مولانامحمدا قبال کیلانی
حافظ محمدعمران لاہوری
عیدین کے مسائل
’’عیدین ‘‘لفظ ’’ عید‘‘ کا تثنیہ ہے جو دراصل باب عاد یعود (نصر) سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ’’ لوٹنا ‘‘یا بار بار لوٹ کر آنے والا دن ‘‘مستعمل ہے ۔ عیدین سے مراد عید الفطر اور عیدالاضحی ہے۔ان دونوں کا نام اس لیے عید رکھا گیا ہے کیوں کہ یہ دن بار بار خوشی لے کر لوٹتے ہیں ۔ اس کی جمع
اعیاد آتی ہے۔ (القاموس المحیط ص۲۷۴، نیل الاوطار۲؍۵۷۹)
عید ین کا حکم :نماز عیدین ہر مکلف پر واجب ہے :حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ (ترجمہ) ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے الگ رہیں۔
(یعنی نمازادا نہ کریں۔ (بخاری:۹۸۱، مسلم :۸۹۰، ابو داؤد:۱۱۳۶)
عید الفطر کی نماز کا وقت اشراق کی نماز کا وقت ہے :حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ خود عیدالفطر یا عیدالاضحی کی نماز کے لیے لوگوں کے ساتھ عید گاہ روانہ ہوئے تو امام کے دیر کرنے پر ناپسندیگی کا اظہار کیااور فرمایا:ہم تو اس وقت نماز پڑھ کر فارغ بھی ہوجایا کرتے تھے اور وہ اشراق کا وقت تھا ۔(ابو داؤد، ابن ماجہ )
عیدالاضحی کی نمازجلد ی اور عیدالفطر کی نماز دیر سے پڑھنا مسنون ہے :حضرت ابو الحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ انے نجران کے گورنر عمر بن حزم کو تحریری طورپر
یہ ہدایت فرمائی کہ (ترجمہ)’’عید الاضحی کی نماز جلدی پڑھو اور عیدالفطر کی نماز تاخیر سے پڑھو اور لوگوں کو خطبہ میں نیکی کی نصیحت کرو ‘‘۔ اسے امام شافعی نے روایت کیا ہے ۔
نمازِ عیدین کہاں ؟ عیدین کی نماز آبادی سے باہرادا کرنا مستحب ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ا عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ کی طرف باہر نکلتے تھے ۔
عذر کی وجہ سے مسجد میں نمازِ عید:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عید کے موقع پر لوگوں کو بارش نے آلیا نبی کریم ا نے انہیں نمازِ عید مسجد میں پڑھادی۔( ابوداؤد:۲۴۸)
یہ حدیث ضعیف ہے مگر عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور قاعدہ کلیہ ’’ الضرورات تبیح المحظورات‘‘
سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ (القوانین الفقہیۃ الکبریٰ للدکتور صالح بن غانم:۲۴۷)
عیدین کے دن صاف ستھرے لباس کے ساتھ خوبصورت بننا مستحب ہے:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ( ترجمہ)’’ نبی کریم اہر عید میں دھاری دار چادریں پہنا کرتے تھے ۔‘‘(طبرانی اوسط:۷۶۰۹)
نماز عید کے لیے پیدل چل کے جانا سنت ہے :حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
عید گاہ کی جانب پیدل چل کے جانا سنت ہے۔(صحیح ترمذی:۴۳۷)امام ترمذی ،عبدالرحمن
مبارک پوری،امام شوکانی رحمہم اللہ اسی بات کے قائل ہیں ۔
عید گاہ جانے اور آنے کا راستہ بدلنا سنت ہے :حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم اعید کے روز عید گاہ میں آنے جانے کا راستہ تبدیل فرمایا کرتے تھے ۔ (بخاری :۹۸۶)
نماز عید کے بعد گھر جاکر نماز :عید گاہ میں سوائے دو رکعت کے کوئی نماز پہلے اور بعد میں پڑھنا
آپ اسے ثابت نہیں البتہ عید گاہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر جا کر دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں
جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی اعید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے ، البتہ جب اپنے گھر جاتے تو دو رکعت نماز اد ا فرما لیتے تھے ۔ (صحیح ابن ماجہ:۱۰۶۹)
نمازعیدین میں بارہ تکبیریں سنت ہیں:نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید الفطر اور عید الاضحی دونوں کی نماز پڑھی آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں ۔(موطا امام مالک )
نمازِ عید کی زائد تکبیروں میں ہاتھ اٹھانا سنت ہے :حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ا کو ہر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے دیکھا ہے ۔ (مسند احمد )
عیدگاہ میں سب سے پہلے نماز:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تو سب سے پہلے نماز ادا فرماتے ۔۔۔(متفق علیہ)
دوتکبیروں کا درمیانی فاصلہ:حضرتبن مسعود رضی اللہ عنہ سے قولاً و فعلاً مروی ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک کلمہ کی مقدار کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے ۔(مجمع الزوائد ۲؍۲۰۵، تلخیص الحبیر ۲؍۸۵)
عید الفطر سے پہلے کچھ کھانا اور عیدالاضحی سے پہلے کچھ نہ کھانا سنت ہے ۔حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نمازِ عید الفطر کے لیے نکلنے سے پہلے چند طاق کھجوریں تناول فرما لیا کرتے تھے ۔۔۔(بخاری :۹۵۳)حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اعید الفطر کے دن اس وقت تک نہ نکلتے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عیدالاضحی کے دن اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک کہ نماز نہ پڑھ لیتے ۔(صحیح ترمذی:۴۴۷)
نمازعید کی قرأت :آپ ا بعض دفعہ عیدین کی پہلی رکعت میں سورۂ اعلی اوردوسری رکعت میں
سورۂ غاشیہ پڑھا کرتے تھے اور بعض دفعہ پہلی رکعت میں سورۂ قاف اور دوسری رکعت میں سور�ۂ اقتربت الساعۃپڑھا کرتے تھے ۔(مسلم :۸۷۸،۸۹۱)
گاؤں میں بھی نماز عید پڑھنی چاہیے :حضر ت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ گاؤں میں نماز پڑھانے کا حکم دیا اور حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ گاؤں کے لوگ عید کے روز جمع ہوں اور دو رکعت نماز پڑھیں جس طرح امام پڑھتا ہے ۔ (بخاری)
8ں عید کے روز مفید کھیل اور پاکیز ہ اشعار کہنا،پڑھنا اورسننا مستحب ہے ۔(بخاری:۹۵۰)
نماز عید کے لیے خواتین کا عید گاہ جانا واجب ہے :حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ (ترجمہ) ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے
الگ رہیں ،(یعنی نمازادا نہ کریں۔ (بخاری:۹۸۱، مسلم :۸۹۰، ابو داؤد:۱۱۳۶)
(نوٹ:خواتین کے عید گاہ جانے کا حکم نہ منسوخ ہے اورنہ باعثِ فتنہ، یہ سب یاروں کی خیالی باتیں ہیں ، دلائل ان کے بر خلاف ہیں ۔)
8ں صدقۂ فطر فرض ہے ، اس کا مقصد روزے میں سرزد ہونے والے گناہوں سے خودکو پاک کرنا ہے۔ صدق�ۂفطر نمازِعید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے ورنہ ادا نہیں ہوگا ۔صدقۂ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں
جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہانے صدقۂ فطر
روزے دار کو بے ہودگی اور فحش باتوں سے پاک کرنے اور محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے فرض کیا ہے ،جس نے نمازِ عید سے پہلے ادا کیا اس کا صدقۂ فطر ادا ہو گیا اور جس نے بعد میں ادا کیا اس کا صدقۂ فطر عام صدقہ شمارہوگا ۔ (احمد ،ابن ماجہ)
8ں صدقۂ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے، غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت ،چھوٹا ہو یا بڑا، روزہ دار ہو یا
غیر روزہ دار،صاحب نصاب ہو یا نہ ہو ۔(متفق علیہ)صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع ہے جو تقریباً
پونے تین سیر یا ڈھائی کلو گرام کے برابر ہے ۔(متفق علیہ)
عید کے روز مبارک باد دینا مسنون ہے :صحابہ کرام عید کے روز جب ایک دوسرے سے ملتے
تو ان الفاظ میں دعا دیتے :’’ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ‘‘۔(تمام ا لمنۃص:۲۵۵)
No comments:
Post a Comment