- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Saturday, October 21, 2017

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالرحمن السدیس
امام حرم ۔ مکہ مکرمہ
افواہیں پھیلانا
تاریخ، نقصانات ،شرعی احکام
افواہوں کی جنگ:جب سے اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائی ہے تب ہی سے مختلف قوتوں کے مابین کشمکش جاری ہے، جو انسانیت کی گہرائیوں کو نشانہ بناتی ہے اور بشریت کے ڈھانچے پر اثر انداز ہوتی ہے، جنگیں، آفتیں، بحران اور مصائب وفتن، اپنے مہلک وخطرناک اسلحے کے ساتھ انسان کے جسم کو نشانہ بناتے ہیں جب کہ بعض درپردہ جنگیں ایسی بھی ہیں جو کئی حوادث ومشکلات کے کناروں پر جنم لیتی ہیں اور اپنے دور کے تغیرات وتقلبات میں بڑھتی ہیں۔ یہ پہلی مذکورہ جنگوں سے کہیں زیادہ مہلک و خطرناک ہوتی ہیں کیوں کہ یہ انسان کے باطن کی گہرائی، اس کی عطا، اس کی قدروں اور نشوونما کو نشانہ بناتی ہیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ گندی جنگ کون سی ہے؟ یہ ’’افواہوں کی جنگ‘‘ ہے۔
افواہوں کی تاریخ: انسانی تاریخ کا استقرا اور اس پر گہری نظر رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ افواہوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے، بلکہ تمام تہذیبوں کی گود میں اس نے پرورش پائی ہے اور آغاز تاریخ ہی سے لے کر یہ افواہیں تمام معاشروں کی تہذیبی ترقی اور معاشرتی ڈھانچوں کے لیے قلق واضطراب اور پریشانیوں کا باعث بلکہ مصدرومنبع رہی ہیں۔
اسلام کا موقف: جب اسلام آیا تو اس نے ان افواہوں اور ان کے پیچھے کام کرنے والوں کے بارے میں بڑا سخت موقف اختیارکیا، کیوں کہ ان کے پھیلانے میں مسلم معاشرے، اور اس کے افراد میں اتحاد واتفاق اور ان کی سلامتی پر اس کے بڑے برے اور منفی اثرات پڑتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اسلام نے افواہون کی نشرواشاعت کو ذلیل حرکت، منفی کردار، عادات کریمہ اور اخلاق جمیلہ کی ضد قراردیا، اور اجتماع و اتحاد، پیارو محبت، بھائی چارے، باہمی تعاون، صدق وصفا اور رحم وکرم کی اسلام اور شریعت اسلامیہ نے ترغیب ہی نہیں دلائی بلکہ تاکیدبھی کی ہے۔ 
اسی طرح اسلام نے غیبت وچغلی کرنے، لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے ہونے، کذب بیانی ودروغ گوئی، بہتان تراشی اور لگائی بجھائی کرنے سے بھی شدت کے ساتھ روکا ہے۔ کیا افواہیں اسی طرح پیدا نہیں ہوتیں؟
اسلام نے زبان کی حفاظت کرنے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے پر بڑا زور دیا ہے، اس کی اہمیت بتائی ہے، گناہ اور کسی پر بہتان باندھنے کو حرام قراردیا ہے اور افواہوں کو رواج دینے کے دلدادگان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ چنانچہ ارشاد الہٰی ہے:(إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(النور:۱۹) بیشک وہ لوگ جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (تہمت وبدکاری کی خبر) پھیلے،ان کو دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے خبریں نقل کرنے سے پہلے اچھی طرح تحقیق اور چھان پھٹک کرلینے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الہٰی ہے:(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ)(الحجرات:۱۶) اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق وبدکار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، مباداکسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر تم کو اپنے کیے پر نادم و پشیماں ہونا پڑے۔
محاسبہ وجواب دہی:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر دی ہے کہ بندہ اپنے ہر چھوٹے بڑے فعل کا اللہ کے ہاں جواب دہ ہے اور اس پر اس کا حساب لیا جائے گا حتی کہ ایک ایک لفظ پر محاسبہ ہوگا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا)(بنی اسرائیل:۳۶) اور جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو، بیشک کان، آنکھ اور دل، ان سب کے بارے میں باز پرس ہوگی۔نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: (مَا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْد)(ق:۱۸) کوئی بات بندے کی زبان پر نہیں آتی، مگر ایک نگہبان اس کے پاس (اسے لکھنے اور ریکارڈ کرنے کے لیے )تیار رہتاہے۔
نبی اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے:’’کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع‘‘۔(صحیح مسلم:۵) کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتاپھرے۔ نبی اکرم ا نے فرمایا:’’کیا میں تمہیں تم میں سے بدترین لوگوں کی خبر نہ دوں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟اے اللہ کے رسول ا! توآپ ا نے فرمایا: ’’المشاؤن بالنمیمۃ، المفسدون بین الأحبۃ، الباغون للبراء العنت‘‘۔ (مسند احمد:۶؍۴۵۹) چغلی وغیبت کرنے والے، پیارومحبت کرنے والوں میں تفریق وبگاڑ پیداکرنے والے، اور بے قصوروبری لوگوں کے لیے اذیت وتکلیف کا باعث بننے والے۔
افواہیں معاشرتی آکاس بیل ہیں: جس طرح نباتات میں کچھ ایسی بوٹیاں اور تاریں ہوتی ہیں جو دوسری نباتات سے چمٹ جاتی ہیں اور ان کی نشو ونما کو روک دیتی ہیں اسی طرح بلکہ ان سے کہیں زیادہ خطرناک یہ افواہیں ہیں جو معاشروں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں، اس کی دیواریں گراتی اور اس کی پوری عمارت ہی کو زنگ آلود کردیتی ہیں۔
افواہوں کے برے نتائج ونقصانات: بعض افواہیں تو بڑی بڑی جنگوں اور فتنوں کا باعث بنیں اور انہیں کے نتیجے میں عالمی سطح پر جنگوں کے شعلے بھڑک اٹھے جب کہ یہ تو معروف سی بات ہے کہ جنگ کا آغاز عموماً معمولی معمولی باتوں ہی سے ہوتاہے اور کبھی کبھی تو کوئی بات ہوئی بھی نہ ہو تب بھی جنگ ہو جاتی ہے، مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتاہے کہ شربردوش بات میں جب کوئی حاسد وحاقد آدمی ہوابھر کر رائی کا پہاڑ بنادیتاہے تو وہی بات فتنوں کی آگ بھڑکادیتی ہے۔
اللہ کے بندو! افواہوں کو ہوادینے اور عام کرنے والے نفسیاتی مریض، کم ہمت، کج فکر، بے راہ، بے مروت اور دینی اعتبار سے نہایت کمزور لوگ ہوتے ہیں، حسد وبغض ان کی آنتوں تک سرایت کرچکا ہوتاہے۔
تشویشناک خبریں پھیلانے، جھوٹ بولنے اور الٹی سیدھی ہانکتے رہنے سے نہیں تھکتے، شرارتی زبان والوں اور بکے ہوئے قلموں والے، خبیث باطن اور بدنیت لوگوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کا شکار کئی بڑے بڑے لوگ ہوجاتے ہیں اور ان کے سامنے مات کھا جاتے ہیں، امت اسلامیہ کے ڈھانچے سے جو ہر وقت خون رستارہتاہے تواس کا یہی سبب ہے۔
یہودیوں کا تاریخی گنداکردار:آغاز تاریخ ہی سے افواہوں نے پورے عالم اور خصوصاً بلاد اسلامیہ میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، انہیں خود غرض اور ضعیف الایمان بلکہ دشمنان دین ہوادیتے ہیں، اعداء دین، خصوصاً انبیاء کی قاتل اور انتہائی بدعہد قوم یہود نے بڑی بڑی افواہیں پھیلائیں، تاکہ دعوت اسلامیہ کو نقصان پہنچائیں اور میدان دعوت میں کام کرنے والے لوگوں کی شخصیتوں کو مشکوک وغیر معتبر بنادیں، ان کی ان افواہوں سے اور تواور خود انبیاء کرام علیہم السلام بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
بنی اکرم ا کی سیرت مبارکہ میں تو افواہ کی تاریخ کے سلسلہ کی زندہ وبہترین مثالیں موجود ہیں، آپ ﷺ کی دعوت کو ابتدائی ایام میں ہی افواہوں کا سامنا کرناپڑا، آپ ا پر جادوگر، مجنون وپاگل، جھوٹے اور کاہن ہونے کے الزامات لگائے گئے، کفارومنافقین نے تو آپ ا پر الزامات لگانے اور جھوٹ باندھنے کی حد کردی، رسول اکرم ا کی ذات گرامی اور آپ کی دعوت مبارکہ کے بارے میں انہوں نے جو سب سے بری شرارت کی وہ صریح جھوٹی تہمت کا واقعہ ہے، وہ واقعہ جس نے افواہوں کی قباحت وشناعت کو طشت ازبام کردیا، وہ تہمتیں والزام جو بنی اکرم ا کے خانۂ اطہر اور خود اکرم الخلق بنی اکرم ا کی عزت وآبرو کو مس کررہے تھے۔ اس افواہ سے صرف رسول اکرم اہی نہیں بلکہ پورا شہر مدینہ منورہ اور پورا مسلم معاشرہ مہینہ بھر پریشان رہا اور اس افواہ کی لگائی آگ میں سلگتارہا، مسلم معاشرے کا ضمیر مبتلائے عذاب رہا، اور اس افواہ سے اس کا خون رستارہا، اگر اللہ کی رحمت وعنایت نہ ہوتی تو اس افواہ کی آگ میں ہر خشک وتر چیز جل جاتی، بالآخر وحئ الہٰی نے دخل اندازی کی۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں کئی آیات نازل فرمائی۔ ایک جگہ فرمایا:(لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِہِمْ خَیْْراً وَقَالُوا ہَذَا إِفْکٌ مُّبِیْن ) (النور:۱۲) بہتان کو سنتے ہی مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹ ہے۔ اور پھر آگے فرمایا:(وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَذَا سُبْحَانَکَ ہَذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ )(النور:۱۶)تم نے ایسی بات کو سنتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں تو ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ اے اللہ توپاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
ذرائع ابلاغ کی دہشت گردی: زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہی یہ افواہیں بھی ترقی کرتی جاتی ہیں اور ہمارا عصر حاضر تو خود غرضوں کی افواہوں کے رواج پانے کا سنہری زمانہ ہے، خصوصاً اس لیے کہ ٹیکنالوجی بہت ترقی کرگئی ہے، رابطہ وابلاغ کے ذرائع اتنے بکثرت ہوگئے ہیں کہ انہوں نے پوری دنیا کو ایک چھوٹا سا گاؤں بنادیاہے، ہزاروں ذرائع ابلاغ، سیٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ وغیرہ خود غرضی پر مبنی افواہوں اور نشریاتی یلغاروں کو مزید بڑھانے کا کام کرتے ہیں، جو امت اسلامیہ کے عقیدہ، اس کے دینی اصولوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف کام کررہے ہیں۔ یہ معنوی طورپر بڑی دھماکہ خیز چیزیں، نفسیاتی بم اور اندھی گولیاں ہیں جولوگوں کو قتل کرتی پھرتی ہیں۔ یہ ذرائع وہ کام کررہے ہیں جو کوئی دشمن کھل کر ہرگز نہیں کرسکتا، نہ افواج واسلحہ سے اور نہ اپنے جاسوسی اداروں ہی سے، یہ ذرائع ابلاغ ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں جو خوف، بیماری، قلق واضطراب، خوف وہراس پیداکررہی ہیں، لوگوں میں فتنے کے بیج بورہی ہیں اور خوفناک سماں بنارہی ہیں، خصوصاً بحرانوں کے زمانے اور غفلت وبے کاری کے اوقات میں افواہ ہواوآندھی کی طرح چلتی ہے اور موجیں مارتے سمندر کی طرح لوگوں کے دلوں میں ہیجان وتلاطم پیداکردیتی ہے، اور یہ اس اعتبار سے انتہائی خطرناک ہوجاتی ہیں کہ یہ دشمن کی فوجوں کا ہتھیار ہے جولوگوں پر اپنی ظاہری چمک دھمک سے فسوں کاری کرتاچلاجاتاہے اور وہ ان افواہوں کو طوطے کی طرح دہرائے چلے جاتے ہیں، انہیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتاکہ یہ تو دراصل وہ ہتھیار ہیں جو دشمنوں کے کام آرہے ہیں۔
افواہوں کی منشیات:یہ افواہیں معاشرے کے امن وامان اور سلامتی کے خلاف ایک جرم ہیں اور ان کو پھیلانے والا اپنے دین، معاشرے اور امت کا مجرم ہے، وہ امت میں قلق واضطراب اور بدامنی پھیلانے کا بھی ارتکاب کرتاہے اور کسی حد تک ایسے لوگ منشیات کا کاروبار کرنے والوں سے بھی بدترین ہوتے ہیں کیوں کہ ان دونوں کا اصل ٹارگٹ یا نشانہ انسان ہی ہوتے ہیں، لیکن معنوی و داخلی نشانہ زیادہ خطرناک ہوتاہے۔
انٹرنیٹ کا منفی پہلو: بعض لوگ خود غرض لوگوں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کو یوں قبول کرتے ہیں جیسے کہ وہ مسلمہ حقائق ہوں، ان لوگوں میں سے بعض طویل گھڑیاں انٹرنیٹ پر بیٹھے اپنے کانوں اور آنکھوں کو ایسی باطل افواہوں سے لت پت کرتے رہتے ہیں کہ جنہیں ایک مومن پڑھ سکتاہے نہ اس کا دل انہیں قبول کرسکتاہے چہ جائیکہ انہیں وہ آگے بیان بھی کرے۔ وہ کیا جانیں کہ یہ افواہیں پھیلانے والے لوگ بزدل، اندھیرے کے الّواور دشمن دین یہودی لابی کے آلہ کارہیں جو عالمی سطح پر مسلمانوں کے معاشروں اور امت کے امن وامان کے خلاف کام کررہی ہے۔
اے اہل اسلام!کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم اپنے اسلامی اصولوں میں سے کسی سے بھی دست بردار ہوں یا ہمارے ایمان ویقین میں سرموبھی جنبش آئے اور ہم اپنے علماء وفضلاء میں سے کسی کے بارے میں محض کسی افواہ کے نتیجے میں کوئی غلط نظریہ بنالیں؟ ہماری عقل وفکر کہاں ہے؟ بلکہ ہمارے دین وایمان کہاں ہیں کہ ہم لوگوں کی کہی کہلائی ظن وگمان کی باتوں کو بھی قبول کرتے جائیں؟ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اگر ہم ہر عالم کی بات کو محض اس بنا پر چھوڑتے جائیں کہ اس سے کسی خطا کاصدورہواتھا یا لوگوں نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے تو پھر ہمارے سامنے کوئی بھی ان باتوں سے بری ومنزہ نہیں بچے گا۔ نعوذ باللہ من الھویٰ والفظاظۃ ‘‘
علما ،دعاۃ اور طلبہ کی ذمہ داریاں: مذکورہ بالاباتوں سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ افواہوں کی یہ جنگ امت کے دین اورمعاشرے کے امن وامان کے لیے کتنی خطرناک ہے؟ ضرورت ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے، اس کے انسداد، بیخ کنی اور اس کے جراثیم کو قتل کرنے کے لیے گہری منصوبہ بندی کی جائے تاکہ امت کی رہی سہی ساکھ اور اس کے اپنے دین سے تعلق کا باقی ماندہ حصہ بھی ختم نہ ہوجائے۔
علماء امت، طلبہ، دعاۃ اور نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ اس سازش کو سمجھیں کیوں کہ دراصل وہی سب اس کا اصل نشانہ ہیں، انہیں ان لوگوں کا ترنوالہ نہیں بننا چاہیے، اور نہ انہیں ان افواہوں کے وجود اور پلنے بڑھنے کے لیے زرخیز زمین بننا چاہیے، انہیں تحقیق وتثبت میں دلچسپی پیداکرنی چاہیے اور تاویل، اتباع متشابہ اور خواہشات نفس کی پیروی سے احتراز واجتناب کرنا چاہیے، اور بحرانوں مصائب اور حوادث ومشکلات میں انہیں علم وبصیرت سے کام لینا چاہیے، ناقدانہ نظر، گہری نگاہ اور حسن ظن کو اپنانا چاہیے، سینوں میں آگ بھڑکانے، شرانگیزی کرنے اور افواہوں کو پھیلانے سے دامن کش رہنا چاہیے۔ فتنوں کے زمانے میں کتاب وسنت کو تھام کررکھنا اور سلف صالحین کے طرز عمل کو حرز جان بنانا ہی سلامتی کی ضمانت ہے۔ امت اسلامیہ کے ہر فردکا فرض ہے کہ وہ جس شعبۂ زندگی سے بھی تعلق رکھتاہے وہ معاشرے کی سلامتی واستقرار اور امت کے امن وامان کے خلاف بڑے تباہ کن اثرات رکھنے والے افواہ سازی اور افواہ بازی کے اس رجحان کے خاتمے کی کوشش کرے، اسی طرح گھر، مسجد، خاندان، مدرسہ اور ذرائع ابلاغ بھی اس رحجان کے خاتمے میں بڑا کردار اداکرسکتے ہیں تاکہ معاشرے کو اس کے شراور خطرات سے محفوظ رکھ سکیں، اور وہ اس طرح کہ لوگوں کی راہنمائی کریں، ان میں ایمانی جذبات بیدارکریں، حقائق کی وضاحت اور ان کی نشرواشاعت کریں، اور صحیح باتوں اور سچی خبروں کو نقل وعام کرنے میں سستی نہ برتیں، خصوصاً بحرانوں اور مصائب وحوادث کے زمانے میں سب لوگ اپنی ذمہ داری بخوبی اداکریں، نیز غلط تبصروں سے لوگوں کو برانگیختہ نہ کریں، اور مہذب مذاکرہ کے لیے علمی اسلوب اور علمی میکانزم ایجاد کریں تاکہ نت نئے حالات اور بحرانوں میں صحیح موقف اختیار کیا جاسکے، یہ کام پورے صدق وخلوص اور صاف شفاف اندازسے ہونا چاہیے کہ جس میں جعل سازی اور کجی نہ ہو، اور جو معنوی روح کی ترقی کا باعث بنے اور ضعف وشکست خوردگی سے دور ہو۔
حفاظتی تدابیر: دین اسلام نے افواہوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک صحیح منہج اور طرز عمل پیش کیا ہے، تاکہ ایک مضبوط مسلم معاشرے کی تعمیر کی جاسکے چنانچہ اس نے افواہوں کی جنگ کا مقابلہ کرنے کے کئی اقدامات اور تدابیربیان کیے ہیں:
(۱) پہلا اقدام یا تدبیر یہ ہے کہ لوگوں کی خوف الہٰی کے ذریعے تربیت نفس کی جائے اور انہیں تحقیق وتفتیش اور بحث وتمحیص کا عادی بنایا جائے۔ کسی مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ ہر کسی کے پیچھے تابع مہمل بن کر لگ جائے بلکہ اسے چاہیے کہ تحقیق کرے، واقعی دلائل وبراہین اور عملی شواہد کا مطالبہ کرے، اس طرح وہ مختلف بلادلیل دعوے کرنے والوں کا راستہ بند کرسکیں گے جو پس پردہ کام کرتے اور تمام جھوٹی وسچی باتوں کو چباتے رہتے ہیں، اور ہر غیرت مند، احتساب کرنے والے مصلح شخص کے خلاف ہر زہ سرائی اور زبان درازی کرتے رہتے ہیں۔
(۲) عدل وانصاف کا تقاضایہ ہے کہ ان خود غرض نشریاتی یلغاروں ، حملوں اور بے دست وپا افواہوں پر نکیر کی جائے جو ہمارے عقیدہ وشریعت، ہمارے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جارہی ہیں، (یادرکھیں!) اسلامی ممالک کے علماء اسلام پر طعن وتشنیع سے ان کی ذات وشخصیات ہرگز مقصود نہیں ہوتی بلکہ ان کا عقیدہ و منہج مراد ہوتاہے۔
(۳) ہمیں اپنے دین کی نسبت اپنی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے کہ علم سیکھیں سکھلائیں اور دعوت و اصلاح کا کام کریں، آج دنیا اسلام اور مسلمانوں کی اصل صورت کو دیکھنے اور حقیقی شکل کو سمجھنے کی سخت ضرورت مند ہے، موجودہ دور کے عالمی ذرائع کو چاہیے کہ اس سلسلے میں وہ اپنا بھرپور کردار اداکریں۔
(۴) ہمیں چاہیے کہ ہم سب دشمن کے مقابلے میں ایک صف بن کر رہیں اور اس صحیح منہج کو اپنائیں جو اللہ کے حکم سے ہماری امت اور معاشرے کی مصلحتوں کی ضمانت دینے اور ہم سے نقصان دہ اشیاء کو ہٹانے کا ذمہ دار ہے، اپنے حکام وامرا اور اہل رسوخ علما کے شانہ بشانہ فتنوں کے اس طوفان کا مقابلہ کریں اور افواہیں پھیلانے والے چغل خوروں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔
اس وقت جب کہ فتنے منہ اٹھائے بے لگام ہوکر بڑھے چلے آرہے ہیں ایسے میں امت کو ان ماہر کپتانوں اور کشتی بانوں کی اشد ضرورت ہے جو امت کے سفینے اور مسلمانوں کی کشتی کو سلامتی کے کنارے اور ساحل نجات پر لے جاسکیں، کیوں کہ ملاحوں کی کثرت ہو تو کشتی ڈوب جایاکرتی ہے۔اللہ اپنے فضل وکرم سے ہر جگہ کے تمام مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔ آمین!

No comments:

Post a Comment