ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی jul-sep 2010 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Sunday, October 10, 2010

ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی jul-sep 2010

مولا نا اسعد اعظمی؍استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمۃ اللہ واسعۃ کے سانحۂ ارتحال پر تقریباًڈیڑھ ماہ کا عرصہ گذر چکا ہے،مگر ان کی جدائی کا غم روز بروز تازہ ہو تا ہے،ڈاکٹر صاحب میرے اور میری اہلیہ دونوں کے سگے ماموں تھے۔جامعہ سلفیہ میں اساتذہ کی رہائش گاہ’’دار الضیافہ‘‘کی عمارت میں آپ کے فلیٹ سے متصل ہی میرا فلیٹ ہے،بالکل ایک گھر جیسا ماحول رہتا تھا،دونوں طرف سے آمد و رفت لگی رہتی تھی۔فروری ۲۰۰۳ ؁ء میں جب میں جامعہ سلفیہ آیا اور مجھے ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ سے متصل قیام کا موقع میسر ہو ا تو اس سے مجھے بڑی آسانی ہو ئی،کسی بھی نئی جگہ شفٹ ہو نے کے وقت اجنبیت اور تنہائی کے جو احساسات آدمی کو متفکر کئے رہتے ہیں بحمد اللہ میں اس سے محفوظ رہا۔ڈاکٹر صاحب اور ان کا کنبہ قدم قدم پر میرے لئے سہارا بنے،بالخصوص جب ایک سال کے بعد میرے بال بچے بھی بنارس منتقل ہو ئے تو بہت ساری گھریلو ضروریات کی تحصیل و تکمیل میں آپ اور آپ کی فیملی کا بھر پور تعاون رہا۔
مجھے جامعہ سلفیہ میں تعلیم کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی ،قاعدہ بغدادی سے لے کر فضیلت تک کی میری تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ مؤ میں ہوئی۔بنا بریں درسگاہ میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کی سعادت سے محروم رہا،آپ میرے استاذ نہیں،البتہ استاذ الاساتذہ تھے۔میرے اساتذہ کرام میں مولانا اقبال احمد کفایت اللہ سلفی رحمہ اللہ(سابق استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ)،مولانا شریف اللہ صاحب سلفی(شیخ الجامعہ عالیہ)،مولانا اشفاق احمد سلفی مدنی(استاذ جامعہ عالیہ عربیہ)،مولا نا ابو القاسم عبد العظیم سلفی مدنی(استاذ جامعہ فیض عام ،سابق استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مؤ) آپ کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہو تے ہیں،درسگاہ کی براہ راست شاگردی کے شرف سے محرومی کا غم تب جا کر کچھ ہلکا ہوا جب اللہ تعالیٰ نے جامعہ سلفیہ میں منتقلی کے ذریعہ آپ کی رفاقت و مصاحبت و مجالست اور استفادہ کا سنہری موقع عنایت فرمادیا۔
علم عمل کی بلندیوں پر فائز ایک عظیم مشفق مربی و سرپرست کا سایہ حاصل ہو نے پر میں فخر و انبساط سے لبریز آپ سے علمی و عملی دونوں میدانوں میں استفادہ کی بھر پور کوشش کرتا،دن بھر میں متعدد بار میرا آپ کے یہاں جانا ہو تا اور آپ کی ذرہ نوازی کہ آپ بھی میرے کمرے میں تشریف لاتے،آپ اگر چاہتے تو ہر ضرورت کے وقت مجھ کو طلب کرتے اور خود آنے کی زحمت سے بچ سکتے تھے، مگر تواضع اور شفقت کا یہ عالم رہا کہ سخت بیماری کے ایام کے علاوہ آپ نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔
جامعہ میں تدریسی ذمہ داریاں سنبھالنے کے چند ماہ بعد آپ کے حکم سے مجلہ صوت الأمۃ کے کاموں میں آپ کے تعاون کا شرف حاصل ہوا،اس طرح آپ کے آفس میں بھی مجالست کا موقع حاصل ہوا،اس کے بعد کانفرسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی غرض سے ہونے والے اسفار میں مصاحبت اور خدمت حصہ میں آئی۔الحمد للہ گھر،آفس اور سفر و حضر ہر موقع پر آپ سے فیض اٹھا نے کا موقع ملا۔مدینہ یونیورسٹی کے میرے ایک استاد نے دوران درس ایک بار کہاتھا کہ آدمی جتنا علم حاصل کرتا ہے اور سیکھتا ہے اتنا زیادہ اس کو اپنی جہالت کا احساس ہو تا ہے۔ڈاکٹر صاحب سے مسلسل استفادہ کرتے ہوئے مجھے اپنی علمی بے بضاعتی اور نا تجربہ کاری کا احساس ہو تا رہتا اور ہمیشہ یہ سوچتا رہتا کہ اگر میں جامعہ سلفیہ میں منتقل نہ ہوا ہوتا اور محترم ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل اور تجربات کا سایہ مجھے حاصل نہ ہوا ہو تا تو کس تاریکی میں بھٹکتا رہتا۔
۹۶۔۱۹۹۵ء کی بات ہے،جامعۃ الملک سعود ریاض سے ایک سالہ ڈپلوما کورس مکمل کرنے کے بعد وطن واپس ہو ا،تو ایک بار ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ کو جو کسی پروگرام میں شرکت کے لئے مؤ تشریف لائے تھے اور ہمارے گھر پر آپ کا قیام تھا ،میں نے جامعۃ الملک سعود میں تیار کردہ اپنا مقالہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جو ہندوستان کے طلبہ کی عربی بول چال میں کمزوری اور اس کے اسباب و علاج سے متعلق تھا۔اس مقالہ کی تیاری میں میں نے ڈاکٹر صاحب کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا تھا،آپ نے مقالہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اسے اپنے بریف کیس میں رکھ دیا،میں حیرت و استعجاب سے آپ کی طرف دیکھنے لگا تو آپ نے واضح فرمایا کہ اسے صوت الامۃ میں شائع کریں گے۔میں متحیر و مسرور دیر تک آپ کو دیکھتا رہا،کیونکہ اتنے موقر مجلے میں اپنے جیسے نو وارد کی کسی تحریر کے شائع ہو نے کا تصور بھی میں نے کبھی نہیں کیا تھا اور نہ اس مقالہ کو آنجناب کی خدمت میں پیش کرنے کا یہ مقصد ہی تھا،میں نے محض اپنی ایک کو شش کو آپ کے روبرو کر کے کچھ رہنمائی حاصل کرنا چاھاتھا۔
آپ کے اس کریمانا تحمل سے حوصلہ پا کر میں نے فورا مکہ معظمہ میں تیار کئے ہو ئے اپنے ماجستیر(ایم ،اے)کا رسالہ بھی لا حاضر کیا،جس کا موضوع ’’الدعوۃ الی اللہ و تربےۃ الاطفال‘‘ تھا اور تقریباً(۲۵۰)صفحات پر مشتمل تھا،آپ نے اس رسالہ پر بھی ایک نظر ڈالنے کے بعد اور یہ اطمینان کر نے کے بعد کی اس کی دوسری کاپی میرے پاس ہے اسے بریف کیس کے حوالے کر دیا۔اول الذکر مقالہ ۱۹۹۶ ؁ء میں پانچ قسطوں میں اور مؤخر الذکر۹۸۔۱۹۹۶ء میں (۱۹) قسطوں میں آپ نے شائع فرمایا۔
موصوف علیہ الرحمۃ یا فضل و کمال کی بلندیوں پر فائز دیگر شخصیات کے بارے میں لوگ یہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے معمولات کیا ہو تے تھے؟ان کے لیل و نہار کیسے گذرتے تھے؟کون سی چیز ان کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی؟مجھے بہت ہی قریب سے آپ کے معمولات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
علمی مشاغل،کتابیں،مجلات و جرائد یہ سب آپ کا اوڑھنا بچھونا ہو تے تھے،صبح سے لے کر رات دیر گئے آپ کام میں لگے رہتے،درس کا وقت ہو تے ہی آپنے آفس کی تمام مصروفیات چھوڑ کر سیدھے درس گاہ کے لئے نکل جانا،صوت الامۃ کے لئے ہر ماہ افتتاحیہ لکھنا،کانفرنسوں اور سیمناروں کے لئے مقالات تیار کرنا،ملک اور بیرون ملک سے وارد مختلف کتابوں پر پیش لفظ لکھنا،خطبوں اور تقریروں کے لئے معلومات جمع کر نا،ساتھ ہی ترجمہ و تصنیف کا کام بھی جاری رکھنا،پھر بھی کبھی تضجر اور بیزاری کا اظہار نہیں،ان سب کاموں کے درمیان میں مختلف شہروں اور علاقوں سے آنے والے مہمانوں کی تکریم،ان کی مشکلات و مسائل کا حل بتانا اور ان کی علمی و غیر علمی ضرورتوں کی تکمیل،دوسری طرف ٹیلیفون اور موبائل سے رابطہ کرنے والوں سے گفتگوں،مشورے، تجا ویز،ہدایتیں،پھر یومیہ اخبار کا مطالعہ،مجلات و جرائد کا تصفح،وارد خطوط کا جواب،مقررہ اوقات پر ریڈیو سے خبریں سننا،وقتا فوقتا لائبریری سے مراجعت۔الغرض ایک مشینی زندگی تھی، جس میں تکان اور اضمحلال کو در آنا کم ہی موقع ملتا تھا۔
آپ طلبہ کو نصیحت کرتے وقت کبھی کبھی یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؂
اذا کانت النفوس کبارا تعبت فی مرادھا الأجساد
یعنی اگر نفس عظیم ہو تا ہے تو ایسے نفس کے مقاصد حاصل کرنے میں جسم تھک جا کرتا ہے۔
در حقیقت آپ خود اس شعر میں بیان کردہ مفہوم کی جیتی جاگتی تصویر تھے،سچ ہے ؂
’’نامی کو ئی بغیر مشقت نہیں ہوا‘‘
کسی با صلاحیت شخص کو علمی مشاغل سے دلچسپی رکھتے نہ دیکھتے تو اس کی صلاحیت کے ضیاع پر بے حد افسوس کرتے،اس کے برعکس اگر کسی کم صلاحیت والے فرد کو بھی علمی کاموں سے مربوط دیکھتے تو خوش ہو تے اور تشجیع فرماتے۔
طویل و قصیر دونوں طرح کے اسفار میں آپ کی مصاحبت کے دوران دیکھتا کہ کچھ کتب و رسائل ساتھ میں رکھتے ہیں،اگر ٹرین کے آنے میں تاخیر ہے تو اشٹیشن ہی میں اور پھر ٹرین میں بیٹھنے کے بعد مطالعہ جاری رہتا،مؤ۔بنارس کے سفر میں عام طور سے کویت سے شائع ہو نے والا ہفتہ روزہ جریدہ’’الفرقان‘‘ساتھ میں رکھتے تھے،منزل تک پہنچنے کے بعد جیسے موقع ملتا لکھنے پڑھنے کا کام شروع کردیتے۔
بسلسلہ علاج دہلی جانے کے دن بنارس میں صبح کے وقت تک لکھنے کا سلسلہ جاری رہا،جب کے آخر کے چار پانچ ایام بے حد تکلیف میں گزرے۔دہلی روانگی کے وقت ایک کتاب اپنے سامان میں رکھنے کے لئے دی،بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کتاب میں ایک چھوٹے سے کاغذ پر یہ لکھ کر رکھا ہو ا ہے کہ اس کتاب کا مفصل تعارف محدث کے لئے اور مختصر تعارف صوت الامۃ کے لئے لکھنا ہے،مگر آہ! بنارس میں آخری دن تک کتاب و قلم سے تعلق ہی آخری رہا،دہلی پہنچنے اور ہاسپٹل میں داخل ہو نے کے بعد مرض نے آپ کا ذہنی و جسمانی سکون سلب کیا تو وہ کتاب بیگ ہی میں پڑی رہی اور پڑی رہ گئی،ہاسپٹل میں آپ کے ساتھ رہنے والے اعزہ نے بتایا کہ وہاں متعدد بار آپ نے اس طرح کی بات کہی کہ مجھے ذرابھی راحت مل جاتی تو یہیں لکھنے کا کام شروع کردیتا ،مگرآہ! ؂
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر اب تو بس آواز ہی آواز ہے
ڈاکٹر صاحب کی بیماری اور پھر سانحۂ ارتحال سب کچھ اتنا آنا فانا ہوا کہ ہر شخص دم بخود ایک دوسرے کو غم کی تصویر بنا دیکھتا رہ گیا،سولات و تفکرات کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہو تا نظر نہیں آتا،اب جامعہ و جمعیت و جماعت کا کیا ہو گا؟خالی پڑی مسند درس کیسے پُر ہوگی؟صوت الامۃ کو جاری رکھنے کی کیا شکل ہو گی؟علمی و ادبی نکتوں کو سلجھانے کے لئے کس سے رجوع کیا جائے گا؟ملکی و بین الاقوامی محافل میں ملک اور جمعیت و جماعت کی نمائندگی کیوں کر ہو سکے گی؟
ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لئے
ذھب الذین یعاش فی أکنا فہم بقی الذین حیاتھم لا تنفع
قضا و قدر پر ایمان ہمیں سہارا اور تسلی کے سامان فراہم کرتا ہے،اس سایہ دار دیوار کے گر جانے سے رنج و الم فطری امر ہے،مگر ہم اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں،اور دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ:
اللھم اغفرلہ وارحمہ و أدخلہ فسیح جنا تک، واخلفہ خیرا۔انک سمیع قریب مجیب۔ *****

No comments:

Post a Comment