اعجاز شفیق ریاضی
پرنسپل: المعہد، رچھا ، بریلی
قال اللہ تعالیٰ :’’أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ۔‘‘(الانبیاء:۳۰)
ترجمہ:کیاکافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیزکو ہم نے پانی سے پیدا کیا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے؟
تشریح:آیت کریمہ میں زمین و آسمان کی تخلیق کے ساتھ تمام حیوانات کے مادۂ تخلیق پر روشنی
ڈالی گئی ہے ، اور پانی کو تمام حیوانات کا عنصر تخلیق بتلایا گیا ہے ۔ جس سے پانی کی اہمیت کا اندازہ بآسانی ہوسکتا ہے ،پانی اللہ تعالیٰ کا عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو انسان کو مفت حاصل ہے ۔
یہ ایسی نعمت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت و ربوبیت کو ثابت کرنے کا ذریعہ بنایا ہے ۔
فرمایا:’’ اور اس (اللہ) نے آسمان سے پانی اتارا اور تمہارے رزق کے لیے پھل اگادیئے تو تم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، جب کہ (حقیقت حال ) تم جانتے۔‘‘ انبیاء کی نبوت پر بھی پانی کو دلیل بنایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے کہا گیا:’’ پس انہوں نے پتھر پر عصا مارا اور اس سے بارہ چشمے
بہ پڑے۔‘‘(البقرۃ:۶۰)عقیدۂ بعث بعد الموت کو بھی پانی اور اس سے حاصل شدہ فوائد کے ذریعہ عین ممکن بتلایا گیا ۔ ارشاد ہوا : ہم نے آسمان سے پانی اتارا جو با برکت ہے اور ہم نے اس سے
با غات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے اور کھجوروں کے بلند بالا درخت جن کے خوشے
تہ بہ تہ ہیں، جو بندوں کے لیے رزق ہے اور ہم نے اس پانی سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا پس ایسے ہی تمہیں بھی (قبروں سے) نکال لیاجائے گا ۔(ق:۱۰۔۱۱)
پانی کو بدن کی ظاہری طہارت اور رجز شیطان سے پاکی کا ذریعہ، دل کی مضبوطی اور ثابت قدمی عطا کرنے والا صحت بخش ٹانک بتلایا گیا ۔ فرمان ہے :’’ اور وہ آسمان سے تم پر پانی برساتا ہے تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے رجز شیطان کو دور کر دے ، تمہارے دلوں کو قوت بخشے اور تمہیں ثابت قدمی عطا کرے ۔ (الانفال:۱۱)
پانی ہی وہ نعمت ہے ،جس کے لیے رسول اکرم ا نے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ
کو پہلی بار جنت کی بشارت دی ۔ آپ نے اعلان کیا کہ کون ہے جو بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردے اور جنت کو اپنے لیے واجب کرالے ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی
جیب خاص سے اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر کے خود کو جنت کا حقدار بنالیا۔
یہی وہ نعمت ہے جس کو اگر ایک پیاسے کتے کو بھی پلادیا گیا تو پلانے والے کی تمام تر بدکاریوں کو مٹاکر کر پروانۂ مغفرت عطا کر دیا گیا ۔
رسول رحمت نے پانی کی اہمیت کے پیش نظر اس کی حفاظت و فراہمی کے زیادہ سے زیادہ اسباب و ذرائع اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔’’اونہرااجراہ‘‘ کہہ کر یہ بتلادیا کہ کسی نہر کو جاری کر دینا ایسا صدقہ ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے ۔ (ابن ماجہ:۲۴۲، علامہ البانی
رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے ) کنویں کھودنے اور بنوانے کی ترغیب دلائی ایک شخص نے آپ اسے یہ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں توکیا کروں؟ آ پ انے فرمایا کنواں بنوادو ، صحابی نے کنواں بنوادیا۔ ( ابو داؤد : حدیث نمبر:۱۶۸۱)
آپ ا نے پانی کی حفاظت کے پیش نظر اپنے قول و عمل سے یہ بتادیا کہ پانی نہایت احتیاط سے ضرورت بھر استعمال کرنا چاہیے اور کسی بھی طرح اس کو ضائع کرنے یا ہونے سے بچانا چاہیے۔رسول اکرم ﷺ کا غسل مبارک صرف ڈھائی لیٹر پانی سے ہوجاتا تھا ۔ (بخاری:۲۰۹)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ ’جل سنکٹ‘ سے نپٹنے کے لیے کس قدر اہتمام فرماتے تھے ۔ آپ نے وضو جیسی اہم عبادت میں تین بار سے زائد کسی عضو کو دھلنا ظلم و سر کشی بتلایا ۔ ’’فمن زاد فقد ظلم و تعدی‘‘(ابو داؤد:۱۳۵)
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پانی کو کثیر تعداد میں مہیاکرانے کی عملی اقدامات کریں اور پانی کو استعمال کرنے میں نہایت محتاط ہوں ۔ اسراف و فضول خرچی سے پرہیز کریں تاکہ ’جل سنکٹ‘ پیدا نہ ہو سکے کہ یہی اس سلسلے میں ان کے مذہب اسلام کی منشاء ہے ۔ ۔۔۔
No comments:
Post a Comment