عرفان احمد بن عبد الواحد صفوی
انسان کو ہمیشہ سے اپنے متعلق غلط فہمی رہی ہے۔ تاریخ کے اوراق پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس نے تاریخ کے کسی بھی دور میں اپنی حقیقت سمجھنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی ہر شئی اس سے طاقت ور ہے ،دنیا کی کسی بھی چیز پر اس کا حکم نہیں چلتا ہے ۔سورج،چاند اور ستارے اپنی مرضی سے نکلتے اور غروب ہو تے ہیں، با رش خود ہو تی ہے سیلاب خود آتے ہیں اور طوفان خود ہی اٹھ کر تہلکا مچا دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان اپنے آپ کو نہایت ہی کمزور اور بے بس پاتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ وہ کائنات کی دیگر اشیاء کے مقابلے میں کوئی زور و اقتدار نہیں رکھتا ہے۔
وہ اپنی زندگی اور موت کو دوسروں کی رہینِ منت سمجھتا ہے، صحت و مر ض کو غیروں کا عطیہ سمجھتا ہے ۔نتیجتاً تفریط کی طرف مائل ہو تا ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنے آپ کو دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھ بیٹھتا ہے۔ہر نفع و نقصان پہنچانے والی قوت کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دیتا ہے اور ہر اس چیز کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دیتا ہے، جس میں کسی قسم کی طاقت و قوت اور نفع و ضرر کا پہلو اسے نظر آتا ہے، نیز اسے اپنا معبود بنا لیتا ہے۔
کبھی ایسا ہو تا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بر تر قوت ماننے لگتا ہے،وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی ہر شئی پر اس کی حکمرانی ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بس میں ہے،یہ چیز اس کو ضرور تکبر میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ اپنے آپ کو انتہائی غیر ذمہ دار سمجھتا ہے ،کسی کے سامنے جواب دہی کا اسے اندیشہ نہیں ہو تا ،جس کی بنا پر وہ خالق کائنات کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ انسان کی سوچ کے یہ دونوں پہلو غلط ہیں، جب کہ انسان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک حاکم بالا کی رعیت ہے، اسی نے انسان کو زندگی بخشی ہے۔صلاحیتیں،قوتیں اور اعضا عنایت فرمائے۔انسانی بدن کے تمام اعضاء اس کی قدرت و حکمت اور اس کی ربوبیت کی علامت ہیں۔ یہ انسان جس دنیا میں رہتا ہے اور جس کے قوانین کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ سب اس کی خدمت اور فائدہ کے لئے مسخر کی گئیں ہیں، وہ نہ تو اتنا ذلیل ہے کہ کائنات کے ہر شئی کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دے اور نہ ہی خود مختار اور آزاد بلکہ وہ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ دنیا انسان کے لئے امتحان گاہ ہے، اس کے مالک نے اس کو کچھ اختیارات دے دئے ہیں ،وہ اپنی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کر تا ہے، یا افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔
فطرت انسانی کی پکار:
انسان جب اپنے آپ پر غور کر تا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اسے بہترین صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی گئی ہیں۔زمین کی مخلوقات پر اسے اقتدار حاصل ہے اور زمین و آسمان کی بے شمار چیزیں اس کی خدمت میں لگی ہو ئی ہیں،وہ اپنے جسم پر نگاہ ڈالتا ہے، تو اس کا ہر چھوٹا بڑا حصہ بہترین،محیر العقول اور کثیر المقاصد مشین کی طرح نظر آتا ہے۔ اس کا ہر ہر عضو غیر معمولی حکمت و دانائی کے ساتھ بنا یا گیا ہے ،اور ان میں اتنی حکمتیں اتنے کمالات اور باریکیاں ہیں جن کا عقل انسانی کبھی احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔خود انسانی دماغ کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذریعہ انسان نہ صرف زمین پر حکمرانی کر رہا ہے ،بلکہ فضا کو بھی مسخر کر نے کی کوشش میں لگا ہے۔خالق کائنات کی ان بے انتہا نعمتوں کو دیکھ کر انسان کا دل اپنے خالق کی عظمت ،اس کے شکر اور محبت کے جذبے سے معمور ہو جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی عظمت کے گن گائے اس کا دل شہادت دیتا ہے کہ کو ئی مدبر عالم ہے جس نے اپنی طاقتوں کے ساتھ اس کی تخلیق کی ہے مگر اس کے ادراک سے وہ قاصر رہتا ہے ایسے میں انسان کی فطرت کہتی ہے کہ جس خالق نے ہماری ضروریات کا سامان مہیا کیا ہے، وہ اتنی عظیم ضرورت کو خالی نہیں چھوڑ سکتا ہے۔انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ محسن کا شکریہ ادا کرنے اور مصائب میں اس کے سامنے دست سوال دراز کر نے کے لئے اسے ایک رہبر چاہئے جو اسے بتائے کہ وہ کون ہے اور کیوں ہے؟ کس نے اسے زندگی بخشی؟ اس کو اتنے سارے اختیارات کیوں دئے گئے؟ ان سوالات کے جوابات انسان کے پاس نہیں ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ جس خالق مربی نے اس کو ساری چیزیں عطا کی ہیں وہ اپنے بارے میں انسان کو بتائے ،وہ خبر دے کہ اس کی مرض کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں کیا چاہتا ہے ؟ انسانوں کو پیدا کر نے میں اس کا کیا مقصد ہے؟اس کی رضا و غضب کے اسباب کیا ہیں ؟ فطرت کہتی ہے کہ ایک وسیلے کی ضرورت ہے، جو انسان کو اس کی حیثیت سے باخبر کرے ،اس کو اس کی حقیقت بتلائے اور یہ وسیلہ صرف رسول ہی ہو سکتا ہے۔
رسالت کیوں ضروری ہے؟:
ان سوالات کے جوابات پانے کے لئے ہمیں دیکھنا ہے کہ انسان کی تخلیق کا جو مقصد ہے یعنی امتحان،اس کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے؟
سطور بالا میں ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا محکوم ہے۔اللہ رب العالمین اپنے بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے اور یہی چیز انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے،یعنی اطاعت الٰہی۔اس اطاعت کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے خالق کے احکام و مرضیات کا علم ہو، اس کے بغیر اطاعت کا تصور ہی ممکن نہیں ۔جو انسان اطاعت گزار بن کر زندگی گزارنا چاہے گا ،وہ لازماً جاننا چاہے گا کہ وہ کون سے احکام ہیں ،جن کی اطاعت کرنا ہے،رب دو جہاں کن باتوں کو پسند کر تا ہے اور کن چیزوں سے انسان غضب الٰہی کا شکار ہو سکتا ہے؟وفاداری اور نا فرمانی کے پرکھنے کا معیار کیا ہے؟ ۔
یہاں یہ بنیادی سوال اٹھ کھڑا ہو تا ہے کہ کیا انسان اللہ تعالیٰ سے احکام و مرضیات معلوم کر نے پر قادر ہے؟ کیا انسان کے پاس ایسے ذرائع ہیں ،جن سے معلوم ہو سکے کہ اللہ رب العالمین کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں سے روکنے کا حکم دیتا ہے۔ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں کیوں کہ انسان کے پاس جو ذرائع ہیں وہ اس اہم کام کو انجام نہیں دے سکتے۔ انسانی ذرائع میں سب سے پہلی چیز جو نظر آتی ہے جس کی عقل ہے،جس کے ذریعہ انسان نے بہت سارے مسائل کو حل کر لیتا ہے، مگر یہ معاملہ الگ ہی نوعیت کا ہے بڑے سے بڑا عقل مند شخص یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ وہ خالق کائنات کی صفات اور اس کے تقاضوں کے سلسلے میں کو ئی بھی حکم لگا نے پر قادرنہیں ہے۔
انسان اپنی عقل سے اس بات کا پتہ نہیں لگا سکتا کہ اللہ رب العالمین نے اس کو کیا احکام دئے ہیں اور اس کا مرض کیا ہے؟ مختصر یہ کہ عقل انسانی اس سلسلے میں مکمل معذور ہے۔دوسرا ذریعہ انسان کی ریاضت اور مجاہدۂ نفس ہے، مگر ریاضت کی بڑی سے بڑی کوشش بھی یہاں کامیاب ہو تی دکھائی نہیں دیتی۔انسان چاہے جتنی ریاضت کرلے اور اپنی طرف سے پوری محنت کر لے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام و مرضیات کا عکس اس پر ظاہر نہیں ہو سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ خود نہ خبر کرے کسی کو اس کی مرضیات کا علم کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا یہ ذریعہ بھی نا کافی ہے۔
تیسرا ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ فرد واحد کے بجائے بہت سارے افراد اجتماعی طور سے غور و فکر کریں، مگر یہ ایک حقیقت رہے گی کہ ان تمام افراد میں سے ہر ایک فرد بذات خود اپنی عقل و ریاضت سے حکم الٰہی کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہو گااور ایسے افراد کا مجموعہ ہو گا جن میں کا ہر فرد ناقص علم و صلاحیت رکھتا ہو گا ،بایں طور پہلے ذریعہ کی طرح یہ بھی ذریعہ نا کا فی ہی ہے۔
یہ ایک امرمسلّم ہے کہ چند چیزوں کی اچھائی اور برائی کا علم تو ہمیں ہو سکتا ہے، لیکن محض اتنی سی بات سے یہ کہاں ثابت ہو تا ہے کہ ہم تمام کاموں کی بھلائی و برائی کا اندازہ کر سکیں۔اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بھلائی و برائی کے کاموں پر بھی انسانوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی چیز کو بھلائی قرار دیتے ہیں تو دوسرا فریق شدت کے ساتھ اسے برائی قرار دینے پر مصر رہتا ہے۔جن کاموں کے بھلے و برے ہو نے پر اتفاق بھی ہے ان کی جزئیات میں جا کر اختلاف ہو جاتا ہے ۔ظاہر ہے اتنی سی بات پر ہم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ ہم بھلائی اور برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اور جب یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے احکام و مرضیات الٰہیہ کا ادراک نہیں کر سکتا ،تو ضروری تھا کہ اوپر سے اس کی رہبری اور رہنمائی کی جاتی،جس خالق نے انسان کو پیدا کیا اور سارے وسائلِ حیات مہیا کئے ہیں، وہ انہیں اپنے احکام و فرامین سے آگاہ کرتا۔چنانچہ اللہ رب العالمین نے انسانی زندگی کے اس تقاضے کو بھی پورا کیا اور رسولوں کا سلسلہ قائم فرمایا، انہوں نے آکر انسانوں کو اللہ کی تعلیمات دیں،انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کیا پسند ہے اور کون سی چیز وہ نا پسند کر تا ہے۔
رسالت کی ضرورت
انسان کی حقیقت:انسان کو ہمیشہ سے اپنے متعلق غلط فہمی رہی ہے۔ تاریخ کے اوراق پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس نے تاریخ کے کسی بھی دور میں اپنی حقیقت سمجھنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی ہر شئی اس سے طاقت ور ہے ،دنیا کی کسی بھی چیز پر اس کا حکم نہیں چلتا ہے ۔سورج،چاند اور ستارے اپنی مرضی سے نکلتے اور غروب ہو تے ہیں، با رش خود ہو تی ہے سیلاب خود آتے ہیں اور طوفان خود ہی اٹھ کر تہلکا مچا دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان اپنے آپ کو نہایت ہی کمزور اور بے بس پاتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ وہ کائنات کی دیگر اشیاء کے مقابلے میں کوئی زور و اقتدار نہیں رکھتا ہے۔
وہ اپنی زندگی اور موت کو دوسروں کی رہینِ منت سمجھتا ہے، صحت و مر ض کو غیروں کا عطیہ سمجھتا ہے ۔نتیجتاً تفریط کی طرف مائل ہو تا ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنے آپ کو دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھ بیٹھتا ہے۔ہر نفع و نقصان پہنچانے والی قوت کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دیتا ہے اور ہر اس چیز کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دیتا ہے، جس میں کسی قسم کی طاقت و قوت اور نفع و ضرر کا پہلو اسے نظر آتا ہے، نیز اسے اپنا معبود بنا لیتا ہے۔
کبھی ایسا ہو تا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بر تر قوت ماننے لگتا ہے،وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی ہر شئی پر اس کی حکمرانی ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بس میں ہے،یہ چیز اس کو ضرور تکبر میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ اپنے آپ کو انتہائی غیر ذمہ دار سمجھتا ہے ،کسی کے سامنے جواب دہی کا اسے اندیشہ نہیں ہو تا ،جس کی بنا پر وہ خالق کائنات کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ انسان کی سوچ کے یہ دونوں پہلو غلط ہیں، جب کہ انسان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک حاکم بالا کی رعیت ہے، اسی نے انسان کو زندگی بخشی ہے۔صلاحیتیں،قوتیں اور اعضا عنایت فرمائے۔انسانی بدن کے تمام اعضاء اس کی قدرت و حکمت اور اس کی ربوبیت کی علامت ہیں۔ یہ انسان جس دنیا میں رہتا ہے اور جس کے قوانین کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ سب اس کی خدمت اور فائدہ کے لئے مسخر کی گئیں ہیں، وہ نہ تو اتنا ذلیل ہے کہ کائنات کے ہر شئی کے سامنے اپنا ماتھا ٹیک دے اور نہ ہی خود مختار اور آزاد بلکہ وہ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ دنیا انسان کے لئے امتحان گاہ ہے، اس کے مالک نے اس کو کچھ اختیارات دے دئے ہیں ،وہ اپنی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کر تا ہے، یا افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔
فطرت انسانی کی پکار:
انسان جب اپنے آپ پر غور کر تا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ اسے بہترین صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی گئی ہیں۔زمین کی مخلوقات پر اسے اقتدار حاصل ہے اور زمین و آسمان کی بے شمار چیزیں اس کی خدمت میں لگی ہو ئی ہیں،وہ اپنے جسم پر نگاہ ڈالتا ہے، تو اس کا ہر چھوٹا بڑا حصہ بہترین،محیر العقول اور کثیر المقاصد مشین کی طرح نظر آتا ہے۔ اس کا ہر ہر عضو غیر معمولی حکمت و دانائی کے ساتھ بنا یا گیا ہے ،اور ان میں اتنی حکمتیں اتنے کمالات اور باریکیاں ہیں جن کا عقل انسانی کبھی احاطہ نہیں کر سکتی ہے۔خود انسانی دماغ کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذریعہ انسان نہ صرف زمین پر حکمرانی کر رہا ہے ،بلکہ فضا کو بھی مسخر کر نے کی کوشش میں لگا ہے۔خالق کائنات کی ان بے انتہا نعمتوں کو دیکھ کر انسان کا دل اپنے خالق کی عظمت ،اس کے شکر اور محبت کے جذبے سے معمور ہو جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی عظمت کے گن گائے اس کا دل شہادت دیتا ہے کہ کو ئی مدبر عالم ہے جس نے اپنی طاقتوں کے ساتھ اس کی تخلیق کی ہے مگر اس کے ادراک سے وہ قاصر رہتا ہے ایسے میں انسان کی فطرت کہتی ہے کہ جس خالق نے ہماری ضروریات کا سامان مہیا کیا ہے، وہ اتنی عظیم ضرورت کو خالی نہیں چھوڑ سکتا ہے۔انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ محسن کا شکریہ ادا کرنے اور مصائب میں اس کے سامنے دست سوال دراز کر نے کے لئے اسے ایک رہبر چاہئے جو اسے بتائے کہ وہ کون ہے اور کیوں ہے؟ کس نے اسے زندگی بخشی؟ اس کو اتنے سارے اختیارات کیوں دئے گئے؟ ان سوالات کے جوابات انسان کے پاس نہیں ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ جس خالق مربی نے اس کو ساری چیزیں عطا کی ہیں وہ اپنے بارے میں انسان کو بتائے ،وہ خبر دے کہ اس کی مرض کیا ہے؟ وہ اس دنیا میں کیا چاہتا ہے ؟ انسانوں کو پیدا کر نے میں اس کا کیا مقصد ہے؟اس کی رضا و غضب کے اسباب کیا ہیں ؟ فطرت کہتی ہے کہ ایک وسیلے کی ضرورت ہے، جو انسان کو اس کی حیثیت سے باخبر کرے ،اس کو اس کی حقیقت بتلائے اور یہ وسیلہ صرف رسول ہی ہو سکتا ہے۔
رسالت کیوں ضروری ہے؟:
ان سوالات کے جوابات پانے کے لئے ہمیں دیکھنا ہے کہ انسان کی تخلیق کا جو مقصد ہے یعنی امتحان،اس کی عملی صورت کیا ہو سکتی ہے؟
سطور بالا میں ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا محکوم ہے۔اللہ رب العالمین اپنے بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے اور یہی چیز انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے،یعنی اطاعت الٰہی۔اس اطاعت کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے خالق کے احکام و مرضیات کا علم ہو، اس کے بغیر اطاعت کا تصور ہی ممکن نہیں ۔جو انسان اطاعت گزار بن کر زندگی گزارنا چاہے گا ،وہ لازماً جاننا چاہے گا کہ وہ کون سے احکام ہیں ،جن کی اطاعت کرنا ہے،رب دو جہاں کن باتوں کو پسند کر تا ہے اور کن چیزوں سے انسان غضب الٰہی کا شکار ہو سکتا ہے؟وفاداری اور نا فرمانی کے پرکھنے کا معیار کیا ہے؟ ۔
یہاں یہ بنیادی سوال اٹھ کھڑا ہو تا ہے کہ کیا انسان اللہ تعالیٰ سے احکام و مرضیات معلوم کر نے پر قادر ہے؟ کیا انسان کے پاس ایسے ذرائع ہیں ،جن سے معلوم ہو سکے کہ اللہ رب العالمین کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں سے روکنے کا حکم دیتا ہے۔ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں کیوں کہ انسان کے پاس جو ذرائع ہیں وہ اس اہم کام کو انجام نہیں دے سکتے۔ انسانی ذرائع میں سب سے پہلی چیز جو نظر آتی ہے جس کی عقل ہے،جس کے ذریعہ انسان نے بہت سارے مسائل کو حل کر لیتا ہے، مگر یہ معاملہ الگ ہی نوعیت کا ہے بڑے سے بڑا عقل مند شخص یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ وہ خالق کائنات کی صفات اور اس کے تقاضوں کے سلسلے میں کو ئی بھی حکم لگا نے پر قادرنہیں ہے۔
انسان اپنی عقل سے اس بات کا پتہ نہیں لگا سکتا کہ اللہ رب العالمین نے اس کو کیا احکام دئے ہیں اور اس کا مرض کیا ہے؟ مختصر یہ کہ عقل انسانی اس سلسلے میں مکمل معذور ہے۔دوسرا ذریعہ انسان کی ریاضت اور مجاہدۂ نفس ہے، مگر ریاضت کی بڑی سے بڑی کوشش بھی یہاں کامیاب ہو تی دکھائی نہیں دیتی۔انسان چاہے جتنی ریاضت کرلے اور اپنی طرف سے پوری محنت کر لے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے احکام و مرضیات کا عکس اس پر ظاہر نہیں ہو سکتا، جب تک اللہ تعالیٰ خود نہ خبر کرے کسی کو اس کی مرضیات کا علم کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا یہ ذریعہ بھی نا کافی ہے۔
تیسرا ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ فرد واحد کے بجائے بہت سارے افراد اجتماعی طور سے غور و فکر کریں، مگر یہ ایک حقیقت رہے گی کہ ان تمام افراد میں سے ہر ایک فرد بذات خود اپنی عقل و ریاضت سے حکم الٰہی کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہو گااور ایسے افراد کا مجموعہ ہو گا جن میں کا ہر فرد ناقص علم و صلاحیت رکھتا ہو گا ،بایں طور پہلے ذریعہ کی طرح یہ بھی ذریعہ نا کا فی ہی ہے۔
یہ ایک امرمسلّم ہے کہ چند چیزوں کی اچھائی اور برائی کا علم تو ہمیں ہو سکتا ہے، لیکن محض اتنی سی بات سے یہ کہاں ثابت ہو تا ہے کہ ہم تمام کاموں کی بھلائی و برائی کا اندازہ کر سکیں۔اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بھلائی و برائی کے کاموں پر بھی انسانوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی چیز کو بھلائی قرار دیتے ہیں تو دوسرا فریق شدت کے ساتھ اسے برائی قرار دینے پر مصر رہتا ہے۔جن کاموں کے بھلے و برے ہو نے پر اتفاق بھی ہے ان کی جزئیات میں جا کر اختلاف ہو جاتا ہے ۔ظاہر ہے اتنی سی بات پر ہم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ ہم بھلائی اور برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اور جب یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے احکام و مرضیات الٰہیہ کا ادراک نہیں کر سکتا ،تو ضروری تھا کہ اوپر سے اس کی رہبری اور رہنمائی کی جاتی،جس خالق نے انسان کو پیدا کیا اور سارے وسائلِ حیات مہیا کئے ہیں، وہ انہیں اپنے احکام و فرامین سے آگاہ کرتا۔چنانچہ اللہ رب العالمین نے انسانی زندگی کے اس تقاضے کو بھی پورا کیا اور رسولوں کا سلسلہ قائم فرمایا، انہوں نے آکر انسانوں کو اللہ کی تعلیمات دیں،انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کیا پسند ہے اور کون سی چیز وہ نا پسند کر تا ہے۔
No comments:
Post a Comment