ابوالعاص وحیدی
یومِ ولا دت رسول اللہﷺ کو جشن منانا،چراغاں کرنا،جلوس نکالنا، مظاہرہ کرنا،نعرہ بازی کرنا اور اسے اسلام کی سطوت و عظمت اور شان و شوکت کا رمز و علامت تصور کرنا بھی غیر اسلامی طریقۂ عمل اور غیر دینی فکر ہے۔ جسے سیرت نبوی کے نام پر بڑے کروفر اور تزک و احتشام کے ساتھ اختیار کیا جا تا ہے ۔ یہ ایک ایسی خو ش نما بد عت ہے، جس نے بہت سے دلوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، اور جسے ہر سال نام و نہاد مسلمان نئی آن بان، نئی زیبائش و آرائش، اور مختلف نئے طریقوں سے منا تے ہیں۔ اس بدعت کا آغاز کب ہوا؟ قرونِ اولیٰ میں اس کا وجود تھا یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں جناب مولانا حکیم عبد الشکور مرزاپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ مروجہ مجلس میلاد کی نسبت میں نے قرآن پاک کا ایک ایک حرف دیکھا، تفاسیر کا مطالعہ کیا ، کتب احادیث و فقہ اور سیر و تواریخ میں بھی کافی حد تک تلاش کیا ،مگر قرونِ ثلاثہ یعنی عہدِ رسالت ،دورِ صحابہ و زمانہ تابعین و تبع تابعین میں کہیں اس کا وجود نہ ملنا تھا نہ ملا،بلکہ آغازِ اسلام کے چند سو برس تک اس محفل کا پتہ نہیں چلتا ، در اصل چھٹی صدی کے آخر میں اس کی ابتداء ہوئی‘‘۔ (تاریخ میلاد، ص ۱۲،۱۳۔ مکتبہ الفرقان لکھنؤ)
اس کا موجد کون ہے ؟ اس سلسلہ میں کتب تاریخ سے دو نام ملتے ہیں ۔ شیخ عمر بن ملا محمد موصلی اور مظفر الدین شاہ روبل، بظاہریہ دونوں قول متعارف ہیں ، مگر اس کی صحیح تطبیق یہ ہے کہ چھٹی صدی ہجری کے آخر میں شیخ عمر موصلی نے اس کی ایجاد کی اور شاہ مظفر الدین نے اسے ۶۰۴ ھ میں رواج دیا، گویا ایجاد و اختراع میں اولیت عمر بن ملا محمد موصلی کو حاصل ہے اور ترویج و اشتہار کی اولیت
مظفر الدین شاہ روبل کو حاصل ہے۔ چنانچہ جناب مولانا عبد الحق مہاجرِ مکی یہ تطبیق ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اول کسیکہ ابتدائش ساختہ شیخ عمر بن ملا
سب سے پہلے جس نے اس کی ابتداء کی وہ شیخ عمر بن ملا
محمد موصلی است داوں کسیکہ از ملوک باشتہارش
محمد موصلی ہے۔ اور باد شاہوں میں سے جس نے
پر داختہ ملک مظفر الدین ابو سعید کو کبوری
اس کی ترویج کی وہ ملک مظفر الدین ابوسعید
بن زین ا لعابدین بادشاہ اربل است
کوکبوری بن زین العابدین شاہ اربل ہے
(الاد المنظم فی حکم مولد النبی الاعظم ۹۲، بحوالہ تاریخ میلاد ۲۰)
یہ تو جشن میلاد النبی ﷺ کے آغاز و ایجاد کی بحث تھی،جس سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اس کی ایجاد تکمیلِ دین کے بہت دن بعد ہوئی ہے، لہذا یہ دین میں فساد ہے۔اب ہم اختصار سے اس کے غیر اسلامی ہو نے کے اسباب و وجوہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
۱۔ جشن میلاد النبی ایک بد عت ہے ، اس لیے کے بدعت ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ کا تقرب حاصل کر نے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے بعد ایجاد کیا گیا ہو۔ اسے نہ آپ نے کیا ہو نہ اس کے کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ اسے صحابہ نے کیا ہو ،ظاہر ہے جشن میلاد بھی اسی طرح کی بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی کا سبب بنتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’وایاکم و محدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ لوگو! دین میں ایجاد کی گئی نئی چیزوں سے بچو! اس لیے کہ ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (رواہ احمد و ابوداؤدوالترمذی و ابن4153ور کیجئے کہ شروع شروع میں جشن میلاد کا آغاز محفل میلاد کی شکل میں ہوا ،جس میں ساد گی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کا تذکرہ ہوتا ہے، اسی لیے بعض علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے ،مگر بدعت کا مزاج اپنے ساتھ گمراھیاں لاتا ہے۔ چنانچہ آج محفل میلاد نے وہ طوفان انگیز جشن میلاد کی شکل اختیار کر لی ہے کہ: الامان والحفیظ!
۲۔ مروجہ جشن میلا دالنبی میں رسول اللہ ﷺ کے حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ بھی کار فرما ہوتا ہے ،اسی لیے محبتِ رسول کے دعویدار قیامِ تعظیمی بھی کر تے ہیں ،اس جشن میلاد کی قباحت کی یہ بھی ایک وجہ ہے ، اور بہت بڑی وجہ ہے۔
۳۔ جشن میلاد النبی منانا ھندوؤں اور عیسائیوں کی نقالی ومشابہت ہے، ھندو لوگ شری کرشن اور رام چندر کے یومِ ولادت کے موقع پر جنم اشٹمی اور رام نومی مناتے ہیں۔ عیسائی ولادت عیسیٰ کے روز کرسمس ڈے مناتے ہیں،اور مسلمان لوگ جشن میلاد النبی مناتے ہیں۔مشہور و معروف حدیثِ رسول ہے کہ: ’’ومن تشبہ بقومِِ فھو منھم‘‘ (رواہ ابوداؤد )جو کسی قوم اور مذہب کی مشابہت کرے وہ انہی لوگوں میں سے ہے۔
۴۔ جشن میلا دالنبی سے مذہب اسلام کی غلط نما ئند گی ہوتی ہے، اس لیے کہ مذہب اسلام سنجیدگی، وقار اور تہذیب و شائستگی سکھاتا ہے،جلوس و مظاہرہ کے نام پر ہلٹر بازی،ہنگامہ آرائی اور شور و شر کی اجازت نہیں دیتا۔
۵۔ جشن میلاد کی تقریب میں آرائش اور اسے دلکش سے دلکش بنانے میں ہر سال لوگوں کے بہت سارے روپئے خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ ہیں جشن میلاد النبی کے غیر اسلامی ہونے کے اسباب و وجوہ، اللہ تعالیٰ امت کو ذہنی توازن اور فکری اعتدال کے ساتھ سیرتِ نبوی کے نام پر اس طرح کی غیر اسلامی رسوم سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
ماجۃ)
جشن ولادت رسول ﷺ
یومِ ولا دت رسول اللہﷺ کو جشن منانا،چراغاں کرنا،جلوس نکالنا، مظاہرہ کرنا،نعرہ بازی کرنا اور اسے اسلام کی سطوت و عظمت اور شان و شوکت کا رمز و علامت تصور کرنا بھی غیر اسلامی طریقۂ عمل اور غیر دینی فکر ہے۔ جسے سیرت نبوی کے نام پر بڑے کروفر اور تزک و احتشام کے ساتھ اختیار کیا جا تا ہے ۔ یہ ایک ایسی خو ش نما بد عت ہے، جس نے بہت سے دلوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، اور جسے ہر سال نام و نہاد مسلمان نئی آن بان، نئی زیبائش و آرائش، اور مختلف نئے طریقوں سے منا تے ہیں۔ اس بدعت کا آغاز کب ہوا؟ قرونِ اولیٰ میں اس کا وجود تھا یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں جناب مولانا حکیم عبد الشکور مرزاپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’ مروجہ مجلس میلاد کی نسبت میں نے قرآن پاک کا ایک ایک حرف دیکھا، تفاسیر کا مطالعہ کیا ، کتب احادیث و فقہ اور سیر و تواریخ میں بھی کافی حد تک تلاش کیا ،مگر قرونِ ثلاثہ یعنی عہدِ رسالت ،دورِ صحابہ و زمانہ تابعین و تبع تابعین میں کہیں اس کا وجود نہ ملنا تھا نہ ملا،بلکہ آغازِ اسلام کے چند سو برس تک اس محفل کا پتہ نہیں چلتا ، در اصل چھٹی صدی کے آخر میں اس کی ابتداء ہوئی‘‘۔ (تاریخ میلاد، ص ۱۲،۱۳۔ مکتبہ الفرقان لکھنؤ)
اس کا موجد کون ہے ؟ اس سلسلہ میں کتب تاریخ سے دو نام ملتے ہیں ۔ شیخ عمر بن ملا محمد موصلی اور مظفر الدین شاہ روبل، بظاہریہ دونوں قول متعارف ہیں ، مگر اس کی صحیح تطبیق یہ ہے کہ چھٹی صدی ہجری کے آخر میں شیخ عمر موصلی نے اس کی ایجاد کی اور شاہ مظفر الدین نے اسے ۶۰۴ ھ میں رواج دیا، گویا ایجاد و اختراع میں اولیت عمر بن ملا محمد موصلی کو حاصل ہے اور ترویج و اشتہار کی اولیت
مظفر الدین شاہ روبل کو حاصل ہے۔ چنانچہ جناب مولانا عبد الحق مہاجرِ مکی یہ تطبیق ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اول کسیکہ ابتدائش ساختہ شیخ عمر بن ملا
سب سے پہلے جس نے اس کی ابتداء کی وہ شیخ عمر بن ملا
محمد موصلی است داوں کسیکہ از ملوک باشتہارش
محمد موصلی ہے۔ اور باد شاہوں میں سے جس نے
پر داختہ ملک مظفر الدین ابو سعید کو کبوری
اس کی ترویج کی وہ ملک مظفر الدین ابوسعید
بن زین ا لعابدین بادشاہ اربل است
کوکبوری بن زین العابدین شاہ اربل ہے
(الاد المنظم فی حکم مولد النبی الاعظم ۹۲، بحوالہ تاریخ میلاد ۲۰)
یہ تو جشن میلاد النبی ﷺ کے آغاز و ایجاد کی بحث تھی،جس سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اس کی ایجاد تکمیلِ دین کے بہت دن بعد ہوئی ہے، لہذا یہ دین میں فساد ہے۔اب ہم اختصار سے اس کے غیر اسلامی ہو نے کے اسباب و وجوہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
۱۔ جشن میلاد النبی ایک بد عت ہے ، اس لیے کے بدعت ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو اللہ کا تقرب حاصل کر نے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے بعد ایجاد کیا گیا ہو۔ اسے نہ آپ نے کیا ہو نہ اس کے کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ اسے صحابہ نے کیا ہو ،ظاہر ہے جشن میلاد بھی اسی طرح کی بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی کا سبب بنتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’وایاکم و محدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ لوگو! دین میں ایجاد کی گئی نئی چیزوں سے بچو! اس لیے کہ ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (رواہ احمد و ابوداؤدوالترمذی و ابن4153ور کیجئے کہ شروع شروع میں جشن میلاد کا آغاز محفل میلاد کی شکل میں ہوا ،جس میں ساد گی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کا تذکرہ ہوتا ہے، اسی لیے بعض علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے ،مگر بدعت کا مزاج اپنے ساتھ گمراھیاں لاتا ہے۔ چنانچہ آج محفل میلاد نے وہ طوفان انگیز جشن میلاد کی شکل اختیار کر لی ہے کہ: الامان والحفیظ!
۲۔ مروجہ جشن میلا دالنبی میں رسول اللہ ﷺ کے حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ بھی کار فرما ہوتا ہے ،اسی لیے محبتِ رسول کے دعویدار قیامِ تعظیمی بھی کر تے ہیں ،اس جشن میلاد کی قباحت کی یہ بھی ایک وجہ ہے ، اور بہت بڑی وجہ ہے۔
۳۔ جشن میلاد النبی منانا ھندوؤں اور عیسائیوں کی نقالی ومشابہت ہے، ھندو لوگ شری کرشن اور رام چندر کے یومِ ولادت کے موقع پر جنم اشٹمی اور رام نومی مناتے ہیں۔ عیسائی ولادت عیسیٰ کے روز کرسمس ڈے مناتے ہیں،اور مسلمان لوگ جشن میلاد النبی مناتے ہیں۔مشہور و معروف حدیثِ رسول ہے کہ: ’’ومن تشبہ بقومِِ فھو منھم‘‘ (رواہ ابوداؤد )جو کسی قوم اور مذہب کی مشابہت کرے وہ انہی لوگوں میں سے ہے۔
۴۔ جشن میلا دالنبی سے مذہب اسلام کی غلط نما ئند گی ہوتی ہے، اس لیے کہ مذہب اسلام سنجیدگی، وقار اور تہذیب و شائستگی سکھاتا ہے،جلوس و مظاہرہ کے نام پر ہلٹر بازی،ہنگامہ آرائی اور شور و شر کی اجازت نہیں دیتا۔
۵۔ جشن میلاد کی تقریب میں آرائش اور اسے دلکش سے دلکش بنانے میں ہر سال لوگوں کے بہت سارے روپئے خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ ہیں جشن میلاد النبی کے غیر اسلامی ہونے کے اسباب و وجوہ، اللہ تعالیٰ امت کو ذہنی توازن اور فکری اعتدال کے ساتھ سیرتِ نبوی کے نام پر اس طرح کی غیر اسلامی رسوم سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
ماجۃ)
Are mian jashne waladate nabwi ki eejad aur us ke gair islami hone par mazmoon bad men likha chahiye tha pehle apna character sahih kar lete to shayad baton men kuch asat hoti.Ek Alim ko yah zeb nahin deta ki woh qaume loot ka kam anjam de aur phir badi badi baten kare.Umaat ki daure jadid ki sardardi yahi hai ki imamat o khetab jaise farayez ki anjamdehi in jaise charb zaban looti dene lage hain.Aqwal se kahin zayadh afaal ka asar hota hai.arabi ka mashhoor maqoola hai(al afaaal tafooq o al aqwaal.mere khyal men mere yah tahreren kafi hongi.Agar dobarah in jaise lootiyon ki tahreren agar publish keen to net pe poori profile dal doonga.
ReplyDeleteummeed ki dhyan rakhen ge