انتخاب: ع.ر.السلفی
ظمولانا انور شاہ صاحب حنفی رحمہ اللہ صدر مدرس مدرسہ دیوبند فرماتے ہیں :
’’لا مناص من تسلیم ان تراویحہ علیہ السلام کانت ثمانیۃ رکعات ولم یثبت فی روایۃ من الروایات انہ علیہ السلام صلی التراویح والتہجد علٰیحدۃفی رمضان بل طول التراویح وبین التراویح والتہجد فی عہدہٖ علیہ السلام یکن فرق فی الرکعات بل فی الوقت والصفۃ الخ۔(العرف الشذی مطبوع علی حاشیۃ الترمذی ص:۳۹۲۔۳۳۰)
’’یعنی اس امر کے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے تراویح آٹھ رکعت پڑھی تھیں کیونکہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے تراویح اور تہجد ، رمضان میں علیٰحدہ علیٰحدہ پڑھی ہوں بلکہ رکعاتِ تراویح بوجہ قراء ت آپ ﷺ طویل کرتے تھے اورنبی کریم ﷺ کے زمانے میں تعداد رکعات تراویح و تہجد میں کوئی فرق نہ تھا ۔ یہاں تک کہ وقت اور طریقے میں بھی ‘‘۔
مولانا موصوف کے کلام سے چند باتیں ثابت ہوئیں :
اولاً یہ کہ مسنون تراویح صرف آٹھ رکعت ہیں کیوں کہ آنحضرت ﷺ سے تراویح صرف آٹھ رکعت ہی ثابت ہیں ۔
ثانیاً آنحضرت ﷺ رمضان میں تراویح اور تہجد علیٰحدہ علیٰحدہنہیں پڑھتے تھے ۔ یہی قیام رمضان یعنی تراویح آپ کا رمضان میں تہجد تھا کیوں کہ تہجد شرع میں وہ نماز ہے جو رات کو عشاء کے بعد پڑھی جائے جس کا وقت عشاء کے بعد سے طلوعِ فجر تک ہے۔
ثالثاً تراویح اور تہجد کی تعداد رکعات اور وقت و طریقے میں کوئی فرق نہ تھا ۔
چنانچہ یہ بدیہی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی بھی قیام اللیل کی بیس رکعتیں نہیں پڑھیں بلکہ آپ ﷺ کی رات کی نماز تیرہ و گیارہ رکعات ہیں ۔ خود مولانا انور شاہ وغیرہ حنفی علماء نے فرمایا ہے کہ بیس رکعتیں رسول اللہ ﷺ سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔
ظمولانا انورشاہ صاحب لکھتے ہیں :واما النبی ﷺ فصح عنہ ثمان رکعات وما عشرون رکعۃ فہو عنہ علیہ السلام بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق۔(العرف الشذی ،ص:۳۳۰)
’’نبی کریم ﷺ سے تراویح آٹھ ہی رکعتین ثابت ہیں ۔ رہی بیس رکعات تراویح تو وہ
با لاتفاق سنداًضعیف ہیں (علامہ عینی وغیرہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے)
ظمولانا رشید احمد صاحب حنفی گنگوہی رحمہ اللہ دیوبندی فرماتے ہیں :’’گیارہ رکعات تراویح (مع وتر)سر ور عالم ﷺ سے ثابت و مؤکد ہے ۔‘‘(رسالہ الحق الصریح ص:۲۲)
ظمولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم یثبت روایۃ عشرین رکعۃ منہ ﷺ کما ہو المتعارف الآ ن الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ من حدیث ابن عباس کا ن رسول اللہ ﷺ یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر وقالوا اسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا وہوصحیح وکانت عائشۃ اعلم بحال النبی ﷺ من غیر ہا وقد کان الامر فی زمنہ ﷺ علی ذالک۔( فتح سر المنان فی تائید مذہب النعمان، ص:۴۹۲،قلمی)
’’یعنی حضور ﷺسے بیس رکعت ثابت نہیں جیسا کہ آج کل کا عام معمول ہے ۔ صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بیس رکعت آئی ہیں لیکن وہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے معارض بھی ہے (جس میں گیارہ رکعت کا ثبوت ہے )جو صحیح ہے اسی پر آپ ﷺ کے زمانہ میں عمل تھا اور ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے حال (نماز )کا اس نماز کے گھر میں ہونے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ علم رکھتی تھیں۔‘‘
ظعلامہ ابو السعود صاحب حنفی رحمہ اللہ شر ح کنز میں لکھتے ہیں :
ان النبی ﷺ لم یصلہا عشرین بل ثمانیاً۔(ابو السعود شر ح کنز۱؍۶۵۵)
’’نبی ﷺ نے بیس رکعت تراویح نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ رکعت پڑھی ہیں ۔‘‘
ظعلامہ طحطاوی حنفی رحمہ اللہ حاشیہ در مختار میں فرماتے ہیں :
ان النبی ﷺ لم یصلہا عشرین بل ثمانیاً۔(طحطاوی حاشیہ در المختار۱؍۲۹۵)
’’آنحضرت ﷺ نے تراویح آٹھ رکعت پڑھی ہیں بیس رکعت نہیں پڑھیں۔‘‘
ظنیز علامہ سید احمد طحطاوی امام ابن الہمام شارح ہدایہ سے نقل کرتے ہیں :
’’ذکر فی فتح القدیر ما حاصلہ ان الدلیل یقتضی ان تکون السنۃ من العشرین ما فعلہ ﷺ منہا ثم ترکہ خشیۃ ای یکتب علینا والباقی مستحباً وقدثبت ان ذالک احدی عشر ۃ رکعۃ بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشۃ فاذاًیکون المسنون علی اصول مشائخنا ثمانی منہا والمستحب اثنی عشر ۔ انتہیٰ عبارتہ(طحطاوی حاشیہ در مختار ۱؍۲۹۵ )
’’فتح القدیر شرح ہدایہ (کی بحث)کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ بیس رکعتوں سے سنّت تو اسی قدر ہوں جتنی آنحضرتﷺ نے پڑھی تھیں ، اور باقی نفل ہوجائیں کیونکہ ثابت یہی ہے کہ آپ ﷺ کی نماز تراویح مع وتر کے گیارہ رکعت تھیں جیسا کہ بخاری ومسلم میں
حضرت عائشۃ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں مذکور ہے ۔لہٰذااس صور ت میں ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق آٹھ رکعت ہی سنّت ہیں اور باقی بارہ رکعت مستحب۔‘‘
ظحضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو قیام رمضان۔یعنی تراویح۔کی گیارہ رکعت پڑھائیں ۔ (بیہقی:۲؍۴۹۶)علامہ نیموی حنفی مرحوم فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ (آثار السنن:۲۵۰)
ظعلامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ابن شیبہ طبرانی و بیہقی نے ابن عباس ثسے جو روایت کی ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھتے تو یہ روایت اس کے مدار علیہ راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے سبب متفقہ طور پر ضعیف ہے ، علاوہ ازیں بیس رکعت تراویح والی یہ روایت جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے ان احادیث صحیحہ کے خلاف ہے بھی ہے ۔ (کہ آپ ﷺ رمضان میں آٹھ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ۔ )(فتح القدیرمع ہدایہ:۱؍۲۰۵)
ظعلامہ ابن عابدین حنفی فرماتے ہیں کہ’’ ان مقتضی الدلیل کون المسنون منہا ثمانیۃ‘‘ یعنی دلیل کے اعتبار سے آٹھ رکعت نماز تراویح مسنون ہے اور باقی مستحب ۔( شامی:۲؍۴۵)
ظعلماء دیوبند کے سرخیل مولانا رشید احمد گنگوہی حنفی فرماتے ہیں :’’ گیارہ رکعت تراویح
سرور دو عالم ﷺ سے ثابت و مؤکد ہے ۔‘‘(رسالہ الحق الصریح)
ظملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں :’’ان التراویح الا صل احدی عشرۃ رکعۃ فعلہ علیہ السلام‘‘۔تراویح اصل میں گیارہ رکعت ہی ہیں جسے آپ ﷺ نے ادا فرمایا ہے ۔‘‘
(مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح :۱؍۱۱۵)
ظمولانا حبیب المرسلین دیوبندی فرماتے ہیں :’’ حدیث جابر ثکی تراویح کے بارے میں صحیح ہے ۔ لہٰذا !آٹھ رکعت تراویح ، آنحضرت ﷺ کی سنت حقیقیہ ہے ‘‘۔
(کفایت المفتی:۳؍۳۵۲)
ظمفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں :’’اکثر روایتوں سے حضور کا آٹھ رکعتیں (تراویح )پڑھنا ثابت ہوتا ہے ۔(کفایت المفتی:۳؍۳۶۳) مزید فرماتے ہیں :’’حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کو حضرت عمرثنے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا ‘‘۔( کفایت المفتی:۳؍۳۵۱)
ظ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نا نوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اہل علم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ قیام رمضان (تراویح)اور قیام اللیل (تہجد)واقعی دونوں ایک ہی نماز ہے جو رمضان میں مسلمانوں کی آسانی کے لیے او ل شب میں مقرر کی گئی مگر اہمیت آخرشب میں ہی ادا کرنے میں ہے ۔ ‘‘(قیا م اللیل وقیام رمضان یک نماز است) [فیوض قاسمیہ :۱۳]
No comments:
Post a Comment