- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


عبدالرؤف عبدالحفیظ السلفی 

استاذ : المعہد ، رچھا ، بریلی 

حوصلہ مندی۔ ضرورت اور ذرائع

تربیت کے عنوان پر نہایت اہم ،مگر سب سے کم توجہ یافتہ موضوع


حوصلہ مندی کی ضرورت و اہمیت :زندگی نا م ہے ایک سفر کا ، ایک سمندری سفر کا ، جس کی ابتدا پیدائش اور انتہا موت ہے ، ایسا سفر جس میں مسافر ایک ناممکن القیام سواری پرسوار کر دیاجاتا ہے ،
نہ اگلی منزل کی خبر، نہ راستوں کے پیچ و خم سے واقفیت ، نہ سواری کی رفتار کا علم ، نہ اس کے چلنے کا احساس، کب کوئی ٹیلہ زندگی کی سواری سے ٹکرا ئے اور اسے پاش پاش کردے ، کب کوئی خطرناک جانور نکلے اور ہمیں لقمہ اجل بنادے ، کب کوئی طوفان بد تمیزی اٹھے اور اپنے جبڑوں میں دبوچ لے،
کب کوئی بھنورسر اٹھائے اور اپنے صد کام نہنگ میں جکڑ لے ، کوئی علم، کوئی اندازہ ، کوئی دوربین، 
کوئی قطب نما، کوئی راہ برکوئی راہ نما قطعاً نہیں جو ہماری ڈھارس بندھا سکے ، جوہمیں اطمینان و سکون کی سانس لینے کی بخوشی اجازت دے دے ، مگر ہے یہ ایک سفر ، ایسا سفر جسے منزلِ مقصود اور آخری آرام گاہ تک پہونچنے کے لیے طوعاً و کرہاً گوارہ کرنا ہی ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی چیز ہے جو اس دشوار اور 
پر پیچ سفر کو آسان اور ہموار کرنے میں سب سے زیادہ معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہے تو اس کا نام ہے حوصلہ مندی، بلفظ دیگر شجاعت ،بے باکی ، جواں مردی ، استقلال،ناقابلِ تسخیر قوت ارادہ
اور حوصلۂ عمل۔سچ کہا تھا میر تقی میرؔ نے :
؂ عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ ۔ بات کا ڈھب کسے نہیں آتا 
یہ عشق کیا ہے؟ صرف پیار و محبت ، بوس وکنار یا معاملہ بندی ؟ نہیں نہیں ! عشق نام ہے مطلوب کو حاصل کرنے کے لئے دل و دماغ میں پائی جانے والی بے پناہ آرزو اور تمنا کا،بے چین 
کر دینے والے طلب و جستجو کا ، اور فطرت اور طبیعت کا حصہ بن جانے والے رجحان و میلا ن کا ۔ مگر اس کو حاصل کرنے کے لئے صرف آرزو و میلان ، طلب و جستجو کافی نہیں ، اس کے لیے حوصلہ مندی اور پامردی 
ایک شرط کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 
آپ غور کریں ، شیر کو شیر بنانے اور اسے بڑے بڑے ہیکل اور قوی الجثہ جانوروں پر حملہ آور ہونے اور بیک جست انہیں قطع برید کردینے کی طاقت دینے والی چیز کیا ہے ؟ قوت بازو ؟ آرزو اور طلب ؟ شوق یا خوف ؟ وہ مخفی قوت حوصلہ مندی و پا مردی، شجاعت و بے باکی ہے ، ورنہ بقول اقبال ؂ گہر میں آب گُہر کے سوا کچھ اور نہیں 
حضرت معاذ و معوذ رضی اللہ عنہماکو دیکھئے ۔ غزوۂ بدر کا نقشہ ہے ، صفیں آراستہ کی جارہی ہیں ، اسلامی صفوں میں دو نو عمر بچے بھی شامل مجاہدین اسلام ہیں، مجاہدین دیکھتے ہیں کہ دائیں بائیں کون ہے ؟ کوئی پہلوان اور نامور جنگ آزمودہ ہوتا تو بہتر ہوتا ، ہمارا تعاون اور سپورٹ کرتا ، 
اسی طلب میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی گردن گھماتے ہیں ، مگر یہ کیا؟! یہ تودونوں طرف بچے ہیں، یہ کیا مددکریں گے؟ یہ تو خود مدد اور سپورٹ کے محتاج ہیں ، مگر ابھی یہ ادھیڑ بن
ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ دونوں جیالے سرگوشانہ انداز میں مخاطب ہوتے ہیں: چچا جان ! یہ ابو جہل کون ہے ؟ بیٹا اسے کیا کروگے ؟ وہ تو مکے کا سردار اور لشکر کفارکا امیر ہے ۔چچا جان !ہمیں اسی کی تو تلاش ہے ، سنا ہے کم بخت میرے رسول کو گالیا ں دیتا ہے ، اس کی یہ اوقات ؟! اورابھی جنگ کی چکی نے پاٹ گھما نا شروع ہی کیا تھا کہ چشم فلک نے یہ حیرت زا نظارہ دیکھا کہ وہی دونوں شیر ، ہا ں ہاں!ہماری قوم اور ہمارے خاندان اور ہمارے مذہب اور عقیدے والے جا نباز کسی زخمی اور غضبناک شیر کی طرح اس مردود مذکور ابوجہل کی طرف بڑھتے ہیں اور چشم زدن میں اسے کیفر کردار تک پہونچا کر دم لیتے ہیں ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسی بہادری ، ایسا استقلال اورایسی شجاعت ان بچوں میں کس نے پیدا کردی ؟ طاقت و قوت نے ؟جاہ و حشمت نے ؟ کثر تِ تعداد نے ؟ بے مثال سامان حرب و ضرب نے ؟ کس نے پیداکردی؟ اسی حوصلہ مندی اور بے باکی نے، اسی مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کی بے پناہ قوت ارادہ نے۔
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہاکو جاں نثارانہ شہادت قبول کرنے پر آمادہ کرنے ، مگرباطل کے آگے سر نہ جھکانے کا عزم دینے والی چیز کیا تھی؟فتنۂ ارتداد کے وقت چو طرفہ شورشوں میں 
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جبل عزم وایقان بنادینے والی چیز کیا تھی؟ بوقتِ ہجرت باقاعدہ اعلان کرکے بلکہ چیلنج کرکے نکلنے کی عمر فاروق کو ہمت دینے والی چیز کیا تھی؟ پاسبانِ اسلام ، اسلاف کرام کو بڑی بڑی طاقتوں اور سطوتوں سے ٹکرا جانے ،موج�ۂبحر کی طغیانوں ، صحراؤں کی دل آزاریوں،قیصر و کسریٰ جیسی قوتوں کی شورشوں اور ریشہ دوانیوں کوخاطر میں نہ لانے کا جنون عطا کرنے والی چیز کیا تھی؟ ان ساری عدیم المثالیوں کے پیچھے بطور سبب اعظم پائی جانے والی چیز 
یہی حوصلہ مندی ہی تھی ۔ مگر ہائے افسوس ! 
ع وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا 
ہم نے اپنے بچوں کو علم و ہنر سے آراستہ تو کردیا ، ان کے جسم و لباس کو مزین تو کردیا مگر وہ ہنر کہ جس کے بغیر ساری ہنر مندی بے سود ہے، اس کی تربیت کا کوئی سامان نہیں کیا ، بلکہ گویا اسے عناصر تربیت اور نکات تعلیم سے خارج ہی سمجھ لیا ، جی ہاں !تعلیم و تربیت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں اور لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیجئے، شاید آپ کو حوصلہ مندی اور جرأت جیسا کوئی عنوان ہی نہ ملے اور اگر بسیار طلب و جستجو کے بعد ملے بھی تو بہت کم اور مختصر ! حالانکہ سابقہ سطور یہ بتلانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ حوصلہ مندی کے بغیر کوئی بھی اہم اور قابل ذکر کارنامہ انجام دینا ناممکن ہے، حوصلہ کے بغیر ساری خوبیاں اور علم و ہنر کی ساری ڈگر یاں بے سود اور بے معنی ہیں ۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی جامع ا لکلمات و الاوصاف کیسے اور کیوں کر حاصل کی جاسکتی ہے ؟!
حوصلہ پیداکرنے کے ذرائع و وسائل: چوں کہ دنیا دار الاسباب ہے ، یہاں کی ہر خوبی اور خامی اسباب اور ذرائع سے ہوکر حاصل ہوتی ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ اس لیے حوصلہ مندی اور جرأت
و بسالت حاصل کرنے کے لیے کچھ امور بطور سبب اختیار کیے جا سکتے ہیں ۔جن میں سے چند ذیل میں دیئے جارہے ہیں، ملا حظہ فرمائیں :
1۔توحید یعنی ایمان باللہ : حوصلہ مندی اور جرأت و بسالت حاصل کرنے کے ذرائع اور اسباب میں سے اللہ رب العالمین پر صحیح ،واضح اور کامل ایمان و ایقان سب سے اہم اور مقدم ہے ، اس سے آدمی کو اپنی حیثیت ، اسباب اور مسبب الاسباب ، وسائل اور منبع وسائل کے ربطِ حقیقی کا علم اور اس سے پیداہونے والی ایک ذہنیت حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام حوصلہ ہے۔ اس کی بڑی واضح مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لیے بلائے گئے جادوگران ہیں ، جن کے طمع و حرص کا ابھی یہ عالم تھا کہ بغیر معاوضہ طے کیے مقابلے پر آنے کے لیے تیار نہ ہوئے ، بد عقیدگی اور فرعون سے خوف کھانے کا عالم یہ تھا کہ اسے ’’رب ‘‘ تسلیم کر رہے تھے مگر جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حقانیت کا علم الیقین بلکہ عین الیقین حاصل ہوا اور ایک بار ’’ آمنت برب العالمین، ر ب موسیٰ 
و ہارون ‘‘ کا اعلان کیا ، پھر تو گویا عزم و حوصلہ کے پہاڑ ہوگئے اور فرعون کی سخت اور ہیبت ناک دھمکی کا بڑی بے فکری کا یوں جواب دیتے ہیں :’’انا الی ربنا منقلبون ‘‘ فرعون وقت ! تجھ سے
جو بن پڑے کرلے ، کیوں کہ تیرے قتل کرنے اورہمارے اپنی موت مرنے میں انجام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ، ہمیں تو بہر صورت اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے ۔ 
یہ اثر آفرینی ہے ایمان باللہ اور تو حید پر کامل یقین کی ، کہ آدمی ہر قسم کے خوف و طمع سے بے نیا ز ، عزم و حوصلہ کا مینا ر بن کر ساری دنیا کو روشن کرنے کی بات کرنے لگتا ہے ۔ جس کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوتے ہیں وہ دنیا کی سپر پاور کو فتح کرنے کی بات کرتا ہے اور صرف با ت ہی نہیں کرتا بلکہ واقعۃً فتح کر کے دنیا کو انگشت بدنداں کرکے رکھ دیتا ہے ۔ 
2۔تقدیر پر ایمان و یقین : حوصلہ مندی حاصل کرنے اسباب میں سے دوسرا اہم سبب ایمان بالقدر یعنی تقدیر پر ایمان لاناہے ۔ تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا یقین کامل
رکھا جائے کہ ہمارے اور ساری کائنات کے ساتھ ہونا وہی ہے جو اللہ رب العالمین نے ہم سب کو پید ا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ رکھا ہے ، فتح و شکست ، کامیابی ناکامی ، نفع نقصان ،
موت و حیات ، بیماری و صحت؛ الغرض کوئی بھی چیز نوشتۂ تقدیر سے ذرہ برابر مختلف اور الگ ہوکر واقع
ہو ہی نہیں ہوسکتی ۔ اس سے آدمی کے اندر ایک جذبہ اور کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جب ہونا وہی ہے جو
لکھ دیا گیا ہے تو خوف کس بات کا ، خدشہ کا ہے کا ، خطرہ کس کا اور کیوں کر ، جو ہونا ہے وہ تو ہوکر 
ہی رہے گا پھر کیوں نہ نیکی کے راستے پر بے جھجھک دوڑتے اور اللہ ورسول کے احکام کو زندگی کے
ہر شعبے میں نافذ کرتے جائیں ۔ اس طرح وہ ہر دشواری اور پریشانی سے نمٹنے ، ہر مصیبت اور دکھ پر مسکرانے اور ہر پیچیدہ سے پیچیدہ اور خطرناک سے خطرناک معاملے پر نہایت سنجیدگی اور متانت سے غورکرنے اور پورے حوصلہ اور شجاعت کے ساتھ اسے حل کرنے کا اپنے اندر ایک حوصلہ اور جرأت
و ہمت محسوس کرتا ہے ۔ پھر بزدلی اور کم زوری ، اسباب ووسائل کی کمی، مقابل کی زور آوری، اسباب 
و وسائل کی بہتات جیسے ظاہری عوامل اس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ 
دیکھئے اللہ کے رسول ا۔سب سے بڑے معلم ومربی ۔ ایک بچے کی تربیت فرما رہے ہیں ۔کون سابچہ؟ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۔ لڑکے کو اپنے نہایت قریب بٹھائے ہوئے ہیں ۔ تنہائی کا عالم ہے ،ارشاد ہوتا ہے :
یا غلام! الا اعلمک کلمات ینفعک اللہ بھن۔ بر خوردار! کیا میں تمہیں کچھ
ایسی باتیں نہ بتاؤں جن سے اللہ تمہیں فائدہ پہونچائے؟ اور پھر من جملہ اور باتوں کے یہ بھی فرمایا :
’’یاد رکھو !اگرساری کائنات کے لوگ مل کر تمہیں کوئی فائدہ پہونچانا چاہیں تب بھی
اسی قدر فائدہ پہونچاسکتے ہیں جتنا تمہاری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے اور اگر سب مل کر تمہیں نقصان پہونچانے پر تل جائیں تو صرف اتنا ہی نقصان پہونچا سکتے ہیں جتنا تمہاری تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ اب اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ (اور یہ بھی فرمایا کہ)جو کچھ تمہیں (اچھا یا بُرا ) لاحق ہوا ہے یا ہوگا وہ تمہیں لاحق ہونے والا ہی تھا ( اسے کوئی ٹال نہیں سکتا تھا ) اور جو نہیں لاحق ہوا وہ لاحق ہونے والا تھا ہی نہیں ۔ (یعنی حالات کی تبدیلی ، اچھا ئی یا برائی، تنگ دستی اور کشادگی ، 
صحت و بیماری وغیرہ سارے امور تقدیر کے مطابق ہی پائے جاتے ہیں، تدبیر تقدیر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی )(مسند احمد :۲۸۰۴ ملخصاً)
پس جس کے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں یہ نصیحت پیوست ہوجائے ،اس کے اندر ایک ایسا لا زوال اور ناقابل تسخیر حوصلہ پیداہوجائے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے راستے روک نہیں سکتی ، وہ بلا جھجھک نیکی کا راستہ اختیار کرتا ، لوگوں کو اس کی دعوت دیتا اور برائیوں کو روندتا
چلا جائے گا، کامیابی و ناکامی، مخالفت یا موافقت ، نفع و نقصان جیسے عوامل اور اسباب اس کو اس کے راستے اور اس کے عقیدے سے ذرہ بھر بھی ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ 
3۔تاریخ اسلامی کا مطالعہ : تاریخ نام ہے صدیوں قبل سے اس دنیا کے اسٹیج پر رونما ہونے والے نت نئے مناظر کا ،جس طرح ٹی وی کے سامنے ایک آدمی کوئی منظر دیکھتا ہے اور بلا کچھ کہے اور مطالبہ کیے ان مناظر کا ایک عکس اس کے ذہن و دماغ پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے ، اسی طرح تاریخ کا طالب علم جب اس کائنات کے جیالوں اور حوصلہ مندوں کے کارناموں، ان کے سامنے آنے والی پریشانیوں سے نمٹنے اور کامیاب ہونے کو دیکھتا ہے ، تو اس کے دل و دماغ میں حوصلہ مندی کے جذبات اور زندگی پر قابو پانے کے تجربات خود بخود پید ا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ 
یو ں تو پوری عالمی تاریخ بلا تفریق مذہب وقوم ایسے کارناموں اور حوصلہ افزا کار کردگیوں سے بھری پڑی ہے مگر خصوصی طور پر تاریخ اسلام ہمارے لیے ایک ضخیم البم ہے ، جس کا ایک ایک ورق الٹتے جائیے، نئے نئے چہرے، نئی نئی کاوشیں، نئی نئی عبرتیں، دل و دماغ کی ڈوبتی ہوئی نبضوں کو بیک جست امن و عافیت کے ساحل پر لا کر کھڑا کرنے والے عظیم المثال کارنامے اسی تاریخی البم کی زینت ہیں ۔
حضر ت بلال کا گرم ریت کے اوپر چٹانوں کے نیچے لیٹ کر احد احد کی صدا ئے جاں فزا جاری رکھنا ،حضرت خباب کا تختہ دار پر جاتے وقت اطمینان و سکون ، صحابی رسول کا بال بچوں کو سرراہ چھوڑ کر سفر ہجرت کو جاری رکھنا ، حضرت صفیہ کا ایک کھونٹے سے جاسوس یہودی کو سر د کردینا ، ایک اسلامی خاتون کا ایک میدان میں اپنے کئی لڑکوں کو راہ خدا میں قربان کرکے آہ وواویلا کے بجائے خوشی اور مسرت کی سانس لینا ، حضر ت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا زہر کی ڈبیہ پھانک لینا، حضرت کعب بن مالک کاپچاس یومی طویل بائیکاٹ برداشت کرنا مگر شاہ غسان کے دوستی بھرے پیام کو نذر آتش کردینا ، ایک ہزار کے مقابل تین سو تیرہ کا ڈٹ جانا ، اسلامی فوج کے قائد کا مِیلوں خشکی پر کشتیوں کو گھسیٹ کر
اور راتوں رات منزل مقصود تک پہونچ کر دشمن کو ششدر و حیران کرنا، یہ اور اس جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ عجیب العجیب تاریخی واقعات اپنے اندر بے شمار موعظت وعبرت کے ساتھ حوصلہ افزائی اور
جاں نثاری کے اورراہ حق کی دشواریوں کو بخوشی قبول کرنے کے خاموش معلم اور مربی ہیں ۔ پس ہمیں چاہیے کہ تاریخ عالم اور بالخصوص تاریخ اسلام کا مطالعہ ضرور خود کریں اور بچوں کو بھی کرو ائیں ۔
حوصلہ افزائی :حوصلہ افزائی کا مطلب ہی ہے ، حوصلہ بڑھانا ، یعنی ہر سرپرست کو اپنے 
زیر سر پرست افراد کی خواہ وہ بچے ہوں یا بوڑھے ، ان کی معمولی اور غیر معمولی ہر قسم کے کام پر کچھ ایسا
رد عمل ظاہر کرنا جس سے آدی کا حوصلہ بلند ہو ، اور اس قسم کا کام مزید انجام دینے کا جذبہ ابھرے ، حوصلہ افزائی کے لیے کوئی قیمتی انعام دنیا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ کئی دفعہ صرف ایک مسکراہٹ ، ایک جملہ ،ایک بار پیٹھ تھپتھپانا وغیرہ آدمی کو اس قدر حوصلہ بخشتا ہے کہ اس کی زندگی کی کا یا ہی پلٹ جاتی ہے ۔ 
پوری انسانیت کے سب سے بڑے قائد اورسب سے زیادہ نباض و نفس شناس مربی
نبی کریم اکی حیات مبارکہ کے اوراق الٹیے اور دیکھئے کہ آپ کس طرح لوگوں کی ہمت افزائی فرماتے ہیں اور آپ ا کی ہمت افزائیوں کا لوگوں کی زندگی پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ 
صحابہ کرام کی زندگیوں میں راہ حق پر ہر حال میں قائم و دائم رہنے کا اور حق سے ٹکر ا نے والی بڑی سے بڑی قوتوں کو خاطر میں نہ لانے کا جذبہ وافر بخشنے والی ایک اہم چیز نبی اکرم ا کی موقعہ بموقعہ ہمت افزائی بھی ہے ۔
5۔عملی تربیت اور مسابقاتی پرو گرام : در اصل ہر آدمی میں خو بیوں کے تہ بہ تہ خزانے اس طرح
مخفی طور پر موجود ہوتے ہیں کہ خود اسے اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا مگر جب وہ عملی تجربے سے گذرتا ہے تو اس کو دھیر ے دھیرے اپنے اندرکی اپنی اندرونی اور مخفی صلا حتیوں کا صحیح اندازہ ہونے لگتا ہے اور اس طرح اس کا عملی مظاہرہ اس کے لئے ہمت افزا اور حوصلہ بخش ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے سر پرست حضرات کو ،
خواہ وہ والدین ہوں ، اساتذہ اور معلمین و معلمات ہوں، یا قومی و ملی قائد و رہنما ، انہیں چاہیے کہ
گاہے بگاہے ایسے پروگرام کا انتظام رکھیں جس میں مسلمانوں کو اور خصوصاً بچوں کو مختلف قسم کے کاموں کے ذریعہ اپنی نوع بہ نوع صلا حیتوں کو سمجھنے کا موقعہ ملے اور وہ قوم و ملت کے لیے سچارہنما اور قائدبن کر قوم و ملت کی انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود کا نظم قائم کرسکیں اور حوادثِ دہر کے ہاتھوں آلام و مصائب میں گھری مسلم قوم کو ایک با رپھر سے امن و سکون اور عافیت کی زندگی گذارنے کا موقع ملے ۔
یہ کچھ باتیں تھیں جو بر وقت ذہن میں آئیں اور حوالۂ قرطاس کر دی گئیں ورنہ یہ ایک مستقل عنوان ہے جس پر مسلسل کام کرنے اور پریکٹیکل اسے برتنے کی ضرورت ہے ۔ آج غیر مسلم اقوام خصوصاً یہودی مشنریاں با قاعدہ منظم طریقے سے ہمیں احساس کم تری میں مبتلا کرنے کی مسلسل جد و جہد میں لگی ہیں اور ان کی کوشش کافی حد تک کامیاب بھی ہے ۔ مگر ہم ہیں کہ اس کینسر سے زیادہ خطرناک مرض کا علاج کرناتو بہت دور کی بات ہے ، صحیح احساس اور شعور تک نہیں ۔ 
؂ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساس زیا ں جاتا رہا 
اللہ تعالیٰ قوم مسلم کو بو بکرو عمر ، طلحہ و زبیر اورخالد وخبیب رضی اللہ عنہم جیسی جرأت اور حوصلہ
سے نوازے ، وما ذٰلک علی اللہ بعزیز ! آمین و صلی اللہ علی النبی الکریم !

No comments:

Post a Comment