مقدمۂ جاء الحق حصہ دوم مولفہ مفتی احمد یار گجراتی
ایک تجزیاتی مطالعہ (قسط:۱۰)
ایک تجزیاتی مطالعہ (قسط:۱۰)
عبدالرؤف عبدالحفیظ السلفی
استاذ: المعہد، رچھا ، بریلی
استاذ: المعہد، رچھا ، بریلی
قاعدہ نمبر :(۲۱)اگر حدیث وقرآن میں تعارض نظر�آئے تو حدیث کے معنیٰ ایسے کرنے چاہئیں جس سے دونوں میں موافقت ہوجائے تعارض جاتارہے ۔ ایسی ہی اگر حدیثیں آپس میں مخالف معلوم ہوں تو ا ن کے ایسے معنی کرنے لازم ہیں کہ مخالفت نہ رہے اورسب پر عمل ہوجائے ۔ اس کی مثا ل یہ ہے کہ رب فرماتا ہے ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ۔
جس قدر قرآن آسان ہو ، نماز میں پڑھ لو ۔
لیکن حدیث شریف میں ہے ’’ لا صلو ۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘۔
جو سور�ۂفاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
یہ حدیث اس آیت کی مخالف معلوم ہوتی ہے ۔ لہٰذا حدیث کے معنی یہ کرو کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی ۔ مطلقاً قرأت نماز میں فرض ہے اور سور ۂ فاتحہ پڑھنا واجب ۔ تعارض اٹھ گیا اور قرآن وحدیث دونوں پر عمل ہوگیا۔ نیز رب فرماتا ہے ۔ واذا قرأ القرآن فاستمعوا لہ وانصتواجب قرآن پڑھا جاوے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو۔
لیکن حدیث شریف میں ہے ۔لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔
جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
یہ حدیث اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مطلقا خاموشی کا حکم دیتا ہے اور حدیث شریف مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتی ہے لہٰذا یہ مانو کہ قرآن کا حکم مطلق ہے اور حدیث شریف کا حکم اکیلے نمازی یا امام کے لئے ہے۔ مقتدی کے لئے امام کا پڑھ لینا کافی ہے کہ یہ اس کی حکمی قرأت ہے ۔ غرضیکہ یہ قاعدہ نہایت اہم ہے ۔ اگر کوئی حدیث آیت قرآنی کے یا اپنی سے اوپر والی حدیث کے ایسے مخالف ملے کہ کسی طرح مطابقت ہو ہی نہ سکے تو پھر قرآن کریم یا اس سے اوپر والی حدیث کو ترجیح ہوگی ۔ اور یہ حدیث قابل عمل نہ ہوگی ۔ یہ حدیث منسوخ مانی جاوے گی یا حضور کی خصوصیت میں سے شمار ہوگی ۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔
تجزیہ:قاعدہ کی اہمیت اور اس کی وجہ : چونکہ۔ دیگر قواعد مخترعہ کی طرح۔ یہ قاعدہ بھی اسباب تاویل وذرائع تحریف ،تلبیس ابلیس اور تثبیت باطل و تردید حق میں سے ایک ہے ۔ اور اس قاعدے میں اجتہاد اور اجتہاد میں اختلاف کی گنجائش ہے اس لیے والراجح عندنا، والاصح عند ائمتنا جیسے بھاری بھر کم جملوں کے ذریعہ تمام مخالف مسلک نصوص میں کسی نہ کسی طرح سے تعارض دکھلا کر من موافق تطبیق پیش کرکے اپنے عوام اور معتقدین مریدین کو دام فریب میں پھنسا ئے رکھنے اور مطمئن کرنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے ۔ اسی لیے اس کو بہت مطول مفصل نیزممثل بیا ن کیا ہے اور
حد تو یہ ہے کہ دل کی بات زبان قلم تک آہی گئی، چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ غرضیکہ یہ قاعدہ نہایت اہم ہے‘‘۔
اہمیت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اس قاعدہ کے ذریعہ قرأۃ فاتحہ خلف الاما م میں بزعم احناف ان کے مسلک کی تائید اور قائلین وجوب فاتحہ خلف الامام کی تردید ہوتی ہے ، اسی لئے مثال میں بڑے شد ومد سے حدیث لا صلوٰۃاور آیت تیسیر نیز آیت استماع وانصات میں تعارض دکھلانے اور مفت میں حل پیش کرنے کی سعی نا مشکور کی ہے۔
مسلّمات’ یار‘:اصل موضوع تو قاعدہ ہے ، مگر قاعدہ اپنی جگہ مسلم و معتبر ہے ، اختلاف قاعدے کی مثالوں سے ہے ، اس لئے گویا وجہ اختلاف یا بلفظ دیگر اصل مسئلہ مثالوں کا ہے ، لہٰذا اس مضمون میں انہیں مثالوں سے ہی بحث کی جائے گی۔ اصل بحث میں داخل ہونے سے پہلے چند مبادیات کا ذکر ضروری اور اہم ہے، انہیں میں سے ایک مسلمات ہے، یعنی اس قاعدہ اور مثال میں مفتی صاحب کی تسلیم کردہ باتیں اور وہ یہ ہیں :
(۱) اگر دو یا زیادہ حدیثوں میں تعارض نظر آئے تو موافقت (تطبیق )پیدا کرنا لازم ہے۔
(۲)موافقت و تطبیق کا اصل مقصد ؛ سبھی نصوص قرآن و حدیث پر عمل ہے ۔ (گویا تقسیم ادلہ یعنی یہ کہنا کہ یہ حدیث فلاں امام کی ہے ، یہ فلاں امام کی ہے اور یہ میری ہے ؛درست نہیں ہے )
(۳) حدیث لا صلوٰۃ کایہ معنیٰ مسلّم ہے کہ ’سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی ‘۔( جو آدمی صرف سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے اپنی نماز ناقص کرلے؛ تو وہ بدبخت نہیں تو اور کیا ہے؟! )
(۴)حدیث’لا صلوۃ‘ سے سورۂ فاتحہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔
(۵) حدیث’لا صلوٰ ۃ ‘ مقتدی کوسورۂ پڑھنے کا حکم دیتی ہے ۔ (گویا اس حدیث کامقتدی کو شامل ہونا تسلیم ہے )
(۶)امام کی قرأت مقتدی کی حکمی قرأت ہے ۔ (یعنی حقیقی نہیں جبکہ مطلوب حقیقی ہے مجازی نہیں )
(۷) آیت کریمہ : فاذا قرأ القرآن فانصتوا ۔۔۔ میں قرآن کریم مطلقاً خاموشی اور استماع (غور سے سننا)کا حکم دیتا ہے ۔(یعنی ہر قسم کی نماز میں نیز نماز کے باہر بھی؛ قرآن کی تلاوت جب بھی ہور ہی ہو ؛جہاں بھی ہو رہی ہو ؛ قرآن یہ حکم دے رہا ہے کہ اسے غور سے سنواور خاموش رہو۔)
نصوص کتاب وسنت میں تعارض کی حقیقت:
تعارض کا لغوی معنی یہ ہے : ایک دوسرے سے ٹکرانا ، ایک دوسرے کے خلاف اور متضاد ہونا ۔ تعارض فی القرآن یا رتعارض فی الحدیث کا مطلب ہے آیات قرآنی یا احادیث کے معنی و مفہوم کا اس طرح ہونا کہ اول نظر میں تضاد یا مخالفت کا گمان ہو ۔سوا ل یہ ہے کیا قرآن و حدیث کے نصوص میں باہم تعارض ممکن ہے ؟ عقل اورنقل دونوں سے یہ بات ثابت و ظاہر ہے کہ ایسا ناممکن اور’ محال است ومحال است ومحال‘ کے قبیل سے ہے ، عقلی دلیل یہ ہے کہ کسی کے اقوال میں باہم تضاداور ٹکراؤ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ شخص اشیاء کے حقائق اور مستقبل کے امور سے ناواقف ہو ، یا اس پر نسیان اور ذھول جیسے عوارض طاری ہوتے ہوں ۔ چونکہ اللہ رب العالمین علام الغیوب ، علیم بذات الصدور، علیم وخبیر ہے اس لئے اس کے کلام (قرآن )میں تضاد ناممکن ہے اور یہی حال حدیث کا بھی ہے کیونکہ وہ بھی وحی الٰہی ہے ، صر ف تعبیر وبیان رسول ﷺ کا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ۔ یعنی رسول اپنی مرضی سے نہیں بولتے ہیں وہ تو ۔شرعی معاملات میں۔جو کچھ بولتے ہیں ؛ وحی ہی ہوا کرتا ہے ۔
نصوص کتاب وسنت میں تعارض ناممکن ہونا نقل سے اس طرح ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا ‘‘۔یعنی وحی۔ متلو یاغیر متلو۔کے منجانب اللہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے ، بیان میں نہ طرز بیان میں ، احکام واوامر میں نہ واقعات و قصص وغیرہ میں ۔اگر غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو ضرور اختلاف اور تضاد پایا جاتا ۔
محدثین ومفسرین ، فقہاء وعلماء جسے ’تعارض‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہ صرف ظاہری اور صوری تعارض ہے نا کہ حقیقی اور واقعی -یہ ہماری عقل نارسا اور نظر کوتاہ بیں کا قصور ہے کہ تعارض اور تضاد نظر آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باہم متعارض و مخالف نصوص کی تعداد ، مقامات تعارض اور ان کے مابین تطبیق یعنی دفعِ تعارض کی نوعیت میں علماء متقدمین و متاخرین کا شدید اختلاف ہے ۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ علماء متقدمین یا علماء متأخرین جو تطبیق بیان کریں وہ من وعن درست اور غور وفکر سے بالا تر ہو ، بلکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں تعارض موجود ہی نہ ہو۔ اس لئے علماء کے تعارض اور ان کی بیان کردہ تطبیق سے اختلاف کی گنجائش موجود اور تنقید و تحقیق کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
تطبیق یعنی دفع تعارض کا بنیادی مقصد: تطبیق یا دفع تعارض کا بنیادی مقصد جملہ نصوص کتاب وسنت (سوائے مرجحہ ومنسوخہ ) کو قابل عمل بنانا ہے ۔ جیسا کہ یہ بات مفتی صاحب نے بھی ذکر کی ہے ، لکھتے ہیں :’ ۔۔۔کہ مخالفت نہ رہے اور سب پر عمل ہوجائے ‘۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ تطبیق جس سے ’سب پر عمل ‘کا فائدہ حاصل نہ ہو ؛ بے مقصد اور غیر مفید بلکہ مبنی بر خطا ہے ۔ خاص طور سے وہ نام نہاد تطبیق جس سے تعارض اور اختلاف کا سلسلہ مزید دراز ہوجائے ؛ قطعاً مقبول و محمود نہیں ۔
آمدم برسر مطلب!کیا آیت تیسیر(فاقرؤا ماتیسرمن القرآن ) اور حدیث لا صلوٰۃ (لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب)میں کوئی ایسا تعارض ہے جس کی وجہ سے حدیث کے ظاہری معنی مفہوم میں تبدیلی کرکے اسے آیت کے موافق بنانے کی ضرورت ہو؟
صحیح جواب تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ تحقیق و تنقید کو کام میں لاتے ہوئے آیت و حدیث کے معنی و مفہوم پر از سر نو غور وفکر کیا جائے ۔ یہ سچ ہے کہ ایک طویل عرصے سے طبقۂ احناف زبان و قلم کے ذریعہ زیر بحث دونوں نصوص میں تعارض دکھلاتے چلے آرہے ہیں ، لیکن تعارض کیوں اور کیوں کرہے ؟یہ بحث ابھی تشنہ تحقیق اور ا س موضوع پر مجال سخن ہنوز باقی ہے ۔
در اصل اس بحث کی بنیاد آیت تیسیر میں وارد لفظ ’اقروا‘اور’القرآن ‘کے معنی و مفہوم اور اس کے متعلقات پر قائم ہے ۔
قرآن کریم میں لفظ القرآن ۳۴؍ بار اور قرآن (بغیر ال)۳ ؍مرتبہ آیا ہے ۔ بعض مقامات پر لغوی معنی (پڑھنا)میں، اکثر مقامات پر کتا ب اللہ کیلئے بطورعَلم اور بعض مقامات پر صلوٰۃ (نماز)کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ، مثلا سور ۂ اسراء آیت نمبر۸۷ ’’۔۔۔۔۔۔ان قرآن الفجر کا ن مشہودا‘‘ میں قرآن بمعنی صلوٰۃ۔نماز۔ استعمال ہوا ہے ۔
معلوم ہوا کہ لفظ قرآن ذو معانی ہے ۔ کہا ں کس معنی میں استعمال ہوا ہے ؟ یہ جاننے کیلئے سیاق و سباق اور قرائن پر نظر رکھنی پڑے گی ۔قرائن اور سیاق وسباق سے چشم پوشی کرکے اس کا معنی متعین کرنا بر خود غلط بلکہ محال ہے ۔
آیت تیسیر میں القرآن کا معنی: زیر بحث آیت کو صحیح طور سے سمجھنے اور معنی متعین کرنے کیلئے پوری آیت مع ترجمہ پیش کی جارہی ہے ، ان شاء اللہ فہم مطالب میں کافی سہولت ہوگی۔ ’’ان ربک یعلم انک تقوم اندی من ثلثی ۔۔۔۔۔۔فاقرواما تیسر من القرآن‘‘ الآیۃ۔ یعنی آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ آپ ۔ ﷺ ۔اورآپ کے صحابہ کی ایک جماعت قیام اللیل (تہجد)کرتی ہے ، دوتہائی رات کے قریب، آدھی رات اور تہائی
(حسب موقع)اور رات ودن (کے اوقات)کاٹھیک ٹھیک اندازہ اور علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اسے معلوم ہے کہ تم ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کی ۔یا مستقل قیام اللیل کی ۔ طاقت نہیں رکھ پاؤگے ، اس لئے اس نے تم لوگوں پر لطف و کرم فرمایا، لہٰذا تم پڑھو نماز تہجد جتنی تمہارے لئے آسان ہو ،۔بلا تعین وقت مقدار۔[یا بقول احناف: جتنا قرآن تمہارے لئے آسان ہو پڑھو۔]
اس وقت’ المکتبۃ الشاملۃ ‘میرے سامنے ہے ، اس میں کتب تفسیر کے کالم میں تفسیر کی قدیم وجدید ۹۸ ؍کتابیں موجو د ہیں ۔ ان کتابوں کے مؤلفین میں سے جس نے بھی سورۂ مزمل میں زیر بحث موضوع پر قلم اٹھا یا ہے ۔اور اکثرنے اٹھایا ہے ۔یہ بات ضرور لکھی ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی آیات (قم اللیل الا قلیلا۔۔۔)کی وجہ سے آپ ﷺاور آپ کے صحابہ تقریباًایک سال تک حکم الٰہی ۔نصفہ اوانقص منہ قلیلا۔۔۔۔ کے مطابق آدھی رات ، ایک تہائی یا دو تہائی رات تک اور بقول بعض مفسرین : نصف ، ثلث وغیر ہ کی تعیین نہ کر پانے کی وجہ سے پوری رات قیام کرتے رہے اس کے بعد آیت : ’’علم ان لن تحصوہ ۔۔۔ ‘‘کے ذریعہ متعین وقت تک قیام کا حکم منسوخ کرکے
قیام اللیل میں تخفیف کردی گئی ۔ [یا بقول بعض قیام اللیل کو منسوخ کردیا گیا۔]
چند نمونے ملاحظہ ہوں :
(۱)قولہ : ’’فاقرؤاما تیسر من القرآن ‘‘ وہٰذہٖ الآیۃ نسخت ’’ قم اللیل الا قلیلا‘‘ (تفسیر مجاہد، تحقیق: لدکتور محمد عبدالسلام ابو النبیل۔)
یعنی ’’فاقرؤاما تیسر من القرآن ‘‘والی آیت نے ’’ قم اللیل الا قلیلا‘‘
کے اندر بیان شدہ حکم کو منسوخ کردیا ۔
(۲) کان النبی ﷺ وطائفۃ من المسلمین یقومون اللیل قبل ان تفرض الصلوٰۃ فشق ذالک علیہم فنزلت الرخصۃ۔(معانی القرآن للفراء)
یعنی !نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی ایک جماعت ؛ پنجوقتہ نمازوں کی فرضیت سے پہلے راتوں کو قیام کرتی تھی ، مگر یہ ان کیلئے دشوار تھا اس لئے آیت کریمہ : وطائفۃ من اللذین معک‘‘ میں قیام اللیل کیلئے رخصت کا حکم نازل ہوا ۔
(۳) ’’۔۔۔۔۔۔عن سعد بن ہشام قال قلت لعائشۃ أنبئنی عن قیام رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ وآخرہا نحوسنۃ۔ (احکام القرآن للجصاص)
یعنی زرارہ بن اوفی نے سعد بن ہشام سے روایت کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے قیام کے بارے میں بتلائیے !انہوں نے کہا : کیا آپ سور ۂ مزمل نہیں پڑھتے ہیں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں !انہوں نے کہا : اس سورہ کی ابتداء میں اللہ نے قیام کو فرض قرار دیا ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب قیام کرنے لگے ، یہاں تک کہ
۔ طویل قیام کی وجہ سے ۔ ان کے قدم متورم ہوجاتے تھے ، اللہ نے اس حکم کے اختتام کو بارہ ماہ تک روکے رکھا، پھر اس سورہ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی ۔ چنانچہ ۔ اس آیت تخفیف کے ذریعہ ۔
قیام اللیل فرض ہونے بعد نفل میں تبدیل ہوگیا ۔ اور عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ کہ جب سورہ مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تولوگ رمضان کے قیام کے قریب قیام کرتے تھے یہاں تک کہ اس سورہ
۔ سورۂ مزمل ۔ کی آخری آیت ناز ل ہوئی ۔ (یعنی آخری آیت کے نزول تک لوگ قیام کرتے رہے )
اور سور�ۂ مزمل کی ابتدائی اور آخری آیت کے درمیان میں تقریبا ایک سال کا وقفہ رہا ۔
(۴) وقال ابن جریج : ۔۔۔۔۔۔ عن سعید ۔ وہو ابن جبیر ۔ قال لما انز ل اللہ تعالیٰ علی نبیہٖ ﷺ یا ایہا المزمل ۔۔۔۔۔۔ فخفف اللہ تعالیٰ عنہم بعد عشر سنین۔ (تفسیر ابن کثیر، تحقیق: سامی بن محمد سلامہ)
یعنی : سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یا ایہا المزمل نازل فرمائی ۔ تو آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام دس سال تک اسی طرح قیام کرتے رہے جیسا کہ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا ، پھر دس سال بعد اللہ نے آیت کریمہ : ان ربک یعلم الآیۃ نازل فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ۔ اس آیت کے ذریعہ ۔ دس سال کے بعد لوگوں پر تخفیف اور آسانی فرمادی۔
اسی مفہوم کی بات ؛ اس کے معاً بعد علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس کے طریق سے بھی مروی ہے ۔ (دیکھئے حوالہ سابق)
(۵)۔۔۔فنسخ تقدیر القیام بالمقادیر المذکور۔۔۔(روح البیان )
یعنی آیت میں مذکور مقدار میں قیام کا حکم منسوخ کردیا گیا ۔
(۶) فتاب علیکم ای رجع بکم الی التخفیف فی قیام اللیل اذ ہو الأصل ۔ (ایسر التفاسیر لجزائری) یعنی اللہ تعالیٰ نے قیام اللیل میں تخفیف فرمادیا۔
(۷) ’فتاب علیکم ‘لذالک وبہذا نسخ قیام اللیل الواجب (حوالہ سابق) یعنی اس آیت کریمہ کے ذریعہ اللہ نے واجب قیام اللیل کو منسوخ فرمادیا ۔
(۸)ثم نسخ بقولہ تعالیٰ : ’’ فاقروأما تیسر منہ وکان بین اول ہذا الوجوب ونسخہ سنۃ وہذہ ہی السورۃ التی نسخہ آخرہا اولہا ۔۔۔۔۔۔(صفوۃ التفاسیر لمحمد علی الصابونی)
یعنی !فاقروا ما تیسر منہ کے ذریعہ قیام اللیل منسوخ کردیا گیا ،جبکہ وجوب
قیام اللیل اور اس کے منسوخ ہونے میں ایک سال کا زمانہ لگا اور یہی وہ سورہ ہے جس کے آخری حصے نے ابتدائی حصے کو منسوخ کردیا۔
(۹) قال مقاتل : لما نزلت قم اللیل الا قلیلا ۔۔۔ فتا ب علیکم۔
(التفسیر الوسیط للزحیلی)
یعنی مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب قم اللیل الا قلیلا والی آیت ناز ل ہوئی تو لوگوں پربہت گراں گزری اور چوں کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوپاتا تھا کہ آدھی رات یا تہائی رات کب ہوئی اس لئے غلطی سے بچنے کے لئے پوری رات قیام کرتے تھے ۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر رحم فرمایا اور تخفیف فرمادی چنانچہ فرمایا : علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم۔
(۰۱) ثم نسخت فرضیۃ القیام بہذا المقدار الثقیل بآخر السورۃ فی قولہ تعالیٰ : ان ربک یعلم ۔۔۔(التفسیر المنیر للزحیلی) یعنی ان ربک یعلم والی آیت کے ذریعہ قیام اللیل متعینہ مقدار میں ادا کرنا منسوخ کردیا گیا ۔
(تلک عشرۃ کاملۃ وان اردتم فلدینا مزید ان شاء اللہ )
آپ ان سطور پر دوبارہ غور کریں ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اگر فاقروا ما تیسر من القرآن کا معنی ’’جتنا قرآن تمہارے لئے آسان ہو پڑھو‘‘ کیا جائے تو یہ آیت نماز تہجد
(قیام اللیل) کے نسخ یا اس میں تخفیف کی دلیل نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ اتنی بات تو ب�آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ تلاوت کلام اللہ میں آسانی کردینے سے نماز تہجد یا اس کی مقدار خاص کا وجوب کیوں کر منسوخ ہو سکتا ہے ؟!تیسیر القرأۃ فی الصلوٰۃ؛ تیسیر یا تخفیف فی الصلوٰ ۃکو لازم نہیں ہے۔ بلکہ ایسا معنی کرنے سے آیت کا نظم ونسق ہی بگڑ جائے گا اور آیت کی ابتداء اور انتہامیں کوئی ربط باقی نہ رہے گا۔اور آیت کا مفہوم یہ بنے گا کہ :اللہ کو معلوم ہے کہ تم لوگ مطلقا
قیام اللیل کی ، یا وقت معین میں قیام کی طاقت نہیں رکھ سکوگے اس لئے ۔تہجد ؍قیام اللیل میں ۔تمہارے لئے جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھو۔
حالانکہ یہ معنی مراد لینا درست نہیں ، کیوں کہ منسوخ کردینا یا آسانی پیدا کردینا ؛بغیر کسی پیشگی حکم یا دشواری کے متصور نہیں ہے ۔ اور جب تہجد میں تلاوت قرآ ن مجید کے بارے میں کوئی حکم
یا دشواری پہلے سے موجود نہیں تھی تو پھر منسوخ کرنے یا آسانی پیدا کرنے کا کیا معنی؟!(ا ن مع العسر یسرا)
اس کے بر خلاف اگر آیت کا یہ معنی لیا جائے کہ : اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم لو گ مطلقاً قیام اللیل کی یا وقت معین میں قیام کی طاقت نہیں رکھ سکوگے اس لئے بلا تعیین وقت و مقدار ؛جتنی نماز پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو پڑھو۔تو آیت کا نظم و نسق بھی بدستور باقی رہے گا اور منسوخ کرنے یا آسانی پیدا کرنے کا معاملہ بھی معقول ہوگا ۔
چنانچہ مفسرین کی ایک معتد بہ تعداد نے ’فاقروا ما تیسر من القرآن ‘ میں ’القرآن ‘ سے نماز ہی مراد لیا ہے ۔ چند اقوا ل ملاحظہ ہوں :
ظ تفسیر ابن کثیر :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای :من غیر تحدید بوقت ای :ولٰکن قوموا من اللیل ما تیسر ،وعبر عن الصلوٰۃ بالقرأۃ۔۔۔یعنی :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب یہ ہے کہ بغیر وقت کی تحدید وتعیین کے ؛جتنی دیر تک قیام اللیل تمہارے لئے آسان ہو ؛پڑھو !یہاں قرأت بول کر نماز مراد لی گئی ہے جیساکہ سور �ۂسبحان میں ہے کہ :’ولا تجہر بصلاتک ‘اور اپنی نماز یعنی قرأت بلند آواز سے مت ادا کرو۔ (اس میں صلوٰۃ بول کر قرأت مراد لی گئی ہے ) ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’فاقروا ما تیسر منہ کی بھی یہی تفسیر بیان کی ہے ۔
ظروح البیان :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای فصلوا ماتیسر لکم من الصلوٰ ۃ اللیل۔۔۔ عبر عن الصلوٰۃ بالقرأۃ کما عبر عنہا بسائر ارکانہا علی طریق اطلاق اسم الجزء علی الکل مجازا مرسلاً ۔ یعنی ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے صلوٰۃ اللیل ۔ تہجد ۔جتنی آسان ہو پڑھو! قرأۃ بول کر صلوٰۃ مراد لی گئی ، جس طرح نماز کے سارے ۔ اہم ۔ارکان کو بطور اطلاق الجزء علی الکل؛ مجاز مرسل کی حیثیت سے نماز کہاجاتا ہے ۔ (یعنی جس طرح رکوع ، سجود، قیام وغیر ہ ۔جزء ۔بول کر نماز۔کل۔ مراد لیا جاتا ہے اسی طرح یہاں بھی ’قرأۃ‘ ۔جزء۔ بول کر نماز ۔کل۔ مراد لی گئی ہے ۔
ظایسر التفاسیر للجزائری: وقولہ تعالی : ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای صلوا من اللیل ما تیسر اطلق لفظ القرآن وہو یرید الصلوٰۃ لأن القرآن ہو الجزء المقصود من صلوٰۃ اللیل؛ یعنی؛ ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ رات کو ۔ نماز تہجد ۔ اس مقدار میں پڑھو جو تمہارے لئے آسا ن ہو ، لفظ القران بول کر ’نماز‘ مراد لی گئی ہے ۔ کیونکہ نماز تہجد کا یہی مقصود جزء اور مطلوب حصہ ہے ۔
ظالتفسیر المنیرللزحیلی: امر اللہ بقراء ۃ ما تیسر من القرآن، والمراد من ہذہٖ القرأۃ : الصلوٰۃ ۔۔۔والیہا یرجع القول‘‘ یعنی: اللہ نے ما تیسر من القرانکی قرأۃ کا حکم دیا ہے ، اور اس قرأۃ سے مراد نماز ہے ، ۔ قرأۃ بول کر نماز اس لئے مراد لیا ہے ۔کیونکہ قرأۃ نماز کا ایک جزء ہے۔ تو گویا جزء بو ل کر کل مراد لیا ہے یعنی مطلب ہے کہ تمہارے لئے جتنی نماز آسان ہو ؛ پڑھو! اور نماز کا نام قرآن بھی رکھا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’وقرآن الفجر‘(الاسراء۱۷؍۸۷)۔یعنی قرآن الفجر میں قرآن سے نماز مراد ہے
۔ ابن العربی فرماتے ہیں : یہ بات ۔ قرأۃ سے نمازمراد ہونا ۔زیادہ صحیح ہے کیوں کہ ۔ اس آیت میں
۔ نماز کے بارے میں خبر دی گئی ہے اس لئے یہ بات بھی اسی طرف لوٹے گی۔
ظالکشاف : ’’ عبر عن الصلوٰۃبالقرأۃ۔۔۔۔۔۔فصلوا ما تیسر علیکم‘‘ یعنی : قرأۃ بول کر صلوٰۃ ؍نماز مراد لیاہے کیوں کہ قرأۃ نماز کے ارکان میں سے ایک ہے، جس طرح قیام، رکوع سجود بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ، آیت ۔تیسیر ۔ کا مقصود یہ ہے کہ تم لوگ اتنی نماز پڑھو جتنی آسان معلوم ہو۔
ٍ ظتفسیر البیضاوی: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ۔۔۔بسائر ارکانہا ‘‘ یعنی: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ تمہارے لئے جتنی نماز تہجد آسان ہو پڑھو۔ قرآن بول کر نماز مراد لی گئی ہے جیسا کہ نماز کے سبھی ۔ اہم ۔ ارکان بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ۔
ظفتح القدیر للشوکانی : وقیل معنی فاقروا ما تیسر منہ فصلوا ماتیسر لکم عن صلاۃ اللیل والصلوٰۃ تسمی قرانا کقولہ وقرآن الفجر یعنی فاقروا ما تیسر منہ ‘ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ : تہجد جس قدر آسان ہو پڑھو۔ اور نماز کا نام قرآن بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول: ’وقرآن الفجر ‘ میں ’قرآن‘ بمعنی نماز آیا ہوا ہے ۔
ظتفسیر جلالین: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ فی الصلوٰۃ بان تصلوا ما تیسر ۔ نماز میں قرآن جتنا آسان ہو پڑھو، اس طور پر کہ جتنی نماز آسان معلوم ہو پڑھو۔
ظالتفسیر الوسیط لطنطاوی : علامہ طنطاوی رحمہ اللہ گزشتہ بیانات کے ہم معنی تفسیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : قال الآلوسی : قولہ فاقروا ما تیسر ۔۔۔وفیہ بعد عن مقتضی السیاق۔ یعنی علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ جس قدر نماز تہجد تمہارے لئے آسان ہوپڑھو، قرأت بول کر نماز مراد لی گئی ہے ، جس طرح نماز کے سبھی ۔اہم ۔ ارکان بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ القرآن اپنے حقیقی معنی ۔ یعنی قرآن کریم کے معنی۔ میں ہے ، حالانکہ یہ دوسرا معنی سیاق کے تقاضے کے خلاف اور بعید ہے ۔(جاری۔۔۔)
جس قدر قرآن آسان ہو ، نماز میں پڑھ لو ۔
لیکن حدیث شریف میں ہے ’’ لا صلو ۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘۔
جو سور�ۂفاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
یہ حدیث اس آیت کی مخالف معلوم ہوتی ہے ۔ لہٰذا حدیث کے معنی یہ کرو کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی ۔ مطلقاً قرأت نماز میں فرض ہے اور سور ۂ فاتحہ پڑھنا واجب ۔ تعارض اٹھ گیا اور قرآن وحدیث دونوں پر عمل ہوگیا۔ نیز رب فرماتا ہے ۔ واذا قرأ القرآن فاستمعوا لہ وانصتواجب قرآن پڑھا جاوے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو۔
لیکن حدیث شریف میں ہے ۔لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔
جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
یہ حدیث اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مطلقا خاموشی کا حکم دیتا ہے اور حدیث شریف مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتی ہے لہٰذا یہ مانو کہ قرآن کا حکم مطلق ہے اور حدیث شریف کا حکم اکیلے نمازی یا امام کے لئے ہے۔ مقتدی کے لئے امام کا پڑھ لینا کافی ہے کہ یہ اس کی حکمی قرأت ہے ۔ غرضیکہ یہ قاعدہ نہایت اہم ہے ۔ اگر کوئی حدیث آیت قرآنی کے یا اپنی سے اوپر والی حدیث کے ایسے مخالف ملے کہ کسی طرح مطابقت ہو ہی نہ سکے تو پھر قرآن کریم یا اس سے اوپر والی حدیث کو ترجیح ہوگی ۔ اور یہ حدیث قابل عمل نہ ہوگی ۔ یہ حدیث منسوخ مانی جاوے گی یا حضور کی خصوصیت میں سے شمار ہوگی ۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔
تجزیہ:قاعدہ کی اہمیت اور اس کی وجہ : چونکہ۔ دیگر قواعد مخترعہ کی طرح۔ یہ قاعدہ بھی اسباب تاویل وذرائع تحریف ،تلبیس ابلیس اور تثبیت باطل و تردید حق میں سے ایک ہے ۔ اور اس قاعدے میں اجتہاد اور اجتہاد میں اختلاف کی گنجائش ہے اس لیے والراجح عندنا، والاصح عند ائمتنا جیسے بھاری بھر کم جملوں کے ذریعہ تمام مخالف مسلک نصوص میں کسی نہ کسی طرح سے تعارض دکھلا کر من موافق تطبیق پیش کرکے اپنے عوام اور معتقدین مریدین کو دام فریب میں پھنسا ئے رکھنے اور مطمئن کرنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے ۔ اسی لیے اس کو بہت مطول مفصل نیزممثل بیا ن کیا ہے اور
حد تو یہ ہے کہ دل کی بات زبان قلم تک آہی گئی، چنانچہ لکھتے ہیں : ’’ غرضیکہ یہ قاعدہ نہایت اہم ہے‘‘۔
اہمیت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ اس قاعدہ کے ذریعہ قرأۃ فاتحہ خلف الاما م میں بزعم احناف ان کے مسلک کی تائید اور قائلین وجوب فاتحہ خلف الامام کی تردید ہوتی ہے ، اسی لئے مثال میں بڑے شد ومد سے حدیث لا صلوٰۃاور آیت تیسیر نیز آیت استماع وانصات میں تعارض دکھلانے اور مفت میں حل پیش کرنے کی سعی نا مشکور کی ہے۔
مسلّمات’ یار‘:اصل موضوع تو قاعدہ ہے ، مگر قاعدہ اپنی جگہ مسلم و معتبر ہے ، اختلاف قاعدے کی مثالوں سے ہے ، اس لئے گویا وجہ اختلاف یا بلفظ دیگر اصل مسئلہ مثالوں کا ہے ، لہٰذا اس مضمون میں انہیں مثالوں سے ہی بحث کی جائے گی۔ اصل بحث میں داخل ہونے سے پہلے چند مبادیات کا ذکر ضروری اور اہم ہے، انہیں میں سے ایک مسلمات ہے، یعنی اس قاعدہ اور مثال میں مفتی صاحب کی تسلیم کردہ باتیں اور وہ یہ ہیں :
(۱) اگر دو یا زیادہ حدیثوں میں تعارض نظر آئے تو موافقت (تطبیق )پیدا کرنا لازم ہے۔
(۲)موافقت و تطبیق کا اصل مقصد ؛ سبھی نصوص قرآن و حدیث پر عمل ہے ۔ (گویا تقسیم ادلہ یعنی یہ کہنا کہ یہ حدیث فلاں امام کی ہے ، یہ فلاں امام کی ہے اور یہ میری ہے ؛درست نہیں ہے )
(۳) حدیث لا صلوٰۃ کایہ معنیٰ مسلّم ہے کہ ’سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی ‘۔( جو آدمی صرف سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے اپنی نماز ناقص کرلے؛ تو وہ بدبخت نہیں تو اور کیا ہے؟! )
(۴)حدیث’لا صلوۃ‘ سے سورۂ فاتحہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔
(۵) حدیث’لا صلوٰ ۃ ‘ مقتدی کوسورۂ پڑھنے کا حکم دیتی ہے ۔ (گویا اس حدیث کامقتدی کو شامل ہونا تسلیم ہے )
(۶)امام کی قرأت مقتدی کی حکمی قرأت ہے ۔ (یعنی حقیقی نہیں جبکہ مطلوب حقیقی ہے مجازی نہیں )
(۷) آیت کریمہ : فاذا قرأ القرآن فانصتوا ۔۔۔ میں قرآن کریم مطلقاً خاموشی اور استماع (غور سے سننا)کا حکم دیتا ہے ۔(یعنی ہر قسم کی نماز میں نیز نماز کے باہر بھی؛ قرآن کی تلاوت جب بھی ہور ہی ہو ؛جہاں بھی ہو رہی ہو ؛ قرآن یہ حکم دے رہا ہے کہ اسے غور سے سنواور خاموش رہو۔)
نصوص کتاب وسنت میں تعارض کی حقیقت:
تعارض کا لغوی معنی یہ ہے : ایک دوسرے سے ٹکرانا ، ایک دوسرے کے خلاف اور متضاد ہونا ۔ تعارض فی القرآن یا رتعارض فی الحدیث کا مطلب ہے آیات قرآنی یا احادیث کے معنی و مفہوم کا اس طرح ہونا کہ اول نظر میں تضاد یا مخالفت کا گمان ہو ۔سوا ل یہ ہے کیا قرآن و حدیث کے نصوص میں باہم تعارض ممکن ہے ؟ عقل اورنقل دونوں سے یہ بات ثابت و ظاہر ہے کہ ایسا ناممکن اور’ محال است ومحال است ومحال‘ کے قبیل سے ہے ، عقلی دلیل یہ ہے کہ کسی کے اقوال میں باہم تضاداور ٹکراؤ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ شخص اشیاء کے حقائق اور مستقبل کے امور سے ناواقف ہو ، یا اس پر نسیان اور ذھول جیسے عوارض طاری ہوتے ہوں ۔ چونکہ اللہ رب العالمین علام الغیوب ، علیم بذات الصدور، علیم وخبیر ہے اس لئے اس کے کلام (قرآن )میں تضاد ناممکن ہے اور یہی حال حدیث کا بھی ہے کیونکہ وہ بھی وحی الٰہی ہے ، صر ف تعبیر وبیان رسول ﷺ کا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ۔ یعنی رسول اپنی مرضی سے نہیں بولتے ہیں وہ تو ۔شرعی معاملات میں۔جو کچھ بولتے ہیں ؛ وحی ہی ہوا کرتا ہے ۔
نصوص کتاب وسنت میں تعارض ناممکن ہونا نقل سے اس طرح ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’ولوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا ‘‘۔یعنی وحی۔ متلو یاغیر متلو۔کے منجانب اللہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے ، بیان میں نہ طرز بیان میں ، احکام واوامر میں نہ واقعات و قصص وغیرہ میں ۔اگر غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو ضرور اختلاف اور تضاد پایا جاتا ۔
محدثین ومفسرین ، فقہاء وعلماء جسے ’تعارض‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہ صرف ظاہری اور صوری تعارض ہے نا کہ حقیقی اور واقعی -یہ ہماری عقل نارسا اور نظر کوتاہ بیں کا قصور ہے کہ تعارض اور تضاد نظر آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ باہم متعارض و مخالف نصوص کی تعداد ، مقامات تعارض اور ان کے مابین تطبیق یعنی دفعِ تعارض کی نوعیت میں علماء متقدمین و متاخرین کا شدید اختلاف ہے ۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ علماء متقدمین یا علماء متأخرین جو تطبیق بیان کریں وہ من وعن درست اور غور وفکر سے بالا تر ہو ، بلکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں تعارض موجود ہی نہ ہو۔ اس لئے علماء کے تعارض اور ان کی بیان کردہ تطبیق سے اختلاف کی گنجائش موجود اور تنقید و تحقیق کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
تطبیق یعنی دفع تعارض کا بنیادی مقصد: تطبیق یا دفع تعارض کا بنیادی مقصد جملہ نصوص کتاب وسنت (سوائے مرجحہ ومنسوخہ ) کو قابل عمل بنانا ہے ۔ جیسا کہ یہ بات مفتی صاحب نے بھی ذکر کی ہے ، لکھتے ہیں :’ ۔۔۔کہ مخالفت نہ رہے اور سب پر عمل ہوجائے ‘۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ تطبیق جس سے ’سب پر عمل ‘کا فائدہ حاصل نہ ہو ؛ بے مقصد اور غیر مفید بلکہ مبنی بر خطا ہے ۔ خاص طور سے وہ نام نہاد تطبیق جس سے تعارض اور اختلاف کا سلسلہ مزید دراز ہوجائے ؛ قطعاً مقبول و محمود نہیں ۔
آمدم برسر مطلب!کیا آیت تیسیر(فاقرؤا ماتیسرمن القرآن ) اور حدیث لا صلوٰۃ (لا صلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب)میں کوئی ایسا تعارض ہے جس کی وجہ سے حدیث کے ظاہری معنی مفہوم میں تبدیلی کرکے اسے آیت کے موافق بنانے کی ضرورت ہو؟
صحیح جواب تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ تحقیق و تنقید کو کام میں لاتے ہوئے آیت و حدیث کے معنی و مفہوم پر از سر نو غور وفکر کیا جائے ۔ یہ سچ ہے کہ ایک طویل عرصے سے طبقۂ احناف زبان و قلم کے ذریعہ زیر بحث دونوں نصوص میں تعارض دکھلاتے چلے آرہے ہیں ، لیکن تعارض کیوں اور کیوں کرہے ؟یہ بحث ابھی تشنہ تحقیق اور ا س موضوع پر مجال سخن ہنوز باقی ہے ۔
در اصل اس بحث کی بنیاد آیت تیسیر میں وارد لفظ ’اقروا‘اور’القرآن ‘کے معنی و مفہوم اور اس کے متعلقات پر قائم ہے ۔
قرآن کریم میں لفظ القرآن ۳۴؍ بار اور قرآن (بغیر ال)۳ ؍مرتبہ آیا ہے ۔ بعض مقامات پر لغوی معنی (پڑھنا)میں، اکثر مقامات پر کتا ب اللہ کیلئے بطورعَلم اور بعض مقامات پر صلوٰۃ (نماز)کے لئے بھی استعمال ہوا ہے ، مثلا سور ۂ اسراء آیت نمبر۸۷ ’’۔۔۔۔۔۔ان قرآن الفجر کا ن مشہودا‘‘ میں قرآن بمعنی صلوٰۃ۔نماز۔ استعمال ہوا ہے ۔
معلوم ہوا کہ لفظ قرآن ذو معانی ہے ۔ کہا ں کس معنی میں استعمال ہوا ہے ؟ یہ جاننے کیلئے سیاق و سباق اور قرائن پر نظر رکھنی پڑے گی ۔قرائن اور سیاق وسباق سے چشم پوشی کرکے اس کا معنی متعین کرنا بر خود غلط بلکہ محال ہے ۔
آیت تیسیر میں القرآن کا معنی: زیر بحث آیت کو صحیح طور سے سمجھنے اور معنی متعین کرنے کیلئے پوری آیت مع ترجمہ پیش کی جارہی ہے ، ان شاء اللہ فہم مطالب میں کافی سہولت ہوگی۔ ’’ان ربک یعلم انک تقوم اندی من ثلثی ۔۔۔۔۔۔فاقرواما تیسر من القرآن‘‘ الآیۃ۔ یعنی آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ آپ ۔ ﷺ ۔اورآپ کے صحابہ کی ایک جماعت قیام اللیل (تہجد)کرتی ہے ، دوتہائی رات کے قریب، آدھی رات اور تہائی
(حسب موقع)اور رات ودن (کے اوقات)کاٹھیک ٹھیک اندازہ اور علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اسے معلوم ہے کہ تم ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنے کی ۔یا مستقل قیام اللیل کی ۔ طاقت نہیں رکھ پاؤگے ، اس لئے اس نے تم لوگوں پر لطف و کرم فرمایا، لہٰذا تم پڑھو نماز تہجد جتنی تمہارے لئے آسان ہو ،۔بلا تعین وقت مقدار۔[یا بقول احناف: جتنا قرآن تمہارے لئے آسان ہو پڑھو۔]
اس وقت’ المکتبۃ الشاملۃ ‘میرے سامنے ہے ، اس میں کتب تفسیر کے کالم میں تفسیر کی قدیم وجدید ۹۸ ؍کتابیں موجو د ہیں ۔ ان کتابوں کے مؤلفین میں سے جس نے بھی سورۂ مزمل میں زیر بحث موضوع پر قلم اٹھا یا ہے ۔اور اکثرنے اٹھایا ہے ۔یہ بات ضرور لکھی ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی آیات (قم اللیل الا قلیلا۔۔۔)کی وجہ سے آپ ﷺاور آپ کے صحابہ تقریباًایک سال تک حکم الٰہی ۔نصفہ اوانقص منہ قلیلا۔۔۔۔ کے مطابق آدھی رات ، ایک تہائی یا دو تہائی رات تک اور بقول بعض مفسرین : نصف ، ثلث وغیر ہ کی تعیین نہ کر پانے کی وجہ سے پوری رات قیام کرتے رہے اس کے بعد آیت : ’’علم ان لن تحصوہ ۔۔۔ ‘‘کے ذریعہ متعین وقت تک قیام کا حکم منسوخ کرکے
قیام اللیل میں تخفیف کردی گئی ۔ [یا بقول بعض قیام اللیل کو منسوخ کردیا گیا۔]
چند نمونے ملاحظہ ہوں :
(۱)قولہ : ’’فاقرؤاما تیسر من القرآن ‘‘ وہٰذہٖ الآیۃ نسخت ’’ قم اللیل الا قلیلا‘‘ (تفسیر مجاہد، تحقیق: لدکتور محمد عبدالسلام ابو النبیل۔)
یعنی ’’فاقرؤاما تیسر من القرآن ‘‘والی آیت نے ’’ قم اللیل الا قلیلا‘‘
کے اندر بیان شدہ حکم کو منسوخ کردیا ۔
(۲) کان النبی ﷺ وطائفۃ من المسلمین یقومون اللیل قبل ان تفرض الصلوٰۃ فشق ذالک علیہم فنزلت الرخصۃ۔(معانی القرآن للفراء)
یعنی !نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی ایک جماعت ؛ پنجوقتہ نمازوں کی فرضیت سے پہلے راتوں کو قیام کرتی تھی ، مگر یہ ان کیلئے دشوار تھا اس لئے آیت کریمہ : وطائفۃ من اللذین معک‘‘ میں قیام اللیل کیلئے رخصت کا حکم نازل ہوا ۔
(۳) ’’۔۔۔۔۔۔عن سعد بن ہشام قال قلت لعائشۃ أنبئنی عن قیام رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ وآخرہا نحوسنۃ۔ (احکام القرآن للجصاص)
یعنی زرارہ بن اوفی نے سعد بن ہشام سے روایت کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے قیام کے بارے میں بتلائیے !انہوں نے کہا : کیا آپ سور ۂ مزمل نہیں پڑھتے ہیں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں !انہوں نے کہا : اس سورہ کی ابتداء میں اللہ نے قیام کو فرض قرار دیا ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب قیام کرنے لگے ، یہاں تک کہ
۔ طویل قیام کی وجہ سے ۔ ان کے قدم متورم ہوجاتے تھے ، اللہ نے اس حکم کے اختتام کو بارہ ماہ تک روکے رکھا، پھر اس سورہ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی ۔ چنانچہ ۔ اس آیت تخفیف کے ذریعہ ۔
قیام اللیل فرض ہونے بعد نفل میں تبدیل ہوگیا ۔ اور عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ کہ جب سورہ مزمل کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تولوگ رمضان کے قیام کے قریب قیام کرتے تھے یہاں تک کہ اس سورہ
۔ سورۂ مزمل ۔ کی آخری آیت ناز ل ہوئی ۔ (یعنی آخری آیت کے نزول تک لوگ قیام کرتے رہے )
اور سور�ۂ مزمل کی ابتدائی اور آخری آیت کے درمیان میں تقریبا ایک سال کا وقفہ رہا ۔
(۴) وقال ابن جریج : ۔۔۔۔۔۔ عن سعید ۔ وہو ابن جبیر ۔ قال لما انز ل اللہ تعالیٰ علی نبیہٖ ﷺ یا ایہا المزمل ۔۔۔۔۔۔ فخفف اللہ تعالیٰ عنہم بعد عشر سنین۔ (تفسیر ابن کثیر، تحقیق: سامی بن محمد سلامہ)
یعنی : سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یا ایہا المزمل نازل فرمائی ۔ تو آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام دس سال تک اسی طرح قیام کرتے رہے جیسا کہ اللہ نے انہیں حکم دیا تھا ، پھر دس سال بعد اللہ نے آیت کریمہ : ان ربک یعلم الآیۃ نازل فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ۔ اس آیت کے ذریعہ ۔ دس سال کے بعد لوگوں پر تخفیف اور آسانی فرمادی۔
اسی مفہوم کی بات ؛ اس کے معاً بعد علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس کے طریق سے بھی مروی ہے ۔ (دیکھئے حوالہ سابق)
(۵)۔۔۔فنسخ تقدیر القیام بالمقادیر المذکور۔۔۔(روح البیان )
یعنی آیت میں مذکور مقدار میں قیام کا حکم منسوخ کردیا گیا ۔
(۶) فتاب علیکم ای رجع بکم الی التخفیف فی قیام اللیل اذ ہو الأصل ۔ (ایسر التفاسیر لجزائری) یعنی اللہ تعالیٰ نے قیام اللیل میں تخفیف فرمادیا۔
(۷) ’فتاب علیکم ‘لذالک وبہذا نسخ قیام اللیل الواجب (حوالہ سابق) یعنی اس آیت کریمہ کے ذریعہ اللہ نے واجب قیام اللیل کو منسوخ فرمادیا ۔
(۸)ثم نسخ بقولہ تعالیٰ : ’’ فاقروأما تیسر منہ وکان بین اول ہذا الوجوب ونسخہ سنۃ وہذہ ہی السورۃ التی نسخہ آخرہا اولہا ۔۔۔۔۔۔(صفوۃ التفاسیر لمحمد علی الصابونی)
یعنی !فاقروا ما تیسر منہ کے ذریعہ قیام اللیل منسوخ کردیا گیا ،جبکہ وجوب
قیام اللیل اور اس کے منسوخ ہونے میں ایک سال کا زمانہ لگا اور یہی وہ سورہ ہے جس کے آخری حصے نے ابتدائی حصے کو منسوخ کردیا۔
(۹) قال مقاتل : لما نزلت قم اللیل الا قلیلا ۔۔۔ فتا ب علیکم۔
(التفسیر الوسیط للزحیلی)
یعنی مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب قم اللیل الا قلیلا والی آیت ناز ل ہوئی تو لوگوں پربہت گراں گزری اور چوں کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوپاتا تھا کہ آدھی رات یا تہائی رات کب ہوئی اس لئے غلطی سے بچنے کے لئے پوری رات قیام کرتے تھے ۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر رحم فرمایا اور تخفیف فرمادی چنانچہ فرمایا : علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم۔
(۰۱) ثم نسخت فرضیۃ القیام بہذا المقدار الثقیل بآخر السورۃ فی قولہ تعالیٰ : ان ربک یعلم ۔۔۔(التفسیر المنیر للزحیلی) یعنی ان ربک یعلم والی آیت کے ذریعہ قیام اللیل متعینہ مقدار میں ادا کرنا منسوخ کردیا گیا ۔
(تلک عشرۃ کاملۃ وان اردتم فلدینا مزید ان شاء اللہ )
آپ ان سطور پر دوبارہ غور کریں ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اگر فاقروا ما تیسر من القرآن کا معنی ’’جتنا قرآن تمہارے لئے آسان ہو پڑھو‘‘ کیا جائے تو یہ آیت نماز تہجد
(قیام اللیل) کے نسخ یا اس میں تخفیف کی دلیل نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ اتنی بات تو ب�آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ تلاوت کلام اللہ میں آسانی کردینے سے نماز تہجد یا اس کی مقدار خاص کا وجوب کیوں کر منسوخ ہو سکتا ہے ؟!تیسیر القرأۃ فی الصلوٰۃ؛ تیسیر یا تخفیف فی الصلوٰ ۃکو لازم نہیں ہے۔ بلکہ ایسا معنی کرنے سے آیت کا نظم ونسق ہی بگڑ جائے گا اور آیت کی ابتداء اور انتہامیں کوئی ربط باقی نہ رہے گا۔اور آیت کا مفہوم یہ بنے گا کہ :اللہ کو معلوم ہے کہ تم لوگ مطلقا
قیام اللیل کی ، یا وقت معین میں قیام کی طاقت نہیں رکھ سکوگے اس لئے ۔تہجد ؍قیام اللیل میں ۔تمہارے لئے جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھو۔
حالانکہ یہ معنی مراد لینا درست نہیں ، کیوں کہ منسوخ کردینا یا آسانی پیدا کردینا ؛بغیر کسی پیشگی حکم یا دشواری کے متصور نہیں ہے ۔ اور جب تہجد میں تلاوت قرآ ن مجید کے بارے میں کوئی حکم
یا دشواری پہلے سے موجود نہیں تھی تو پھر منسوخ کرنے یا آسانی پیدا کرنے کا کیا معنی؟!(ا ن مع العسر یسرا)
اس کے بر خلاف اگر آیت کا یہ معنی لیا جائے کہ : اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم لو گ مطلقاً قیام اللیل کی یا وقت معین میں قیام کی طاقت نہیں رکھ سکوگے اس لئے بلا تعیین وقت و مقدار ؛جتنی نماز پڑھنا تمہارے لئے آسان ہو پڑھو۔تو آیت کا نظم و نسق بھی بدستور باقی رہے گا اور منسوخ کرنے یا آسانی پیدا کرنے کا معاملہ بھی معقول ہوگا ۔
چنانچہ مفسرین کی ایک معتد بہ تعداد نے ’فاقروا ما تیسر من القرآن ‘ میں ’القرآن ‘ سے نماز ہی مراد لیا ہے ۔ چند اقوا ل ملاحظہ ہوں :
ظ تفسیر ابن کثیر :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای :من غیر تحدید بوقت ای :ولٰکن قوموا من اللیل ما تیسر ،وعبر عن الصلوٰۃ بالقرأۃ۔۔۔یعنی :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب یہ ہے کہ بغیر وقت کی تحدید وتعیین کے ؛جتنی دیر تک قیام اللیل تمہارے لئے آسان ہو ؛پڑھو !یہاں قرأت بول کر نماز مراد لی گئی ہے جیساکہ سور �ۂسبحان میں ہے کہ :’ولا تجہر بصلاتک ‘اور اپنی نماز یعنی قرأت بلند آواز سے مت ادا کرو۔ (اس میں صلوٰۃ بول کر قرأت مراد لی گئی ہے ) ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’فاقروا ما تیسر منہ کی بھی یہی تفسیر بیان کی ہے ۔
ظروح البیان :’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای فصلوا ماتیسر لکم من الصلوٰ ۃ اللیل۔۔۔ عبر عن الصلوٰۃ بالقرأۃ کما عبر عنہا بسائر ارکانہا علی طریق اطلاق اسم الجزء علی الکل مجازا مرسلاً ۔ یعنی ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے صلوٰۃ اللیل ۔ تہجد ۔جتنی آسان ہو پڑھو! قرأۃ بول کر صلوٰۃ مراد لی گئی ، جس طرح نماز کے سارے ۔ اہم ۔ارکان کو بطور اطلاق الجزء علی الکل؛ مجاز مرسل کی حیثیت سے نماز کہاجاتا ہے ۔ (یعنی جس طرح رکوع ، سجود، قیام وغیر ہ ۔جزء ۔بول کر نماز۔کل۔ مراد لیا جاتا ہے اسی طرح یہاں بھی ’قرأۃ‘ ۔جزء۔ بول کر نماز ۔کل۔ مراد لی گئی ہے ۔
ظایسر التفاسیر للجزائری: وقولہ تعالی : ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ای صلوا من اللیل ما تیسر اطلق لفظ القرآن وہو یرید الصلوٰۃ لأن القرآن ہو الجزء المقصود من صلوٰۃ اللیل؛ یعنی؛ ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ رات کو ۔ نماز تہجد ۔ اس مقدار میں پڑھو جو تمہارے لئے آسا ن ہو ، لفظ القران بول کر ’نماز‘ مراد لی گئی ہے ۔ کیونکہ نماز تہجد کا یہی مقصود جزء اور مطلوب حصہ ہے ۔
ظالتفسیر المنیرللزحیلی: امر اللہ بقراء ۃ ما تیسر من القرآن، والمراد من ہذہٖ القرأۃ : الصلوٰۃ ۔۔۔والیہا یرجع القول‘‘ یعنی: اللہ نے ما تیسر من القرانکی قرأۃ کا حکم دیا ہے ، اور اس قرأۃ سے مراد نماز ہے ، ۔ قرأۃ بول کر نماز اس لئے مراد لیا ہے ۔کیونکہ قرأۃ نماز کا ایک جزء ہے۔ تو گویا جزء بو ل کر کل مراد لیا ہے یعنی مطلب ہے کہ تمہارے لئے جتنی نماز آسان ہو ؛ پڑھو! اور نماز کا نام قرآن بھی رکھا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’وقرآن الفجر‘(الاسراء۱۷؍۸۷)۔یعنی قرآن الفجر میں قرآن سے نماز مراد ہے
۔ ابن العربی فرماتے ہیں : یہ بات ۔ قرأۃ سے نمازمراد ہونا ۔زیادہ صحیح ہے کیوں کہ ۔ اس آیت میں
۔ نماز کے بارے میں خبر دی گئی ہے اس لئے یہ بات بھی اسی طرف لوٹے گی۔
ظالکشاف : ’’ عبر عن الصلوٰۃبالقرأۃ۔۔۔۔۔۔فصلوا ما تیسر علیکم‘‘ یعنی : قرأۃ بول کر صلوٰۃ ؍نماز مراد لیاہے کیوں کہ قرأۃ نماز کے ارکان میں سے ایک ہے، جس طرح قیام، رکوع سجود بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ، آیت ۔تیسیر ۔ کا مقصود یہ ہے کہ تم لوگ اتنی نماز پڑھو جتنی آسان معلوم ہو۔
ٍ ظتفسیر البیضاوی: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ ۔۔۔بسائر ارکانہا ‘‘ یعنی: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ تمہارے لئے جتنی نماز تہجد آسان ہو پڑھو۔ قرآن بول کر نماز مراد لی گئی ہے جیسا کہ نماز کے سبھی ۔ اہم ۔ ارکان بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ۔
ظفتح القدیر للشوکانی : وقیل معنی فاقروا ما تیسر منہ فصلوا ماتیسر لکم عن صلاۃ اللیل والصلوٰۃ تسمی قرانا کقولہ وقرآن الفجر یعنی فاقروا ما تیسر منہ ‘ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ : تہجد جس قدر آسان ہو پڑھو۔ اور نماز کا نام قرآن بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول: ’وقرآن الفجر ‘ میں ’قرآن‘ بمعنی نماز آیا ہوا ہے ۔
ظتفسیر جلالین: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ فی الصلوٰۃ بان تصلوا ما تیسر ۔ نماز میں قرآن جتنا آسان ہو پڑھو، اس طور پر کہ جتنی نماز آسان معلوم ہو پڑھو۔
ظالتفسیر الوسیط لطنطاوی : علامہ طنطاوی رحمہ اللہ گزشتہ بیانات کے ہم معنی تفسیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : قال الآلوسی : قولہ فاقروا ما تیسر ۔۔۔وفیہ بعد عن مقتضی السیاق۔ یعنی علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’فاقروا ما تیسر من القرآن‘ کا مطلب ہے کہ جس قدر نماز تہجد تمہارے لئے آسان ہوپڑھو، قرأت بول کر نماز مراد لی گئی ہے ، جس طرح نماز کے سبھی ۔اہم ۔ ارکان بول کر نماز مراد لی جاتی ہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ القرآن اپنے حقیقی معنی ۔ یعنی قرآن کریم کے معنی۔ میں ہے ، حالانکہ یہ دوسرا معنی سیاق کے تقاضے کے خلاف اور بعید ہے ۔(جاری۔۔۔)
No comments:
Post a Comment