علامہ عبدالجبار محدث کھنڈیلوی رحمہ اللہ
سوادِ اعظم کی پیروی
برادران احناف سے اکثر سنا ہوگا کہ وہ اپنی حقانیت و صداقت پر حدیث ’’فاذا رأیتم الاختلاف فعلیکم بالسواد الاعظم‘‘ (رواہ ابن ماجہ) سے استدلال
کرتے ہیں جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ ’’ بو قت اختلافِ آراء تم بڑی جماعت کی پیروی کرو‘‘۔ اگرچہ سنداً یہ حدیث ضعیف اور ناقابل حجت ہے مگر ہم بر سبیل تنزل اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے معنی بیان کرتے ہیں ،
جس سے ہر مسلم صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔
اولاً:احناف کو یہ مسلّم ہے کہ کسی مسئلہ کی حقانیت و ثبوت کے لیے صرف ادلۂ اربعہ ہیں ۔
اگر سوادِ اعظم بھی دلیل ہو تو پھر ادلہ اربعہ نہیں رہیں گے ، حالانکہ کسی امام نے سواد اعظم کو دلیلِ خامس نہیں تسلیم کیا ۔
ثانیاً: قرآن کہتا ہے :
(۱) ’’و قلیل من عبادی الشکور‘‘۔ (السبا:۱۳) ’’ میرے شکر گزار بندے تھوڑے ہیں ‘‘۔
(۲)’’وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ‘‘ ۔(سورۂ انعام)
’’اور اگر تم زیادہ لوگوں کو ، جوز مین میں آباد ہیں کہا مانو گے تو وہ تم کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیں گے ‘‘۔
(۳)’’وما یومن اکثرہم باللہ وہم مشرکون ‘‘(سور�ۂ یوسف:۱۰۶ )’’ اور اکثر لو گ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ مشرک ہیں۔ یعنی شرک کے کا م کرتے ہیں ‘‘۔
یہ آیاتِ قرآنی بیّن طور سے بتلا رہی ہیں کہ خیر اور رشد و ہدایت تھوڑے لوگوں میں ہے اور شر و ضلالت زیادہ لوگوں میں ہے ۔ لہٰذا سوادِ اعظم کو دلیلِ حقانیت و صداقت ٹھہرانا بطالت
اور جہالت ہے۔
ثالثاً:سوادِ اعظم سے مراد کون ہیں؟ آیا ہر ایک انبوہِ کثیر یا کوئی خاص جماعت؟ سواس کی تفسیر ایک روایت میں آگئی ہے کہ سوادِ اعظم سے مراد کون لوگ ہیں ۔ جیسا کہ حدیث طبرانی میں مرفوعاً آیا ہے:
’’ قال قال رسو ل اللہﷺ: السواد الاعظم من کان علی ما انا علیہ واصحابی‘‘ ۔(مجمع الزوائد:۱؍۶۲)
’’ آنحضر ت ا نے فرمایا کہ سوادِ اعظم وہ ہے جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ‘‘۔
بنا بریں بلحاظ اس حدیث نبوی ا کے اہل حدیث ہی کا گروہ سوادِ اعظم ہے
جو بفضلہ تعالیٰ’ما انا علیہ واصحابی‘ کا پورا مصداق ہے ۔
رابعاً: اس حدیث کا تعلق اسلامی نظمِ سلطنت سے ہے جیسا کہ بحوالہ نہایہ مجمع البحار میں ہے :
’’ وح علیکم بالسواد الاعظم ای جملۃ الناس و معظمہم الذین یجتمعون علی طاعۃ السلطان وسلوک النھج المستقیم ‘‘۔ (مجمع البحار۲؍۱۵۳)’’ سوادِ اعظم سے مراد
وہ لوگ ہیں جو طاعتِ سلطان پر مجتمع ہوں اور راہِ راست پر ہوں ‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت ا نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ انتخابِ خلیفہ ہو یا کوئی اور امر متعلق حکومت ہو جس میں ارباب حل و عقد کا اختلاف ہو تو
اس صورت میں تم سوادِ اعظم کی یعنی اکثر ممبران شوریٰ جس طرف ہوں اس کی پیروی کرو۔
خامساً: مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپور ی حنفی دیوبندی ؒ شارح ابو داؤد فرماتے ہیں :
’’ الحاصل مثل آفتاب نصف النہار کے واضح ہوگیا کہ اکثر مسلمین اور جماعت کثیرہ
اور سوادِ اعظم اہل السنت و الجماعت ہیں اور ان کا طریقہ موجب نجات اور سنت ہے اور اس کے التزام کا حکم ہے پس جو اس کے موافق ہے اگرچہ ایک ہی عالم ہو وہ سواد اعظم اور حق پر ہے اور جو
اس کے خلاف کہے اگرچہ تمام عالم ہوں، باطل ہے ‘‘۔ (دیکھو براہینِ قاطعہ : ۱۶۷و۱۶۸)
مولانا موصوف اپنی اسی کتاب براہین قاطعہ کے ص: ۱۵۶ میں لکھتے ہیں :
’’ جو ایک دو عالم موافق نصوصِ شرعیہ کے فرمادیں اور اس کی تمام دنیا مخالف ہو کر کوئی بات خلافِ نصوص اختیار کرے تو وہ ایک دو عالم ہی مظفر و منصور اور عنداللہ مقبول ہوں گے ‘‘۔
سادساً:’’ قال رسول اللہ لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق منصورین لا یضرہم من خالفہم حتی یاتی امر اللہ‘‘ ۔ (مشکوٰۃ :ص:۵۷۶)
رسول ا للہا نے فرمایا ایک طائفہ میری امت سے ہمیشہ حق پر مظفر ومنصور رہے گا ۔
ان کو مخالف کی مخالفت کچھ ضرر نہ دے سکے گی ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت )آجائے ‘‘۔
اس حدیث میں لفظ ’’طائفۃ‘‘ آیا ہے اور طائفہ کسی چیز کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں
جو قلت پر دلالت کرتا ہے ۔ پس خود ارشاد فخر عالم ہے کہ جو موافق کتاب و سنت کہے وہ طائفہ قلیلہ اگرچہ ایک شخص ہو،وہ علی الحق ہے اور اس کے مخالف تمام دنیا بھی ہو تو مردود ہے ۔
نیز علامہ ہارون مرجانی حنفی ؒ اصولی فقیہ فرماتے ہیں :
’’وفی الحدیث اذا اختلف الناس فعلیکم بالسواد الاعظم والمراد بہ لزوم الحق و اتباعہ وان کا ن المتمسک بہ قلیلا والمخالف لہ کثیرا لان الحق ماکان علیہ الجماعۃ الاولیٰ وہم الصحابۃ والذین اتبعوہم باحسان ‘‘۔
(ناظورۃ الحق عربی ص:۱۵۷ ، طبع بلغار)
سوادِ اعظم والی روایت سے مراد اتباعِ حق اور لزوم حق ہے، اگرچہ حق کے پکڑنے والے تھوڑے ہوں اور مخالفین حق زیادہ ہوں ، کیوں کہ حق وہی ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے متبعین ہوں ۔
(نیز لغت کی معتبر کتاب لسان العرب ۹؍۲۲۶ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے :
’’ فی الحدیث لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق الطائفۃ الجماعۃ من الناس و تقع علی الواحد کانہ اراد نفسا طائفۃ‘‘ ۔
یعنی طائفہ لوگوں کی جماعت کے لیے بولاجاتا ہے اور ایک شخص پر بھی بولا جاتا ہے ۔
سابعاً : یہ روایت سرے سے دلیل ہی نہیں بن سکتی اس لیے کہ حدد رجہ ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابو خلف الاعمی ہے جس کو امام ابو حاتم نے منکر الحدیث اورامام یحییٰ بن معین ؒ
نے کذّاب کہا ہے ۔ ( تہذیب ۱۲؍۸۷، میزان الاعتدال ۴؍۵۲۱)
No comments:
Post a Comment