عبدالرؤف عبدالحفیظ السلفی
استاد: المعہد ،رچھا ، بریلی
اولیاء اللہ سے بغض و نفرت رکھنے اور ان کی سچی اتباع نہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا
اعلانِ جنگ
حدیث : عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : ان اللہ تعالیٰ قال : من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔۔۔(صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع ، رقم الحدیث:۶۵۰۲)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: اللہ رب العالمین فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے عداوت و دشمنی کی ، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں، میرے بندے نے فرض عبادت سے بڑھ کر (کبھی) کوئی عبادت نہیں کی جو مجھے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ اور جب میرا بندہ مسلسل نوافل کی ادائیگی کرتا رہتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں ،جن سے وہ سنتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، جن سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پیر بن جاتا ہوں، جن سے وہ چلتا ہے ، (یعنی اس کے اعضاء بتوفیق الٰہی احکام ربانی کے سخت پابند ہوجاتے ہیں )اور وہ بندہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں ضرور عنایت کر دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو لازماً میں اسے پنا ہ دے دیتا ہوں ۔
فوائد: اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں ، بعض صراحتہً اور بعض اشارۃً و کنایۃً،
ملا حظہ فرمائیں:
ٓٓٓٓٓ8ں ولی کی معرفت : یو ں تو اللہ رب العالمین نے سورۂ یونس آیت نمبر:۶۳ میں اپنے مخصوص اور جامع لب و لہجہ میں اولیاء کی پہچان اس طرح بیان فرمادی ہے کہ ’’ الذین آمنوا وکانو ا یتقون‘‘یعنی ولی وہ ہے جو مومن ہو اور متقی ہو، مگر چوں کہ ہماری گفتگو کا محور حدیث زیر بحث ہے اور اس کا مرکزی مضمون ولی اور ولایت ہی ہے ، اس لیے دیکھناچاہیے کہ یہاں اولیاء الرحمن کی کیا کیا علامتیں بیان ہوئی ہیں :
(۱) ولی وہ ہے جو فرائض کی با ضابطہ پابندی کرتا ہے ۔
(۲) نوافل کا بکثرت اہتمام کرتا ہے ۔
(۳) احکام الٰہی یعنی قرآن و حدیث کا با قاعدہ پابند ہوتا ہے ۔
معلوم ہوا کہ عوام الناس میں مشہور بازاری ’’اولیاء ‘‘؛رقص و سرود، گانجہ وبھنگ ، پان تمباکو، سگریٹ بیڑی، گالی گلوج، برہنہ ونیم بر ہنہ رہنا ، بد خوئی بد طینتی، نذرانہ خوری و شکم پروری جن کی علامت بن چکی ہے ، وہ اولیا ء الرحمن تو نہیں البتہ اولیاء الشیطان ضرور ہوتے ہیں ۔
(۴) ولی قادر مطلق اور منصب منع و عطا پر فائز نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کو بھی اللہ رب العالمین سے دعا اور سوال کی حاجت رہتی ہے ۔
(۵) ولی مستجاب الدعوات ہوتا ہے ۔ لہٰذا زندہ مومنین ، متقین یعنی اولیاء کی دعا کا وسیلہ لیا جا سکتا ہے ۔
(۶) ولی کو بھی دیگر لوگوں کی طرح بہت سے خطرات و خدشات لاحق ہوتے ہیں ، تبھی تو پناہ مانگنے کی بات کہی گئی ہے ورنہ ہر قسم کے شروکرّسے محفوظ شخص کو کسی کی پناہ کی کیا ضرورت ؟
(۷) ولی اسباب ظاہرہ اور طاقت بشریہ طبیعیہ سے زیادہ کسی کی حفاظت اور مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کیوں کہ ’’ فاقد الشئی لا یعطیہ‘‘ جو خود محتاج ہو وہ دوسرے کو کیا دے گا ؟
ں عبادت کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ فرض: جس سے غفلت موجب عذاب و عتاب ہے ۔
۲۔ نفل :فرض کے علاوہ سبھی عبادات خواہ سنت ہو ںیا غیر سنت ، پھر سنت میں بھی موکدہ ہو ںیا غیر موکدہ ؛سب کا ایک عام اور جامع نام ’’ نفل ‘‘ ہے ۔
ں نوافل کے مقابلے میں فرائض کا اجرو ثواب زیادہ ہے ، بلکہ بہ قول حافظ ابن حجر
و دیگرشراح حدیث رحمہم اللہ فرائض کی ادائیگی کے بغیر ادا کی گئی عبادت کو ’’ نفل‘‘ کہنا ہی درست نہیں ہے ۔
ں بکثرت نوافل کے اہتمام کا عظیم ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے ،پس زہے نصیب!
ں اللہ رب العالمین کے بندے سے محبت کرنے کی اہم علامت یہ ہے کہ بندہ اللہ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو گویا بندہ محبت ربانی سے محروم ہے ۔
ں ولایت اور محبوبیت سبحانی کی اہم علامت مستجاب الدعوات ہونا بھی ہے ۔
ں سوال یعنی دعا اور استعاذہ یعنی پناہ مانگنے میں لغتہً و اصطلاحاً دونوں اعتبار سے فرق ہے۔
عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔
ں اس حدیث کا مرکزی مضمون: اولیاء اللہ۔جن کے اندر علامات ولایت صحیحہ موجود ہوں ۔
کی تعظیم و تکریم ، ان سے محبت کرنا ، ان کی محبت حاصل کرنا ، ان سے بغض و عداوت کرنے اور ان کی ناراضگی مول لینے سے بچتے رہنا نہایت اہم اور ضروری ہے ، کیوں کہ اس کا تعلق اللہ کی دوستی اور دشمنی سے ہے ۔ واضح رہے کہ اولیاء اللہ کو سب سے زیادہ ناراض کرنے والی چیز اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے ، لہٰذا جو اللہ و رسول کا کھلا نافرمان ہو اور دعوی کرے اولیاء اللہ سے محبت کرنے کا ، تو یہ دعوی بلا دلیل بلکہ نام زنگی نہند بر عکس کافور یعنی نام خلاف کام کا مصداق ہوگا ۔
8ں اولیاء اللہ یعنی متقی اور نیک لوگوں سے عداوت و بغض رکھنے والوں کے خلاف اللہ رب العالمین کا طیش و غضب معلوم ہوتا ہے کہ اس نے محض عذاب و عتاب کی دھمکی نہیں دی بلکہ صاف لفظوں میں اعلان جنگ فرما رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں اولیاء اللہ کی محبت پیدا فرمائے اور فریبی و ڈھونگی نام نہاد اولیاء کے مکرو فریب سے محفوظ رکھے ۔ آمین !
ں بکثرت نوافل کے اہتمام کا عظیم ترین فائدہ یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے ،پس زہے نصیب!
ں اللہ رب العالمین کے بندے سے محبت کرنے کی اہم علامت یہ ہے کہ بندہ اللہ کے احکام کا پابند ہوجاتا ہے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو گویا بندہ محبت ربانی سے محروم ہے ۔
ں ولایت اور محبوبیت سبحانی کی اہم علامت مستجاب الدعوات ہونا بھی ہے ۔
ں سوال یعنی دعا اور استعاذہ یعنی پناہ مانگنے میں لغتہً و اصطلاحاً دونوں اعتبار سے فرق ہے۔
عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔
ں اس حدیث کا مرکزی مضمون: اولیاء اللہ۔جن کے اندر علامات ولایت صحیحہ موجود ہوں ۔
کی تعظیم و تکریم ، ان سے محبت کرنا ، ان کی محبت حاصل کرنا ، ان سے بغض و عداوت کرنے اور ان کی ناراضگی مول لینے سے بچتے رہنا نہایت اہم اور ضروری ہے ، کیوں کہ اس کا تعلق اللہ کی دوستی اور دشمنی سے ہے ۔ واضح رہے کہ اولیاء اللہ کو سب سے زیادہ ناراض کرنے والی چیز اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے ، لہٰذا جو اللہ و رسول کا کھلا نافرمان ہو اور دعوی کرے اولیاء اللہ سے محبت کرنے کا ، تو یہ دعوی بلا دلیل بلکہ نام زنگی نہند بر عکس کافور یعنی نام خلاف کام کا مصداق ہوگا ۔
8ں اولیاء اللہ یعنی متقی اور نیک لوگوں سے عداوت و بغض رکھنے والوں کے خلاف اللہ رب العالمین کا طیش و غضب معلوم ہوتا ہے کہ اس نے محض عذاب و عتاب کی دھمکی نہیں دی بلکہ صاف لفظوں میں اعلان جنگ فرما رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں اولیاء اللہ کی محبت پیدا فرمائے اور فریبی و ڈھونگی نام نہاد اولیاء کے مکرو فریب سے محفوظ رکھے ۔ آمین !
No comments:
Post a Comment