مولانا عامر محمد عامرالھلالی
ترجمانی :حافظ عبد اللہ سلیم
مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں (۶)
پند رہواں طریقہ : آگاہ رہو !بلا شبہ آزمائش کا راستہ انبیاء ،اولیاء اور عظماء کا راستہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(ترجمہ)’’ اور اسی طرح ہم نے ہرنبی کے لیے مجرموں میں سے کو ئی نہ کو ئی دشمن بنایا اور تیرارب ہدایت دینے والا اورمد د کرنے والا کا فی ہے۔ ‘‘(الفرقان:31)
مصعب بن سعد اپنے باپ سے روایت کر تے ہیں کہ انھوں نے کہا:میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ا!سے سب سے زیادہ آزمائش میں کون لوگ مبتلا کیے گئے ؟ آپ ا نے فرمایا :
(ترجمہ) ’’انبیاء ( کی سب سے سخت آزمائش ہو ئی ) پھر ان جیسا مشن اختیار کر نے والے ، پھر جو ان سے قریب ترین تھے ۔ آدمی اپنی دینداری کے مطابق آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تواگر اس کی دینداری ٹھوس اور پختہ ہو تو اس کی آزمائش سخت ہو تی ہے اور اگر اس کی دینداری میں کچھ لچک اور نر می ہو تو اس کو اپنی دینداری پر آزمائش آتی ہی رہتی ہے حتی کہ اس کو زمین پر چلنے والا ایسا انسان بنا دیتی ہے کہ اس پر کو ئی گناہ نہیں ہو تا۔
عائشۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں’’ مارأیت أحدا اشد علیہ الوجع من رسول ﷺ۔‘‘(صحیح البخاری : 5645)
’’میں نے رسول اللہ ا سے زیا د ہ کس یکو تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھا ‘‘
اور آپ ا نے فرمایا :’’انی أوعک کما یوعک رجلان منکم‘‘(صحیح البخاری:5660)
’’مجھے تم میں سے دو آدمیوں جتنا بخار چڑھتا ہے ۔‘‘
پس عظیم لوگ وہ ہیں جو مشکلات کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور ان کو دشوار گزار راستوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے کیونکہ وہ عمل کرتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ٹھہرجانے والا اس کو مشکل راستوں پر نہیں چلنا پڑتا ، اگر چہ وہ مختصر اور آسان ہی کیوں نہ ہوں ۔اورحسد تو اسی سے کیا جا تا ہے جس کا کو ئی مقام ومرتبہ ہو ۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
ان العرانین تلقاھا محسدۃ ولاتریٰ للئام الناس حساد
’’بلاشبہ شر فاء قوم سے حسد کرنے والے بہت ہو تے ہیں اور تم کمینے لو گوں سے کسی کو حسد کر تا ہوا نہیں دیکھو گے۔‘‘
کسی اور شاعر نے کہا :
لا زلت یا سبط الکرام محسدا والتافہ المسکین غیر محسد
اے معزز خاندان کے چشم و چراغ!تم سے ہمیشہ حسد کیا جائے گا کیو نکہ بے جارے خسیس اور بیوقوف سے تو کو ئی حسد کر نے والا نہیں ہو تا۔‘‘
وکم علی الارض من خضر ویابسۃ ولیس یرجم إلا مالہ ثمر
’’یوں تو زمین میں سبز اور خشک بہت درخت ہیں مگر پتھر سی کو لگتے ہیں جو پھل دار ہو تا ہے ۔‘‘
سولہواں طریقہ : آزمائش آنے سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کرو ۔
مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذکار اور دعاؤں کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوط کرے ، اور تمام مصائب اور برائیوں سے بچنے کا طریقہ کا ر اختیار کرے ۔
برائیوں سے بچنے ، مصائب سے نجات پانے اور ان سے محفوظ رہنے میں ذکر کے عظیم فائدے ہیں ،ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔ ’’۔فمن قرأ أیۃ الکرسی۔۔۔۔ ‘‘(صحیح البخاری :2311)
(ترجمہ ) ’’جس شخص نے بستر پر لیٹتے وقت آیتہ الکرسی پڑھی اس پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ ونگراں مقرر ہو جا تا ہے ، چنا نچہ صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آنے پاتا ۔
2۔ عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے عر ض کیا : اے اللہ کے رسول ا ! میں کیا پڑھو ں ؟ آپ ا نے فر مایا :
(ترجمہ ) ’’ہر صبح وشام تین تین مرتبہ (قل ھو اللہ احد )(سورہ اخلاص)(قل أعوذ برب الفلق)(سورہ فلق )اور (قل أ عوذ برب الناس)(سورہ الناس )پڑھو تو یہ تمہیں ہر (آفت وپریشانی والی ) چیزسے بچانے کے لیے کا فی ہیں ۔‘(سنن ترمذی :3584)
3۔ ا بو مسعود سے مروی ہے ، وہ نبی اکرم ا سے بیان کر تے ہیں کہ آپ ا نے فرمایا :
’’من قرأ بالایتین من آخر سورۃ البقرۃ فی لیلۃ کفتاہ‘‘
’’جس نے رات کو سورہ البقرۃکی آخری دو آیتیں پرھیں وہ اس کو کا فی ہیں ۔‘‘
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا :
صحیح بات یہ ہے کہ گزشتہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیتیں پڑھنا اسے ہر تکلیف دہ چیز کے شر سے بچا نے کے لیے کا فی ہیں ۔(الوابل الصیب:121)
4۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا :
(ترجمہ )’’ جس شخص نے کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر یہ پڑھا : ’’اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ الّٰذِی عَافَانی مِمِا أبتَلَاکَ بِہ،وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیْرٍمَمَّنْ خَلَقَ تَفْصِیْلًا‘‘ تو وہ (مذکو رہ دعا پڑ ھنے والا ) کبھی اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا ۔‘‘(ترمذی : 3441)
5۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ آپ انے فر مایا :
(ترجمہ )’’جس نے شام کے وقت تین مرتبہ یہ پڑھا : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامََّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ‘‘ (میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ تمام مخلوق کے شر سے اس کی پناہ مانگتا ہو ں ) تو اسے ڈنک مارنے والے جانور کا زہر نقصان نہیں پہنچائے گا ۔‘‘( ترمذی: 3613)
سہیل (سند کے ایک راوی ) نے کہا :’’ہمارے گھر والے ان الفاظ کو یاد کر کے ہررات پڑھتے تھے تو ان میں سے ایک لونڈی کو کسی زہر یلے جانور نے ڈنگ مارا مگر اس کو بالکل دردمحسوس نہ ہوا ۔‘‘
6۔خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ رسول اللہ اسے بیان کرتی ہیں کہ آپ انے فرمایا: جس نے کسی جگہ پڑاؤ ڈالا ،پھر یہ کلمات پڑھے : اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مَنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘تو اس کے اس جگہ سے کو چ کرنے تک کو ئی چیز اس کو نقصان نہ پہنچائے گی۔(ترمذی : 3446)
7۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ا کو فر ماتے ہوئے سنا:
(ترجمہ )’’جس شخص نے (شام کے وقت ) تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے :’’ بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِی لَایَضُرُّ مَعَ اِسْمِہِ شَیّءٌ فِی اْلاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ العَلِیْم ‘‘(اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام (کی بر کت ) سے زمین وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ) تو اسے صبح تک کو ئی بلائے ناگہانی نہیں پہنچے گی ،اور جس نے صبح کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات کہے تو شام تک اس کو کو ئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی ۔‘‘
راوی حدیث نے کہا : ’’اس روایت کو بیان کرنے والے أبان بن عثمان کو فالج ہوگیا جب انھوں نے مذکورہ حدیث سنائی تو سننے والا شخص ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگا ، یہ فرمانے لگا : تمہیں کیا ہے کہ تم میری طرف دیکھ رہے ہو ؟ اللہ کی قسم میں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر جھو ٹ نہیں بولا اور نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی ا کے ذمہ جھوٹ لگا یا ہے ، لیکن معاملہ یہ ہے کہ جس دن مجھے یہ فالج ہوا تھااس دن تو میں یہ کلمات پڑھنابھول گیا تھا ۔‘‘(سنن ابی داؤد :5088)
8۔ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ا جب مسجد میں داخل ہو تے تو یہ پڑھتے :
(اَعُوْذُبِاللَّہِ العَظیْم وَبِوَجْھِہِ الْکَرِیْم ،وَسَلْطَانِہِ القَدِیْم مِنَ الشَّیْطَانِ الرَجِیم( (ترجمہ )’’ میں اللہ عظیم کی اس کے کریم چہرے اور لازوال بادشاہت کے واسطے سے شیطان مردود سے پناہ مانگتاہوں۔‘‘آپ انے فر مایا :
(ترجمہ )’’پس جب کوئی مذکورہ دعاپڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے :یہ (دعا پڑھنے والا) تمام دن کے لیے مجھ سے بچا لیا گیا ۔‘‘(سنن ابی داؤد: (466
9۔ جا بر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ا کو یہ فر ما تے ہو ئے سنا :
(ترجمہ )’’ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تے وقت اور کھا نا کھاتے وقت اللہ کاذکر کرے تو شیطان ( اپنے چیلوں کو مخاطب کر کے ) کہتا ہے : نہ یہاں تمھارا قیا م ہے نہ طعام ۔ اور جب وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں تو شیطان کہتا ہے (اے میرے شاگرد و! ) تمہارا قیام اس گھر میں ہے اور جب وہ کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے : تمہارا قیام وطعام دونوں اسی گھر میں ہے۔ ‘‘( ابو داود: 3765)
10۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا :
(ترجمہ )’’ جس شخص نے اپنے گھر سے نکلتے وقت پڑھا ’’َ بِسمِ اللَّہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللَّہِ ولَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللَّہِ ‘‘ (اللہ کے نام کے ساتھ( میں گھر سے نکلتا ہو ں ) میں اللہ پر بھروسا کر تا ہو ں ،اللہ کی توفیق کے بغیر کسی میں گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کر نے کی ہمت نہیں ہے )تو اس (پڑھنے والے ) کے حق میں کہا جاتا ہے :تو کفایت کیا گیا ،تیری راہنمائی کی گئی اور تو بچالیا گیا تو شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے اور دوسرے شیطان سے کہتا ہے :تو اس شخص کا کیا بگاڑ سکتا ہے جس کی( اللہ کی طرف سے) رہنمائی کی گئی ،اسے کفایت کی گئی ، اور اسے (ہر قسم کے شر اور خسارے سے) بچالیا گیا ۔‘‘(سنن ابی داود : 5095)
11۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا :
(ترجمہ) ’’ اگر لوگوں میں سے کو ئی اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے تو کہے :’’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ‘‘( اللہ کے نام سے، اے اللہ !ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو اولاد تو ہمیں عطا کرے اس سے بھی شیطان کو دور رکھ ) اگر اس ہمبستری ان کے مقدر میں اولاد لکھی گئی ہو تو شیطان کبھی اس کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا ۔‘‘(البخاری 141:)
یہ جو گزشتہ صفحات میں ذکر اور دعائیں بیان کی ہیں ان سے تم پر یہ واضح ہو جائے گا کہ بلا شبہ اللہ کے ذکر میں شیاطین نیز مصیبتوں اور برائیو ں سے بچاؤ ہے ۔اس قسم کے اذکار اور دعائیں بہت زیادہ ہیں لہذا ان کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنے اور پڑھنے کی حرص پیدا کرو ، اللہ کے اذن وحکم کے ساتھ وہ بہت سی برائیوں اور مصیبتوں سے تمھیں محفوظ رکھیں گی ۔
بلکہ نبی ا تو آزمائش کے آنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ سے اس سے محفوظ رہنے کا سوال اور برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے ،اور اس چیز سے پناہ مانگتے تھے جو مصائب میں مبتلا کر نے کا سبب بن سکتی ہے ۔ایسی دعائیں تو بہت زیادہ ہیں ،ان میں سے ایک دعا درج ذیل ہے :
’’ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتُحَوِّلُ عَافِیَتِکَ،وَمِنْ فُجْاَء ۃِ نِقِمَتِکَ،َ وَمِنْ جَمیعِ سَخَطِکَ‘‘(صحیح مسلم :2739)
(ترجمہ)’’ اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زوال ، تیری عافیت سے محرومی ، تیرے اچانک عذاب اور تیرے ہر قسم کے غصے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘
نیز اپنی برائیو ں اور مصیبتو ں سے بچاؤ کی کچھ مزید حفاظتی تدابیر اور وسائل درج ذیل ہیں ۔
(۱) اپنے جسم وبدن ،گھر ،گھر والوں اور اولاد کی صفائی ، نیز کھانے پینے اور لباس کی صفائی ستھرائی کی حرص واہتمام کرنا ۔ (۲) اولاد کو محفوظ رکھنا اور ان کی ا چھی تر بیت کر نا ۔ (۳ ) بیوی بچوں کی طرف توجہ کرتے ہو ئے اور ان کی رعایت رکھتے ہوئے خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ ان کی نگرانی کرنا ۔۴۔ گناہوں سے دور رہنا اور گھر کو فساد کے اسباب سے پاک رکھنا کیونکہ یہ برائیوں اور مصائب کو کھینچ لاتے ہیں ۔
خلاصہ کلام: بچاؤ کے اسباب کر واور ہر اس چیز سے بچو اور دور رہو جو برائی کو کھینچ لاتی ہے، مصیبت کا سبب بنتی ہے یا عداوت ودشمنی کو بھڑکا تی ہے ۔ پس اگر اعتدال کے ساتھ مبالغہ آمیز ی سے بچتے ہو ئے ان حفاظتی تدابیر کے بعد بھی کو ئی آفت ومصیبت آن پڑے تو تم کو قصور وار ٹھہر ا کر ملا مت نہیں کی جائے گی ، یا تمہں ضمیر کی ملا مت کا احساس نہیں ہو گا۔ اور اس بات پر ایمان لاؤ ، جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ بلاشبہ ہرچیز اللہ کے فیصلہ اور تقدیر کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہو تی ہے ۔
No comments:
Post a Comment