- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, February 7, 2017

عبد الرؤف عبد الحفیظ السلفی
استاذ:المعہد،رچھا ،بریلی 
حقیقت میلاد سے مروجہ محفل میلادالنبی کااثبات
ایک زبر دست مغالطہ 
محفل عید میلاد النبی( صلی اللہ علیہ وسلم )کی کیا حیثیت ہے ؟ اس موضوع پر اہل میلاد کی جتنی اہم کتابوں کا آپ مطالعہ کریں گے ، آپ کو ان میں سب سے اول ایک تمہید یا مقدمہ ضرور نظر آئے گا جس میں حقیقت میلاد اور نفس میلاد پر گفتگو ضرور کی گئی ہوگی اوردرحقیقت یہی وہ سنگ بنیاد ہے جس پرعید میلاد النبی کے جواز اور استحباب بلکہ وجوب کی فلک بوس عمارت کھڑی کی گئی ہے ، یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے موضوع کو ایک نیارخ دیا جاتا ہے ۔ 
اس لیے محفل عید میلاد النبی پر گفتگو کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت میلاد، نفس میلاد ،ذکرولادت ، نیز محفل میلاد ، جشن میلاد اور عید میلاد کا مطلب نیز دونوں میں شکلاً وحکماً جوفرق ہے اسے ملحوظ خاطررکھے ۔ 
حقیقت میلاد : طبق�ۂبریلویہ کے حکیم الأمت مفتی شہیر احمد یار خان گجراتی حقیقت میلاد کی وضاحت لکھتے ہیں :
’’اولاً تو معلوم ہونا چاہیے کہ میلادشریف کی حقیقت کیا ہے ؟اور اس کا حکم کیا ہے؟ پھر یہ جانناضروری ہے کہ اس کے دلائل کیا ہیں‘‘ ؟ 
میلاد شریف کی حقیقت یہ ہے کہ حضور ا کی ولادت پاک کا واقعہ بیان کرنا ۔حمل شریف کے واقعات ۔ نورمحمد ی کے کرامات ۔ نسب نامہ یاشیر خوارگی اور حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا اور حضورعلیہ السلام کی نعت پاک نظم یا نثر میں پڑھنا،سب اس کے تابع ہیں ۔ اب واقعہ ولادت خواہ تنہائی میں پڑھو یا مجلس جمع کرکے اور نظم میں پڑھو یا نثر میں ، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر ، جس طرح بھی ہو اس کو میلاد شریف کہا جاوے گا.‘‘ ( جاء الحق ص219: )
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حقیقت میلاد سے مراد محفل میلاد میں کیے جانے والے اعمال ،مواد اور عناصرترکیبی ہیں ۔ 
معاملے کی نزاکت ؍ٹرننگ پوائنٹ : اصل معاملہ یہ ہے کہ چوں کہ میلاد ی حضرات کے پاس محفل میلاد ، جشن میلاد اور عید میلادکے لیے قابل قبول اور معتبر ایک بھی دلیل نہیں ہے، اس لیے پہلے حقیقت میلاد اور نفس ذکر ولادت کی تمہید قائم کی جاتی ہے تاکہ حقیقت میلاد اور ذکر ولادت کی دلیلوں سے محفل میلاد پر استدلال کر کے عوام کا الأنعام پر دلائل کا دھونس جمانااور انہیں اپنے دام تزویر میں پھنسائے رکھنا بآسانی ممکن ہو سکے ۔ 
حالاں کہ اہل جواز (میلادی ) غیرشعوری طور پر خود اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ذکر ولادت اور اوصاف وخضائل نبوی وغیرہ اور محفل میلاد دونوں علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں ۔ اس لیے اگر ایک طرف اثبات میلاد کے موقع پر اسے رسول اکرم ا ، صحابہ وتابعین بلکہ جملہ انبیاء سابقین اور حد تو یہ کہ اللہ رب العالمین سے جوڑتے ہیں تو دوسری طرف یہ بات بھی لکھنے پرمجبور نظر آتے ہیں کہ اس کی ایجاد ساتویں صدی ہجری میں ہوئی ۔ چنانچہ احمد یار خان صاحب لکھتے ہیں :
’’ جس بادشاہ نے پہلے اس کو ایجاد کیا وہ شاہ اربل ہے اور ابن دحیہ نے اس کیلئے میلاد شریف کی ایک کتاب لکھی جس پر بادشاہ نے اس کو ہزار شرفیاں نذر کیں ۔ (جاء الحق ،ص: 225)
یہی بات علامہ محمد بن علی یوسف دمشقی شامی نے اپنی کتاب ’’ سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ‘‘معروف بہ’ سیرت شامی‘میں،مولوی محمد اعظم صاحب نے ’فتح الودود ‘میں ،شیخ ابوشامہ نے’ الباعث علی انکار البدع والحوادث‘ میں ،مولوی عبد الحق مہاجر مکی نے ’الدرالمنظم فی حکم عمل مولدالنبی الأعظم میں ،صاحب ’تو ضیح المرام فی بیان المولود والقیام ‘ اور صاحب’ قرۃ العیون ‘ نے ، علامہ جلال الدین سیوطی نے ’حسن المقصدفی عمل المولد‘میں معزالدین حسن خوارزمی نے اپنی ’تاریخ‘ میں ، صاحب انوار ساطعہ عبد السمیع صاحب اور تقریباً سبھی قدیم وجدید موئدین اور مخالفین دونوں فریق نے بڑی صفائی اور وضاحت سے بیان کی ہے ۔ 
اب سوال یہ ہے کہ جو عمل اللہ تعالیٰ سے، انبیاء سابقین سے، ملائکہ سے ، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ وتابعین ودیگر اسلاف امت سے(بقول اہل میلاد) ثابت ہے اس کے ساتویں صدی ہجری میں ایجاد ہونے کا کیا مطلب ؟ 
معاملہ واضح ہے کہ جو عمل اسلاف میں موجوداورمعمول بہ تھا وہ الگ،اور جو عمل ساتویں صدی ہجری میں ایجاد ہو اوہ کوئی الگ عمل ہے، ورنہ موجود کے ایجاد کا کیا مطلب ؟ 
اور جب دونوں عمل الگ الگ ہے تو دونوں کے لیے دلیل بھی الگ الگ ہونی چاہئے ورنہ ایک کے ذریعہ دوسرے پر استدلال کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟ 
کیا حقیقت میلاد کا ہونا دلیل کے لیے کافی نہیں ؟ ظاہر سی بات ہے کہ مذکورہ سوال کے جواب میں اہل میلاد تو یہی کہیں گے کہ اگر چہ محفل میلاد کا ایجاد ساتویں صدی ہجری میں ہوا مگر حقیقت میلاد ،ذکر ولادت وغیرہ متعلقات میلاد تو پہلے سے موجود ، سنت الہٰیہ اور اسلاف کا معمول بہ ہیں ، پس نام اورکیفیت بدلنے اور متعلقات میلادمثل مجلس ، تقسیم شیر ینی ، قیام وغیرہ وغیرہ کااضافہ کرلینے اور محفل میلاد ،وغیرہ نام دے لینے سے کہیں حکم اورحقیقت بدل جاتی ہے ؟ 
جواب بظاہر معقول اور ناقابل تردید ہے ، لیکن چوں کہ ہم سب راہ تحقیق کے راہی ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر اس مسئلے کی بھی تحقیق کرلی جائے کہ کیا نفس مادہ،اصل عنصر اور حقیقت کے ذریعہ کسی چیز کی مروجہ اورموجودہ شکل پر استدلال کرنا درست ہے ؟ 
دراصل کسی چیز کے مادہ ، اصل ، اجزائے ترکیبی اور حقیقت امر کے ذریعہ اس کی مرکب ، مروج اور متداول شکل پر اصل اورمادہ کے مطابق حلت وحرمت ، افضل ومفضول، جائز وبدعت ، سردوگرم وغیرہ کوئی حکم لگانا منجملہ اسباب ضلالت امم ایک اہم سبب ہے ۔ 
یہی وہ وجہ استدلال اور طریق قیاس واستنباط ہے جسے سب سے پہلے ابلیس لعین نے اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہوا اورلعین ورجیم کاقابل نفریں تمغہ حاصل کیا ۔ 
اللہ رب العالمین نے شیطان لعین کے اس ’شیطانی طریق استدلال ‘کا قرآن کریم میں کئی مقام پر ذکر کیا ہے ، چنانچہ سورۂ اعراف آیت نمبر:۱۲ میں فرماتا ہے : ’’قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍ‘‘(جب شیطان لعین نے حکم الہٰی کے باوجود آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تواللہ رب العالمین نے سوال کیا کہ تونے سجدہ کیوں نہیں کیا ۔ اس نے کہا : میں آدم سے افضل ہوں کیوں کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے )۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین کے سوال اور ابلیس لعین کے جواب اور دلیل جواب کا ذکر کیا ہے ۔ ابلیس کے جواب اور اس کی دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ میں نے آدم کو سجدہ اس لیے نہیں کیا کیوں کہ میں افضل ہوں اور آدم مفضول؛ اورافضل مفضول کے سامنے نہیں جھکتا۔سوال پیدا ہوا کہ تیر ے پاس تیری افضلیت کی کیا دلیل ہے ؟جواب دیا کہ چوں کہ میں آگ سے پیدا ہواہوں اور آدم مٹی سے ، اور آگ مٹی سے ۔بزعم ابلیس احمق۔ افضل ہے ،لہذا جب میرا مادۂ تخلیق بلفظ دیگر میری حقیقت افضل ہے تومیں بھی افضل ہوا ۔ 
غور کیا آپ نے ؟ کیا یہ وہی طریق استدلال بالعنصر والمادۃنہیں ہے ؟کیا اسی کو قیاس بالأ صل والحقیقہ نہیں کہتے ؟ یقیناًکہتے ہیں !پس معلوم ہوا کہ یہ طریق استدلال ابلیسی ہے۔
چوں کہ یہ ابلیسی طریق استدلال بدعتیوں ، کا ان کے بدعی امورکے لییمعروف ترین طریق استدلال بن چکا ہے ، اس لیے اس موضوع کو ذراتفصیل دیتے ہوئے مذکورہ آیت کریمہ کے ضمن میں چند مفسرین کی عبارات نہایت اختصارسے ذکر کرتا ہوں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس مذکورہ طریق استدلال کو مفسرین کرام بھی شیطانی اور مردود طریق استدلال کہہ چکے ہیں ۔ 
1۔’’...وقد غلط فی ذالک بان رأی الفضل کلہ باعتبار العنصر ..‘‘(بیضاوی)
2۔’’....وانماقال انا خیر منہ لمارای انہ اشد منہ قوۃ وافضل منہ اصلا .... فجھل عدواللہ وجہ الحق واخطأ طریق الصواب ‘‘ (لباب التأویل فی معانی التنزیل )
3۔’’.....فنظر اللعین الی أصل العنصرولم ینظر الی التشریف العظیم ...‘‘ (ابن کثیر )
4۔’’....ولقداخطأ اللعین حیث لاحظ الفضیلۃ باعتبار المادۃ والعنصر. ..‘‘(روح البیان ) 
5۔’’...... وایضاشرف الأصل لایوجب شرف الفرع :
؂ انما الوردمن الشوک ولا ینیت النرجس الامن بصل 
ویکفی فی ذالک أنہ قدیخرج الکافرمن المومن ...‘‘ (روح المعانی ۔۔آلوسی)
یہ چنداشارے ہیں جن کا ترجمہ اس لیے نہیں کیاکیوں کہ عوام کے لییمفہوم کافی ہے اور علماء کو ترجمہ کی ضرورت نہیں ،البتہ اس موضوع پر علامہ رشید رضامصری رحمہ اللہ ۔ جزاہ اللہ عناومن جمیع المسلمین أحسن الجزاء۔ نے اپنی تفسیر ’المنار‘ میں سب سے مفصل بحث کی ہے ، جو بس پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ موضوع سے متعلق بحث مع خلاصہ پیش کر رہا ہوں۔
ابلیس کے جواب مذکورکا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :’’ وفیہ ضروباً من الجھل الفاضح ‘‘ یعنی ابلیس کے اس استدلال میں کئی طرح کی واضح جہالت پائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد پانچ قسم کی جہالت کا بالترتیب تذکرہ کیا ہے ۔ چوتھے نمبر پر لکھتے ہیں :
’’(الرابع): الاستدلال علی الخیر یۃ بالمادۃ التی کان منھا التکوین، وھذا جھل ظاھرمن وجوہ ۔۔۔الخ‘‘۔ (تفسیر المنار )
خلاصہ : ابلیس لعین کے استدلال میں پائی جانے والی کھلی جہالتوں میں سے چوتھی جہالت یہ ہے کہ اس نے اپنے افضل ہونے پراستدلال اپنے مادۂ تخلیق اور عنصرترکیب کے افضل ہو نے سے کیا۔جب کہ یہ استدلال مبنی برجہالت ہے ، کئی وجوہ سے ؛ 
پہلی وجہ تو یہ کہ مواد اور عناصر کے افضل اور بہتر ہونے کا معاملہ ان حقائق میں سے ہے ہی نہیں جنہیں بالدلیل ثابت کیا جاسکے ،بلکہ فن کیمیا ( کیمسٹری )سے معلوم ہوتاہے کہ عناصر ترکیب اور مواد اصلاً بہت کم ہیں ، انہیں میں تھوڑی بہت تغیروتبدل سے مختلف اشیاء ترکیب پاتی رہتی ہیں ۔
دوسری وجہ یہ کہ بعض نفیس اور عمدہ چیزوں کی اصل نہایت خسیس اورگھٹیا ہے ،چنانچہ مشک کامادہ خون اور ہیرے کا مادہ کربون (ایک سیاہ مادہ ) ہے جوکہ کوئلے کی بھی اصل ہے۔ اسی طرح فضلات یعنی بول وبرازجس سے گھن ہوتی ہے، کا مادہ اور اصل نفیس اورعمدہ غذائیں ہیں جن کا شوق اور جن کی طرف طبعی میلان ہوتا ہے ۔ 
(اور جب معاملہ یہ ہے تو اصل اور مادہ یا عناصر ترکیب کے ذریعہ موجودہ شئی مرکب اورجسم کے افضل ہونے کا استدلال کیوں کر درست ہو سکتاہے ؟) 
تیسری وجہ یہ ہے کہ فرشتے نور سے بنے ہیں اور نور یقیناًآگ سے افضل ہے تو جب نوری کو سجدہ کا حکم ہوا اور انہوں نے سجدہ کیا تو ناری کیوں اس حکم سے بالا تر ہوسکتا ہے ؟وہ تو بدرجہ اولی اس کا مستحق ہے۔
علامہ رشید رضا مصری رحمہ اللہ ابلیسی جواب کی مکمل تردید کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ فھذہ اصول الجھل والغباوۃ۔۔۔الخ‘‘ (تفسیر المنار ۔الشاملۃ) 
یعنی یہ وہ جا ہلانہ اور احمقانہ اصول ہیں جن میں ابلیس کو اس کے حسد اور کبر نے مبتلاکر دیا تھا اور اگر دیکھاجائے تو آج کل انسانی روپ میں جتنے شیطان کے دوست احباب ہیں وہ سب انہیں اصولوں کو مضبوطی سے پکڑ ے ہوئے ہیں ۔اللہ کی پناہ !
مذکورہ آیت کریمہ، اس کی تفسیر اور خاص کر’المنار ‘ کی عبارت سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ یا کسی ایسے کام کے جواز یا عدم جواز کے لیے جو مختلف عناصر اورا عمال سے مدغم ہو کر ایک علیٰحدہ شئی کی شکل اختیار کر چکی ہو، ان عناصر اور اعمال پرفی نفسہ عائد شدہ حکم کے ذریعہ استدلال نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
کیوں کہ حکم اس مجموعی اور مرکب شکل پر لگتاہے جس نے ایک جسم اور ایک عمل کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ اس بات کے ثبوت کے لیے میں ایک مثال پیش کرتاہوں ۔ 
یہ بات معلوم ہے کہ ابتدائی دور فاروقی تک باقاعدہ تراویح کی جماعت کا ایک امام کے پیچھے اہتمام نہیں تھا ۔ بعدہ صحابہ کرام کے مشورہ سے عمر بن خطاب نے ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کو امام مقررفرماکر باقاعدہ ایک امام کے پیچھے تراویح کا سلسلہ جاری فرمایا ، دوسرے دن جب لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا :’’نعمت البد عۃ ھذہ ‘‘
یہ کتنی اچھی بد عت ۔نو ایجاد شئی۔ ہے۔
بدعت کے معنی اور اس سے متعلق ایجاد سے قطع نظر ؛ آپ اس بات پر غور کریں کہ اس میں کون سی ایسی چیز تھی جس کا وجود پہلے سے نہ رہاہو بلکہ وہ جائز اور مستحب نہ رہی ہو ، نماز تراویح، ،نماز باجماعت، قراء ۃ قرآن، مسجد میں نماز ، ایک امام کی اقتداء وغیرہ کون سی ایک حقیقت ہے جو قبل ازیں ثابت اورمتحقق نہ رہی ہو؟! پھربھی عمر رضی اللہ عنہ اسے بدعت فرمارہے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ اسی لئے تو کہ یہ چیزیں انفرادی طور پر اگرچہ موجود تھیں مگر صلاۃ تراویح کی یہ مجموعی شکل قبل ازیں امت میں موجود نہیں تھی ۔ 
ایک اور مثال دیکھیں ؛ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ حضرات حلقہ لگاکر بیٹھے ہوئے تھے ، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں تھیں‘ ایک کہتا کہ کہو سومرتبہ لاالہ الااللہ! تو لوگ کہتے ....... حضرت عبد اللہ بن مسعود کو خبر لگی ، مسجد پہونچے ،نہایت سخت تنبیہ کی اور فرمایا: ’’لاأراکم الا مبتدعین‘‘ تومیں تم لوگوں کو بدعتی ہی سمجھتاہوں۔ یہاں تک کہ انہیں مسجد سے نکال کر ہی دم لیا ۔ 
آخر کیا گناہ تھا ان بے چاروں کا ؟ ان کا کون سا عمل ایسا تھا جس کی حقیقت اور اصل کتاب وسنت میں موجود نہ تھی؟ حلقہ بنانا ، ذکرکرنا ، تلقین کرنا، ذکرکو شمار کرنا۔غور کیجئے کوئی ایک بھی عمل تو ایسا نہیں ہے جو شرعی طور پر ثابت اورمتحقق نہ ہو، مگرپھر بھی حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اتنا سخت رویہ اختیار کیا ،آخر کیوں ؟ اسی لیے تو کہ یہ مجموعی کیفیت ثابت نہیں تھی اور حکم مجموعی شکل مرکب اور جسم پر لگتا ہے ان کے اجزائے ترکیبی اور مادہ تخلیق وترکیب پر نہیں ! 
لہذا اس مفصل بحث سے یہ بات متحقق اور ثابت ہو گئی کہ اگر چہ حقیقت میلاد یااس کے اجزائے ترکیبی یعنی ذکر، نعت خوانی ، ذکرخصائل و فضائل ،معجزات ولادت وغیرہ علا حدہ علاحدہ ثابت اور مستحب اور اجزائے ایمان ہیں مگران سب کو ملا کر ایک علاحدہ دی گئی شکل اور اس کے ساتھ محفل عید کا تصور جو کہ بالاتفاق ساتویں صدی ہجری کی ایجاد ہے ،قطعاً اسلاف سے ثابت نہیں ہے ، اور ان اجزاء ترکیبیہ کے جواز سے محفل میلاد، جشن میلاد یا عید میلاد النبی کا استدلال کرنابلا مبالغہ ابلیسی طریقہ استدلال اورگمراہی وضلالت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے، اعاذ اللہ منہ! 
اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے ،بد عات و منکرات سے دور رہنے اوردوسروں کو بھی دور رکھنے کی توفیق دے ۔ آمین !وصلی اللہ علی النبی الکریم !

No comments:

Post a Comment