- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 25, 2016


مولانا محمد نفیس خان ندوی
داعش

کتنی حقیقت ۔ ۔ کتنا افسانہ؟
داعش (الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام ) کوISIS  ( Islamic Staate of Iraq & Syriya)  بھی کہتے ہیں ، یعنی ایک ایسی جنگجو جماعت جو عراق و شام میں اسلامی حکومت کے قیام کے عنوان سے سرگرم ہوئی ، لیکن جب سے اس نے اپنا دائرہ کار عراق و شام سے 
ما رواء کر دیا تو اسے صرف ’’ دولت اسلامیہ ‘‘ یعنی IS (Islamic State)کہا جانے لگا ۔ 
داعش بنیادی طور پر اینٹی شیعہ اینٹی صوفی ازم تنظیم ہے ، اس کا پہلا تعارف تو 
’’ القاعدہ آف عراق ‘‘ کے نام سے ہوتا ہے ، یہ گروہ ۲۰۰۶ء میں امریکہ کے خلاف بر سر پیکار ہوا جس کے سر براہ ابو مصعب الزرقاوی تھے ، جو امریکی فضائی حملے میں مارے گئے ، زر قاوی کے بعد القاعدہ آف عراق کا نام ختم ہوگیا اور یہ تنظیم ’’ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق ‘‘ کے نام سے متعارف ہوئی جس کی باگ ڈور ابو عمر البغدای کے ہاتھوں میں رہی ۔ ۲۰۱۰ ء میں ابو عمر البغدادی کی شہادت کے بعد
ابو بکر البغدادی کو امیر منتخب کر لیا گیا جو تا حال اس کی قیادت کر رہے ہیں ۔
اس تنظیم میں صدام کی بعث پارٹی کے وہ ممبران تیزی سے شریک ہوئے جو امریکی قبضہ کے بعد حراست میں لیے جانے سے بچ رہے تھے اور روپوش ہوگئے تھے ، عراق میں انتخابات کے بعد جو شیعی حکومت قائم ہوئی وہ نہایت کمزور تھی ، جس کا فائدہ اٹھا کر صدام کے حامیوں نے دوبارہ اپنی طاقت مجتمع کر لی اور اپنے دور اقتدار کو واپس حاصل کرنے کے لیے ابو بکر البغدادی کے ساتھ شامل ہوگئے ۔
عراق کی کمزور حکومت اور شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا اور جلد ہی اس نے عراق کے مختلف علاقوں پر چڑھائی شروع کر دی اور جغرافیائی اعتبار سے سنیوں کے سب سے بڑے صوبہ الانبار اور پھر ویر الزور کے علاقہ پر قبضہ کر لیا جہاں آئل ریفائزیز ہیں ، اس کے علاوہ عراق و شام کی سرحدوں کے دونوں جانب بڑے حصے انہیں کے زیر تسلط آتے گئے ۔
۲۰۱۲ ء میں شام میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوئی اور بشار کی فوج نے قتل عام شروع کر دیا تو مختلف جہادی تنظیموں کے ساتھ القاعدہ نے بھی ’’ جبھۃ النصرۃ‘‘ نامی ایک جماعت کے قیام کا اعلان کیا اور محمد الجولانی کو اس کا امیر منتخب کیا ، اس تنظیم سے شام میں دیگر جہادی تنظیموں کو تقویت حاصل ہوئی ، ابو بکر البغدادی نے بھی محمد الجولانی کے ساتھ مل کر شام کی سول وار میں حصہ لیا لیکن ابو بکر البغدادی کی تشدد کارروائیوں اور سبھی جہادی تنظیموں پر اپنی امارت تھوپنے کی کوشش کی وجہ سے جلد ہی دونوں میں سخت اختلافات رو نما ہوئے اور نوبت باہمی جنگوں تک پہنچی ، القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری نے دونوں میں صلح صفائی کی کوششیں بھی کیں لیکن نتیجہ دونوں کی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا ، الجولانی کو ایمن الظواہری کی حمایت حاصل رہی اور ابو بکر نے جولانی اور ان کے حلیف دیگر جہادی تنظیموں کے خلاف محاذ قائم کر لیا ، مسلم جماعتوں کے
آپسی اختلاف سے بشار الاسد کی فوج کو سنبھلنے اور تازہ دم ہونے کا موقع مل گیا ۔ 
۲۰۱۴ ء میں ابو بکر البغدادی نے اپنی سر گرمیوں کا مرکز شام کے بجائے عراق کو بنایا او ر تیرہ سو افراد کی فوج کی صورت میں نئی گاڑیوں اور راکٹ لانچرز کے ساتھ موصل پر حملہ بول دیا ، وہاں تقریبا تیس ہزار عراقی فوجی موجود تھے لیکن اس حملہ سے وہ سنبھل نہ سکے اور کسی مقابلہ کے بغیر انہوں نے پسپائی اختیار کر لی ، پھر آسانی کے ساتھ رقبہ و آبادی کے لحاظ سے موصل جیسا اہم ترین علاقہ بغدادی کے قبضہ میں آگیا جس سے عراقی حکومت دہل کر رہ گئی ۔ 
موصل پر قبضہ نہایت غیر معمولی واقعہ تھا ، عالمی میڈیا نے اسے خاصی اہمیت دی ، مبصرین حیران ہوئے کہ ایک جنگجو جماعت نے مختصر سے عرصہ میں اتنی بڑی سیاسی کامیابی کیسے حاصل کر لی ، اس سے قبل نہ کسی انتہا پسند تنظیم کو ایسی شاندار کامیابی ملی تھی اور نہ ہی کوئی تنظیم اس قدر منظم ہو سکی تھی۔ 
اس کامیابی کے بعد البغدادی نے اپنے زیر اقتدار علاقوں میں خلافت کا اعلان کر دیا اور خود کو ’’ خلیفۃ المسلمین ‘‘کی حیثیت سے پیش کیا، اور’’ الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام ‘‘
یعنی داعش کے نام سے اس کی تنظیم پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ 
داعش کو مختلف جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے ، جس میں خاص کر’’ جیش الرجال الطریقۃ النقشبندیۃ ‘‘جیسی اہم تنظیم جس کے سر براہ عز الدوری ہیں جو صدام حسین کے نائب کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ داعش میں افغانی، چینی ، عربی ، مغربی ، ترک ، ازبک اور دنیا بھر کے مختلف افراد شامل ہیں ، موصل پر قبضہ کرنے والے داعش کمانڈر کا تعلق (روس کی آزاد ریاست) 
چیچینیا سے ہے ۔ 
سوشل میڈیا پر ہونے والا پروپیگنڈہ نوجوانوں کے لیے داعش کو پر کشش بنا کر پیش کرتا ہے ، جب کہ تنگ ذہنیت کے افراد داعش کے پیغام کو عین روایتی اسلام سمجھ کر اس میں داخل ہوتے ہیں اور اس طرح داعش میں شمولیت کو عین خدمت دین تصور کرتے ہیں ، اس کے علاوہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں نکلے ہوئے پناہ گزیں اور دیگرممالک سے بے گھر ہوئے افراد بھی داعش کی صفوں میں شامل ہیں ، اپنے لیے کوئی راہ نجات نہ پاکر اس قسم لوگ محض غذا اور آسرے کی خاطر داعش سے اپنی وفا کا عہد و پیمان کر بیٹھتے ہیں اور وہ اسے اپنی سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں، اس طرح داعش کو مختلف میدانوں میں ماہر افراد بھی مہیا ہیں جو پوری لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں ۔
داعش کا بنیادی اصول یہ ہے کہ لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کرو، کیوں کہ خوف
و دہشت ہی پیش قدمی کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں اس نے جہاد کے مفہوم کو غلط انداز سے پیش کیا ، جنت کا شوق دلا کر خوش کش حملوں پر آمادہ کیا اور اسلامی خلافت کے عنوان سے نوجوانوں کو قر بانیوں پر آمادہ کیا ، چنانچہ اس نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسلامی حدودو تعزیرات (سزاؤں )کے نفاذ میں تشدد کی راہ اختیار کی ، ایسی عدالتیں بھی قائم کیں جو سخت نظام پر عمل پیرا ہیں ، یعنی یہاں سزا کے طور پر ہاتھ کاٹے جاتے ہیں ، سنگسار بھی کیا جاتا ہے اور دیگر کیپٹل سزائیں بھی نافذ العمل ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس تنظیم نے مختصر سے عرصہ میں اپنے تمام سرکاری ادارے بھی قائم کر لیے ہیں اپنا پاسپورٹ بھی جاری کر دیا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی کرنسی بھی جاری کر دی ہے ۔ 
اخبارات کے بموجب داعش کا بنیادی موقف یہ ہے کہ اسلام پر یقین نہ رکھنا ، ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا موت ، قطع اعضاء یا غلامی ہے ، جب کہ اسلام اس نظریہ کے بالکل مختلف ہے اور وہ دین میں کسی بھی طرح کے جبر کو پسند نہیں کرتا ، لیکن داعش اپنے اس نظریہ کو شدت سے نافذ کرتا ہے اور اپنے مخالفین کے سرعام سر قلم کردیتا ہے ، زندہ بچنے والے مرد و عورت روپوش ہوجاتے ہیں ،
یا داعش کے غلام بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، داعش نے عراق میں صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ زندگی گذارنے والے یزیدیوں کو بھی ملک بدر کردیا ، خواتین پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کردیں اور غلامی کے جس تصور کی اسلام نے جڑیں کاٹ دی تھیں، داعش نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا ۔
داعش نے خلافتِ اسلامی کے قیام کا اعلان کیا اور اس سلسلہ میں مختلف بیانات بھی شائع کیے ، انٹر نیٹ پر خو ب پرو پیگنڈہ بھی کیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد داعش کی
گر ویدہ ہوگئی اور وہ اسے اسلام کا نما ئندہ اور ایک جہادی فورس سمجھ بیٹھے ، اور سب سے بڑھ کر داعش کے سیاہ پر چم نے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور مہر نبوت بھی بنی ہوئی ہے ، عام مسلمانوں کے نزدیک
زبر دست مقبولیت حاصل کرلی اور پھر دعاؤں میں بھی داعش کا تذکر ہونے لگا ، میڈیا نے بھی داعش کو ایک خالص اسلامی تنظیم کی شکل میں پیش کیا ، ٹھیک اسی طرح جیسے امریکہ ، عراق کی ابتدائی جنگ میں صدام کو اسلامی ہیرو کی طرح پیش کیا گیا تھا ، کہیں سجدہ کرتے ہوئے ،کہیں دعائیں مانگتے ہوئے تو کہیں امریکی فوج پر گرجتے ہوئے جب کہ اس کے ظلم و جبر کی داستائیں تاریخ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔ 
خلافت کے اعلان کے بعد داعش نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ اب چونکہ خلافت قائم ہوچکی ہے اس لیے کسی بھی تنظیم یاملک کو یہ اختیار نہیں کہ اس کی ماتحتی سے انکار کرے، ہر وہ شخص 
و جماعت مرتد ہے جو ابو بکر البغدادی کی خلافت کاانکار کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس کی بنیادی کارروائیاں خود مسلمانوں کے خلاف ہی ہیں ، جب کہ یہ اسلامی تعلیمات کا کھلا ہوا مذاق ہے کہ 
مٹھی بھر جماعت تشدد کی راہ اختیار کرے اور اپنی بر بریت کو ’’ خلافت اسلامی ‘‘ سے تعبیر کرکے خود مسلمانوں کو ہی مختلف عنوان سے موت کے گھاٹ اتار ے ۔
داعش کے ظاہری خدو خال اور اس کے نعروں سے کسی بھی طرح دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ، دیگر سیاسی اور انتہا پسند تنظیموں کی طرح یہ بھی ایک سیاسی جماعت ہے جس نے اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے تشدد و سفاکی کی راہ اختیار کر رکھی ہے ، اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔ گزشتہ دنوں میں داعش کی جانب سے اردن کے پائلٹ کو زندہ جلانے اور جاپان کے صحافی کا سر قلم کیے جانے کی ویڈیوز انٹر نیٹ پر نشر ہوئے تھے جس نے دنیا بھر میں سنسنی پھیلادی تھی اور عام انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ اسلام کے ماننے والے اتنے بے رحم اور سنگ دل بھی ہوسکتے ہیں، اس سے نہ صرف اسلام کی شبیہ داغدار ہوئی بلکہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی مصیبتوں میں اضافہ بھی ہوا ۔ 
یہاں ایک اہم سوا ل یہ بھی اٹھتا ہے کہ داعش جیسی خونخوار تنظیم کو امریکہ و اسرائیل کس نظریے سے دیکھتے ہیں ، تو جواب بالکل واضح ہے کہ یہ تنظیم براہ راست امریکی و اسرائیلی مفادات کے حق میں کارروائی کررہی ہے ، اور ہر وہ کام کر رہی ہے جو ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے ، اسرائیل کو یقین ہے کہ عراق کی تقسیم اور اردن سے معاہد ہ اور شام کی تباہی کے بعد’’ اسرائیل عظمیٰ‘‘ کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ، شام بشار الاسد کی بر طرفی سے اسرائیلی کے لیے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ آسان ہو جائے گا ،جس پر ۱۹۷۳ ء میں شام نے قبضہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے اسرائیل کی دفاعی پوزیشن کمزور ہوگئی تھی اور اس مقصد کے حصول میں داعش کا اہم کردار ہے ۔ 
اسی لیے امریکہ بھی کسی بھی صورت مشرق وسطیٰ میں مضبوط حکومتوں کا قیام نہیں چاہتا ، امریکہ کے جو مقاصد عراق اور افغانستان کے خلاف براہ راست جنگوں کے ذریعہ حاصل نہ ہوسکے تھے وہ داعش کے ذریعہ آسانی سے حاصل ہورہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ یورپ و امریکہ سے ہزاروں کی تعداد میں افراد داعش میں شامل ہوئے اور انہیں سر حدوں کو عبور کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔ 
آج مغربی میڈیا کھل کر داعش کی خبریں شائع کرتی ہے لیکن اس طرف سے مکمل سکوت ہے کہ داعش کے کنڑول میں تیل کے جو ذخائر ہیں وہ کہاں جارہے ہیں ، ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے اپنے قبضہ میں آئے تیل کے کنوؤں سے روزانہ ایک ملین یعنی دس لاکھ بیرل پٹرول نکالتا ہے اور اس کے ذریعہ ہر ماہ تقریبا ۹۷؍ ملین ڈالرکی آمدنی ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی دہشت گرد تنظیم کا تیل عالمی منڈی میں کیسے فروخت ہوتا ہے اور کن ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے ۔ ان کی قیمتیں کون ادا کرتا ہے اور اس کے خزانہ داعش تک کیسے پہنچتے ہیں ، جب کہ تیل کی عالمی منڈی پر امریکہ کا کنٹرول ہے اور تیل کی تجارت امریکی ڈالر سے مر بوط ہے ، اس سلسلہ میں امریکی تحدیات (sanction)اور ناٹو کا کیا رول ہے؟ روس کے صدر والڈمیر پوتن نے ۱۶؍ نومبر ۲۰۱۵ ء کو ترکی میں منعقد G20 کے اجلاس میں صحافیوں سے کہا تھا داعش عالمی منڈی میں تیل کی فروخت کرتا ہے اور اسے تقریباً چالیس ممالک کا تعاون حاصل ہے ۔جس میں G20 کے کئی ممالک بھی شامل ہیں ۔
آج داعش کے پاس جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیار موجود ہیں ، طیاروں کو فضامیں مار گرانے والے میزائل اور دور تک مار کرنے والے راکٹ بھی موجود ہیں ، ایسے میں اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ داعش کو ان اسلحوں کی سپلائی کہاں سے ہورہی ہے؟ داعش خود ہتھیارتیار نہیں کر سکتی، اور
مشرقِ وسطی میں کسی بھی ملک کے پاس اسلحہ سازی کا کارخانہ نہیں ہے اور نہ کوئی ملک اسلحوں کا کاروبار کرتا ہے ، یقیناًیہ ہتھیار مغربی ممالک کے تعاون اور ان کے ایجنڈوں کے ذریعہ داعش تک پہنچتے ہوں گے لیکن میڈیا اور حکومتیں بھی اس کا تذکر ہ کیوں نہیں کرتیں ؟
ایک رپورٹ کے مطابق عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے وقت فوج کے پاس تقریباً چالیس لاکھ ہتھیار غیر استعمال شدہ تھے جن کی مالیت کا اندازہ ۵۸۰؍ ملین ڈالر بتایا جاتا ہے ، انہیں واپس لے جانے کے مصارف سے بچنے کے لیے امریکہ نے یہ ہتھیار عراق ہی میں چھوڑ دیے تھے جو اب داعش کے کام آرہے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب بشار الاسد کے خلاف لڑنے والی فری سیرین آرمی (Free Syrian Army) نے اپنے لیے اسلحہ کی اپیل کی تھی تب امریکہ اس کو اسلحہ فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا ، لیکن یہ اسلحہ جات سیدھے داعش کے دامن میں پہنچے ،جن کے بل پر ہی داعش ایک جہادی گروہ سے ترقی پاکر مشرق وسطی کی ایک خطر ناک جنگجو قوت بن کر ابھر رہی ہے ۔ 
مغربی طاقتیں داعش کو اپنے مقاصد کے لیے خوب استعمال کرر ہی ہیں ، رشین ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ سیکورٹی فراہم کرنے کا سب سے بڑا معاہد ہ کیا تھا، اب اس معاہدہ کی تجدید کے لیے وہ داعش کو خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے ، اور داعش کے سر براہ کے اس اعلان کو خاصی اہمیت دے رہا ہے کہ داعش مکہ مکرمہ کو سعودی عرب سے آزاد کرانا چاہتاہے کیوں کہ مکہ معظمہ تمام مسلمانوں کا مرکز ہے اس لیے اسے خلیفہ کے تحت ہونا چاہیے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فرانس میں ہوئے حالیہ حملے بھی مغربی مفادات کا ایک حصہ ہیں ، ان حملوں کے ذریعہ اسرائیل اس فیصلہ کو غلط ثابت کرناچاہتا ہے جو فرانس کے پارلیا منٹ نے حماس اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں کیے تھے ، فرانس کے بعد دیگر ممالک بھی حماس کو تسلیم کرنے کے راہ پر تھے جسے داعش کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے مہاجرین کے لیے یورپ کی جو اپنی سر حدیں بھی کھولنی پڑی تھیں انہیں یہ کہہ کر بند کرنے کی پلاننگ چل رہی ہیں کہ مہاجرین کی شکل میں داعش کے افراد داخل ہورہے ہیں جن سے ملک کی سا لمیت کو خطرہ ہے ۔ ان تمام تفصیلات کے پس منظر میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ داعش کو مغربی طاقتوں کی مکمل
پشت پناہی حاصل ہے اور اس انتہا پسند تنظیم کا وجود محض اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ ان طاقتوں کے بل پر ہے جو جلد ہی دنیا کے سامنے ظاہر ہوکر رہیں گی ۔ 
اس سے بھی انکار نہیں کہ داعش میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو خلافت اسلامی کا قیام چاہتے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور ان کی کارروائیوں سے عالمی سطح پر مسلمان ہراساں ہے ، بلا شبہ خلافت اسلامی کا قیام ہی پوری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے ، لیکن خلافت ظلم اور بر بریت کے ذریعہ قائم نہیں ہو سکتی ، یہ ہزار سال پرانا دور نہیں کہ جس میں کوئی گروہ تلوار اٹھائے ، یلغار مچائے اور اپنی حکومت قائم کر لے ، خلافت کبھی بھی قائم ہوئی تو دلوں کو جیتنے سے قائم ہوگی اور اس کا راستہ دعوت و تعلیم کے ذریعہ ہی کھلے گا ، گردنیں مارنے اور دہشت پھیلانے سے ہر گز نہیں ۔                                                بشکریہ: ترجمان جدید۔دہلی

No comments:

Post a Comment