عہد رسالت میں دعوت کا نظم و نسق - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, November 14, 2014

عہد رسالت میں دعوت کا نظم و نسق

عہد رسالت میں دعوت کا نظم و نسق

ظفردارک قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبہ دینیات ،اے ایم یو ،علی گڑھ

محمدﷺ جس زمانے میں پیدا ہوئے اس وقت مکہ بت پرستی کا مرکز اعظم تھا۔کعبہ میں تین سوساٹھ بت تھے۔حضور ﷺ کے خاندان کا تمغہ امتیاز صرف یہ تھا کہ اس صنم کدے کے متولی اور کلید بردار تھے ۔ آنحضرت ﷺ نے کبھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک غار تھا۔ جسے حرا کہتے ہیں آپ وہاں جاکر قیام فرماتے اور مراقبہ کرتے۔ کھانے پینے کا سامان لے جاتے ۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق آپ غار حرا میں تحنث یعنی عبادت کیا کرتے تھے۔علماء نے لکھا ہے کہ یہ عبادت غور و فکراور عبرت پذیری تھی۔ چنانچہ اس غار میں آپ کو نبوت کے عظیم ترین منصب پر فائز کیا گیا۔ نبوت کے بعد جو حالات پیش آئے وہ کسی بھی
طالب سیرت کی نگاہ سے مخفی نہیں ہے چنانچہ قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی متعین تعلیمی و دعوتی مرکز نہ تھا جہاں رہ کر وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے۔ در حقیقت مکی دور میں خود رسول ﷺ کی ذات اقدس ہی متحرک درس گاہ تھی۔ سفر و حضر، دن اور رات ہر حال اور ہر مقام میںآپ ﷺ ہی کی ذات مرکز دعوت و تبلیغ تھی۔ صحابہ کرام ثعام طور پر چھپ کر ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے ۔کفار مکہ کی ستم رانیوں کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے۔ مکی دور کے ایسے مقامات اور حلقہ جات کو دعوت و تبلیغ کے مراکز سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جہاں حالات کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں اسلام کی نشر و اشاعت کا کام ہوتا رہا ،بنا بریں سطور ذیل میں مکے کے تعلیمی و تربیتی نظام پر روشنی ڈالی جائے گی۔
درس گاہ بیت ابو بکر
مکی دور میں دعوت و تبلیغ کا اولین مرکز حضرت صدیق اکبر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر تھا۔ جسے آپ نے گھر کے صحن کومسجدبنارکھا تھا۔ ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میں آپ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔ عام طور پر آپ بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفار مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گرد جمع ہوکر قرآن سنتے۔ جس سے وہ خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتے۔ یہ صورت حال مشرکین مکہ کو بھلا کب گوارا تھی، چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر کو سخت اذیت میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے آپ نے مکہ سے ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ مگر راستے میں قبیلۂ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا اے ابوبکر!کدھر کا ارادہ ہے؟ آپ نے فرمایا:قوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گا اور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے رب کی عبادت کروں گا مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کر آپ کو واپس لے آیا کہ آپ جیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور پھر حضرت صدیق اکبر کے لیے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکرثواپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی۔ماخذ میں لکھا ہے:
ثم بدالابی بکررضی اللہ عنہ فابتنی مسجدا بفناء دارہ و برز فکان یصلی فیہ و یقرء القرآن۔(صحیح بخاری، کتاب الکفا لۃ، باب جوار ابی بکر الصدیق فی عہد النبی ﷺ )
’’پھر ابوبکر نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی، اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے‘‘۔
مسجد ابوبکر میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ مسجد تعلیم و تربیت اور دینی مسائل سیکھنے کے لیے مکی دور کی اولین درس گاہ تھی اوریہیں سے تبلیغی خدمات انجام دی جاتی تھیں نیز یہاں کفار مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔ ماخذ بیان کرتے ہیں :
’’حضرت ابوبکرثرقیق القلب انسان تھے، جب قرآن پڑھتے تو روتے، اس وجہ سے آپ کے پاس لڑکے، غلام اور عورتیں کھڑی ہوجاتیں، اور آپ کی اس ہئیت کو پسند کرتے، قریش کے چند لوگ ابن الدغنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا : اے ابن الدغنہ! تو نے اس شخص کو اس لیے تو پناہ نہیں دی تھی کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچائے۔ وہ ایسا شخص ہے کہ جب نماز میں وہ کلام پڑھتا ہے جو محمد ﷺ لایا ہے تو اس کا دل بھر آتا ہے اور وہ روتا ہے۔ اس کی ایک خاص ہیئت اورطریقہ ہے جس کی وجہ سے ہمیں بچوں، عورتوں اور دیگر لوگوں کے متعلق خوف ہے کہ کہیں یہ انہیں فتنے میں نہ ڈال د ے اس لیے تو اس کے پاس جا اور حکم دے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور اس میں جو چاہے کرے‘‘۔
چنانچہ ابن الدغنہ حضرت ابوبکرثکے پاس آیا اور کہا کہ یا تو آ پ اس طریقے سے باز آجائیں یا میری پناہ مجھے واپس لوٹادیں۔ حضرت ابوبکرنے فرمایا : میں نے تیری پناہ تجھے واپس کردی۔ میرے لیے اللہ کی پناہ کافی ہے ۔(ابن ہشام، دخول ابی بکر فی جوار ابن الدغنہ ورد جوارہ علیہ،۱؍۴۱۱)
درس گاہ بیت فاطمہ
اسی طرح فاطمہ بنت خطاب کا گھر بھی دینی، تبلیغی،دعوتی، اور تربیتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کے متعلق ماخذ کا بیان ہے حضرت فاطمہ بنت خطابؓ، حضرت عمر بن خطاب کی بہن ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اپنے خاوند سعید بن زید سمیت اسلام قبول کرلیا۔ یہ دونوں میاں بیوی اپنے گھر میں ہی حضرت خبابؓ بن الارت سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ حضرت عمرث ایک دن اسلام لانے سے پہلے گلے میں تلوار حمائل کیے رسول اللہ ﷺ کے قتل کے ارادے سے نکلے، لیکن راستے میں اپنی بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو انتہائی غصے کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر ان کے مکان پر پہنچے تو ان کو قرآن کی تلاوت اور تعلیم میں مشغول پایا ابن اسحاق نے لکھاہے :وعندھماخباب بن الارت رضی اللہ عنہ معہ صحیفہ فیھا طٰہ یقرأھماایاھا۔(ابن ہشام ، اسلام عمر بن الخطاب۱؍۲۸۳)
’’ان دونوں کے پاس خباب بن الارت تھے جن کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طٰہ لکھی ہوئی تھی جو وہ ان دونوں کو پڑھا رہے تھے‘‘ حضرت عمر کی زبانی منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا، ایک خباب بن الارتث اور دوسرے کا نام مجھے یاد نہیں۔ خباب بن الارتث میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔ (السیرۃ الحلبیۃ:۲؍۱۳)اس سلسلہ میں حضرت عمر ثکا یہ بیان ہے:وکان القوم جلو ساًیقرؤن صحیفۃ معہم ۔(السمہودی نور الدین ، السیرۃ الجیلہ،۲؍۱۳،دار العفائس۔الریاض)’’اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا‘‘۔
بیت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کو مکی دور میں قرآن مجید کی تعلیم و اشاعت کا مرکز کہا جاسکتا ہے جہاں کم از کم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔ اور اگر حضرت عمرث کے بیان میں لفظ ’’قوم‘‘ کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پر یہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح مکی دور میں درس گاہ دارارقم تھی جو مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دنیا وی معاملات میں اہم مرکز کی حیثیت سے جانی جاتی تھی۔
درس گاہ شعب ابی طالب
کفار مکہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر و تشدد سے اسلام کی اس تحریک کو موت کی نیند سلادیں گے، لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہ اور عمر رضی اللہ عنہما جیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفار مکہ کو مزید حواس باختہ کردیا، چنانچہ ان لوگوں نے طویل غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ
رسول اللہ ﷺ اور ان کے خاندان کو محصور کرکے تباہ کردیا جائے، چنانچہ تمام قبائل نے ایک معاہدہ کیاکہ کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے قربت کرے گا نہ ان کے ہاتھ خرید و فروخت کرے گا اور نہ ہی ان کے پاس کھانے پینے کا سامان جانے دے گا۔ یہ معاہدہ لکھ کر کعبۃ اللہ کے دروازے پر آویزاں کردیا گیا۔ (ابن ہشام، خبر الصحیفۃ۱؍۲۸۸)
حضرت ابو طالب مجبور ہوکر رسول اللہ ﷺ اور تمام خاندان بنی ہاشم سمیت
شعب ابی طالب میں محرم ۷؍نبوی میں محصور ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان سمیت اس حصار میں تین سال بسر کیے۔ ایام حج میں چونکہ تمام لوگوں کو امن کی خواہش تھی اس لیے حج کے موسم میں رسول اللہ ﷺ شعب ابی طالب سے باہر نکل کر مختلف قبائل عرب کو دعوت دیتے جبکہ باقی اوقات میں آپ ﷺ اسی کھائی میں مسلمانوں کی تربیت فرماتے۔ شعب ابی طالب میں خاندان
بنی ہاشم کے علاوہ صحابہ کرام کی موجودگی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔ امام سہیلی نے سعد بن ابی وقاص کا بیان نقل کیا ہے جو خود بھی محصور ین میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں:
لقد جعت حتی انی وطئت ذات لیلۃ علی شی رطب ووضعتہ فی
فمی وبلعتہ وما ادری ما ھوالی الان۔(الروض الانف، حدیث نقض الصحیفۃ۱؍۲۳۲)
’’میں ایک دن از حد بھوکا تھا۔ رات کو اندھرے میں میرا پاؤں کسی گیلی چیز پر آگیا میں نے اسے اٹھا کر منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔ مجھے اتنا ہوش بھی نہ تھاکہ میں پتہ کرتا کہ وہ کیا چیز ہے اور اب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں‘‘۔
اسی طرح حضرت عتبہ بن غزوان نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:فلقد رأیتنی سابع سبعۃ مع رسول اللہ ﷺ مالنا طعام ناکلہ الاورق الشجر، حتی قرحت اشد اقنا۔(المسند ، حدیث عتبہ بن غزوان ، ح:۲۰۰۸۶،۲۲؍۵۲)
’’میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتواں مسلمان تھا اور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ حتی کہ ہماری باچھیں زخمی ہوگئیں‘‘۔
(جاری۔۔۔)

No comments:

Post a Comment