حماد عبد الغفار
آپ عربی زبان کے ماہر اسکالر تھے،شاید عربی زبان آپ کے بعد یہ مرثیہ خوانی کرے:
الی معشر الکتاب والجمع حافل بسطت رجائی بعد بسط شکاتی
استاذ محترم رحمہ اللہ سے ایک سال تک تفسیر کی دو کتابوں’’تفسیر بیضاوی‘‘و ’’المنار‘‘ کے بعض اجزاء کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،دورانِ درس آپ کی زبان سے ادا ہو نے والا ہر لفظ آپ کے غزارت علمی کا پتہ دیتا تھا۔لغات کی تشریح کرتے وقت آپ کی عربی زبان پر قدرت نمایاں ہو جاتی تھی،واضح اور جامع الفاظ میں مطالب بیان کرتے ،آیتوں کی تفسیر کا دل نشین انداز مسلمانوں کو درپیش مسائل کا قرآنی حل ،عربی و اردو کا حسین امتزاج یہ وہ چیزیں ہیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
درس میں طلبہ سے آپ کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا ،دورانِ درس علمی لطائف کا پیش کر نا ،اس کا بین ثبوت ہے۔مجھے آپ کا بیان کردہ ایک لطیفہ بار بار یاد آجا تا ہے کہ کسی امیر نے ایک مدرسہ میں جا کر طلباء سے سوال کیا اور انعام بھی دیا ، ایک طالب علم سے سوال کیا ’’تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر‘‘ میں ’’و‘‘ کیا ہے۔طالب علم نے برجستہ جواب دیا: عاطفہ ہے۔جواب سن کر اس کو بھی انعام دیا ،لوگوں نے حیرت سے پوچھا،’’حضور‘‘جواب تو غلط ہے ،کہا: اسی بناء پر انعام دیا ہے کہ کم از کم اسے اتنا تو معلوم ہے کہ کوئی ’’و‘‘ عاطفہ بھی ہو تا ہے! لیکن افسوس آپ کی علمی مجالس سے ہم محروم کردئے گئے،سال نو میں جب آپ کو راقم کے مقالہ کا مشرف کیا گیا تو آپ سے استفادہ کی چاہت دو چند ہو گئی اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی،لیکن افسوس قدرت کے اٹل قانون نے مجھ سے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز بھی چھین لیا اور میرا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا!
قد أطلق العین الدموع بمحنۃ حلت فأفنت ودصفی ،حازم
آپ کبھی کبھی طلباء کے سامنے محاضرات بھی پیش کرتے تھے،منہج سلف کے موضوع پر کئی محاضروں میں شریک ہو نے کاموقع ملا،ہر بات مدلل اور مستند حوالوں سے ذکر کرتے،موضوع کے تمام نکات پر مُرکّز گفتگو کرتے۔
استاذ محترم رحمہ اللہ ملت کے بہت بڑے مفکر تھے،مسلمانوں کی زبوں حا لی پر آپ ہمیشہ غمگین رہے،آپ کی تقریروں و تحریروں میں ملت کی پسماندگی کا ورد جھلکتا تھا،دورانِ درس بھی آپ خود کو روک نہ پاتے،آپ نے کسی علاقہ و طبقہ کے لئے نہیں پورے ملک و پوری دنیا کے مسلمانوں کے بارے میں سوچا،آپ کی تحریریں آپ کے اس فکر کی ترجمانی ہیں،صوت الامۃو محدث وغیرہ میں آپ کے مضامین اسی کے تصدیق کرتے ہیں۔
استاذ محترم کہا کرتے تھے ،آج مسلمان رفع الیدین،تشھد میں انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے کہ واجب ہے،یا اس جیسے دیگر مسلکی اختلافات میں پڑ کر اصل چیزوں کو بھولے جا رہے ہیں،عقیدے سے دوری کا یہ عالم ہے کہ بہتوں کو کلمۂ شہادت تک یاد نہیں ہے،لیکن اس کی فکر کوئی نہیں کرتا،فروعی مسائل میں الجھ کر اپنا شیرازہ منتشر کر رہے ہیں۔اللہ رب العالمین امت کو ہدایت دے۔
استاذ محترم جامعہ سلفیہ کے صرف استاذ ہی نہیں طلباء کے مربی بھی تھے،آپ ان پاکیزہ نفوس میں سے تھے ،جامعہ سلفیہ جن کی گود میں میں پلا بڑھا،آپ نے جامعہ کو اپنے علمی سر گرمیوں کا مرکز بنایا،مختلف ممالک میں،جامعہ کے نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہو کر اس کا تعارف کرایا،آپ کی وفات سے جامعہ کو جو عظیم نقصان پہونچا ہے اس کی تلافی برسوں تک نہ ہو سکے گی۔
آپ نے نبی ﷺ کی ذات اور اسلام پر ہو رہے اعتراضات،اور تحقیق کے نام پر موشگا فیاں کر نے والوں کی نام و نہاد تحقیق کا نہ صرف جواب دیا،بلکہ دوران درس طلباء کو اپنے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کر نے اور دشمنوں کے اعتراضات سمجھنے و جواب دینے پر ابھار تے رہتے تھے۔
آپ نہایت متحمل المزاج تھے،عبارت پڑھتے وقت جب ہم سے کو ئی فاش غلطی ہو جاتی تو مسکراکر فرماتے یہ مطبخ کی روٹی نہیں ہے جناب!یہی آپ کا سخت ترین جملہ ہو تا تھا۔
طبیعت اس قدر سلیقہ مند و ترتیب پسند تھی کہ مختلف موضوعات پر مطالعہ کرتے وقت جو نوٹ بناتے الگ الگ فائلوں مین رکھتے جاتے تاکہ ضرورت پر بر وقت مل سکے ،ہمیں تعجب ہوتا،اتنا منہمک رہنے والا شخص اتنی خوشی اسلوبی سے یہ سب کیسے کر لے جا تا ہے،جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ چار کتابین رہتی ہیں کو ئی الماری میں کو ئی بستر پر کوئی بستر کے نیچے،ضرورت پڑنے پر پورا کمرہ الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ کے علمی بلندی،ہمہ جہتی خدمات اور وفات کے بعد شرکائے جنازہ کی کثرت دیکھ کر بے ساختہ لبوں پر یہ شعر آجا تا ہے
علو فی الحیاۃ و فی الممات لحق أنت احدی المعجزات
علیک تحےۃ الرحمن تتری و ر حمتہ غو ا د رائحا ت
استاذ محترم علیہ رحمۃ
ہزاروں سو گواروں کے درمیان جب استاذ محترم’’دکتور مقتدی حسن ازہری‘‘ رحمہ اللہ کی تدفین ہو رہی تھی تو رہ رہ کر ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ ہم نے ایک ادیب اریب کو نہیں،علم و ادب کے ایک ستون کو دفن کردیا ہے۔بلاشبہ شیخ ان نابغۂ روز گار ہستیوں میں سے تھے جن کی شہرت سے کہیں زیادہ ان کا علم تھا ،جن کی فکر تعمیری تھی،جن کی شخصیت ہر مسلک و مذہب کے ماننے والوں کے یہاں پسندیدہ تھی،آپ کی ذات کسی ایک خاص طبقہ کے لئے نہیں پورے ملک کے لئے مفید تھی،آپ کی وفات پورے ملک کے لئے خسارہ کا باعث ہے۔آپ عربی زبان کے ماہر اسکالر تھے،شاید عربی زبان آپ کے بعد یہ مرثیہ خوانی کرے:
الی معشر الکتاب والجمع حافل بسطت رجائی بعد بسط شکاتی
استاذ محترم رحمہ اللہ سے ایک سال تک تفسیر کی دو کتابوں’’تفسیر بیضاوی‘‘و ’’المنار‘‘ کے بعض اجزاء کے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،دورانِ درس آپ کی زبان سے ادا ہو نے والا ہر لفظ آپ کے غزارت علمی کا پتہ دیتا تھا۔لغات کی تشریح کرتے وقت آپ کی عربی زبان پر قدرت نمایاں ہو جاتی تھی،واضح اور جامع الفاظ میں مطالب بیان کرتے ،آیتوں کی تفسیر کا دل نشین انداز مسلمانوں کو درپیش مسائل کا قرآنی حل ،عربی و اردو کا حسین امتزاج یہ وہ چیزیں ہیں جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
درس میں طلبہ سے آپ کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا ،دورانِ درس علمی لطائف کا پیش کر نا ،اس کا بین ثبوت ہے۔مجھے آپ کا بیان کردہ ایک لطیفہ بار بار یاد آجا تا ہے کہ کسی امیر نے ایک مدرسہ میں جا کر طلباء سے سوال کیا اور انعام بھی دیا ، ایک طالب علم سے سوال کیا ’’تبارک الذی بیدہ الملک وھو علی کل شئی قدیر‘‘ میں ’’و‘‘ کیا ہے۔طالب علم نے برجستہ جواب دیا: عاطفہ ہے۔جواب سن کر اس کو بھی انعام دیا ،لوگوں نے حیرت سے پوچھا،’’حضور‘‘جواب تو غلط ہے ،کہا: اسی بناء پر انعام دیا ہے کہ کم از کم اسے اتنا تو معلوم ہے کہ کوئی ’’و‘‘ عاطفہ بھی ہو تا ہے! لیکن افسوس آپ کی علمی مجالس سے ہم محروم کردئے گئے،سال نو میں جب آپ کو راقم کے مقالہ کا مشرف کیا گیا تو آپ سے استفادہ کی چاہت دو چند ہو گئی اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی،لیکن افسوس قدرت کے اٹل قانون نے مجھ سے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز بھی چھین لیا اور میرا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا!
قد أطلق العین الدموع بمحنۃ حلت فأفنت ودصفی ،حازم
آپ کبھی کبھی طلباء کے سامنے محاضرات بھی پیش کرتے تھے،منہج سلف کے موضوع پر کئی محاضروں میں شریک ہو نے کاموقع ملا،ہر بات مدلل اور مستند حوالوں سے ذکر کرتے،موضوع کے تمام نکات پر مُرکّز گفتگو کرتے۔
استاذ محترم رحمہ اللہ ملت کے بہت بڑے مفکر تھے،مسلمانوں کی زبوں حا لی پر آپ ہمیشہ غمگین رہے،آپ کی تقریروں و تحریروں میں ملت کی پسماندگی کا ورد جھلکتا تھا،دورانِ درس بھی آپ خود کو روک نہ پاتے،آپ نے کسی علاقہ و طبقہ کے لئے نہیں پورے ملک و پوری دنیا کے مسلمانوں کے بارے میں سوچا،آپ کی تحریریں آپ کے اس فکر کی ترجمانی ہیں،صوت الامۃو محدث وغیرہ میں آپ کے مضامین اسی کے تصدیق کرتے ہیں۔
استاذ محترم کہا کرتے تھے ،آج مسلمان رفع الیدین،تشھد میں انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے کہ واجب ہے،یا اس جیسے دیگر مسلکی اختلافات میں پڑ کر اصل چیزوں کو بھولے جا رہے ہیں،عقیدے سے دوری کا یہ عالم ہے کہ بہتوں کو کلمۂ شہادت تک یاد نہیں ہے،لیکن اس کی فکر کوئی نہیں کرتا،فروعی مسائل میں الجھ کر اپنا شیرازہ منتشر کر رہے ہیں۔اللہ رب العالمین امت کو ہدایت دے۔
استاذ محترم جامعہ سلفیہ کے صرف استاذ ہی نہیں طلباء کے مربی بھی تھے،آپ ان پاکیزہ نفوس میں سے تھے ،جامعہ سلفیہ جن کی گود میں میں پلا بڑھا،آپ نے جامعہ کو اپنے علمی سر گرمیوں کا مرکز بنایا،مختلف ممالک میں،جامعہ کے نمائندہ کی حیثیت سے شریک ہو کر اس کا تعارف کرایا،آپ کی وفات سے جامعہ کو جو عظیم نقصان پہونچا ہے اس کی تلافی برسوں تک نہ ہو سکے گی۔
آپ نے نبی ﷺ کی ذات اور اسلام پر ہو رہے اعتراضات،اور تحقیق کے نام پر موشگا فیاں کر نے والوں کی نام و نہاد تحقیق کا نہ صرف جواب دیا،بلکہ دوران درس طلباء کو اپنے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کر نے اور دشمنوں کے اعتراضات سمجھنے و جواب دینے پر ابھار تے رہتے تھے۔
آپ نہایت متحمل المزاج تھے،عبارت پڑھتے وقت جب ہم سے کو ئی فاش غلطی ہو جاتی تو مسکراکر فرماتے یہ مطبخ کی روٹی نہیں ہے جناب!یہی آپ کا سخت ترین جملہ ہو تا تھا۔
طبیعت اس قدر سلیقہ مند و ترتیب پسند تھی کہ مختلف موضوعات پر مطالعہ کرتے وقت جو نوٹ بناتے الگ الگ فائلوں مین رکھتے جاتے تاکہ ضرورت پر بر وقت مل سکے ،ہمیں تعجب ہوتا،اتنا منہمک رہنے والا شخص اتنی خوشی اسلوبی سے یہ سب کیسے کر لے جا تا ہے،جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ چار کتابین رہتی ہیں کو ئی الماری میں کو ئی بستر پر کوئی بستر کے نیچے،ضرورت پڑنے پر پورا کمرہ الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ کے علمی بلندی،ہمہ جہتی خدمات اور وفات کے بعد شرکائے جنازہ کی کثرت دیکھ کر بے ساختہ لبوں پر یہ شعر آجا تا ہے
علو فی الحیاۃ و فی الممات لحق أنت احدی المعجزات
علیک تحےۃ الرحمن تتری و ر حمتہ غو ا د رائحا ت
No comments:
Post a Comment