مولانامحمد سلطان رفعت اللہ سعد ؔ السلفی
استاذ : المعہد ، رچھا ، بریلی
شاعت اسلام میں خواتین کی قربانیاں
تمہیدی کلمات: اشاعت اسلام کے فریضہ کی ادائیگی میں اللہ رب العالمین نے مردوں اور عورتوں کو برابر کا درجہ دیا ہے،ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ ملے گا ۔ عورت کی نفسیات ،مسائل، الجھنیں ، خوبیاں اور خامیا ں مردوں سے زیادہ عورتیں ہی جانتی ہیں ۔ اس لیے ان کے درمیان کام کرنے کے لیے عورتیں ہی زیادہ موزوں اور مناسب ہیں ،قرآن مجید کا یہ منشاء بھی اسی وقت پورا ہوگا کہ ’’ مومن مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ‘‘۔(التوبۃ : ۷۱)
اس آیت کی تفسیر میں ابن نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی کا ’’ایمان والی عورتیں ‘‘فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالت استطاعت عورت پر مردوں کی مانند
’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘واجب ہے‘‘۔(تنبیہ الغافلین عن اعمال الجاہلین،صفحہ :۲۰)
دور حاضر میں خواتین اسلام کی ذمہ داریوں اور ان کے میدان عمل کی تعیین میں بڑا شدید اختلاف پایا جاتا ہے،مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر دشمنان اسلام کے ساتھ آج بہت سارے
روشن خیال مسلمان بھی یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ تمام دنیاوی معاملات میں عورتوں کو بھی مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی آزادی ملنی چاہیے ،جس کے برے نتائج بے حیا ئی ، فحاشی ، حیا سوزی، اور زنا کاری کی شکل میں روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں،اس کا واحد اور سب سے موزوں حل یہ ہے کہ: ’’خواتین اسلام کو ان کی حقیقی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے اور انھیں بتلایا جائے کہ ان کا اصل میدان عمل گھر اور خاندان کی چہار دیواری ہے،انھیں چاہیے کہ مغربی تہذیب کی چمک دمک اوراس کے پر فریب نعروں کے فتنوں سے اپنے آپ کی خودحفاظت فرمائیں اور اسلامی تعلیمات
و ہدایات کے مطابق زند گی گزاریں۔‘‘
ا شاعت اسلام کامعنی و مفہوم:
لغوی معنی:اشاعت عربی زبان میں باب افعال کا مصدر ہے جو پھیلانے ،نشر کرنے،اور عام کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور اسلام کے لغوی معنیٰ امن و سلامتی کے ہوتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:شریعت کی اصطلاح میں اشاعت اسلام سے مراد سلف صالحین کے منہج کی روشنی میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنا ہے ، دور حاضر میں اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے ۔
کیونکہ دور حاضر میں مختلف مکاتب فکر کی مسلم تنظیموں نے اشاعت اسلام کے نام پرالگ الگ ادارے کھول رکھے ہیں اور ان اداروں سے خالص قرآ ن و حدیث کی اشاعت کے بجائے
تقلید پرستی، شخصیت پرستی، قبر پرستی، عقل پرستی،آزادی اظہار رائے،آزادئ نسواں اور معلوم نہیں کیا کیاگمراہیا ں اسلام کے نام پر پھیلا رہے ہیں۔
اشاعت اسلام کی صورتیں:
اپنے شوہر، والدین ،بچوں اور گھر کے دیگر افرادکو دعوت اسلام پیش کرنا۔
8ں اپنے شوہر اور بچوں کو اسلام کی سر بلندی کے لیے نچھاورکرنا۔
8ں اشاعت اسلام کی راہ میں اپنے مالوں کی قربانی پیش کرنا۔
8ں دشمنان اسلام کے ظلم و ستم پر صبر کر نا اورثابت قدم رہنا۔
8ں اسلام کی سر بلندی کے لیے اللہ رب العالمین سے دعائیں کرنا۔
8ں کم پڑھی لکھی اور ان پڑھ خواتین کو اسلامی تعلیم دینااور انھیں اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کر نا ۔
8ں اپنے قول و فعل اور طاقت سے دینِ اسلام کی حفاظت کرنا ۔
8ں دشمنان اسلام کے اعتراضات کے جواب میں سنجیدہ اور علمی کتا بیں لکھنا، اور چھپواناوغیرہ ۔
اشاعت اسلام کے میدان میں خواتین اسلا م کے شرعی حدود و ضوابط:
8ں خواتین اسلام کو چاہیے کہ وہ خصوصاًدعوت و ارشاد کے میدان میں اسلامی لباس اور پردے کا اہتمام کریں۔
8ں غیر محرم مردوں کے اختلاط سے پرہیز کریں، خواہ عمر دراز بوڑھے مرد یا دعوتی اداروں کے
ذمہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
8ں خوشبو لگاکر گھر سے باہر نہ نکلیں خواہ خالص عورتوں ہی کی مجلس میں کیوں نہ جانا ہو ،کیونکہ ایسا کرنے سے سامعات پر غلط اثر پڑے گا۔
8ں دعوتی پروگراموں میں شریک ہونے کی غرض سے بلا کسی محرم یا شوہرکی رفاقت کے تنہا سفر نہ کرے۔
8ں اگر بوقت ضرورت غیر محرم مردوں کو ضروری مسائل بتانا ہو،یا ایسی جگہ پروگرام منعقد ہو جس کی آواز غیر محرم مردوں تک پہونچ رہی ہو تو اپنی آواز میں لوچ اور مٹھاس پیدا نہ کرے۔
8ں اگر کبھی ٹیلی ویژن پر پروگرام پیش کرنے کا موقع ملے تو اسلامی برقع پہن کر چہرہ چھپاکر خطاب فرمائے اور اپنی آواز میں کشش اور شوخی پیدا نہ کرے۔
8ں اگر فیس بک کے ذریعہ اسلامی عقائد و نظریات کو عام کرنا چاہے تو فیس بک میں بھی اپنی کوئی تصویر نہ ڈالے اور نہ ہی غیر محرم مردوں کواپنا فرینڈ بنائے بلکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو فرینڈ بناکر ان کی اصلاح کرنے کی بھر پور کوشش کرے اور اسی کو اپنے لیے کا فی سمجھے۔
اشاعت اسلام میں خواتین اسلام کی قربانیاں :
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اشاعت اسلام کی راہ میں خواتین کی قربانیاں مردوں سے کچھ کم نہیں، ان کی قربانیوں کے واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، ان میں سے چند خواتین کی قربانیاں پیش خدمت ہیں:
8ں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی قربانی:عورتوں میں سب سے پہلے آپ ا پر ایمان لانے والی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں ، وہ رسو ل اللہ کی اہلیہ محترمہ تھیں ، آپ کے
شب و روز سے واقف تھیں ، آپ ا کی نبوت کے بارے میں سب سے پہلے انہیں کو علم ہوا ، انہیں کے کانوں نے سب سے پہلے آپ ا کی زبانی سارا واقعہ سنا ، انہیں نے سب سے پہلے آپ کو تسلی دی ، اور آپ کی رسالت کی تصدیق کی، جیسے ہی انہوں نے اسلام قبول کیا ان کی چاروں بیٹیوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔(السیرۃ لابن اسحاق ۱؍۱۳۰)
محمد اکے منصب رسالت پر سرفراز ہونے سے پہلے چھ ماہ تک صبح وشام غار حرا میں آپ ا تک کھانا پہونچاتیں اور یاد الٰہی میں مشغول رہنے والے شوہر کی جدائی کوصرف اللہ کی رضا کی خاطر کئی کئی روز تک برداشت کرتیں، کفار عرب کی بھیڑ میں سب سے پہلے محمد رسول اللہ ا پر ایمان لائیں، راہ دعوت میں آنے والے مصائب و مشکلات پر آپ ا کو تسلی دیتیں، کفار مکہ جب آپ کو زخم پہونچاتے تو مرہم پٹی کرتیں،اور دعوت اسلام کی خاطر اپنا سارامال آپ ا کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔آپ رضی اللہ عنہا نے دعوتِ دین اور اشاعتِ اسلام کی راہ میں کافی خدمات
و قربانیاں پیش کیں، آپ اپران کے کافی احسانات ہیں ۔
جب آپ ا نے توحید کی دعوت لوگوں کے سامنے رکھی تو کسی نے آپ پر رکیک جملے کسے تو کسی نے آپ ا کا مذاق اڑانا شروع کیا اور کہا کہ اس کی بات کیا سنتے ہو یہ تو جادوگر ہے ، معاذاللہ !کسی نے کہا دیوانہ ہے ، کسی نے کہا پاگل ہے ، کسی نے آپ اپر شاعر ہونے کا الزام لگایا ، آپ ا کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ۔۔۔،آپ کو مارا پیٹا گیا ، آپ پر ظلم و تشدد کرنا مخالفین اسلام کا روز مرہ کا معمول بن کر رہ گیا ۔
ذرا غور فرمایئے کہ اگر کسی معزز خاتون کے شوہر کو پاگل دیوانہ کہا جائے تو اس پرکیا گزرے گی، لیکن ہوا یہ کہ جب سارے مکہ والے آ پ ا کی تکذیب کر رہے تھے، تب اکیلی سید ہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ا کی تصدیق کررہی تھیں ، جب آقا زخم کھا کر اس حال میں گھر تشریف لاتے کہ جسم پتھروں سے لہو لہان ہو چکا ہوتا ، اور پاؤں زخمی ہو چکے ہوتے ، تو سید ہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آ پ اکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور آپ ا کو تسلی دیتیں۔وہ آپ اکے قدموں میں بیٹھ جاتیں ، اور اپنے آقا کے چہرے سے گرد وغبار کو صاف کرتیں ، آپ ا کا کرتہ اٹھاتیں اور آپ کے زخموں پر اپنا دوپٹہ پھاڑ کر رکھتیں ، مبارک زخمی قدموں کو پانی سے دھوتیں اور کہتیں: ’’میرے آقا !میرے سرتاج !میرا رب آپ کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اللہ ہوتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے پسپا نہیں کرسکتی ‘‘۔ (خاتون اول سید ہ خدیجہؓ کی زندگی کے سنہرے واقعات ، عبد المالک مجاہدص۶۴ تا۶۵ )
جب گھر میں اہلیہ اتنا ساتھ دیتیں ، اتنے اچھے انداز میں دلاسا دیتیں ، تو پھرآپ ا اٹھتے اور اس آیت کریمہ پر عمل شروع کردیتے :
یعنی’’ آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کھول کر بیان کر دیجئے‘‘۔ (الحجر:۹۴)
جس سال آپ کے چچا او ر حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا ، اس سال آپ کوپے درپے دوصدمے برداشت کرنے پڑے ، اسی وجہ سے اس سال کو عام الحزن یعنی غموں کا سال قرار دیا گیا۔ غم کی شدت محض دو محسنوں کے یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دے جانے کی بنا پر ہی نہیں بلکہ آپ کو دراصل زیادہ صدمہ اس بنا پر ہو ا کہ دونوں ہستیوں کے دنیا سے کو چ کرجانے سے دعوتِ دین اشاعتِ اسلام کے کام میں مصائب و مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ، چچا نے ایک طر ف اپنے
اثرو رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر مشکل وقت میں آگے بڑ ھ کر آپ کا دفاع کیا ، اور
رفیقۂ حیات سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے اپنے مال و دولت، وفا شعاری اور خدمت گزاری سے آپ اکے دل کو تسلی دی ، اس بنا پر آپ ا نے ان کی وفات کو شدت سے محسوس کیا ۔ان کی
وفا ت کے بعد آ پ ا کی طبیعت بجھی بجھی سی رہنے لگی ۔
حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا ایک روز تعزیت کرنے آئیں ، افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ’’سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دنیا سے رخصت ہوجانے سے آپ ا بڑے غمگین دکھائی دیتے ہیں ۔ آپ ا نے فرمایا کیوں نہیں !وہ میرے بچوں کی شفیق ماں تھی ، میر ی غمگسار اور رازدار تھی ، اس نے مشکل وقت میں میر ا ساتھ دیا ، میری رفاقت میں وہ آکر دنیا کی ساری چیزیں بھول گئی تھی،اس نے محبت اوروفاداری کا حق ادا کردیا ، مجھے وہ بھلا کیوں نہ یاد آئے ،میں اسے کیسے
بھول سکتا ہوں؟(صحابیات مبشرات ص:۲۹،۳۰)
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ۲۴؍یا ۲۵؍ سالہ رفاقت بلاشبہ آپ ا کے لیے
حق تعالیٰ کی طرف سے ایک گراں قدر نعمت تھی ، ہر آڑے وقت میں انہوں نے آپ ا کا ساتھ دیا ، جب بھی کوئی آپ اکے ساتھ سختی سے پیش آتا تو یہ تڑپ اٹھتیں ، انہوں نے دعوت و تبلیغ کی سختیوں میں آپ اکی اپنی جان ومال سے غم گساری اور خیر خواہی کی،اللہ کے رسول ا نے بھی بارہا اس کا اعتراف کیا اور ان کی خوب تعریف کی ۔حتیٰ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اللہ کے
رسول ا سے ان کا حسن سلوک سنتے سنتے غیر ت آگئی، میں نے کہا : ’’ آپ ایک بوڑھی سرخ مسوڑھوں والی عورت کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں آپ کو ایک بہترین
جوان عورت عطافرمائی ہے‘‘ ۔(صحیح بخاری ، رقم الحدیث : ۳۸۲۱)
اللہ کے رسو ل ا نے جو ارشاد فرمایا اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے :’’ نہیں عائشہ! ایسا نہیں ہے ۔ مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہتر عورت نہیں ملی ،جب لوگوں نے میری نبوت کا انکار کیا ، تواس نے صد ق دل سے اقرار کیا ، جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو اس نے دل کھول کر میری تصدیق کی ، جب لوگوں نے مالی تعاون سے میرا ہاتھ کھینچا تو اس نے مجھ پر اپنا مال و دولت نچھاور کردیا ، دوسری بیویوں سے اللہ نے مجھے اولاد سے محروم رکھا ، اور خدیجہ سے اولا د کی نعمت سے نوازا ‘‘۔ (مسنداحمد ۶؍۱۱۸)
بعض روایات میں ہے کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ سن کر خفگی اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ، تو سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا کہ اللہ کی قسم آئندہ میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر بھلائی کے ساتھ ہی کروں گی ۔ (صحیح بخاری : ۳۸۲۱)
8ں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا واقعہ : یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے اشاعتِ اسلام کی راہ میں وہ قربانی پیش کی جو رہتی دنیا تک یاد کی جائے گی ، ایک ماں کی نظر میں سب سے بڑی دولت، راحت کا سامان اس کی اولاد ہوتی ہے، آپ نے دین اسلام کی سربلندی ، اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے ایک نہیں بلکہ اپنے چار چار بیٹوں کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا ۔
امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب جنگ قادسیہ پیش آئی تو اس میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنے چار بیٹوں کے ساتھ شریک جنگ تھیں ، میدان جنگ میں لڑائی شروع ہونے سے ذرا پہلے سیدہ خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور انہیں
جہاد و قتال کے لیے تیار کر نا شروع کیا ، انہوں نے ان کے سامنے اللہ کی راہ میں شہادت کا مقام و مرتبہ بیان کیا ، اس عظیم عورت نے اس نازک اور مشکل وقت میں اپنے بیٹوں کو خطاب کرکے انہیں
ایمان افروز نصیحت کرتے ہوئے کہا : ’’میرے پیارے بیٹو!تم مسلمان ہوا ور اپنے رب کے
اطاعت گزار ہو ، تم اپنی مرضی سے یہاں آئے ہو، زبر دستی نہیں لائے گئے ہو ، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے!تم سب جس طرح ایک ماں کی اولاد ہو ، ویسے ہی ایک باپ کے بیٹے ہو ، میں نے تمہارے باپ کی خیانت نہیں کی ،میں نے تمہارے حسب ونسب کو عیب دار نہیں ہونے دیا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی کی ہے۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ اللہ رب العزت نے کافروں کے ساتھ لڑائی کرنے میں کتنا اجر وثواب رکھا ہے، سنو اور اچھی طرح سنو! آ خرت کا گھر جو ہمیشہ رہنے کے لیے ہے اس فانی دنیا سے کہیں بہتر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اے لوگو!جو ایمان لا ئے ہو صبر کرو ، اوردوسروں کو صبر کی تلقین کرو آپس میں رابطہ پیداکرو ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ ‘‘۔ (آل عمران:۲۰۰)
کل جب صبح کا سور ج طلوع ہو تو تم دشمن کے ساتھ لڑائی کے لیے کمر بستہ ہوجاؤ اور دشمنان اسلام پر غلبہ حاصل کرو اوران پر فتح پاؤ ،او ر جب تم دیکھوکہ لڑائی میں خوب گرمی اور تیزی آگئی ہے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں تو پھر اس میں کود پڑو‘‘۔
پھر سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے چاروں بیٹے نہایت عزت ووقار اور ثابت قدمی کے ساتھ میدانِ جنگ میں کود پڑے اورتمام کے تما م شہید ہوگئے ، جب سیدہ خنساء رضی اللہ عنہاکو ان کے شہادت کی خبر ملی تو فرمایا ۔’’اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے شہیدوں کی ماں بنایا اور ان کو شہادت کا شرف حاصل ہوا ، میں اپنے رب سے امید رکھتی ہوں کہ وہ مجھے جنت میں ان کے ساتھ اکٹھا کردے گا۔ (سنہری کرنیں ، عبد المالک مجاہد ص: ۷۱تا۹۶)
اشاعت اسلام کی راہ میں تاتار اور ترکوں کی مسلمان خواتین کی قربانیاں :
دعوتِ دین اور اسلام کی نشر اشاعت میں خواتین کی قربانیاں مردوں سے کچھ کم نہیں ہیں ،انہوں نے دعوت دین اور اشاعتِ اسلام کی راہ میں کافی قربانیاں پیش کی ہیں ، تاریخ اسلام میں اس بات کی تائید اورتصدیق کرنے والے متعد شواہد موجود ہیں انہیں میں سے تاتاراور ترکوں کوان کی بیویوں کی کوشش سے اسلام قبول کروانا بھی ہے ۔
تاتاری مغلوں سے جن ہاتھوں نے مسلم کشی کی تلوار چھین کر اسلام کی اطاعت کا طوق پہنایا تھا و ہ ضعیف اور نازک عورتوں کے ہاتھ تھے، جنھیں یہ لوگ ممالکِ اسلامیہ سے لونڈیا ں بنا کر
لے گئے تھے ، غازان شاہ کے بھائی ا ولجاتیوخاں کو اس کی( مسلمان )بیوی ہی نے مسلمان کیا تھا ، او ر اس کی بدولت ایلخانی حکومت ایک اسلامی حکومت بن گئی تھی ۔چغتائی خاندان ،مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا ، مگر ’’ قرُّہ‘‘ہلاکو خان کی مسلمان بیوی نے اسے سب سے پہلے اسلام سے متعارف کرایا ، اور اسی کے اثر سے مبارک شاہ اور براق خاں مسلمان ہوئے ، تاتاری فوجوں کے ہزار ہا سپاہی اپنے ساتھ مسلمان عورتوں کو لے گئے تھے ، انہوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر اپنے کافر شوہر وں کا مذہب اختیار کرنے کے بجائے انہیں اور زیادہ تر ان کے بچوں کو مسلمان کرلیا ، اور انہیں کی بدولت تمام
تاتاری علاقوں میں ، اسلام پھیل گیا ، اسی طرح ملک حبش میں بھی ، خواتین ہی نے اشاعت اسلام کا کام کیا ہے، چنانچہ متعد دایسے حبشی رئیسوں کا تذکرہ تواریخ میں مذکور ہے کہ جنہیں ان کی مسلمان بیویوں نے اسلام کے حلقہ بگوش بنا لیا تھا ۔ سنوسی مبلغین نے تو وسط افریقہ میں مستقل طور پر اشاعتِ اسلام کے لیے خواتین کے اداروں سے کام لیا ہے ، چنانچہ وہاں سیکڑوں زنانہ مدارس قائم ہیں ، جن میں لڑکیوں کو اسلامی تعلیم دی جاتی ہے ۔(دعوتِ دین کی ذمہ داری از سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ ص: ۱۰تا۱۱)
دعوتِ دین اور اشاعتِ اسلام کی راہ میں خواتین اسلام کی قربانیوں کا تذکرہ مشہور مستشرق ٹی ، ڈبلیو آرنالڈنے بایں الفاظ کیا ہے :’’یہ دلچسپ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور اشاعت میں صرف مسلمان مردوں ہی نے کوشش نہیں کی ،بلکہ عورتوں نے بھی اس کا رِ خیر میں حصہ لیا ہے ۔ کئی تاتاری شہزادے ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنی مسلمان بیویوں کی ترغیب سے اسلام قبول کیا ، یہی صورت بہت سے بت پرست ترکوں کے ساتھ بھی پیش آئی ۔ جو اسلامی ملکوں پر یورشیں کرتے تھے‘‘ ۔
(دعوت اسلام مترجم از ڈاکٹر عنایت اللہ ص: ۳۸۸) (جاری)
No comments:
Post a Comment