ریاض احمد محمد مستقیم الریاضی
استاذ : المعہد ، رچھا ، بریلی
والدین کی نافرمانی
شکلیں،اسباب اور علاج
اسلام کے اندر والدین کا مقام و مرتبہ اعلی و اشرف ہے کیوں کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کے بعد والدین کے سب سے زیادہ احسانات ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی کئی
آیتوں کے اندر والدین کا حق اپنے حق کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبا لوا لدین احسانا‘‘۔(نساء:۳۶) اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’ وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبا لوالدین احسانا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۳) اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔
سور ۂ لقمان کے اندرارشاد فرمایا:’’ووصینا الا نسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وہن وفصٰلہ فی عامین ان اشکر لی ولوالدیک الی المصیر‘‘۔(لقمان:۱۴)
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دکھ اٹھاکر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دوسال میں ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کر،
(تم سب کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔
مذکورہ بالا آیتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ والدین کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا ، حسن سلوک کرنا اور اچھا بر تاؤ کرنا واجب ہے ۔
حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ ہم والدین کا احترام کریں، نرم لہجہ میں ان سے
گفتگو کریں ، سخت و درشت لہجہ میں ان سے کلام نہ کریں ، ا ن کی اچھی باتوں کو سنیں اور مانیں، ان کی خدمت کریں ، ان پر خرچ کریں وغیرہ ۔
اسلام نے جہاں ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے
وہیں دوسری طرف والدین کی نا فرمانی سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اسے کبیر ہ گناہ قرار دیا ہے ۔
اس مضمون میں والدین کی نافرمانی کی شکلیں، اس کی وجوہات اور والدین کے ساتھ
ہمار ا سلوک کیسا ہو ، اس کی وضاحت کی کوشش کی گئی ہے ۔
والدین کی نافرمانی کی صورتیں :
ظ والدین کو رلانا: بہت سارے لوگ والدین کو برا بھلا اور الٹا سیدھا کہتے ہیں یا اپنے قول
و فعل کے ذریعہ انہیں رلاتے ہیں ۔
ظ ڈانٹنا و جھڑکنا: بہت سارے لوگ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتے ہیں
اور والدین سے سخت لہجہ میں گفتگو کرتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے : ’’ ولا تنھر ہما وقل لہما قولا کریما‘‘۔ انہیں ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔
ظ والدین جب کسی کا م کا حکم دیں تو اسے گراں سمجھنا: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ ادب سکھلایا ہے کہ والدین کی کسی بات پر اف تک نہ کہیں حالانکہ آج اکثیریت کا حا ل یہ ہے کہ والدین انہیں جب کسی کا م کا حکم دیتے ہیں تو گرچہ ا ن کے حکم کی تعمیل کریں لیکن ان کے منہ سے اف ضرور نکلتا ہے ۔
ظ منہ بسورنا اور تیوری چڑھانا: بہت سارے لوگ اپنے ر فقاء واحباب کی مجلسوں میں
ہشاش و بشاش ، خوش و خرم اور نرم مزاج نظر آتے ہیں ، میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں لیکن جب
گھر آتے ہیں توان کی حالت بالکل بدلی ہوتی ہے و ہ خونخوار بھیڑیا بن جاتے ہیں، ان کی ساری نرمی سختی اوردرشتی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔
ظ والدین کو گھور کر دیکھنا: بہت سارے لوگ والدین کو بنظرِ حقارت ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔
حضر ت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس نے والدین کو سخت نگاہ سے دیکھا اس نے والدین کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا ۔ (سیر اعلام النبلاء۴؍۴۳۳)
ظ والدین کو گالی دینا : بہت سارے لوگ اپنے والدین کو بذات خود گالی گلوج دیتے ہیں
یا والدین کو گالی دلوانے کا سبب بنتے ہیں اس طرح کہ آدمی کسی کے ماں باپ کو گالی دے دیتا ہے تو وہ الٹ کر اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم انے فرمایاکہ :
آدمی کا اپنے والدین کوگالی دینا کبیرہ گناہ ہے ۔ پوچھا گیا کہ : کیا آدمی اپنے والدین کو گالی دیتا ہے ؟ آپ انے جواب دیا : ہاں آدمی کسی شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو
گالی دیتا ہے،اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔ ( بخاری و مسلم )
ظ والدین کے سامنے برائی کرنا: بہت سارے لوگوں کے یہاں والدین کی کوئی قدرو قیمت اور ذرہ برابر ان کا احترام نہیں ہوتا ، ان کی نگاہوں کے سامنے برائی کرنے میں ذرہ برابر جھجک نہیں محسوس کرتے ، بہت سارے لڑکے والدین کے سامنے بیڑی و سگریٹ اور دیگر منشیات کا
استعمال کرتے ہیں ، گانا باجا سنتے ہیں ، فلم بینی کرتے ہیں ، جوا کھیلتے ہیں وغیرہ
ظ کثرت مطالبہ: بہت سارے لڑکے اپنے والدین کی مالی حالت نہیں دیکھتے ہیں ، والدین کی مالی پوزیشن بہت خراب ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان پر رحم نہیں کرتے ۔ ان کی خواہش عمدہ کھانااور عمدہ لباس ہوتا ہے ، آئے دن زر کثیر کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ دوستوں کے شانہ بشانہ
چل سکیں اوروہ اپنے مسکین والدین پر ذرہ برابر ترس نہیں کھاتے !!
ظ دیر رات گھر لوٹنا : بہت سارے لڑکے بلا ضرورت ادھر ادھر گھومتے پھرتے ہیں ، کافی رات گزرنے کے بعد گھر واپس آتے ہیں، ان کے یہ اوقات لہو و لعب اور فحش و منکر کام میں،
گرلس فرینڈ کے ساتھ کلبوں و پارکوں میں گزرتے ہیں ۔
ظ والدین کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے شرم محسوس کرنا : بعض لوگوں کی اجتماعی حالت جب بلند ہوجاتی ہے یا بڑے عہدہ ومنصب پرفائز ہوجاتے ہیں تو وہ والدین کا نام سننا بھی گوارا
نہیں کرتے ، گھر میں والدین کا وجود ان کے لیے باعث شرم ہوتا ہے ، بسا اوقات اگر کوئی ان سے ان بزرگ والدین کے متعلق سوا ل کر بیٹھے کہ یہ کون ہیں ؟ جواب ملتا ہے کہ ہمارے خادم ونوکر ہیں !
ظ والدین کی بدنامی کرانا : اولا د اگر نیک و صالح ہے تو سماج میں والدین کی شہرت اورنیک نامی ہوتی ہے ان کا ذکر جمیل ہوتا ہے ، لیکن اگر اولاد نا خلف و نااہل ہے تو سماج میں والدین کی بدنامی ہوتی ہے، نالائق اولاد بسا اوقات نازیبا حرکت کرجاتی ہے کہ والدین کی ناک کٹ جاتی ہے
اور وہ سماج کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے ۔
ظ والدین کے کام میں ہاتھ نہیں بٹانا : بعض لڑکے باپ کے کام میں ہاتھ بٹانا کسرِ شان تصور کرتے ہیں ، وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا باپ تنہا کام کرتے کرتے تھک چکا ہے لیکن ان کے دل میں
ذرہ برابر رحم نہیں آتا کہ مجبور باپ کی مددکریں !!
لڑکیا ں بھی اس کام میں لڑکوں سے کچھ کم نہیں ہیں ، بعض لڑکیا ں اپنی نظروں سے
دیکھتی ہیں کہ مجبور و لا چار ماں گھریلو کام میں تھک کر نڈھال ہوچکی ہے لیکن ان کا دل ذرہ برابر نرم نہیں ہوتا ہے کہ والدہ کا ہاتھ بٹالیں تاکہ مسکین ماں کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے ۔
ظقطع تعلق : بعض حضرات والدین سے معمولی معمولی بات پر خفا و نا راض ہوجاتے ہیں اور
ہمیشہ کے لئے والدین سے اپنا تعلق منقطع کرلیتے ہیں ۔ یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے ، ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ والدین جنہوں نے ہماری خاطر طر ح طرح کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہمیں
پا ل پوس کر بڑا کیا اگر ان سے کچھ ان بن ہوجائے تو ا ن کے تئیں ہمارا یہ رویہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔
ظ بیوی کو والدین پر ترجیح دینا : بعض حضرات بیوی کو والدین پر مقدم کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں حتی کہ بیوی کے بہکانے میں آکر بعض نالائق اولاد بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور بوڑھے والدین ادھر ادھر مارے پھر تے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ، کشکول گدائی
لیے ہوئے در در کا طواف کرتے ہیں !!
ظ حسن سلوک کرکے جتانا : بعض حضرات والدین کے ساتھ احسان کرتے ہیں ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں لیکن احسان جتا کر سارا معاملہ خراب کر دیتے ہیں ۔ احسان کرکے جتلانا
کبیرہ گناہ ہے اور دیدار باری تعالیٰ سے محرومی کے اسباب میں سے ہے ۔
والدین کی نافرمانی کے اسباب
والدین کی نافرمانی کے بہت سارے اسباب ہیں ان میں سے بعض مختصراًذکر کیے جارہے ہیں ۔
ظ جہالت : جہالت جان لیوا اور مہلک بیماری ہے ، جاہل اپنے نفس کا بذات خود دشمن ہوتا ہے ۔
ظ بری تربیت: والدین جب اولاد کی اسلامی تربیت نہیں کریں گے،جب انہیں تقوی،
خیر و بھلائی صلہ رحمی ، حسن اخلاق کی تعلیم نہیں دیں گے تو ایسی صورت میں اولاد نا فرمان ہوگی ۔
ظ والدین کا اپنے ماں باپ کا نا فرمان ہونا: والدین جب بذات خو د اپنے ماں باپ کی نافرمانی کر رہے ہوں تو ایسی صور ت میں غالبا ان کی اولاد بھی ان کی نا فرمانی کرے گی کیوں کہ لڑکے والدین کی اقتدا و پیروی کرتے ہیں اور بدلہ عمل کے جنس سے ملتا ہے ۔
ظ برے لڑکوں کی صحبت : شخصیت کے بناؤ و بگاڑ میں صحبت کا کافی دخل ہے ، اچھے آدمی کی صحبت اختیار کرنے سے آدمی اچھی باتیں سیکھتا ہے ، اور برے کی صحبت اپنانے سے بری باتیں سیکھتا ہے۔
نبی کریم ا نے اچھے ساتھی کی مثال عطر فروش سے اور برے ساتھی کی مثال لوہار سے دی ہے ۔
ظ بری بیوی: والدین کی نافرمانی کا ایک اہم سبب بری بیوی بھی ہے ، انسان کو اگر نیک و صالح بیوی مل جائے تو اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی اور اگر اس کا سابقہ بُری عورت سے ہوگیا تواس کی زندگی اجیرن ہوگئی ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ا نے دیندار بیوی کو اختیار کرنے پر ابھارا ہے۔ بُری عورت شوہر کو والدین کے خلاف ہر طرح سے اُکساتی اور بھڑکاتی ہے تاکہ وہ والدین سے
قطع تعلق کرلے اور پورا دھیان اسی پر مرکوز کرے ، اس کی کمائی سے تنہا وہی مستفید ہو۔
ظ اولاد کے مابین عطیہ میں تفریق کرنا: والدین کا بچوں کے مابین عطیہ کے اندر تفریق کرنا
ظلم و زیادتی ہے ، یہ ایسا عمل ہے کہ جس سے بچوں کے درمیان بغض و حسد ، نفرت اور کراہت
جنم لیتی ہے اور اس کا انجام والدین کی نافرمانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔
ظ والدین نے اولاد کی خاطر جو تکلیفیں براداشت کی ہیں اس کااحساس نہ ہونا: والدین نے اولادکی خاطر جو تکلیفیں اٹھائی ہیں ۔ اولاد اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو والدین کی نافرمانی ہرگز نہیں کریں گے۔
والدین کے ساتھ ہمار ا سلوک کیسا ہو؟
ظ والدین کی فرماں برداری کریں : مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کی تابعداری کرے اور ان کی نافرمانی سے پرہیز کرے اور ان کی اطاعت ہر شخص کی اطاعت پر مقدم رکھے، البتہ عورت اپنے شوہر کی اطاعت والدین کی اطاعت پر مقدم رکھے گی کیوں کہ عورت پر والدین کے مقابلہ میں شوہر کا حق زیادہ ہے ۔
ظ نرم لہجہ میں گفتگو کریں : نرم لب و لہجہ میں کلام کریں ، درشت اور سخت لہجہ میں گفتگو نہ کریں۔
ظ والدین کے حکم سے خوشی محسوس کریں : والدین جب کسی کا م کا حکم دیں تو اس سے فرحت و سرور محسوس کریں ، پیشانی پر ناراضگی کی سلوٹیں ظاہر نہ ہوں ۔
ظ والدین کے سامنے ادب و احترام سے بیٹھیں : والدین کے سامنے نہایت متانت و سنجیدگی سے بیٹھیں ، اور ہروہ کام جس میں ان کی اہانت کا ادنی بھی شائبہ موجود ہو ا س سے دور رہیں مثلاً
ان کی طرف پیر پھیلانا ، ا ن کی موجودگی میں قہقہہ مارنا وغیرہ ۔
ظ احسان جتلانے سے گریز کریں:اولاد کو چاہیے کہ وہ حتی المقدور والدین کے ساتھ
حسن سلوک سے پیش آئیں ، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا اعتراف ہونا چاہیے اس لیے کہ انسان والدین کی نیکی کا بدلہ ہرگز نہیں چکا سکتا ۔ احسان جتلانا بری عادت ہے اس کا شمار کبیرہ گناہ میں ہوتا ہے ، بروز قیامت احسان جتلانے والا دیدار الٰہی سے محروم رہے گا ۔ جب احسان جتلانا
اتنا عظیم گناہ ہے تو پھر والدین سے احسان جتلانا کتنا بڑا گناہ ہوگا ؟؟؟
ظ ماں کے حق کو مقدم رکھیں: ماں کا رتبہ و درجہ باپ سے بڑا ہے کیوں کہ ماں نے اولاد کی خاطر بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں، چنانچہ تین مواقع ایسے ہیں جن میں ماں نے خاص طور پر بہت مشقتیں اٹھائی ہیں ۔۱۔حمل کا مرحلہ ،جس میں ماں بچہ کو نو مہینہ تک اپنے شکم میں اٹھائے پھرتی ہے اور مختلف طرح کی اذیتیں بر داشت کرتی ہے ۔ ۲۔ولادت کا مرحلہ، جس میں ماں کو اس قدر تکلیف پہنچتی ہے کہ جس کا اندازہ ایک ماں ہی لگا سکتی ہے ، اس موقعہ پر عورت موت وحیات کے کش مکش میں ہوتی ہے ۔۳۔ رضاعت کامرحلہ، جس میں ماں دوسال تک اپنا خون جلا کر بچہ کو اپنے سینہ سے سیراب کرتی ہے ۔
یہ تین کام ایسے ہیں جنہیں ایک ماں تن تنہا انجام دیتی ہے اس کے بعد ماں باپ دونوں مل جل کر بچہ کی تربیت کرتے ہیں ۔
جب والدہ نے بچہ کی خاطر اتنی پر یشانیاں و مصیبتیں اٹھائی ہیں تو پھر ہمیں ماں کا
بطورِ خاص دھیان رکھنا چاہیے ، اس کا ادب و احترام بجا لانا چاہیے ، اس کی اطاعت وفرماں برداری کرنی چاہیے، اس کی خدمت کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ا کی خدمت میں حاضرہوااور عرض کیا: یا رسول اللہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے ؟ آپ ا نے فرمایا : تمہاری ماں ، آدمی نے کہا :پھر کون ؟ آپ ا نے جواب دیا تمہاری ماں ، اس آدمی نے پوچھا :پھر کون ؟ آپ ا نے فرمایا : تمہاری ماں ، اس نے کہا پھر کون؟ آپ ا نے فرمایا :تمہارا باپ ۔(بخاری )
ظ والدین کے کام میں ان کی مد د کریں :اولاد کو چاہئے کہ وہ والدین کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں ایسا نہ ہو کہ اپنی نگاہوں سے والدین کو تنہا کام کرتا ہوا دیکھیں اور ان کی مدد نہ کریں ۔
ظ والدین کی بدنامی نہ کرائیں : اولاد کو چاہئے کہ وہ ایسا کام کریں جس سے والدین کی شہرت اور نیک نامی ہو، ایسا کام ہر گز نہ کریں جس سے والدین کی بدنامی ہو چنانچہ بروں کی صحبت سے بچیں صالحین کی صحبت اختیار کریں ، شکو ک وشبہات اور تہمت والی جگہوں سے دور رہیں ۔
ظ والدین کو لعن طعن نہ کریں : والدین سے اگر کوئی نا پسندیدہ عمل صادر ہو جائے توانہیں برا بھلا ہر گز نہ کہیں ۔
ظ والدین کے لیے دعاء خیر کریں :والدین جب تک با حیات ہیں ان کے لیے نیک دعائیں کرتے رہیں ۔اور ان کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعا مغفرت کریں ، ا ن کے حق میں
صدقہ و خیرات کریں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولیٰ ہمیں والدین کا فرماں بردار بنا، ا ن کا خدمت گزار بنا ، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنا ، ہمارے والدین کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھ، ہمارے والدین پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرما ، مرنے کے بعد انہیں فردوس بریں کے اندر جگہ دے ۔ آمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔
No comments:
Post a Comment