مولانا ابوالکلام آزادؔ رحمہ اللہ
قرآن اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع
اب چند لمحوں کے لیے اس نزاع پر غور کرو جو قرآن اور اس کے مخالفوں میں پیدا ہوگئی تھی ۔ یہ مخالف کون تھے ؟ پچھلے مذاہب کے پیرو تھے جن میں بعض کے پاس کتاب تھی، بعض کے پاس نہ تھی۔
اچھا بناء نزاع کیا تھی؟
کیا یہ تھی کہ قرآن نے ان کے بانیوں اور رہ نماؤں کو جھٹلایا تھا یا ان کی مقدس کتابوں سے انکار کیا تھا ؟ اور اس لئے وہ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے تھے۔
کیا یہ تھی کہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ خدا کی سچائی صرف میرے ہی حصے میں آئی ہے اور تمام پیروان مذاہب کو چاہیے کہ اپنے اپنے نبیوں سے بر گشتہ ہوجائیں ؟
یا پھر اس نے دین کے نام سے کوئی ایسی بات کردی تھی جو پیروان مذہب کے لیے بالکل نئی بات تھی اور اس لئے قدرتی طور پر انہیں ماننے میں تأمل تھا ؟
قرآن کے صفحے کھلے ہوئے ہیں اور اس کے نزول کی تاریخ بھی دنیا کے سامنے ہے ۔
یہ دونوں ہمیں بتلا تے ہیں کہ ان تمام باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی ۔ اس نے نہ صرف ان تمام رہ نماؤں کی تصدیق کی جن کے نام لیوا اس کے سامنے تھے ، بلکہ صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا : مجھ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آچکے ہیں ، میں سب کی تصدیق کرتا ہوں اور ان میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی خدا کی سچائی کا انکار سمجھتا ہوں ۔ اس نے کسی مذہب کے ماننے والے سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے مذہب کی دعوت سے انکار کر دے ۔ بلکہ جب کبھی مطالبہ کیا تو یہی کیا کہ اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقی تعلیم پر کاربند ہوجاؤ، کیوں کہ تمام مذہبوں کی اصل تعلیم ایک ہی ہے ۔ اس نے نہ تو کوئی نیا اصول پیش کیا ، نہ کوئی نیا عمل بتایا ۔ اس نے ہمیشہ انہیں باتوں پر زور دیا جو دنیا کے تمام مذاہب کی سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی باتیں رہی ہیں ۔ یعنی ایمان اور عمل صالح ۔ اس نے جب کبھی لوگوں کو اپنی طرف بلایا ہے تو یہی کہا ہے : اپنے اپنے مذہبوں کی حقیقت از سر نو تازہ کر لو ،
تمہارا ایسا کرنا ہی مجھے قبول کر لینا ہے ۔
سوا ل یہ ہے کہ جب قرآن کی دعوت کا یہ حال تھا تو پھر آخر اس میں اور اس کے مخالفوں میں وجہ نزاع کیا تھی؟ ایک شخص جو کسی کو برا نہیں کہتا ، سب کو مانتا اور سب کی تعظیم کرتا ہے اور ہمیں انہیں باتوں کی تلقین کرتا ہے جو سب کے یہاں مانی ہوئی ہیں ، کوئی اس سے لڑے تو کیوں لڑے اور کیوں لوگوں کو اس کا ساتھ دینے سے انکار ہو ۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ قریش مکہ کی مخالفت اس بنا پر تھی کہ قرآن نے بت پرستی سے انکار کر دیا تھا اور وہ بت پرستی کے طریقوں سے مالوف ہوچکے تھے ، بلا شبہ ایک وجہ نزاع یہ بھی ہے لیکن صرف یہی وجہ نزاع نہیں ہوسکتی ۔ سوا ل یہ ہے کہ یہودیوں نے کیوں مخالفت کی جو بت پرستی سے قطعاً
کنارہ کش تھے؟ عیسائی کیوں بر سر پیکار ہو گئے جنہوں نے کبھی بت پرستی کی حمایت کا دعویٰ نہیں کیا؟
پیروان مذہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ جھٹلاتا کیوں ہے ، بلکہ اس لیے تھی کہ جھٹلاتا کیوں نہیں ؟
اصل یہ ہے کہ پیروان مذاہب کی مخالفت اس لیے نہ تھی کہ وہ انہیں جھٹلاتا کیوں ہے ، بلکہ اس لیے تھی کہ جھٹلاتا کیوں نہیں ؟ ہر مذہب کا پیروچاہتا تھا کہ وہ صرف اسی کو سچا کہے ، باقی سب کو جھٹلائے۔ اور چونکہ وہ یکساں طور پر سب کی تصدیق کرتا تھا ، اس لیے کوئی بھی اس سے خوش نہیں
ہو سکتا تھا ۔ یہودی تو اس بات سے بہت خوش تھے کہ قرآن حضرت موسیٰ کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتا تھا ، وہ حضرت عیسیٰ مسیح کی بھی تصدیق کرتا تھا اور یہیں آکر اس میں اور یہودیوں میں نزاع شروع ہوجاتی تھی ۔ عیسائیوں کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح اور حضرت مریم کی پاکی و صداقت کا اعلان کیا جائے ؟ لیکن قرآن صرف اتناہی نہیں کرتاتھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ نجات کا دارومدار اعتقاد و عمل پر ہے ، نہ کہ کفارہ اور اضطباع پر ، اور قانون نجات کی یہ عالم گیر و سعت عیسائی کلیسا کے لئے نا قابل بر داشت تھی ۔
اسی طرح قریش مکہ کے لیے اس سے بڑھ کوئی دل خوش صدا نہیں ہوسکتی تھی کہ
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی بزرگی کا اعتراف کیا جائے ، لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ قرآن جس طرح ان دونوں کی بزرگی کا اعتراف کرتا ہے ، اسی طرح یہودیوں کے پیغمبروں اور عیسائیوں کے داعی کا بھی معترف ہے تو ان کے نسلی اور جماعتی غرور کو ٹھیس لگتی تھی ۔ وہ کہتے تھے : ایسے لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے پیرو کیوں کر ہو سکتے ہیں جو ان کی بزرگی اور صداقت کی صف میں دوسروں کو بھی لا کر کھڑ ا کرتے ہیں ۔
تین اصول جوقرآن میں اور اس کے مخالفوں میں بناء نزاع ہوئے :
مختصر یوں سمجھنا چاہیے کہ قرآن کے تین اصول ایسے تھے جو اس میں اور تمام
پیروا ن مذاہب میں وجہ نزاع ہو گئے۔
۱۔ وہ مذہبی گروہ بندی کی روح کا مخالف تھا اور دین کی وحدت یعنی ایک ہونے کا اعلان کرتا تھا۔ اگر پیروان مذاہب یہ مان لیتے تو انہیں تسلیم کر لینا پڑتا کہ دین کی سچائی کسی ایک ہی گروہ کے حصے میں نہیں آئی ہے ، سب کو یکساں طور پر ملی ہے ۔ لیکن یہی ماننا ان کی گروہ پرستی پر شاق گزرتا تھا ۔
۲۔ قرآن کہتا تھا : نجات او ر سعادت کا دارومدار اعتقادو عمل پر ہے ، نسل ، قوم ، گروہ بندی اور ظاہری رسم ریت پرنہیں ہے ۔ اگر یہ اصل وہ تسلیم کر لیتے تو پھر نجات کا دروازہ بلا امتیاز تمام نوع انسانی پر کھل جاتا اور کسی ایک مذہبی حلقے کی ٹھیکے داری باقی نہیں رہتی ۔ لیکن اس بات کے لیے ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔
۳۔ وہ کہتا تھا : اصل دین خدا پرستی ہے اور خداپرستی یہ ہے کہ ایک خدا کی براہ راست پرستش کی جائے ۔ لیکن پیروان مذہب نے کسی نہ کسی شکل میں شرک و بت پرستی کے طریقے اختیار کر لیے تھے اور گو انہیں اس بات سے انکار نہ تھا کہ اصل دین خدا پرستی ہی ہے ، لیکن یہ بات شاق گزرتی تھی کہ اپنے مالوف
و معتاد طریقوں سے دست بردار ہو جائیں ۔
خلاصۂ بحث:متذکرۂ صدر تفصیلات کا ما حصل ذیل دفعات میں بیا ن کیا جا سکتا ہے:
ٓٓٓٓٓ8ں نزول قرآن کے وقت دنیا کا مذہبی تخیل اس سے زیادہ وسعت نہیں رکھتا تھا کہ نسلوں خاندانوں اور قبیلوں کی معاشرتی حد بندیوں کی طرح مذہب کی بھی ایک خاص گروہ بندی کرلی گئی تھی ۔ ہر گروہ بندی کا آدمی سمجھتا تھا دین کی سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے ۔ جو انسان اس کی
مذہبیحد بندی میں داخل ہے نجات یافتہ ہے ، جو داخل نہیں ہے نجات سے محروم ہے ۔
8ں ہر گروہ کے نزدیک مذہب کی اصل و حقیقت محض اس کے ظاہری اعمال و رسوم تھے۔ جوں ہی ایک انسان انہیں اختیار کر لیتا ، یقین کیا جاتا کہ نجات وسعادت اسے حاصل
ہو گئی ، مثلا عبادت کی شکل ، قر بانیوں کے رسم ، کسی خاص طعام کا کھانا یا نہ کھانا ، کسی خاص وضع وقطع کا اختیار کرنا یا نہ کرنا ۔
8ں چونکہ یہ اعمال و رسوم ہر مذہب میں الگ الگ تھے اور ہر گروہ کے اجتماعی مقتضیات یکساں نہیں ہو سکتے تھے ، اس لیے ہر مذہب کا پیرو یقین کرتا تھا کہ دوسرا مذہب مذہبی صداقت سے خالی ہے ، کیوں کہ اس کے اعمال ورسوم ویسے نہیں ہیں جیسے خود اس نے اختیارکر رکھے ہیں ۔
8ں ہر مذہبی گروہ کا دعوی صرف یہی نہ تھا کہ وہ سچا ہے ، بلکہ یہ بھی تھا کہ دوسرا جھوٹا ہے ۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر گروہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں رہتا تھا کہ اپنی سچائی کا اعلان کرے ، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا کہ دوسروں کے خلاف تعصب و نفرت پھیلائے ۔ اس صورت حال نے نوع انسانی کو ایک دائمی جنگ و جدال کی حالت میں مبتلا کر دیا تھا ۔ مذہب اور خدا کے نام پر ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرتا اور اس کا خون بہانا جائز سمجھتا ۔
8ں لیکن قرآن نے نو ع انسانی کے سامنے مذہب کی عالم گیر سچائی کا اصول پیش کیا :
الف۔ اس نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے ۔ بلکہ صاف صاف
کہہ دیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں ۔ اس نے کہا : دین خدا کی عام بخشش ہے ، اس لیے ممکن نہیں کہ کسی ایک جماعت ہی کو دیا گیا ہو ، دوسروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہو ۔
ب۔ اس نے کہا : خداکی تمام قوانین فطرت کی طرح انسان کی روحانی سعادت کا قانون بھی ایک ہی ہے اور سب کے لیے ہے ۔ پس پیروان مذہب کی سب سے بڑی گم راہی یہ ہے کہ انہوں نے دین الٰہی کی وحدت فراموش کر کے الگ الگ گروہ بندیاں کر لی ہیں اور ہر گروہ بندی دوسری گروہ بندی سے لڑ رہی ہے ۔
ج۔ اس نے بتایا کہ خداکا دین اس لیے تھا کہ نوع انسانی کا تفرقہ اور اختلاف دور ہو ، اس لیے نہ تھا کہ تفرقہ و نزاع کی علت بن جائے ، پس اس سے بڑھ کر گم راہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیز تفرقہ دور کرنے کے لیے آئی تھی ، اسی کو تفرقہ کی بنیاد بنا لیا ہے ۔
د۔ اس نے بتایا کہ ایک چیز دین ہے ، ایک شرع و منہاج ہے ، دین ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح پر سب کو دیا گیا ہے ۔ البتہ شرع و منہاج میں اختلاف ہو ا اور یہ اختلاف نا گزیر تھا ، کیوں کہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھا کہ جیسی جس کی حالت ہو ویسے ہی احکام و اعمال بھی اس کے لیے اختیار کیے جائیں ۔ پس شرع و منہاج کے اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہو جا سکتے ۔ تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کر دی ہے ، محض شرع و منہاج کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلا رہے ہو ۔
ہ۔ اس نے بتلایا کہ تمہاری مذہبی گروہ بندیاں اور ان کے ظواہر و رسوم کو انسانی نجات
و سعادت میں کوئی دخل نہیں ۔ یہ گروہ بندیاں تمہاری بنائی ہوئی ہیں ، ورنہ خدا کا ٹھہرایا ہوا دین تو ایک ہی ہے ۔ وہ دین حقیقی کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ایمان اور عمل صالح کا قانون۔
و۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ اس کی دعوت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمام مذاہب سچے ہیں ، لیکن پیروان مذہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں ۔ اگر وہ اپنی فراموش کردہ سچائی از سر نو اختیار کر لیں تو میرا کام پورا ہو گیا اور انہوں نے مجھے قبول کر لیا ۔ تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ سچائی ہے جسے وہ ’’ الدین‘‘ اور اسلام کے نام سے پکارتا ہے ۔
ز۔ وہ کہتا ہے : خداکا دین اس لیے نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرے ، بلکہ اس لیے ہے ہر انسان دوسرے انسان سے محبت کرے اور سب ایک ہی پرور دگار کے رشتۂ عبودیت میں بندھ کر ایک ہوجائیں ۔ وہ کہتا ہے : جب سب کا پرور دگار ایک ہے ، جب سب کا مقصود اسی کی بندگی ہے ، جب ہر انسان کے لیے وہی ہونا ہے جیسا کچھ اس کاعمل ہے تو پھر خدا اور مذہب کے نام پر یہ تمام جنگ و نزاع کیوں ہے ؟
8ں مذاہب عالم کااختلاف صرف اختلاف ہی کی حد تک نہیں رہا ہے ، بلکہ باہمی نفرت و مخاصمت کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ سوال یہ ہے ہے کہ یہ مخاصمت کیوں کردور ہو ؟ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام پیروان مذاہب اپنے دعوے میں سچے مان لیے جائیں ، کیوں کہ ہر مذہب کا پیرو صرف اسی بات کا مدعی نہیں ہے کہ وہ سچا ہے ، بلکہ اس کا بھی مدعی ہے کہ دوسرے جھوٹے ہیں ۔ پس اگر اس کے دعاوی مان لیے جائیں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر مذہب بیک وقت سچا بھی ہے اور جھوٹا بھی ہے ۔
یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ سب کو جھوٹا قرار دیا جائے ، کیوں کہ اگر تمام مذاہب جھوٹے ہیں تو پھر مذہب کی سچائی کہاں ؟ پس اگر کوئی صورت رفع نزاع کی ہوسکتی ہے تو وہ وہی ہے جس کی دعوت لے کر قرآن نمودار ہوا ہے ، تمام مذاہب سچے ہیں ، کیوں کہ اصل دین ایک ہی ہے اور سب کو دیا گیا ہے ۔ لیکن تمام پیروان مذاہب سچائی سے منحرف ہو گئے ہیں ، کیوں کہ انہوں نے دین کی حقیقت او ر وحدت ضائع کر دی ہے اوراپنی گم راہیوں کی الگ الگ ٹو لیاں بنالی ہیں ۔ اگر ان گم راہیوں سے لوگ باز آجائیں اور اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم پر کار بند ہوجائیں تو مذاہب کی تمام نزاعات ختم ہوجائیں گی ۔
ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی راہ بھی اصلاً وہی ہے جو اور تمام گروہوں کی راہ ہے ۔ قرآن کہتا ہے تمام مذاہب کی یہی مشترک اور متفقہ حقیقت ’’ الدین ‘‘ ہے یعنی نوع انسانی کے لیے حقیقی دین، اور اسی کو وہ اسلام کے نام سے پکارتا ہے ۔
8ں نوع انسانی کی باہمی یگانگت اور اتحاد کے جتنے رشتے بھی ہو سکتے تھے سب انسان کے ہاتھوں ٹوٹ چکے ۔ سب کی نسل ایک تھی ، مگر ہزاروں نسلیں ہو گئیں ۔ سب کی قومیت ایک تھی مگر بے شمار قومیتیں بن گئیں ۔ سب کی وطنیت ایک تھی ، لیکن سینکڑوں وطنیتوں میں بٹ گئے۔ سب کا درجہ ایک تھا لیکن امیر و فقیر ،شریف ووضیع اور ادنی و اعلی کے بہت سے درجے ٹھہرا لیے گئے۔
ایسی حالت میں کون سا رشتہ ہے جو ان تمام تفرقوں پر غالب آسکتا ہے اور تمام انسان ایک ہی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرستی کا رشتہ ۔ یہی ایک رشتہ ہے جو انسانیت کا بچھڑا ہوا گھر انا پھر آباد کر دے سکتا ہے ۔ یہ اعتقاد کہ ہم سب کا پر ور دگار ایک ہی پر ور دگار ہے اور ہم سب کے سر اسی ایک چوکھٹ پر جھکے ہوئے ہیں ، یک جہتی اور یگا نگت کا ایسا جذبہ پیدا کر دیتا ہے کہ ممکن نہیں انسان کے بنائے ہوئے تفرقے اس پر غالب آسکیں ۔
No comments:
Post a Comment