرآنی آیات،ادعیہ ماثورہ اور ایسے کلام سے جس کا معنی و مفہوم معلوم ہو جائز ہے،اس سلسلے میں بہت ساری حدیثیں آئی ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ۱۰؍۱۹۵ ’’باب الرقی بالقرآن والمعوذات‘‘میں فرماتے ہیں:
’’وقد اجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلثۃ شروط:أن یکون بکلام اللہ تعالیٰ او باسماۂ أو بصفاتہ وبا للسان العربی،أو بما یعرف معناہ عن غیرہ،و أن یعتقد أن الرقےۃ لا تؤثر بذاتھا بل،بذات اللہ تعالیٰ‘‘۔
قرآنی آیات اور ادعیہ مأثورہ جو کتاب و سنت سے ثابت ہوں۔ایسی دعاؤں کو پانی یا اس کے علاوہ تیل،مٹی وغیرہ پر دم کر نے کے سلسلے میں ابو داؤد میں ایک حدیث آئی ہے اور نسائی میں بھی مرسلاً موجود ہے۔’’عن ثابت بن قیس بن شماس عن ابیہ عن جدہ عن رسول اللہ ﷺ أنہ دخل علی ثابت بن قیس ۔قال احمد:و ھومریض۔فقال :اکشف الباس رب الناس اثم أخذ ترابا من بطحان،فجعلہ فی قدح،ثم نفث علیہ بماء و صبہ علیہ‘‘۔ اے لوگوں کے رب !ثابت بن قیس بن شماس کی تکلیف دور کر دے پھر آپ ﷺ نے مقام بطحان سے مٹی لی اور اس کو ایک برتن میں لیا،پھر اس پر دم کیا یا تھو تھو کیا پھر اس پانی سے مخلوط شدہ مٹی کو ثابت کے اوپر ڈال دیا۔سنن ابی داؤد مع عون المعبود ۱۰؍۳۲۰ کتاب الطب باب الرقی۔ اس حدیث سے مٹی و غیرہ پر دم کر نے کا ثبوت ملتا ہے۔اس حدیث کو امام نسائی نے اپنی سنن میں مسنداً مرسلا دونوں طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہاللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری کتاب الطب باب الرقےۃ :۱۰؍۲۰۸)۔
اس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری۔۱۰؍۲۰۸ ’’باب رقیہ النبی ﷺ ‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کی ہے:’’عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت:کان النبی ﷺ یقول فی الرقےۃ:بسم اللہ تربۃ أرضنا وریقۃ بعضنا،یشفی مریضنا أو سقیمنا باذن ربنا،قال النووی:معنی الحدیث أنہ أخذ من ریقۃ نفسہ علی اصبعیہ السبابۃ،ثم وضعھا علی التراب،فعلق بہ شئی منہ،ثم مسح الموضع العلیل أو الجریح قائلا الکلام المذکور فی حالۃ المسح‘‘(نووی بشرح مسلم کتاب السلام،باب الطب والمرضی والرقی۔سنن أبی داود مع العون۔۱۰؍۳۸۸) اس حدیث سے بھی مٹی و غیرہ پر دم کر کے اس کے لیپ کر نے کا ثبوت ملتا ہے۔
امام بغوی ’’شرح السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں:’’و قد روی عن عائشۃ،أنھا کانت لاتری بأساً أن یعوذ فی الماء،ثم یعالج بہ المریض،وقال مجاہد:لابأس أن یکتب القرآن و یغسلہ و یسقیہ المریض، و مثلہ عن أبی قلابۃ، وکرہہ النخعی و ابن سرین،وروی عن ابن عباس أنہ امرأن یکتب لامراء ۃ تعسر علیہا ولا دتھا آیتین من القرآن کلمات،ثم یغسل ویسقی ،وقال ایوب:رأیت ابا قلابۃ کتب کتاباً من القرآن،ثم غسلہ بماء وسقاہ رجلا کان بہ وجع،یعنی الجنون‘‘ (شرح السنۃ للبغوی:۱۲؍۱۶۶،زاد المعاد ۴؍۱۷۰)۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’کتاب حکم السحر والکھانۃ وما یتعلق بہ‘‘ میں سائل کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ دعائیں اور طریقہ علاج ذکر کر نے کے بعد:’’وان قرأ ھذہ الرقےۃ والأدعےۃ فی ماء،ثم شرب منہ المسحور واغتسل بمافیہ، کان من اسباب الشفاء والعافےۃ باذن اللہ ،وان جعل فی الماء سبع و رقات من السدر الأخضر بعد دقھا، کان ھذا أیضا من اسباب الشفاء ،وقد جرب ھذا کثیرا فنفع اللہ بہ،وقد جعلناہ کثیرا من الناس،فنفعھم اللہ بذالک،فھذا دواء مفید نافع للمسحورین‘‘۔ (السحر والکھانۃ ص:۲۹؍۳۰، من رسائل الدعوۃ السلفےۃ ص:۶۵ کی طرف رجوع کریں ۔ھذا ماظھر لی والعلم عند اللہ تعالیٰ۔

*****

No comments:

Post a Comment