محبت رسول کا صحیح مفہوم
ریاض احمد سراجی ،بلرام پور یوپی
ہر مسلمان پر نبی کریم ﷺ کی محبت وا جب ہے، اس لئے کہ آپ ہی کے ذریعہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی،رسول اکرم ﷺ نے ہی اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا یا، آپ ہی کے ذریعہ ہمیں اللہ اور اس کے دین کی صحیح معرفت حاصل ہوئی اور آپ ہی کے ذریعہ ہمیں دین و دنیا کی سعادتیں نصیب ہوئیں اس لئے اللہ کی محبت کے بعد آپ ﷺ کی محبت واجب ہے اور اللہ کے سوا تمام لوگوں کی محبت پر مقدم ہے ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: انسان سے ہرقسم کی محبت و تعظیم صرف اللہ کی محبت
و تعظیم کے تابع ہوکر ہی جائز ہے مثال کے طورپر رسولﷺ سے محبت و تعظیم دراصل آپ کو رسول بناکر بھیجنے والے کی محبت اور تعظیم کی تکمیل ہے اس لئے کہ آپ کی امت آپ سے محبت اس لئے کرتی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے محبت کرتاہے اورآپ کی تعظیم وتکریم اوراحترام اس لئے کرتی ہے کہ اللہ آپ کی تعظیم اوراحترام کرتاہے اس طرح آپ سے محبت اللہ ہی کے لئے ہے اوراللہ کی محبت کے موجبات میں سے ہے۔(جلاء الافہام: ۱؍۱۸۷)
نبی کریم ﷺ سے محبت کرنے والے تین گروہوں میں بٹے ہوتے ہیں:
پہلا گروہ: افراط کرنے والا(مبالغہ کر نے والا)
دوسرا گروہ: تفریط کرنے والا(کوتا ہی کر نے والا)
تیسرا گروہ: میا نہ روی اختیارکرنے والا۔
پہلا گروہ ان لو گوں کا ہے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی محبت کے سلسلہ میں انتہائی درجہ مبالغہ کیا اور آپ کی محبت کے نام پر ایسی چیزیں ایجاد کیں جن کا اللہ و رسول سے کوئی بھی ثبوت نہیں ملتاہے ،اور ان ایجاد کردہ چیزوں کو انہوں نے محبت رسول کی نشانی قرار دی ،چناں چہ یہ لوگ
محبتِ رسول کے نام پر عیدمیلاد النبی قائم کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی مدح وثنا میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ آپ کو نبوت و رسالت کے منصب سے بڑھا چڑھا کر ربوبیت کے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں اور وہ افعال جو اللہ کے لئے خاص ہیں؛ اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف پھیرتے ہیں چنانچہ آپ کو حاجت روا مشکل کشا اور فریاد رس مانتے ہیں ...
بو صیری کہتا ہے:
یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ سواک عند حلول الحادث العمم
ان لم یکن فی معادی آخذا بیدی فضلا و الا فقل یا زلۃ القدم
اے معز زترین ہستی حادثات کے عام ہونے پرآپ کے سوا میں کس کا سہا را لوں ،آخرت میں اگر آپ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے سہا را نہ دیا تو پھر نا کامی مقدر ہے۔
مسلمانو! اس سے بڑا کفر او ر شرک کیا ہوسکتاہے !!شاعر اس شعر میں نبی کریمﷺ سے پناہ مانگ رہاہے جب کہ پناہ مانگناعبادت ہے جو صرف اللہ کے لئے خاص ہے۔
فان من جودک الدنیا وضرتہا
و من علومک علم اللوح والقلم
دنیا و آخرت آپ کے فیض سے ہیں اور لوح وقلم کا علم آپ کے علوم میں سے ہے۔ جب دنیا
و آخرت نبی کریمﷺ کے فیض سے ہیں توپھرایسی صورت میں اللہ کے لئے کیا بچ رہاہے !! کیا یہ اللہ کی ربوبیت میں شرک نہیں ہے؟ اور لوح وقلم کا علم آپ کے علوم میں سے ہے ۔اس شعرکے اندر نبی کریم ﷺ کے عالم غیب ہونے کا عقیدہ پیش کیا جا رہاہے جب کہ ارشاد ربانی ہے :’’قل لا یعلم من فی السموات و الأرض الغیب الا اللہ‘‘(النمل:۶۵)کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔
ایک اور شاعرکہتاہے
وہی جو مستوئ عرش تھا خدا بن کر
اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی بن کر
اس شعر میں حلول اور وحدت الوجود کا عقیدہ پیش کیا جا رہاہے، جو صحیح اسلامی عقیدہ کے سراسر منافی ہے ، اللہ کی ذات مخلوق سے الگ ہے وہ عرش اعظم پر مستوی ہے ۔
ایک دوسرا شاعر کہتاہے
لینا ہے جو کچھ وہ لے لیں گے محمد سے
اللہ کے پلڑے میں وحدت کے سوا کیاہے
شاعراس شعر میں نبی کریم ﷺ کو مختار کل قرار دے رہاہے اورکہہ رہاہے کہ کائنات کی ساری چیزیں نبی کریم ﷺ کے قبضہ میں ہیں ، اللہ کے پاس وحدانیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لئے جس کو جو کچھ مانگنا ہو وہ نبی کریم ﷺ سے مانگے !!!
حالاں کہ ارشاد ربانی ہے :’’ قل ادعوا الذین زعمتم من دون اللہ لا یملکون مثقال ذرۃ فی السمٰوات ولا فی الأرض و ما لھم فیھما من شرک ومالہ منھم من ظھیر،،(سبأ:۲۲)کہہ دیجئے !کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب)کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگا ر ہے ۔
اور اللہ رب العالمین نبی کریمﷺ کو حکم دے رہاہے کہ آپ اس قسم کے دعوی سے اپنی برأت کا اظہار کردیں :’’ قل لا أقول لکم عندی خزائن اللہ و لا أعلم الغیب و لا أقول لکم انی ملک ان أتبع الا ما یوحی الی۔(الأنعام:۵۰)آپ کہدیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف جو کچھ میر ے پاس وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں ۔
نبی کریم ﷺ کا فر مان ہے ’’ اذا سألت فاسأل اللہ‘‘(سنن الترمذی أبواب صفۃ الرقائق والورع عن رسول اللہ ﷺ رقم الحدیث(۲۵۱۶) اگر تمھیں کچھ مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو۔
قا ر ئین کرام! ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں کہ ان جاہلوں نے محبت رسول کے نام پر کس قدر نوع بنو ع کفر و شرک اور بدعات و خرافات ایجاد کئے ہیں ،حالانکہ اللہ رب العالمین نے مشرک اور اس کے عمل سے بے نیازی ظاہر فرمائی ہے ، اسی طریقہ سے نبی کریم ﷺ نے بدعات سے برأت ظاہرکی ہے ،اور بدعتی اوراس کے بدعت کو مردود قرار دیا ہے ۔
انھیں یہ بات بخوبی سمجھ لینی چا ہئے کہ محبت رسول ان بدعات و خرا فات کا نام ہرگز نہیں ہے بلکہ محبت رسول یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جن باتوں کی خبر دی ہے ان کی تصدیق کی جائے آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے اور آپ کا اتباع و پیروی کی جائے اور آپ کی سنتوں پر عمل کیا جائے نہ کہ
نبی کریم ﷺ کی خبروں کا انکار کیا جائے اور آپ کی شان میں غلو کیا جائے اور آپ کو اللہ کا ساجھی وشریک ٹھہرا یا جائے۔
اسی طریقے سے یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اللہ تعالی کے حقوق اور اس کے رسول ﷺکے حقوق کے درمیان کافی امتیاز ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( وتعزر وہ وتوقروہ وتسبحوہ بکرۃ وأصیلا)(الفتح:۹)یعنی رسول کی مدد کی جائے اور ان کا حکم بجا
لا یا جائے اور صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کی جائے۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے آپ کی محبت کے سلسلہ میں کو تا ہی برتی اورآپ کی محبت کو اپنے نفس ،اہل ا ور مال ودولت کی محبت پر مقدم نہ کیااور اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں یا تو انھوں نے خوا ہشات نفس کی پیروی کی اورآپ کی شریعت کی پیروی سے اعراض کیا یا تو انھوں نے یہ سوچا کہ صرف زبان سے اقرار کرلینا ایمان کے لئے کافی ہے اور عمل کی کوئی حا جت وضرورت نہیں ہے یا تو جہالت ولا علمی کی بنیاد پر ان سے یہ کوتاہی سرزد ہوئی۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے میانہ روی اختیارکیااور بلا افراط وتفریط رسول اللہ ﷺ سے محبت کی اور آپ کی محبت کواللہ کے سوادیگر اشیاء کی محبتوں پر مقدم رکھا اورآپ کے حقوق کوصحیح طریقہ سے ادا کیا، محبت رسول کا یہی منہج اسلاف کرام،صحابہ ، تابعین اور اتباع تابعین اور
ائمہ عظام کا تھا محبت رسول کامعیاران کے یہاں جوش وجذبہ نہ تھا بلکہ معیار محبت کتاب وسنت تھی اوران دونوں سے سرمو بھی ادھرادھرنہ ہٹے۔
No comments:
Post a Comment