- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Saturday, October 21, 2017

عبد الرؤف عبد الحفیظ السلفی
استاذ :المعہد ،رچھا،بریلی 
خدمت خلق ایک عظیم عبادت
عن ابن عمر مرفوعا قال:’’احب الناس الی اللہ انفعھم واحب الأعمال الی اللہ عزوجل سرورتدخلہ علی مسلم، أو تکشف عنہ کربۃ، أو تقضی عنہ دینا، أو تطرد عنہ جوعا۔۔۔‘‘(صحیح الجامع للألبانی:۱۷۶)
ترجمہ: عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا:’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش اور فائدہ رساں ہو، اور (بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ فرائض و واجبات کے بعد) تمام اعمال (نافلہ) میں اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ وہ کام ہے جس کے ذریعہ توکسی مسلمان کو خوش کردے، یا اس کی کوئی پریشانی دور کردے، یا اس کا قرض چکادے، یا اس کی بھوک مٹادے، (آپ انے مزید فرمایا )اگر میں اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کے لیے چلوں (تگ ودوکروں) تویہ میرے نزدیک مسجدمیں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہے، جس شخص نے اپنا غصہ پی لیا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرمائے گا، جس نے اس وقت غصہ روک لیا جب کہ وہ اپنا غصہ دوسرے پر اتارنے کی طاقت رکھتاتھا تو اس کے دل کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن رضامندی اور خوشی سے لبریز کردے گا، جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت کے لیے گیا اور اس کی ضرورت پوری بھی کردی تو اللہ تعالیٰ اس کو اس وقت ثابت قدم رکھے گا جب لوگوں کے قدم ڈگمگارہے ہوں گے (یعنی بروز قیامت) ،بدخلقی اعمال کو اسی طرح فاسد اور ضائع کردیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو۔
تشریح: مطلب پرستی اور خودغرضی ہر معاشرے میں نہایت مذموم صفت سمجھی جاتی ہے، مگر اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں بحیثیت دین وعبادت اس مذموم حرکت سے بازرہنے اور دوسرے کے کام آنے پر کافی زور دیاگیا ہے۔ دوسرے مذاہب عالم یاتواس صفت کی تعلیم وترغیب سے عاری ہیں یا اسلام سے بہت پیچھے، یہاں جو حدیث آپ کے سامنے ہے اس میں خدمت خلق اور دوسرے کے کام آنے کے فضائل ومناقب بیان ہوئے ہیں، جو ترجمہ ہی سے ظاہر وباہر ہیں، اب آیئے اس حدیث سے معلوم ہونے والے مسائل پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:
8ں ’’محبت‘‘ اللہ رب العالمین کی صفت ہے، اور یہ کم وبیش ہوتی یعنی گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، کما یلیق بجلالہ جل وعلا۔
8ں انسان کواور بالخصوص مسلمان کو، دوسروں پر منحصر رہنے اور بوجھ بننے کی بجائے لوگوں کے لیے ’’نفع بخش‘‘ بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
8ں دوسروں کو فائدہ پہونچانابھی دراصل خود کو فائدہ پہونچانا ہے۔ بشرطیکہ اللہ کی رضا اور ثواب مطلوب ہو۔(انما الاعمال بالنیات)
8ں خدمت خلق یعنی دوسرے کا کام آنا، لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات پوری کردینا،یا کم ازکم پوری کرنے کی کوشش کرنا یا پوری کرنے میں مدد کردینا یا کچھ بھی ممکن ہو تو کم ازکم شگفتہ روئی اور حسن خلقی کا مظاہرہ کرکے اسے خوش کردینا یا اس کا غم ہلکا کردینا وغیرہ اللہ رب العالمین کی محبت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
8ں خدمت خلق کی بہت سی شکلیں ہیں، حدیث میں بنیادی طورپر چارشکلیں بیان ہو ئی ہیں، تقریباً ساری شکلیں ان میں داخل اور انہیں کی فرع ہیں، پہلی شکل: کسی کی کوئی تکلیف وپریشانی دور کردینا (وہ تکلیف جسمانی ہو، روحانی ہو، مالی ہو یا کسی اور طرح کی ہو) دوسری شکل: قرض کی ادائیگی (خواہ مکمل ادائیگی ہو یا ادائیگی میں کسی قسم کا تعاون) تیسری شکل:بھوک دور کردینا یعنی کھانے پینے کابندوبست کرنا، چوتھی شکل:کسی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے آنا جانا، دوڑ دھوپ اور تگ ودوکرنا، سفارش کرنااوراپنے اثرورسوخ کے ذریعہ کسی کا کوئی بنا دیناوغیرہ۔
8ں فرض عبادتوں کے بعد خدمت خلق ، کا درجہ نہایت ارفع واعلیٰ ہے۔ اسی مسئلے کی یہ فرع بھی قابل توجہ ہے کہ خدمت خلق بہت عمدہ صفت ہو نے کے باوجود فرائض سے زیادہ اہم نہیں ہے، اولیت فرائض ہی کو حاصل ہے یہ بات اس لیے تاکید سے کہنی ضروری ہوئی کہ (بقیہ صفحہ :۱۰پر)
بعض مسلم رفاہی تنظیمیں ایسی ہی جو خدمت خلق میں مصروف ہیں، مگر لا علمی یاغلط فہمی کی وجہ سے فرائض سے غافل ہیں، ظاہر سی بات ہے، یہ صورت حال نہایت تعجب خیز بلکہ مضر ہے۔
8ں تمام اعمال اجروثواب کے لحاظ سے یکساں وبرابر نہیں ہیں، اس میں ارفع اور انفع اعمال پر نظر رکھنے ، انہیں کو اولیت اور ترجیح دینے کی طرف اشارہ ہے،بلفظ دیگر اسلام ’ترجیحات‘ کا نظریہ پیش کرتاہے، آج کے دور میں اس کو سمجھنے اور اختیار کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ 
8ں جس طرح کسی اچھے کام کو انجام دینا شرعاً باعث اجروثواب ہے، اسی طرح کسی برے کام سے باز رہنا بھی موجب فضیلت ورفعت ہے اور یہی بنیادی فرق ہے دنیا وی قوانین اور شرعی قوانین میں۔
8ں برائی سے رکنے کا اعتبار اسی وقت ہوگا جب آدمی برائی کرنے پر قادر ہوا ور برائی نہ کرے۔ غیرقادر کے رکنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ ’’ولو شاء أن یمضیہ امضاہ‘‘۔
8ں رسول اکرم ا ؛ مسلمانوں کے بھائی ہیں، پس ہمیں کتاب وسنت میں مذکور آداب کی رعایت کے ساتھ آپ کی بڑے بھائی جیسی تکریم وتعظیم کرنی چاہیے۔ ’’ولأن امشی مع اخی المسلم‘‘۔
8ں بدخلقی؛ اتنابڑا جرم بلکہ متعدی یعنی دوسروں میں بھی سرایت کرجانے والا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے اعمال صالحہ فاسد اور قبولیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 
8ں کوئی بات ذہن نشین کرانے اور سمجھانے کے لیے تشبیہ وتمثیل کا سہارا لینا جائز بلکہ مسنون ہے۔
8ں سرکہ و شہد ایک دوسرے کے متضاد اثررکھتے ہیں، اس لیے دونوں کو ملانا یا ایک ساتھ کھانا شہد کے اثر کو زائل کردیتاہے بلکہ اسے نقصان دہ بنادیتاہے۔
8ں کسی مسلمان کو خوش کرنا، اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کے پھول بکھیردینا ؛ایک اہم عبادت ہے، خواہ اس کی کسی ضرورت کی تکمیل کے ذریعہ ہو، جائز ہنسی مذاق اور خوش طبعی کے ذریعہ ہو یا صرف گرم جوشی کے ساتھ ملاقات کے ذریعہ، الغرض کسی بھی طریقے سے مسلمان کو خوش کرنا، اس کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کرنا اللہ رب العالمین کوبے پناہ محبوب ہے۔الٰہ العالمین !تولوگوں کے لیے ہمیں نافع اور اپنی محبتوں کا مستحق بنا! آمین وصلی اللہ علی النبی الکریم۔

No comments:

Post a Comment