- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, May 26, 2016


مولانا اسعد اعظمی
استاذ: جامعہ سلفیہ بنارس 
شخصی آزادی کا صحیح مفہوم

جدیدیت اور مغر بیت سے متاثر نئی نسل کے ذہن میں مختلف قسم کی جو غلط فہمیاں پرورش پارہی ہیں انہیں میں سے ایک غلط فہمی شخصی آزادی کے تعلق سے بھی موجود ہے ، عام طور سے جب لوگوں کو اسلامی احکام و آداب کو برتنے اور تقویٰ یا تدین کی دعوت دی جاتی ہے تو شیطان اس دعوت سے متنفر کرنے کے لیے لوگوں کے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ دینداری نام ہے بے پناہ
حدود و قیود کا ، اسلامی زندگی عبارت ہے شخصی آزادی سے محرومی سے ، اسے اپنا کر آزاد انہ زندگی کی
پر کیف لذتوں اور رنگینیوں سے ناطہ توڑ لینا بڑی بیوقوفی اور نادانی کا کام ہے ، اس لیے تم ہر گز اپنے اختیارات سے دست بردار ہونے کے بارے میں نہ سوچنا ، الغرض اس طرح کی چکنی چپڑیں باتیں انسان کے ذہن میں شیاطین الجن و الانس دونوں ڈالتے ہیں ، ا ور اس قسم کے تصورات کا غلام بن کر ایک بندہ بزعم خویش آزادانہ زندگی گزارتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’ آزادی ‘‘ کے معنی و مفہوم کو متعین کرنے میں ایسے لوگ زبر دست فریب کا شکار ہیں ، حالانکہ معمولی غورو فکر سے ایک عام آدمی ’’ آزادی ‘‘ کی حدود اربعہ کی تعیین کر سکتا ہے ، عام طور سے فریب خوردہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے ، جیسے چاہے جیے، اس کی مرضی اور منشاکے مطابق ہی اس کا ہرکام ہو ، اس کے ارادوں اور خواہشوں کی تکمیل کی راہ میں کوئی چیز آڑے نہ آئے ،یہی ہے آزادی اور یہی ہے خود مختاری ۔
آزادی کا یہ مفہوم بظاہر تو بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن عملی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس مفہوم کا سقم واضح ہوتا ہے ، مثال کے طور پر آپ اپنی موٹر گاڑی سے جارہے ہیں ، آپ کی خواہش ہے بلکہ ہر سوار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ پوری تیز رفتار ی کے ساتھ چل کر کم سے کم وقت میں منزل مقصود تک پہنچ جائے، تو کیا ایسی صورت میں آپ راستے میں سامنے پڑنے والے کسی بھی ذی روح کی پرواہ نہ کریں گے ؟ سڑک پر آنے جانے والی دوسری گاڑیوں اور راہ گیر کا خیال نہ کریں گے؟ چوراہوں پر نصب کیے گئے برقی اشاروں اور سگنلوں یا ٹریفک پولس کی ہدایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چلیں گے ؟ آزادی کو جس معنی میں سمجھا جارہا ہے اس کا تو تقاضا بہر حال یہی ہے ، لیکن
ہر کس و ناکس جانتاہے کہ اس تقاضے پر عمل کرنے والے سوار کا حشر کیا ہوگا، ایسا شخص منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی اور بہت سارے بے گناہوں کی جان سے کھیل جائے گا ۔ ہلاکت ، 
تباہی و بربادی اور خسران دائمی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔
یہ مثال اور روزہ مرہ کی زندگی میں سامنے آنے والی لا تعداد مثالیں اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ انسان کی آزادی بھی فطری طور پر حدود و قیود کی پابند ہے ، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح آپ انسان ہیں اور آزاد و خود مختار ہیں ویسے ہی دوسرے لوگ بھی انہیں صفات سے متصف ہیں ، اگر آپ کی طرح تمام لوگ مزعومہ آزادی سے فریب کھا کر سڑک پر بے لگام چلنے لگیں تو منٹوں میں کیا ہو جائے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا ، عالمی سطح پر آزادی کے نام پر افراتفری اور 
بے اعتدالی کا جو دور دورہ ہے وہ اسی فکر سقیم کا لازمی نتیجہ ہے ۔ 
نام نہاد آزادی کے علمبرداروں سے اگر پوچھا جائے کہ کسی دوکان یا ہوٹل کے
لذیذ کھانوں اور مٹھائیوں کو دیکھ کر آپ کے منھ سے رال ٹپکنے لگے اور آپ کا نفس انہیں تناول فرمانے کا شدت سے خواہش مند ہو تو کیا آپ جھٹ اس کھانے پر ہاتھ ماریں گے اوراپنا پیٹ بھر کر چل دیں گے یا اس سے قبل اپنی جیب اور اپنی وسعت کا خیال کریں گے ، ایسے ہی کسی کی کوٹھی ، لباس، سواری یا اورکوئی چیز آپ کومحبوب ہو اورآپ کا نفس اسے حاصل کرنا چاہے تو بلا کسی عوض معاوضہ کے آپ اسے اپنے قبضے میں کر لینے کو آزادی سے تعبیر کریں گے ؟
مغربی دنیا آزادی کی حمایت میں گلا پھاڑ رہی ہے ، وہی مغربی دنیا جو ایک مدت تک مشرقی دنیا کی گرد ن میں اپنی غلامی کا طوق ڈالے بے رحمانہ گھسیٹتی رہی ، اپنے جابرانہ تسلط کو قائم 
و دائم رکھنے کے لیے لاکھوں انسانوں کو خاک و خون میں تڑپایا ، ان کی املاک و جائداد کو خوب خوب لوٹا ، ان کے قومی خزانوں کو اپنے یہاں منتقل کرلے گئے ، استغلال و استحصال کی جتنی بھی صورتیں ہوسکتی تھیں ،بروئے کار لائی گئیں ، اس وقت نہ حقوق انسانی کی پامالی ہوئی نہ انسان کی شخصی 
واجتماعی آزادی پرکوئی آنچ آئی ، آج وہی مغرب ’’ حقوق انسانی‘‘ کا اپنے آپ کو علمبردار قرار دیتا ہے اور دنیا کی بقیہ قوموں کی انسانی ہمدردی کو شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ 
اسلام نے پہلے ہی دن سے بنی نوع انسان کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی ، اس کلمہ کا پہلا جزء ’لا الہ ‘ انسا ن کو ہر طرح کی قیدو بند اور غلامی و بندگی سے آزاد قرار دے کر دوسرے جز’’ الا اللہ ‘‘ کے ذریعہ اس کو ایک اللہ سے جوڑ دیتاہے ، اس طرح اس کو زندگی کے ہر شعبہ میں ایسی آزادی
عطا کرتا ہے جو دوسروں کی آزادی سے نہ ٹکرائے ، ایسی آزادی جو اخلاق و آداب کے تقا ضوں کو بھی ملحوظ رکھے ، ایک انسان اپنی زبان اور اپنے دیگر اعضا و جوارح کے استعمال میں اسی حد تک آزاد ہے کہ اس آزادی سے دوسروں کی آزادی سلب نہ ہوتی ہو ۔ 
عہد نبوی میں ایک نو جوان بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نبی اکرم اسے زنا کی اجازت طلب کرتا ہے وہا ں موجود لو گ اس کی جرأت پر سخت برہم ہوئے اور قریب تھا کہ اس کو کوئی سزادے بیٹھیں، نبی ا نے انہیں روکا اور اس جوان کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے پوچھناشروع کیا : بتاؤ کیا تم اس بات کو پسند کروگے کہ کوئی تمہاری ماں کے ساتھ زناکرے ؟ نوجوان فوراً بول اٹھتا ہے : اے نبی ! میں آپ پر قربان جاؤں ، ایسا ہر گز مجھے منظور نہیں ۔آپ فرماتے ہیں :
تو ایسے ہی دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ اس فعل کو پسندنہیں کرتے ۔پھر آپ نے دریافت کیا : کیا تمہاری بیٹی کے ساتھ اگر کوئی یہ حرکت کرتے تو تمہیں منظور ہوگا ؟اس کے بعد اس کی بہن ، اس کی خالہ پھوپھی وغیرہ کے بارے میں آپ اس سے یہی سوا ل کرتے گئے اور وہ انکار کرتا رہا ، اوراللہ کے رسول ہر مرتبہ اس سے یہی کہتے کہ دوسرے لوگ بھی ایسے ہی اس عمل بدکو پسند نہیں کرتے ۔ 
یعنی جس طرح تم ہر گز اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ تمہاری ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرے ، ایسے ہی تم اس قسم کی حرکت کسی بنت حواء کے ساتھ کروگے تو وہ بھی کسی کی ماں،بہن، بیٹی ہوگی اوراس کے بیٹے اس کے بھائی اور اس کے باپ ہرگز اسے برداشت نہیں کریں گے ۔ 
کتنے اچھے اسلوب میں نبی اخر الزماں نے اس نوجوان کو سمجھا دیا کہ دوسروں کے احساسات و جذبات کو ملحوظ رکھنا کس طرح انسان کو غلط کاری سے محفوظ رکھتا ہے ، اسی ضمن میں شخصی آزادی کے غلط مفہوم کے سقم کی نشاندہی بھی ہوگئی ،روایتوں میں آتا ہے کہ اس کے بعد اللہ کے رسول ا نے اس جوان کے لیے دعا فرمائی اور اس طرح جب وہ نوجوان وہاں سے اٹھاتو زنا کی قباحت و شناعت کا نہ صرف قائل و معترف ہوکر اٹھا بلکہ اس کے نزدیک زنا سب سے مبغوض حرکت قرار پائی۔ (رواہ احمد باسناد جید )
اس طرز پر سوچنے ، سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے ، آزادی کے غلط مفہوم کا سہارا لے کر طاغوتی طاقتیں اسلام کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو اسلام سے الگ تھلگ کرنے کی جو سازشیں رچ رہی ہیں انہیں بے نقاب کرنا اور بہکتے ہوئے قدموں کو مزید آگے بڑھنے سے روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، شاعر مشرق بہت پہلے ہی ماتم کر چکے ہیں کہ ؂
ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خداداد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس 

چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد 
قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر 

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا 

اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد 

No comments:

Post a Comment