- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


عامر محمد عامر الھلالی 
ترجمانی :حافظ عبداللہ سلیم
(مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں؟(۳

چھٹا طریقہ:خبر دار ! مصائب و تکالیف تمہاری اپنی غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ ہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تو وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انہیں میرے راستے میں ایذا دی گئی اور وہ لڑے اور قتل کیے گئے ، یقیناًمیں ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کر دوں گا ۔‘‘ (آل عمران:۱۹۵) 
نیز فرمایا: ’’ اور(اس لیے مومنوں پر مصیبتیں آتی ہیں) تاکہ اللہ ان لوگوں کو خالص کر دے 
جو ایمان لائے اور کافروں کو مٹادے ۔‘‘( آل عمران:۱۴۱)
عبداللہ بن مسعود صسے روایت ہے کہ میں رسو ل اللہ ا کے پاس اس حا ل میں گیا جب آپ اکو بخار چڑھا ہوا تھا ، میں نے اپنے ہاتھ سے آپ اکے جسم کو چھوا تو کہا: یا رسول اللہ! آپ کو
تو بہت تیز بخار ہے! تو رسول اللہ ا نے فرمایا: 
’’اجل!انی او عک کما یوعک رجلان منکم ‘‘’’ ہاں ! مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہوتا ہے ۔‘‘ میں نے پوچھا : کیا ایسا اس لیے کہ یقیناًآپ کو دوہرا اجر ملے گا ؟ تو رسول اللہا 
نے فرمایا : ’’ اجل‘‘ ’’ ہاں‘‘ پھر رسول اللہ انے فرمایا: ’’ مامن مسلم یصیبہ اذًی مرض فما سواہ الا حطّ اللہ لہ سیّئاتہ کما تحطّ الشجرۃ ورقھا۔‘‘(صحیح البخاری، :۵۶۶۰)
’’ جس مسلمان کو بیمار ی یا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو 
اللہ تعالیٰ اس کے گناہ ایسے ہی گرادیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرادیتا ہے ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم ا سے روایت کرتے ہیں، آپ ا نے فرمایا: 
’’ ما یصیب المسلم من نصب ولا وصب ولا ھمّ ولا حزن ولا اذً ی ولا غمّ حتّی الشوکۃ یشا کھا الا کفّر اللہ بھا من خطایاہ۔‘‘
’’ مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ ، در د ، غم وحزن ، تکلیف اور پریشانی پہنچتی ہے حتی کہ وہ کانٹا جو اس 
کو چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے عوض اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے ۔‘‘
حضر ت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا ام سائب یا ام مسیّب کے پاس گئے اور کہا: ’’مالک یا ام السائب او یا ام المسیّب تزفزفین؟ قالت الحمی ، لا بارک اللہ فیھا ، فقال : لا تسبی الحمی ، فانھا تذھب خطایا بنی آدم کما یذھب الکیر خبث الحدید‘‘۔(صحیح مسلم :۲۵۷۵)
’’اے ام سائب ! یا ام مسیب! تم کانپ رہی ہو! کیا بات ہے ؟انہوں نے کہا: مجھے بخار ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو برکت نہ دے ! آپ انے فرمایا : بخار کو گالیاں مت دو ، بلا شبہ یہ اولاد آدم کی خطائیں اسی
طر ح صاف کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کردیتی ہے ۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا: ’’مومن مر د و عورت اپنے نفس، اولاد اور مال کی آزمائش میں مبتلا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی
گناہ نہیں ہوگا ۔‘‘(سنن الترمذی: ۲۴۰۴)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا:
’’جب اللہ اپنے بندے سے خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو جلد ہی دنیامیں عذاب دے دیتا ہے اور جب وہ کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہ کی وجہ سے اس عذاب کو
روک دیتا ہے ، حتی کہ قیامت کے دن وہ اس کو اس کے گناہ کا بدلہ دے گا۔‘‘(سنن الترمذی: ۲۴۰۱)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: 
’’مومن کی مثال اس (نرم و نازک )کھیتی کی سی ہے جس کو ہوا جھکاتی اور مائل کرتی
رہتی ہے ، اسی طرح مومن کو آزمائش آتی رہتی ہے ( اور اس کو اللہ کے سامنے جھکاتی رہتی ہے )
اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو اس وقت تک نہیں ہلتا اور نہ جھکتا ہے جب تک اس کے کٹنے کا وقت نہیں آجاتا ۔‘‘(صحیح مسلم : ۲۸۰۹)
علماء نے کہاہے کہ مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے :
’’مومن کو اس کے بدن یا اہل یا مال میں سخت تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں اور اس سے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اس کے درجے بلند ہوجاتے ہیں لیکن کفار پر یہ تکلیفیں کم ہی آتی ہیں اور اگر ان کوتکلیف آبھی جائے تو وہ اس کے کسی گناہ کا کفارہ نہیں بنتی ، بلکہ وہ قیامت کے دن اپنے پورے گناہ لے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا ۔(صحیح مسلم بشرح النووی:۱؍۱۴۹)
پس اے آفت زدہ مومن ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس آفت و تکلیف کی وجہ سے تیرے گناہوں کو ہلکا
کر دے گا ، تیر ی خطائیں مٹادے گا اور تجھ سے تیری غلطیاں دور کر دے گا ۔ یہ عظیم نعمت ہے ،جس کا تقاضا 
یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کریں اور اس کا شکر بجا لائیں ۔
ساتواں طریقہ : جان لو ! یقیناًتم پر آزمائش کا آنا تم سے اللہ کی محبت کی دلیل ہے ۔ 
پس جب ایسے مومن پر آزمائش آتی ہے جو اپنے رب کی اطاعت کا حریص ہوتا ہے اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا ہوتا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں ۔
کیوں کہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کو تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہیں لیکن اس کے با وجود
وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر آزمائش میں مبتلا ہوتے رہے ہیں ۔ آپ ا نے فرمایا :
ان عظم الجزاء مع عظم البلاء وان اللہ اذا احب قوما ابتلاہم ، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فعلیہ السخط۔‘‘(سنن الترمذی:۲۴۰۱)
’’بلا شبہ بڑی جزاء بڑی آزمائش کے ساتھ ہے ، اور یقیناًجب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو وہ اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں ، جو شخص ( آزمائش پر ) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ کی )
رضا اور خوشنودی ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہوا تو اس کے لیے (اللہ کی ) ناراضگی اور غصہ ہے ۔ ‘‘
پس آزمائش بند ے کے اللہ کے ہاں ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے اس کو بر گزیدہ بنانے اور اس سے محبت کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس لئے آزمائش میں
مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اس کو کسی بڑی خدمت کے لیے منتخب کرلے اور اس کو بر تری اور فضیلت عطا کرے ۔ 
حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: ’’ جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ۔‘‘(بخاری:۵۶۴۵)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ ابو عبید ہروی نے کہا: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس لیے مصائب میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اس کو اجر و ثواب سے نوازے ۔ نیز کسی اور نے کہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر آزمائش اس لیے آتی ہے تاکہ اس کی اصلاح ہوجائے۔(فتح الباری ۱۰؍۱۴۱)
آٹھواں طریقہ:آگاہ رہو ماضی پر غم و افسوس مفید نہیں ہے اور جو آفت و مصیبت آچکی ہے وہ لوٹ نہیں سکتی ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لکیلا تحزنوا علی ما فاتکم ولا ما اصابکم ۔
(آل عمران: ۱۵۳)’’تاکہ تم نہ اس پر غم زدہ ہو ، جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمہیں مصیبت پہنچی ۔‘‘
’’حزن‘‘کا معنی ہے ایسی مصیبت پر غم کرنا جو آئی اور ختم ہو گئی ۔
نیز فرمایا:’’ اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو‘‘۔(آل عمران:۱۳۹)’
اور نبی کریم ا غم و حزن سے پناہ مانگتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اللٰہم انی اعوذبک من الھم والحزن ، والعجز والکسل والبخل والجبن وضلع الدین وغلبۃ الرجال۔‘‘
(صحیح البخاری:۶۳۶۳)’’اے اللہ! میں غم و حزن ، کمزوری اور سستی ، بخیلی اور بزدلی ، قرض کے بوجھ
اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پنا ہ مانگتا ہوں ۔ ‘‘
پس غم کرنے کا کیا فائدہ جب وہ غم مصیبت کو رفع نہیں کرتا ، نہ اس کو دور کرتا ہے اور نہ ہی اس کو ہلکا کرتا ہے ، بلکہ غم کرنے سے مصیبت میں اضافہ ہوتا ہے اور دل تکلیف اور حسرت سے
بھر جاتا ہے۔ پھر اس ماضی پر غم کرنے کا کیا فائدہ جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور نہ ہی اس کو لوٹانے کی کوئی طاقت ہی رکھتا ہے ؟
لہٰذا! تم ایسی آزمائش پر غم نہ کرو جو آئی اور ختم ہوگئی، اور ایسی مصیبت پر افسوس نہ کرو 
جو واقع ہوئی اور اٹھ گئی ۔ یا د رکھو! اگر تم آزمائش و مصیبت پر غم و افسوس کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو بلا شبہ تم اپنے نفس کے غم اور حسرت میں اضافہ کروگے ۔ 
لہٰذا!جب تمہارا غم ایسی غلطیوں اور کمزوریوں پر ہے جو تم سے سرزد ہوئیں، تو تم اس کا م میں جو سرزد ہوا اور ختم ہوگیا، معذور ہو، کیوں کہ وہ تم پرلکھا ہوا تھا اور اللہ کی تقدیر کے ساتھ تم پر واردہونے والا ہے ، لہٰذا! تم غم وافسوس کرنے سے باز آجاؤ ۔ تمہارے لیے اس غم کا دفاع کرنے کا ایک اور ذریعہ بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت کی اصلاح کرو اور عمر کے باقی ماندہ حصے میں اپنی اصلاح کرنے کا عزم کرو ، پس جب تم اپنی موجودہ حالت کی اصلاح کرلو گے تو اللہ کے حکم سے تمہارے دل سے افسوس ناک ماضی پر غم و فکر دور ہوجائے گا۔
اور اگر تمہارا غم و افسوس ان مصائب و تکالیف کی وجہ سے ہے جو ماضی میں تمہیں پہنچیں،
تو اسی طرح وہ بھی تمہارے مقدر میں لکھی ہوئی تھیں ۔ اور تم پر ضروری ہے کہ تم اس حقیقت کو سمجھو کہ بلا شبہ اللہ عزوجل حکمت والا اور باریک بیں ہے ، وہ تم پر آزمائش کو دائمی اور ابدی نہیں بنائے گا ۔ پس تم اللہ سے امید رکھو کہ وہ تمہیں خوشحال کر دے گا ، نعمت اور کامل حجت و عافیت سے نوازے گا، اس وجہ سے جو تم نے ماضی میں واقع ہونے والی آزمائش پر صبرکیا ہے ۔ لہٰذا گزری ہوئی آزمائش پر غم کرنا چھوڑ دو اور اپنی باقی ماندہ زندگی میں کامل صحت یابی اور مبارک بادی کے لائق اعمال کی امید رکھو۔
خلاصۂ کلام:تم پر واجب ہے کہ ماضی میں پہنچنے والی آزمائش و مصیبت پر غمگین ہونے کے بجائے غم و فکر کو دور کرو ،کیوں کہ ماضی کے مصائب و تکالیف پر غمگین ہونے کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، وہ محض اللہ کی تقدیر کے ساتھ تم پر واقع ہوگئیں اور وہ اب کبھی نہیں لوٹیں گی ، لہٰذا ن پر غم و افسوس کرنا محض ضرر و نقصان کا باعث ہے۔
اے مسلمان ! آگاہ رہو کہ شیطان دھوکے سے یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ تمہارے غم ناک ماضی کی فائل اور ریکارڈ تمہاری یاد داشت میں کھولے رکھے تاکہ تم اس پر غم و فکر کرتے رہو اور اوپر سے تمہیں اس خوش فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ تم اپنے اس عمل میں حق پر ہو اور یقیناًتمہیں ماضی پر غور وفکر کرنے سے فائدہ ہوگا اور پھر یقیناًتم تھوڑا سا فکر کرکے جب چاہو اس کو ترک کردینا ۔ 
یاد رکھو!یہ سب شیطانی حیلے ہیں جن کے ذریعہ و ہ تمہیں اوہام ، خیالات اور غموں کے پھندے میں پھنساتا ہے جس سے تمہارا چھوٹنا مشکل ہوگا ، لہٰذا!پہلے پہل ہی شیطان کی یہ راہ
بند کر دو ،اور حتی الوسع اپنے ذہن پر غموں کو سوار نہ ہونے دو، کیوں کہ ’’ پر ہیز علاج سے بہتر ہے ۔‘‘ 
(جاری)

No comments:

Post a Comment