نماز میں خشوع وخضوع
اہمیت و فضیلت کتاب وسنت کی روشنی میں
ابوالبیان رفعتؔ السلفی ،اڑپی، کرناٹک
نماز دین کا ایک اہم رکن ہے ، شہادتین کے اقرار کے بعد سب سے پہلے جوعبادت ایک مسلمان پر فرض وواجب ہوتی ہے، وہ نماز ہے ۔ نماز کا تعلق مومن کی زندگی سے بہت گہرا ہے ، اگر نماز اس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کی جائے تو انسان کی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر‘‘ (العنکبوت:۴۵)
نماز میں خشوع اور خضوع ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ خشوع خضوع ہی نماز کی روح ،چہرے کا نور اور دل کا سرور ہے ۔اسی سے اجر میں کمی اور زیادتی واقع ہوتی ہے۔ یہی پہلا علم ہے جو اس امت سے قبض کیا جائے گا ، جیسا کہ آپ ﷺ کافرمان ہے : ’’اول ما یرفع الخشوع‘‘( الجامع الصحیح:۲۵۹۶)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر آپ چاہیں تو میں اس علم کے بارے میں بتلاؤں جو سب سے پہلے اٹھایا جائے گا ؟وہ خشوع ہے ، قریب ہے کہ تم کسی جامع مسجد میں داخل ہو ، اور اس میں تمہیں ایک بھی خشوع والا آدمی نہ ملے ۔
اس مضمون میں نماز میں خشوع و خضوع سے متعلق نصوص کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے خشوع و خضوع کا معنی و مفہوم بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ موضوع سمجھنے میں آسانی ہو۔
خشوع و خضوع کا معنیٰ ومفہوم:
ظآواز میں اظہار مسکنت وعاجزی کرنے کا نام خضوع ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے : ’’یَوْمَءِذٍ یَتَّبِعُونَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْسا‘‘(طہ:۱۰۸)
ظآواز کے علاوہ اعضاء و جوارح سے عاجزی و مسکینی و تذلل و تخشع ظاہر کرنے کا نام خضوع ہے ۔ بدن جھکا ہو، آواز پست ہو ، نظریں نیچی ہوں ، غرض ہر ادا سے بے چارگی افتادگی و مسکینی ظاہر ہو ۔ جیساکہ ارشاد ہے :
’’إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْْہِم مِّن السَّمَاء آیَۃً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِیْنَ‘‘ (سورۂ شعراء : ۴)
ظحافظ ابولفرح بن رجب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’ الخشوع فی الصلوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
خشوع و خضوع دل کااس طرح نرم ورقیق ہونا ہے کہ تمام اعضاء و جوارح سے عاجزی و مسکینی ظاہر ہو۔(رسالۃ الصلوٰۃ للشیخ حمزہ ،ص:۳۱)
ظحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خشو ع و خضوع یہ ہے کہ آدمی اپنی نظریں نمازمیں نہ پھرائے اور دل میں خدا کے لئے عاجزی پیدا ہو۔ (حوالہ سابق)
ظخشوع وخضوع سے مراد قلب و جوارح کی یکسوئی اور انہماک ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز میں قصداً خیالات اور و ساوس کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی سعی کرے ۔ اعضاء و جوارح کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے ، کھیل کود نہ کرے ، بالوں اور داڑھیوں سے نہ کھیلے،کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے ۔ بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی اور فروتنی کی ایسی کیفیت طاری ہو جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے ۔ (تفسیر احسن البیان،ص:۹۸۴)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا ۔
آپ رضی اللہ عنہ فرمایا: اگر اس کادل خشوع وخضوع سے معمور ہوتا تو اس کے اعضاء و جوارح پر سکون رہتے۔(موسوعۃ والمقالات العلمیۃ، باب الخشوع)
خشو ع و خضوع کسی خاص ہیئت اور کیفیت کا نام نہیں ہے ۔ بعض لوگ نماز میں اپنے اوپر ایک مخصوص حالت طاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے نماز میں خشوع و خضوع پید اہو گا ۔ حالانکہ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں جھکے جارہا تھا ۔ آپ نے اس سے فرمایا : اے نوجوان اپنا سر سیدھا رکھو۔ خشوع و خضوع یہ نہیں ہے بلکہ خشوع وخضوع تو حضورِ قلب میں اضافہ کا نام ہے ۔ (الامر بالاتباع والنہی عن الابتداع )
نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کے اسباب : نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کے یوں تو بہت سے اسبا ب ہیں ان میں چنداہم اسباب درج ذیل ہیں :
۱۔خشوع کا تقاضا کرنے والی قوت ،یعنی اللہ عزوجل کا خوف ، کیونکہ جب دل خوفِ اللہ سے آباد ہوجاے تو خشوع اور خضوع خود بخود پیدا ہوجاتا ہے ، اور صرف یہی سبب کافی ہوجاتا ہے ،
سلف صالحین میں سے جب کوئی نمازکیلئے کھڑا ہوتا تو ان پر اللہ کا خو ف اور اس کی ہیبت طاری ہوجاتی ۔
۲۔جوچیزیں نمازمیں خشوع اور خضوع سے مانع ہیں انہیں کمزور یا ناپید کرنا ۔مثلاًبھوک، پیاس ، پیشاب وپائخانہ وغیر ہ۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب رات کا کھانا حاضر ہوجائے اور نماز بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ۔ (بخاری ،مسلم)
نیز فرمایا : ’’ولا ہوا ید افعہ الاخبثان‘‘۔ یعنی جب پیشاب اور پاخانہ زور لگا رہے ہوں اس وقت بھی نمازنہیں ہوتی ۔لہٰذا انسا ن کو چاہیے کہ بالکل فارغ البال ہو کر نماز شروع کرے ۔
۳۔قرآن مجید بلند آواز سے پڑھے ، یا کم از کم اتنا تو ہو کہ اپنے آپ کو سنا سکے ، کیوں کہ دل اس سے بہت متاثر ہوتا ہے ، جبکہ اس شخص کی نماز ہی درست نہیں جو اپنے ہونٹوں کو بھی حرکت نہیں دیتا۔
جیسا کہ الدین الخالص ۴؍۴۸ میں ہے ۔
۴۔اس بات پر تدبر کرے کہ اپنی زبان سے وہ کیا پڑھ رہا ہے ، اورکہاں پہونچاہے ،
ثنا پڑھ رہا ہے ، یا فاتحہ یا کچھ اور ؟
۵۔قرآت ، اذکار اور تسبیحات کے معانی و مفاہیم سے باخبر ہو ۔ حضرت ابن عباس ث
فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے نماز کا وہی حصہ ہے جو تم سمجھ کر پڑھو۔(بخاری)
۶۔وہ آیات و احادیث پڑھے جو خشوع وخضوع ، تضرع عاجزی پر ابھارتی ہیں،
یہ طریقہ بھی بہت مفید ہے۔
۷۔یہ بات بھی نماز ی کے ذہن میں ہو کہ یہ نماز جس کے لئے میں اتنی محنت اور مشقت برداشت کر رہا ہوں ، اس کا اجر ثواب خشو ع اور خضو ع کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا ہے ۔
۸۔نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کاقوی ترین سبب یہ ہے کہ تکلف اور مجاہدے کے ساتھ نماز میں خشوع اور خضوع پید اکرے ، پہلے تو یہ بہت مشکل ہوگا لیکن پھر اللہ کے حکم سے نماز ی کی ہیئت ہی یہی بن جائے گی ، انسان کو چاہیے کہ اس کا تجربہ کرے ، جب انسان نماز شروع کردے تو پھر دنیاوی افکار امڈ آتے ہیں ، اس موقع پران افکار سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ،لہٰذا اس کے لئے کافی محنت اور مجاہدے کی ضرورت ہے ۔
۹۔انسان یہ تصور کرے کہ یہ اس کی آخری نماز ہے ۔ جیساکہ حدیث میں آتا ہے ، صل صلوٰۃ مودع۔ یعنی الوداع کہنے والے کی طرح نماز پڑھو۔جبکہ اللہ کا فرمان ہے :یعنی وہ لوگ جو اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملا قات کرنے والے ہیں اور یقیناًوہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ (البقرۃ: ۴۶)
۱۰۔ارکان نماز میں جو ادعیہ اور اذکار ثابت ہیں انہیں بد ل بدل کر پڑھے، اس طرح سے بھی نماز میں دھیان رہتا ہے اور خشوع اور خضوع پیدا ہوتا ہے ۔ جبکہ ایک ہی ذکر پر دوام برتنے پر دل سخت ہوجاتا ہے اور فقط عادتاًزبان سے مخصوص اذکار جاری رہتے ہیں لیکن تاثیر مفقود ہوجاتی ہے ۔
۱۱۔نمازی اپنی نماز میں عبودیت کے آداب بجالائے ، ان آداب کا بھی خیال رکھے جو
نبی کریم ﷺ کی سنت مطہر ہ سے ثابت ہیں مثلاً تعدیل ارکان ، طوالت نماز ، طویل سجدے، اور حیوانات کی مشابہت سے پر ہیز وغیر ہ ۔
۱۲۔خشوع و خضوع پید اکرنے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ نماز میں طویل قراء ت،
طویل تلاوت کی جائے ، کیونکہ مختصر نماز میں کم خشوع پیدا ہوتا ہے ، تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے ۔
۱۳۔نماز میں ایسی آیات ، اذکار اور ادعیہ تکرار کے ساتھ پڑھی جائیں جو خوف دلانے والی یا امید پیدا کرنے والی ہوں ، جیساکہ آپ ﷺ پوری پوری رات ایک ہی آیت پڑھتے:
’’ان تعذبہم۔۔۔۔۔۔الحکیم‘‘(المائدۃ:۱۱۸)’’اے اللہ !اگر توانہیں عذاب دے تو یقیناًیہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر تو انہیں بخش دے ، تو یقیناًغالب اور حکمت والا ہے ‘‘۔
نماز میں حضورِ قلب،خشوع اور رب تعالی کی عظمت کا احساس پیدا کرنے کے بارے میں اللہ کا فرمان:
’’واقم الصلوٰۃ لذکری‘‘(طٰہ:۱۴)یعنی مجھے یادکرنے کے لئے نماز قائم کرو۔
امر کا ظاہر وجوب پر ہوتا ہے جبکہ غفلت ذکر الٰہی کی ضدہے ۔ جب کوئی بندہ اول سے آخر تک نماز میں غافل رہا تو وہ اللہ کی یاد کے لئے نماز کی اقامت کرنے والا کیسے بن سکتا ہے ؟
اور اللہ کا فرمان ہے :’’ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْن‘‘ (الاعراف: ۲۰۵)اور غافلوں میں سے مت ہوجاؤ۔یہ نہی ہے جبکہ نہی کا ظاہری معنیٰ تحریم ہی ہوتا ہے ۔
اور فرمایا:’’قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُون‘‘(المومنون: ۱۔۲)اور فرمایا: ’’ وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْن‘‘ (بقرۃ:۲۳۸)اور اللہ کے لئے خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:’’ جس مسلمان پر بھی فرض نماز کا وقت حاضر ہو جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے ، پھر بہترین خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز اداکرے، تو وہ نماز گذشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ،جب تک کہ اس نے کبیر ہ گناہ نہ کئے ہوں ، اور یہ ہمیشہ ہوتا ہے ‘‘۔(بخاری و مسلم )
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! جب تم میں کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کر رہا ہوتا ہے ، اور اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے ۔ (بخاری،۱؍۴۲۵، مساجد، )
نمازمیں خشوع اور خضوع کے متعلق ہمارے اسلاف کرام کے اقوال:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول: نمازاللہ کی قربت کا ذریعہ ہے ، نماز کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی حکمران کے پاس ضرورت کیلئے جائے اور اس کی خوشنودی کے لئے اسے کوئی تحفہ پیش کرے ، اسی طرح جب کوئی آدمی نماز کے لئے کھڑ اہوتا ہے ، تو وہ بہت عظیم مقام پر کھڑا ہوتا ہے،(اللہ تعالیٰ) جو اس کی بات کو سن رہا ہے ، عمل کودیکھ رہا ہے ، دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے آگاہ ہے ، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اپنے جسم اور دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو ۔ (الفوائد:۵۴۳)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول: جب تم نمازکے لئے کھڑے ہوا کرو تو بالکل اسی طرح خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑے ہواکرو جیسے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، غفلت اور ادھر ادھر دیکھنے سے بچو، کہ اللہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے، اور آپ غیر کی طرف!آپ اللہ سے جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ مانگ رہے ہوں ، جب کہ آپ کا دل بالکل غافل ہو ، اور آپ کو پتہ بھی نہ چلے کہ زبان نے کیا کہا۔(حوالہ سابق)
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جان لیجئے بیشک نماز کے کچھ ارکا ن ہیں ، کچھ واجبات اور کچھ سنتیں ۔جبکہ نماز کی روح نیت ، اخلاص اور خشوع اور حضورِ قلب ہے ۔ اور یقیناًنماز؛ اذکار ، مناجات ، اور افعال پرمشتمل ہے ۔ اور دل حاضر نہ ہو تو ان اذکار اور مناجات کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ جب دل زبان کا ساتھ نہ دے تو کلام ہذیان گوئی بن جاتا ہے ، اس طرح افعال کا مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اگر قیام سے مراد خدمت اور رکوع سجود سے مراد انکساری اور تعظیم ہے اور جب دل ہر قسم کے جذبے سے خالی ہو تو گویا وہ عمل بھی لا حاصل ہے ، جو صورتاًتو موجود ہے لیکن حقیقتاً موجود نہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمَْ ‘‘(الحج:۳۷)
مقصود یہ کہ اللہ تک پہنچنے والی چیز تو دل کا جذبہ ہے جو عمل کا اصل محرک ہوتا ہے ، لہٰذا نماز میں حضور قلب ضروری ہے ، لیکن شارع نے اچانک در آنے والی غفلت کے بارے میں مسامحت سے کام لیا ہے ، اگر آغاز میں دل کو حاضر کیا جائے تو اس کا حکم باقی نمازکو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔
(مختصر منہاج القاصدین:۲۹)
باطن کی فراغت کے اسباب:یہ ہیں کہ بندہ اپنے مشاغل مکمل کرنے کے بعد اپنی نماز شروع کرے، مثلاً کھانا تیار ہے تو پہلے کھانا کھالے ، باتھ روم جانے کی حاجت ہے تو پہلے اپنی تمام ضروریات سے فارغ ہوجائے، اور اگر اس کا دل دنیا کی محبت میں شرسار اور شہوات میں مگن رہتا ہے تو دنیا کی محبت کو اپنے دل سے کاٹ پھینکے،اور اپنے دل کو اللہ کی محبت سے بھر لے ، اور اپنی تمام فکر آخرت کی طرف مبذول کردے،بیشک قیمتی چیز کی محبت انسا ن کے دل سے حقیر چیز کی محبت مٹا دیتی ہے ۔( الفوائد: ۵۴۶)
موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بیماری جڑ پکڑ لے تو تیز اور قوی ہی دوا اثر کرتی ہے، اسی طرح جب نماز ی کے دل میں قوی مرض ہو تو پوری نماز میں کش مکش جاری رہتی ہے یہاں تک کہ اسی ادھیڑ بن میں نماز ختم ہوجاتی ہے ۔
اس کی مثال : اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہے اور مکمل توجہ کے ساتھ کسی معاملے میں غور کرنا چاہتا ہے ، لیکن درخت پر بیٹھی چڑیوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ اسے تشویش میں مبتلا کر رہی ہے ، اس شخص کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے ،جس کے ذریعہ وہ پرندوں کو بھگاتا ہے ، اور پھر اپنی سوچ میں مگن ہوتا ہی ہے کہ پھر پرندے آبیٹھتے ہیں اور وہی معاملہ شروع ہوجاتا ہے ، تو ایسے شخص کو کہا جائے گا کہ یہ چیز تو ختم نہیں ہوگی اگر ان چڑیوں سے جان چھڑانی ہے تو درخت کو کاٹ ڈالو،اسی طرح شہوت کا درخت جب بلند ہوجائے اور اس کی شاخیں پھیل جائیں تو پھر اس کی ٹہنیوں پر الٹے سیدھے افکار امڈ آتے ہیں ، جیسے چڑیاں درختوں کی طرف اور مکھیاں گندگی کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں ، اور یہ عمر عزیز انہیں افکار کو دفع کرنے میں گز جاتی ہے ، جو جان چھوڑتے ہی نہیں ، اور یہ شہوت جو ان افکار کی موجب ہے اس کا بنیادی سبب دنیا کی محبت ہے ۔
حضرت عامر بن قیس رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ نماز میں آپ کو دنیا وی امور کا خیال آتا ہے؟ تو فرمایا : مجھے نماز میں دنیا سے متعلق سوچنے سے زیادہ یہ بات پسند ہے کہ مجھے دانتوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا جائے ۔ (الفوائد : ۵۴۶)
اور یہ بھی جان لیجئے کہ دنیا کی محبت کو کلی طور پر دل سے کاٹ پھینکنابہت مشکل اور نادر امر ہے ، بہر حال جس حدتک ممکن ہو انسان کو کوشش کرنی چاہیے انسان اپنی طاقت بھر مکلف ہے ۔
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعہا !
خلاصہ کلام : ہرنمازی کو نمازکے ہر رکن میں دل کو حاضر کرنا ، اور اس میں کی جانے والی قراء ت ،تسبیح، اور تکبیر وغیرہ کے معانی پر تدبر کرناچاہیے ، تاکہ اس کی نماز روح سے خالی مردہ لاش نہ بنے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی زندگی دل کی زندگی اور ذہن کی پاکیزگی کے تابع ہے ، اور اس کا حصول اسی طرح ممکن ہے کہ ان شواغل اور وسوسوں کی جڑ کاٹ دی جائے ، جو انسان کو اپنی طرف کھینچتے ، اور توجہ ہٹانے کا باعث ہیں ،اگر ان رکاوٹوں کا تعلق خارجی اور ظاہری حالت سے ہے۔ مثلاً سمع بصر پر اثر انداز ہونے والی چیزیں ہیں تو انسان کو چاہیے کہ ایسی جگہ نمازپڑھے جہاں گانے، موسیقی کھیل کود اورشور شرابہ نہ ہو، اسی طرح اس جگہ پر نماز پڑھنے سے بھی احتراز کرے جہاں قالینوں اور دیواروں وغیرہ پر رنگ برنگے ڈیزائن اورنقوش بنے ہوں ،جیساکہ نبی کریم ﷺنے ایک مرتبہ نقوش والی چادر میں نماز پڑھی تو پھر اسے اتار دیا اور کہا کہ اس نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا ،لہٰذاپڑھنے والا اپنے ارد گرد کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جو اس کے حواس کی مشغولیت کا باعث ہو۔ اور اپنی نگا ہ سجدے والی جگہ پر رکھے ، تاکہ اس کی توجہ نہ ہٹے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ چیزوں کا اہتمام اتنا مشکل نہیں ، البتہ باطنی رکاوٹوں کا علاج ایسی چیزہے جس نے پہلوں اور پچھلوں کو تھکا دیا ۔ الا من رحم ربک!
نماز دین کا ایک اہم رکن ہے ، شہادتین کے اقرار کے بعد سب سے پہلے جوعبادت ایک مسلمان پر فرض وواجب ہوتی ہے، وہ نماز ہے ۔ نماز کا تعلق مومن کی زندگی سے بہت گہرا ہے ، اگر نماز اس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کی جائے تو انسان کی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر‘‘ (العنکبوت:۴۵)
نماز میں خشوع اور خضوع ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ خشوع خضوع ہی نماز کی روح ،چہرے کا نور اور دل کا سرور ہے ۔اسی سے اجر میں کمی اور زیادتی واقع ہوتی ہے۔ یہی پہلا علم ہے جو اس امت سے قبض کیا جائے گا ، جیسا کہ آپ ﷺ کافرمان ہے : ’’اول ما یرفع الخشوع‘‘( الجامع الصحیح:۲۵۹۶)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر آپ چاہیں تو میں اس علم کے بارے میں بتلاؤں جو سب سے پہلے اٹھایا جائے گا ؟وہ خشوع ہے ، قریب ہے کہ تم کسی جامع مسجد میں داخل ہو ، اور اس میں تمہیں ایک بھی خشوع والا آدمی نہ ملے ۔
اس مضمون میں نماز میں خشوع و خضوع سے متعلق نصوص کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے ۔ موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے خشوع و خضوع کا معنی و مفہوم بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ موضوع سمجھنے میں آسانی ہو۔
خشوع و خضوع کا معنیٰ ومفہوم:
ظآواز میں اظہار مسکنت وعاجزی کرنے کا نام خضوع ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے : ’’یَوْمَءِذٍ یَتَّبِعُونَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہُ وَخَشَعَت الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْسا‘‘(طہ:۱۰۸)
ظآواز کے علاوہ اعضاء و جوارح سے عاجزی و مسکینی و تذلل و تخشع ظاہر کرنے کا نام خضوع ہے ۔ بدن جھکا ہو، آواز پست ہو ، نظریں نیچی ہوں ، غرض ہر ادا سے بے چارگی افتادگی و مسکینی ظاہر ہو ۔ جیساکہ ارشاد ہے :
’’إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْْہِم مِّن السَّمَاء آیَۃً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِیْنَ‘‘ (سورۂ شعراء : ۴)
ظحافظ ابولفرح بن رجب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’ الخشوع فی الصلوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
خشوع و خضوع دل کااس طرح نرم ورقیق ہونا ہے کہ تمام اعضاء و جوارح سے عاجزی و مسکینی ظاہر ہو۔(رسالۃ الصلوٰۃ للشیخ حمزہ ،ص:۳۱)
ظحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خشو ع و خضوع یہ ہے کہ آدمی اپنی نظریں نمازمیں نہ پھرائے اور دل میں خدا کے لئے عاجزی پیدا ہو۔ (حوالہ سابق)
ظخشوع وخضوع سے مراد قلب و جوارح کی یکسوئی اور انہماک ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز میں قصداً خیالات اور و ساوس کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی سعی کرے ۔ اعضاء و جوارح کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے ، کھیل کود نہ کرے ، بالوں اور داڑھیوں سے نہ کھیلے،کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے ۔ بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی اور فروتنی کی ایسی کیفیت طاری ہو جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے ۔ (تفسیر احسن البیان،ص:۹۸۴)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا تھا ۔
آپ رضی اللہ عنہ فرمایا: اگر اس کادل خشوع وخضوع سے معمور ہوتا تو اس کے اعضاء و جوارح پر سکون رہتے۔(موسوعۃ والمقالات العلمیۃ، باب الخشوع)
خشو ع و خضوع کسی خاص ہیئت اور کیفیت کا نام نہیں ہے ۔ بعض لوگ نماز میں اپنے اوپر ایک مخصوص حالت طاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے نماز میں خشوع و خضوع پید اہو گا ۔ حالانکہ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں جھکے جارہا تھا ۔ آپ نے اس سے فرمایا : اے نوجوان اپنا سر سیدھا رکھو۔ خشوع و خضوع یہ نہیں ہے بلکہ خشوع وخضوع تو حضورِ قلب میں اضافہ کا نام ہے ۔ (الامر بالاتباع والنہی عن الابتداع )
نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کے اسباب : نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کے یوں تو بہت سے اسبا ب ہیں ان میں چنداہم اسباب درج ذیل ہیں :
۱۔خشوع کا تقاضا کرنے والی قوت ،یعنی اللہ عزوجل کا خوف ، کیونکہ جب دل خوفِ اللہ سے آباد ہوجاے تو خشوع اور خضوع خود بخود پیدا ہوجاتا ہے ، اور صرف یہی سبب کافی ہوجاتا ہے ،
سلف صالحین میں سے جب کوئی نمازکیلئے کھڑا ہوتا تو ان پر اللہ کا خو ف اور اس کی ہیبت طاری ہوجاتی ۔
۲۔جوچیزیں نمازمیں خشوع اور خضوع سے مانع ہیں انہیں کمزور یا ناپید کرنا ۔مثلاًبھوک، پیاس ، پیشاب وپائخانہ وغیر ہ۔اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب رات کا کھانا حاضر ہوجائے اور نماز بھی کھڑی ہو جائے تو پہلے کھانا کھاؤ۔ (بخاری ،مسلم)
نیز فرمایا : ’’ولا ہوا ید افعہ الاخبثان‘‘۔ یعنی جب پیشاب اور پاخانہ زور لگا رہے ہوں اس وقت بھی نمازنہیں ہوتی ۔لہٰذا انسا ن کو چاہیے کہ بالکل فارغ البال ہو کر نماز شروع کرے ۔
۳۔قرآن مجید بلند آواز سے پڑھے ، یا کم از کم اتنا تو ہو کہ اپنے آپ کو سنا سکے ، کیوں کہ دل اس سے بہت متاثر ہوتا ہے ، جبکہ اس شخص کی نماز ہی درست نہیں جو اپنے ہونٹوں کو بھی حرکت نہیں دیتا۔
جیسا کہ الدین الخالص ۴؍۴۸ میں ہے ۔
۴۔اس بات پر تدبر کرے کہ اپنی زبان سے وہ کیا پڑھ رہا ہے ، اورکہاں پہونچاہے ،
ثنا پڑھ رہا ہے ، یا فاتحہ یا کچھ اور ؟
۵۔قرآت ، اذکار اور تسبیحات کے معانی و مفاہیم سے باخبر ہو ۔ حضرت ابن عباس ث
فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے نماز کا وہی حصہ ہے جو تم سمجھ کر پڑھو۔(بخاری)
۶۔وہ آیات و احادیث پڑھے جو خشوع وخضوع ، تضرع عاجزی پر ابھارتی ہیں،
یہ طریقہ بھی بہت مفید ہے۔
۷۔یہ بات بھی نماز ی کے ذہن میں ہو کہ یہ نماز جس کے لئے میں اتنی محنت اور مشقت برداشت کر رہا ہوں ، اس کا اجر ثواب خشو ع اور خضو ع کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا ہے ۔
۸۔نماز میں خشوع اور خضوع پیدا کرنے کاقوی ترین سبب یہ ہے کہ تکلف اور مجاہدے کے ساتھ نماز میں خشوع اور خضوع پید اکرے ، پہلے تو یہ بہت مشکل ہوگا لیکن پھر اللہ کے حکم سے نماز ی کی ہیئت ہی یہی بن جائے گی ، انسان کو چاہیے کہ اس کا تجربہ کرے ، جب انسان نماز شروع کردے تو پھر دنیاوی افکار امڈ آتے ہیں ، اس موقع پران افکار سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ،لہٰذا اس کے لئے کافی محنت اور مجاہدے کی ضرورت ہے ۔
۹۔انسان یہ تصور کرے کہ یہ اس کی آخری نماز ہے ۔ جیساکہ حدیث میں آتا ہے ، صل صلوٰۃ مودع۔ یعنی الوداع کہنے والے کی طرح نماز پڑھو۔جبکہ اللہ کا فرمان ہے :یعنی وہ لوگ جو اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملا قات کرنے والے ہیں اور یقیناًوہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ (البقرۃ: ۴۶)
۱۰۔ارکان نماز میں جو ادعیہ اور اذکار ثابت ہیں انہیں بد ل بدل کر پڑھے، اس طرح سے بھی نماز میں دھیان رہتا ہے اور خشوع اور خضوع پیدا ہوتا ہے ۔ جبکہ ایک ہی ذکر پر دوام برتنے پر دل سخت ہوجاتا ہے اور فقط عادتاًزبان سے مخصوص اذکار جاری رہتے ہیں لیکن تاثیر مفقود ہوجاتی ہے ۔
۱۱۔نمازی اپنی نماز میں عبودیت کے آداب بجالائے ، ان آداب کا بھی خیال رکھے جو
نبی کریم ﷺ کی سنت مطہر ہ سے ثابت ہیں مثلاً تعدیل ارکان ، طوالت نماز ، طویل سجدے، اور حیوانات کی مشابہت سے پر ہیز وغیر ہ ۔
۱۲۔خشوع و خضوع پید اکرنے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ نماز میں طویل قراء ت،
طویل تلاوت کی جائے ، کیونکہ مختصر نماز میں کم خشوع پیدا ہوتا ہے ، تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے ۔
۱۳۔نماز میں ایسی آیات ، اذکار اور ادعیہ تکرار کے ساتھ پڑھی جائیں جو خوف دلانے والی یا امید پیدا کرنے والی ہوں ، جیساکہ آپ ﷺ پوری پوری رات ایک ہی آیت پڑھتے:
’’ان تعذبہم۔۔۔۔۔۔الحکیم‘‘(المائدۃ:۱۱۸)’’اے اللہ !اگر توانہیں عذاب دے تو یقیناًیہ تیرے بندے ہیں ، اور اگر تو انہیں بخش دے ، تو یقیناًغالب اور حکمت والا ہے ‘‘۔
نماز میں حضورِ قلب،خشوع اور رب تعالی کی عظمت کا احساس پیدا کرنے کے بارے میں اللہ کا فرمان:
’’واقم الصلوٰۃ لذکری‘‘(طٰہ:۱۴)یعنی مجھے یادکرنے کے لئے نماز قائم کرو۔
امر کا ظاہر وجوب پر ہوتا ہے جبکہ غفلت ذکر الٰہی کی ضدہے ۔ جب کوئی بندہ اول سے آخر تک نماز میں غافل رہا تو وہ اللہ کی یاد کے لئے نماز کی اقامت کرنے والا کیسے بن سکتا ہے ؟
اور اللہ کا فرمان ہے :’’ وَلاَ تَکُن مِّنَ الْغَافِلِیْن‘‘ (الاعراف: ۲۰۵)اور غافلوں میں سے مت ہوجاؤ۔یہ نہی ہے جبکہ نہی کا ظاہری معنیٰ تحریم ہی ہوتا ہے ۔
اور فرمایا:’’قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُون‘‘(المومنون: ۱۔۲)اور فرمایا: ’’ وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْن‘‘ (بقرۃ:۲۳۸)اور اللہ کے لئے خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔
اور آپ ﷺنے فرمایا:’’ جس مسلمان پر بھی فرض نماز کا وقت حاضر ہو جائے اور وہ اچھی طرح وضو کرے ، پھر بہترین خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز اداکرے، تو وہ نماز گذشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ،جب تک کہ اس نے کبیر ہ گناہ نہ کئے ہوں ، اور یہ ہمیشہ ہوتا ہے ‘‘۔(بخاری و مسلم )
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! جب تم میں کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کر رہا ہوتا ہے ، اور اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے ۔ (بخاری،۱؍۴۲۵، مساجد، )
نمازمیں خشوع اور خضوع کے متعلق ہمارے اسلاف کرام کے اقوال:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول: نمازاللہ کی قربت کا ذریعہ ہے ، نماز کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی حکمران کے پاس ضرورت کیلئے جائے اور اس کی خوشنودی کے لئے اسے کوئی تحفہ پیش کرے ، اسی طرح جب کوئی آدمی نماز کے لئے کھڑ اہوتا ہے ، تو وہ بہت عظیم مقام پر کھڑا ہوتا ہے،(اللہ تعالیٰ) جو اس کی بات کو سن رہا ہے ، عمل کودیکھ رہا ہے ، دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے آگاہ ہے ، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اپنے جسم اور دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو ۔ (الفوائد:۵۴۳)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول: جب تم نمازکے لئے کھڑے ہوا کرو تو بالکل اسی طرح خشوع اور خضوع کے ساتھ کھڑے ہواکرو جیسے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، غفلت اور ادھر ادھر دیکھنے سے بچو، کہ اللہ آپ کی طرف دیکھ رہا ہے، اور آپ غیر کی طرف!آپ اللہ سے جنت کا سوال اور جہنم سے پناہ مانگ رہے ہوں ، جب کہ آپ کا دل بالکل غافل ہو ، اور آپ کو پتہ بھی نہ چلے کہ زبان نے کیا کہا۔(حوالہ سابق)
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جان لیجئے بیشک نماز کے کچھ ارکا ن ہیں ، کچھ واجبات اور کچھ سنتیں ۔جبکہ نماز کی روح نیت ، اخلاص اور خشوع اور حضورِ قلب ہے ۔ اور یقیناًنماز؛ اذکار ، مناجات ، اور افعال پرمشتمل ہے ۔ اور دل حاضر نہ ہو تو ان اذکار اور مناجات کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ جب دل زبان کا ساتھ نہ دے تو کلام ہذیان گوئی بن جاتا ہے ، اس طرح افعال کا مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اگر قیام سے مراد خدمت اور رکوع سجود سے مراد انکساری اور تعظیم ہے اور جب دل ہر قسم کے جذبے سے خالی ہو تو گویا وہ عمل بھی لا حاصل ہے ، جو صورتاًتو موجود ہے لیکن حقیقتاً موجود نہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمَْ ‘‘(الحج:۳۷)
مقصود یہ کہ اللہ تک پہنچنے والی چیز تو دل کا جذبہ ہے جو عمل کا اصل محرک ہوتا ہے ، لہٰذا نماز میں حضور قلب ضروری ہے ، لیکن شارع نے اچانک در آنے والی غفلت کے بارے میں مسامحت سے کام لیا ہے ، اگر آغاز میں دل کو حاضر کیا جائے تو اس کا حکم باقی نمازکو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔
(مختصر منہاج القاصدین:۲۹)
باطن کی فراغت کے اسباب:یہ ہیں کہ بندہ اپنے مشاغل مکمل کرنے کے بعد اپنی نماز شروع کرے، مثلاً کھانا تیار ہے تو پہلے کھانا کھالے ، باتھ روم جانے کی حاجت ہے تو پہلے اپنی تمام ضروریات سے فارغ ہوجائے، اور اگر اس کا دل دنیا کی محبت میں شرسار اور شہوات میں مگن رہتا ہے تو دنیا کی محبت کو اپنے دل سے کاٹ پھینکے،اور اپنے دل کو اللہ کی محبت سے بھر لے ، اور اپنی تمام فکر آخرت کی طرف مبذول کردے،بیشک قیمتی چیز کی محبت انسا ن کے دل سے حقیر چیز کی محبت مٹا دیتی ہے ۔( الفوائد: ۵۴۶)
موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بیماری جڑ پکڑ لے تو تیز اور قوی ہی دوا اثر کرتی ہے، اسی طرح جب نماز ی کے دل میں قوی مرض ہو تو پوری نماز میں کش مکش جاری رہتی ہے یہاں تک کہ اسی ادھیڑ بن میں نماز ختم ہوجاتی ہے ۔
اس کی مثال : اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی درخت کے نیچے بیٹھا ہے اور مکمل توجہ کے ساتھ کسی معاملے میں غور کرنا چاہتا ہے ، لیکن درخت پر بیٹھی چڑیوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ اسے تشویش میں مبتلا کر رہی ہے ، اس شخص کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے ،جس کے ذریعہ وہ پرندوں کو بھگاتا ہے ، اور پھر اپنی سوچ میں مگن ہوتا ہی ہے کہ پھر پرندے آبیٹھتے ہیں اور وہی معاملہ شروع ہوجاتا ہے ، تو ایسے شخص کو کہا جائے گا کہ یہ چیز تو ختم نہیں ہوگی اگر ان چڑیوں سے جان چھڑانی ہے تو درخت کو کاٹ ڈالو،اسی طرح شہوت کا درخت جب بلند ہوجائے اور اس کی شاخیں پھیل جائیں تو پھر اس کی ٹہنیوں پر الٹے سیدھے افکار امڈ آتے ہیں ، جیسے چڑیاں درختوں کی طرف اور مکھیاں گندگی کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں ، اور یہ عمر عزیز انہیں افکار کو دفع کرنے میں گز جاتی ہے ، جو جان چھوڑتے ہی نہیں ، اور یہ شہوت جو ان افکار کی موجب ہے اس کا بنیادی سبب دنیا کی محبت ہے ۔
حضرت عامر بن قیس رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ نماز میں آپ کو دنیا وی امور کا خیال آتا ہے؟ تو فرمایا : مجھے نماز میں دنیا سے متعلق سوچنے سے زیادہ یہ بات پسند ہے کہ مجھے دانتوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا جائے ۔ (الفوائد : ۵۴۶)
اور یہ بھی جان لیجئے کہ دنیا کی محبت کو کلی طور پر دل سے کاٹ پھینکنابہت مشکل اور نادر امر ہے ، بہر حال جس حدتک ممکن ہو انسان کو کوشش کرنی چاہیے انسان اپنی طاقت بھر مکلف ہے ۔
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعہا !
خلاصہ کلام : ہرنمازی کو نمازکے ہر رکن میں دل کو حاضر کرنا ، اور اس میں کی جانے والی قراء ت ،تسبیح، اور تکبیر وغیرہ کے معانی پر تدبر کرناچاہیے ، تاکہ اس کی نماز روح سے خالی مردہ لاش نہ بنے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی زندگی دل کی زندگی اور ذہن کی پاکیزگی کے تابع ہے ، اور اس کا حصول اسی طرح ممکن ہے کہ ان شواغل اور وسوسوں کی جڑ کاٹ دی جائے ، جو انسان کو اپنی طرف کھینچتے ، اور توجہ ہٹانے کا باعث ہیں ،اگر ان رکاوٹوں کا تعلق خارجی اور ظاہری حالت سے ہے۔ مثلاً سمع بصر پر اثر انداز ہونے والی چیزیں ہیں تو انسان کو چاہیے کہ ایسی جگہ نمازپڑھے جہاں گانے، موسیقی کھیل کود اورشور شرابہ نہ ہو، اسی طرح اس جگہ پر نماز پڑھنے سے بھی احتراز کرے جہاں قالینوں اور دیواروں وغیرہ پر رنگ برنگے ڈیزائن اورنقوش بنے ہوں ،جیساکہ نبی کریم ﷺنے ایک مرتبہ نقوش والی چادر میں نماز پڑھی تو پھر اسے اتار دیا اور کہا کہ اس نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا ،لہٰذاپڑھنے والا اپنے ارد گرد کوئی ایسی چیز نہ چھوڑے جو اس کے حواس کی مشغولیت کا باعث ہو۔ اور اپنی نگا ہ سجدے والی جگہ پر رکھے ، تاکہ اس کی توجہ نہ ہٹے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ چیزوں کا اہتمام اتنا مشکل نہیں ، البتہ باطنی رکاوٹوں کا علاج ایسی چیزہے جس نے پہلوں اور پچھلوں کو تھکا دیا ۔ الا من رحم ربک!
No comments:
Post a Comment