- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, February 7, 2017

مولانامحمد سلطان رفعت اللہ سعد ؔ السلفی
اشاعت اسلام میں خواتین کا حصہ (۲۔آخری)
میدان جہاد میں خواتین اسلام کی قربانیاں :
مذہب اسلام کی اشاعت اور اس کی سربلندی کی شکلوں میں سے ایک شکل اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی ہے ، خاطر خواتین اسلام نے میدان جہاد میں جس خلوص ، عزم اور استقلال کا مظاہر ہ کیا ،تاریخ میں اس کی نظیرملنی مشکل ہے، چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔ 
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا : حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا عالمہ فاضلہ اور فقیہہ تھیں ، آپ بلاکی ذہین و فطین خاتون تھیں ،بلاغت اور فصاحت میں بڑی مشہور تھیں حتیٰ کہ آپ کو خطیبۃ النساء کا لقب دیاگیا ۔ یہ ان خوش قسمت خواتین میں شامل ہیں جنہیں اللہ کے رسول ا نے اپنی زبا ن اقدس سے جنت کی بشارت دی تھی، آپ نہایت ہی جری اور بہادر خاتون تھیں ، آپ صرف اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ دعو ت دین اوراشاعت اسلام کاکا م ہی نہ کرتی تھیں بلکہ آپ نے میدان جنگ میں بھی اپنی قربانیاں پیش کیں ، اپنی بہادر ی کے جوہر دکھائے ، میدان جنگ میں باقاعدہ شریک ہوکر بیمار زخمی مسلمانوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔
اور اگر کوئی مسلمان مجاہد میدا ن سے پیچھے ہٹتا یا کمزوری دکھاتا تو یہ عورتیں اس کو کنکر یاں مارتیں ، زجرو تو بیخ کرتیں ، اور اس سے کہتیں کہ ار ے !تم کہاں ہو ؟ کیا کر رہے ہو ؟ ہمیں تو رومیوں کے مقابلے کے لئے لائے ہو اور خود پیچھے بھاگ رہے ہو ، اب اس قسم کے الفاظ سن کر کون مرد تھا جو پیچھے رہتا فوراً آگے بڑھتا اور دیوانہ وار دشمن کی صفوں میں گھس جاتا ۔
امام ابن حجررحمہ اللہ نے اصابہ میں ذکر کیا ہے کہ اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے معرک�ۂ یرموک میں شرکت کی ، اوراپنے خیمے کے عمود سے۹؍ نورومیوں کو قتل کیا۔
حضرت ام عمارہ کی قربانی :علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں رقم طراز ہیں: ’’حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا بیعت عقبہ ثانیہ، احد ، حنین اور جنگ یمامہ میں شریک ہوئیں، غزوۂ احد میں زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کے علاوہ تلوار کے وہ جوہر دکھلائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا : ’’میں اپنے دائیں بائیں جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھتا ، ام عمارہ نسیبہ کو میرا دفاع کرتے ہوے ہوئے مسلسل لڑتا ہوا پاتا ‘‘۔ (صحابیات مبشرات:ص: ۲۹۰)
غزوہ احد کے دن اپنے بیٹے کی مرہم پٹی کی اور کہا :انہض بنی فضارب القوم۔ 
’’ اٹھو اور تلوار لے کر اس قوم پر ٹوٹ پڑو ۔‘‘ (طبقات ابن سعد ، ۸؍۳۰۱)
رسو ل اللہا نے ماں بیٹے کی جرأت و شجاعت کو دیکھ کر فرمایا : ’’اے ام عمارہ ۔رضی اللہ عنہا ! 
آپ جیسی جرأ ت بھلا کوئی کہاں سے لائے ؟ ‘‘
غزو ۂ احد میں جب کافرو ں نے عام حملہ کردیا تھا ، اور آنحضرت ا کے ساتھ صرف چند جاں نثار رہ گئے تھے ، تو اس وقت حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا آپ ا کے پاس پہنچیں ، او ر سینہ سپر ہو گئیں ، کفار جب آپ ا کے پاس پہنچے تو انہیں تیر و تلوار سے روکتی رہیں ، ابن قیمہ جب آپ ا کے پاس پہنچا تو آپ رضی اللہ عنہا نے بڑھ کر اسے روکا ، چنانچہ کندھے پر زخم آیا ، اور گہر ا گڑھا پڑ گیا ، انہوں نے تلوار ماری مگر وہ دوہری زرہ پہنے ہوے تھا اس لئے کارگر نہ ہوسکی ۔ 
مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں انہوں نے اس پامردی سے مقابلہ کیا کہ بارہ زخم کھائے او ر ایک ہاتھ
کٹ گیا ۔( صحابیات مبشرات ص:۹) 
ابتلا ء وآزمائش اورخواتین اسلام کی استقامت :
اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ ابتداء اسلام میں اسلام قبول کرنے والی خواتین اسلام گھر کی چہار دیواری ہی میں بالکل قید ہوکر نہیں رہ گئیں بلکہ دعوت دین اور اشاعتِ اسلام کی خاطر اپنی ہرممکن کوششیں کیں ۔ آیئے چند خواتین اسلام کے صبر و ضبط کا جائزہ لیتے ہیں ۔
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کی استقامت:حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا وہ خاتون ہیں جس نے چیلیج کے انداز میں مشرکین کے روبرواپنے مسلما ن ہونے کا اعلان کیا ،بقول ابن اثیر رحمہ اللہ، اسلام قبول کرنے کے اعتبارسے ان کاساتواں نمبر ہے ، (اسد الغابۃ ،۵؍۴۸۱)
حضرت سمیہ بن خباط رضی اللہ عنہا کا شمار نہایت بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے، انہوں نے راہِ حق میں اپنے ضعف اور کبرسنی کے باوجود زہرہ گداز مظالم جھیلے ، یہاں تک کہ اپنی جان بھی اسی راہ میں قربان کردی اور اسلام کی عظیم الشان شہیدہ ہونے کا مہتم بالشان شرف حاصل کیا ۔ (تذکار صحابیات، طالب ہاشمی ، ص: ۱۷۳)
تاریخ میں کوئی مسلمان خاتون ایسی دکھائی نہیں دیتی جس نے ام عمار سمیہ رضی اللہ عنہما جیسا صبر و تحمل کا مظاہر ہ کیا ہو ،انہوں نے صبر و تحمل کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔(صحابیات طیبات ص:۴۵۵،۴۵۶)
ابو جہل نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو درد ناک سزادی لیکن ان کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی ، وہ چٹان کی طرح مضبوط رہیں ، ابو جہل نے انہیں ہرچند کہا کہ تم اس دین سے کنارہ کشی کر لو لیکن انہوں نے ابو جہل کی بات ماننے سے صاف انکارکردیا ۔اس کم بخت نے دو اونٹ منگوایے ،دونوں کو مخالف سمت میں کھڑا کردیا گیا ، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اوردوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ دی گئی ۔پھر کہا باز آجاؤ اب بھی وقت ہے ،لیکن حضرت سمیہ رضی اللہ عنہانے اسلام کا دامن چھوڑنے سے صاف انکار کردیا ۔اس بد بخت نے حکم دیا کہ اونٹوں کو مخالف سمت میں بھگادیا جائے ، اور خود ذلیل انسان نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے دل پر نیزہ دے مارا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کے جسم کو دو ٹکڑوں میں چیر دیا گیا ، اس طرح انہیں تاریخ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہونے کاا عزاز حاصل ہوا۔(صحابیات مبشرات ص:۲۶۳)
حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی استقامت: یہ قریش کے خاندان بنومخزوم کی لونڈی تھیں ، اسلام لانے کے پاداش میں کفارِ مکہ کے ظلم وستم کا نشانہ بنیں ۔ 
علامہ بلازری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : راہِ حق میں بے پناہ مظالم سہتے سہتے ان کی بینائی جاتی رہی ۔اس پر ابو جہل نے ا ن کو طعنہ دیا کہ لات اور عزی نے تجھے اندھا کردیا ۔تو انہوں نے بے دھڑک جواب دیا : ’’لات وعزی پتھر کے بت ہیں وہ کیا جانیں کہ انہیں کون پوج رہا ہے اور کون نہیں، اگر میری بینائی زائل ہوگئی ہے تو یہ مصیبت میرے اللہ کی طرف سے ہے ،اگرو ہ چاہے تو میری بینائی واپس بھی دے سکتاہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو ان کی شانِ استقامت اس قدر پسند آئی کہ جب وہ دوسرے دن سو کر اٹھیں تو ان کی بینائی بحال ہوچکی تھی۔ (تذکار صحا بیات ص: ۲۵۶)
موجودہ دور میں اشاعت اسلام کے لیے خواتین کے کرنے کے کام : 
موجودہ دور میں خواتین اسلام ؛دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہیں، ان کے لیے کیا طریق کار ہونا چاہیے ،چند تجاویز پیش خدمت ہیں : 
58595958ٓٓٓٓٓ8ں دین کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں خواتین اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ اور غیر اسلامی تہذیب و معاشرت سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں آج ہمارے گھروں میں ایک طرف زمانہ جاہلیت کے جاہلانہ خیالات ،مشرکانہ عقائد اور غیر اسلامی رسمیں موجود ہیں ،دوسری طرف مغربی تہذیب کی چمک دمک ہماری نظروں کو خیر ہ کر رہی ہے۔ لہٰذا اپنے گھر وں سے ان دو چیزوں کو ختم کرنے کی کو شش کریں�ئ8ں بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھیں اس لیے کہ رسول اللہ ا کا فرمان ہے :’’ بچوں کی تربیت ماں کے ذمہ ہے ‘‘(بخاری، مسلم )
ٓٓٓٓٓ8ں تربیت کا اصل سرچشمہ ماں کی آغوش ہے ، بچہ ماں کے دودھ کے قطرے کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار بھی اپنے اندر جذب کرتاہے ۔ ان کی ابتدائی تعمیر و اصلاح کا نقش بچے کے دل و دماغ پرپتھر کی لکیر کی طرح ثبت ہوتا ہے۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں خواتین اسلام ایسے نوجوان تیار کرسکتی ہیں جو ازسر نو اسلام کی تاریخ مرتب کریں ۔یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ،جس کی بے شمار مثالیں ہمیں ماضی میں ملتی ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایثار وقربانی اور تسلیم و رضا کی مثالیں جس پر اسلامی تاریخ کو فخر حاصل ہے ،وہ حضرت ہاجر ہ علیہا السلام کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تربیت بھی آپ کی والدہ کے ہاتھوں ہوئی، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھوڑدینے کا تذکرہ اپنی والدہ سے کرتے ہوے شکست تسلیم کرنے کا مشورہ لیاتو انہوں نے ایسی نصیحت کی کہ عبد اللہ بن زبیر میدان جنگ میں کود پڑے اور جامِ شہادت نوش فرمایا اسی طرح اگر ہر دور کے دعاۃ اور مبلغین پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کی تعلیم و تر بیت میں بھی کسی نہ کسی خاتون ملت کا ہی ہاتھ ہے۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں اشاعت اسلام کے لیے خواتین اسلام کا چوتھا کام گھر کے ا ندرمردوں کی اصلاح کرنا ہے ، اگر کسی عورت کا شوہر مسلمان ، دیندار اور دعوت و تبلیغ میں سرگرم ہے تو بیوی کو چاہیے کہ وہ ہر طرح سے اس کی مدد کرے اور اس کو آرام وسکون پہنچانے کی ہرممکن کوشش کرے ۔ اس لیے کہ بیوی کے تعاون کرنے اور اچھے کاموں کو سراہنے سے شوہر کی ہمت بڑھتی ہے اور دنیا کی مخالفتوں کے با وجود بیوی کی ہم نوائی سے شوہر کا حوصلہ بلند سے بلندتر ہوتا ہے۔صحابہ کرام جنہوں نے دین کی راہ میں بے نظیر استقامت کا ثبوت دیا ہے ، یقیناًان کے ساتھ ا ن کی نیک اور خداترس بیویوں کا بھی تعاون رہا ہے۔ نبی کریم ا کی ہی مثال لے لیجئے نزول وحی کی ابتداء میں جب آپ انے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تو حیران پریشان گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ الکبری سے کہا :’’ مجھے کمبل اڑھادو۔مجھے اپنی جان کی ہلاکت کا خوف لاحق ہے‘‘۔ تو اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ا کواس طرح تسلی دی:’’ آپ ہر گز متردد نہ ہوں ، اللہ آپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا ، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، بے کسوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں ، حق کی مدد کرتے ہیں ‘‘۔پھر پورے اعتماد و یقین سے کہتی ہیں :’’ بخدا آپ اس قوم کے نبی ہیں ‘‘۔ (بخاری و مسلم )یقیناًایسی عورتوں کو حدیث میں دنیا کی سب سے بہترین دولت کہا گیا ہے ۔
8ں اگر شوہر دیندار نہ ہو تو اس کی اصلاح کے سلسلے میں مولانا جلال الدین صاحب عمری حفظہ اللہ اپنی کتاب ’عورت اسلامی معاشرہ میں ‘لکھتے ہیں :’(۱)جہاں تک ہوسکے اللہ اور رسول کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں۔(۲)شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں ۔ نیکی میں اس کی اطاعت کریں اور معصیت میں ادب و احترام کے ساتھ اس سے معذرت پیش کردیں ۔ (۳)شوہر کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے گاہے بگاہے کوئی ایک حدیث یا کوئی آیت یا کوئی بہتر واقعہ سناتے رہیں۔(۴)بحث وتکرار ، اعتراض و تنقید ، طنز و تعریض ، تندی و تیزی او ر غصہ و خفگی سے احتراز کریں۔ (۵)شوہر اگر دین واخلاق کو خراب کرنے والے کسی ماحول میں گھرِ گیا ہے تو سب سے پہلے اس ماحول سے اس کو نکالنے کی فکر کریں۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں اپنے خاندان کے کسی فرد یا ملنے جلنے والی عورتوں میں غیر اسلامی رسوم ورو اج پائے جارہے ہو ں یا وہ غیر اسلامی تہذیب کی دلدادہ ہوری ہوں تو انہیں شیریں اور نرم انداز سے سمجھائیں ۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں اس وقت مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتیں مسلم معاشرہ کی عورتوں کوگمراہی، بے حیائی، عریانیت ، اور ذہنی واخلاقی بے راہ روی کی طرف ڈھکیل رہی ہیں ، دوسری طرف کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیوں میں مغرب پرستی کی وبا پھیل رہی ہے ۔ لہٰذا مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اسلام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس تہذیب کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ 
خلاصہ کلام:الحمد للہ دور حاضر میں اسلام کی نشر واشاعت کے لیے خواتین اسلام کے بے شمار خصوصی ادارے قائم ہو چکے ہیں مگر دور حاضر کی اکثر خواتین اپنی دعوتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران مردوں کی طرح ادھر ادھر اکیلے آنے جانے اور غیر محرم مردوں سے بے ضرورت بات کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی ہیں ،خواتین اسلام پر پہلے اپنے اہل خانہ شوہر کی خدمت اور بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت فر ض ہے ،اب اگر کوئی مسلم خاتون اپنے شوہر اور بال بچوں کی جھنجھٹ سے جان جھڑاتے ہوئے ہر وقت گھر سے باہر رہ کرصرف دعوتی ذمہ داریوں کو نبھانے میں لگی رہتی ہے تو اس کا یہ عمل سراسر اسلا م کے مزاج کے خلاف ہے ،زیادہ تر نو مسلم خواتین اسلام ہی میدان دعوت میں نظر آتی ہیں جب کہ اللہ کے فضل و کرم سے صرف ہندوستان ہی کے اندراسلامی مدارس و جامعات سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عالمات و فاضلات سند فراغت لے کرنکلتی ہیں مگر ان میں سے اکثر دعوت اسلامی کے جذبات سے بالکل عاری ہوتی ہیں، غیر کی اصلاح کرناتو بہت دور کی بات وہ خود بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں اپنی ذلت محسوس کرتی ہیں اور تقریباً یہی حال دور جدید کے اکثر علماء اور فضلاء کا بھی ہے، اس ناحیے سے تمام ارباب مدارس و جامعات کو غور و فکر کرنے اور اس کے لیے جلد از جلد مناسب اصلاحی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے ، آمین!

No comments:

Post a Comment