سلفیت کیا ہے؟ jan-jun-2010 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Monday, April 5, 2010

سلفیت کیا ہے؟ jan-jun-2010

ابو ثمامہ سلفی
سلفیت کیا ہے؟

اس موضوع پر کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ، ایک صاحب جو سلفی العقیدہ تو نہیں ہیں ،لیکن سلفیت سے متاثر ضرور ہیں۔انہوں نے بتا یا کہ اہل حدیث حضرات کے بارے میں یہ بد گمانی پائی جا رہی ہے کہ:
’’یہ لوگ ائمۂ کرام اور فقہائے امت کا احترام نہیں کر تے ، ان کی شان میں گستاخی کر تے ہیں ،ان کے اجتہادات اور قیاسات کا انکار کرتے ہیں ،اول نمبر کے لکیر کے فقیر ہوتے ہیں ،قرآن و حدیث کے رموز و حقائق تک ان کی نگاہ کی رسائی نہیں ہوتی۔ بس جو حدیث میں ظاہر طور سے پائے گئے، بس اسی پر اڑ جاتے ہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی لایعنی اور بے دلیل باتیں شاید اس وقت تسلیم کرلی جاتی رہی ہوں گی، جب عوام کو لہوکے بیل کی طرح آنکھ پر پٹی باندھ کر علماء کے گرد چکّر لگاتے تھے اور بلا دلیل ان کی ہر بات تسلیم کر لیتے تھے۔
لیکن اب تو علم اتنا پھیل چکا ہے کہ عوام نے بھی تقلید کا جُوا اپنی گردن سے اتار کرپھینک دیا اور کوئی شخص بلا دلیل کسی مسئلہ کو تسلیم کر نے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب تو مستفتی حضرات کسی بھی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، جب فتویٰ پوچھتے ہیں تو اخیر میں لکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ اسی پر ایک مفتی صاحب ایک بار بہت برہم ہوئے ،اور فرمانے لگے: لوگ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیوں پوچھتے ہیں؟ گویا مفتی صاحب کے نزدیک فتویٰ فقہاء اور ائمۂ کرام کے اقوال کی روشنی میں پوچھنا چاہئے نہ کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ۔ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دینے کے لیے زیادہ دماغ سوزی کرنی پڑے گی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو جواب دینا ہے اس کی دلیل میں کوئی آیت یا صحیح حدیث مل ہی نہ سکے، تو پھر قرآن و حدیث
کی روشنی میں کیا جواب دیں گے؟۔ خاک! ظاہر ہے ایسی صورت میں غصہ نہیں تو کیا ہنسی آئے گی؟ جب ہمارے مفتیانِ کرام کا یہ حال ہے تو اس سے عام ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔ آنے والی سطروں میں ہم کوشش کریں گے کہ مسلکِ سلف کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں وہ بغیر کسی کی دل آزاری کے دور کی جا سکیں اور مسلک حق واضح ہو جائے ۔
جس طرح ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ ایک ہے، محمد ﷺ اس کے آخری رسول ہیں ، قرآن پاک اس کی آخری کتاب ہے ،قیامت برحق ہے ،جنت حق ہے ،جہنم حق ہے ،تقدیر حق ہے،اِسی طرح اہل حدیث بھی ان باتوں پر ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔ کتب سماویہ، انبیائے سابقین اور فرشتوں پر ہمارا ایمان ہے ۔ ادلۂ اربعہ کو ہم بھی حجت شرعی تسلیم کر تے ہیں ۔ ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ خلفائے اربعہ اور ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس امت کے افضل ترین انسان تھے ۔ ان کے بعد تابعینِ عظام، ائمۂ اربعہ،فقہائے امت،محدثینِ کرام، شہداء اور تمام لوگ جو ایمان کی حالت میں اللہ کو پیارے ہو گئے(رحمہم اللہ اجمعین) وہ سب ہمارے نزدیک قابلِ احترام ہیں۔ ان کا نام ہم انتہائی ادب و عظمت کے ساتھ لیتے ہیں اور قرآن کی ہدایت کے مطابق ہم دعا کر تے ہیں: ’’ ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربناانک رؤف رحیم‘‘۔(الحشر:۱۰)
ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح ہے، تو اس کو دوہرا اجر ملتا ہے، اور اگر غلط ہے تو بھی ایک اجر سے محروم نہیں ہو تا۔ اس لیے تمام مجتہدین امت اپنی اپنی نیتوں کے مطابق بہرحال ماجور ہوں گے۔ ان کا اجتہاد صحیح ہو یا غلط ۔ ہم تو اس جرم کے بھی مرتکب نہیں ہیں کہ ایک امام کو مانیں اور باقی کو چھوڑدیں ، بلکہ ہم چاروں کو ایک نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سب کا یکساں احترام کر تے ہیں؛ لیکن یہ کتنی عجیب منطق ہے کہ جو چاروں ائمہ کو یکساں تسلیم کرے وہ معتوب، اور جو ایک کو مانے اور تین کو چھوڑ دے وہ ممدوح۔
پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ اصحاب رسول اللہ ﷺ علم و فضل میں اس امت کے
افضل ترین انسان تھے، اس لیے کہ مشکوٰۃ نبوت کی روشنی انہیں براہِ راست پہنچ رہی تھی۔ وہ زبان رسالت کے اولین مخاطب تھے اور متکلم کے کلام کو مخاطب جتنی خوبی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اتنا دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رموزِ شریعت اور کلام نبوت کو جتنا سمجھ سکتے ہیں، اتنا کسی اور کے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ان سے فتاویٰ اور قضایا میں اجتہادی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے رفع الملام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے۔ یہ واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں بھی قدرے کمی زیادتی کے ساتھ موجود ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ دیا اور فرمایا کہ آپ لوگ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہ کریں، اس لیے کہ آنحضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات یا آپ کی صاحب زادیوں کا مہر چار سو درہم سے زیادہ نہیں تھا۔ مزید تاکید کے طور پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی نے اس سے زیادہ مہر مقرر کیا ، تو میں وہ زیادہ رقم وصول کر کے بیت المال میں جمع کردوں گا‘‘۔
منبر سے جب اترے تو ایک عورت نے ان سے کہا کہ: عمر! اللہ نے تو اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی ۔ قرآن تو کہتا ہے: ’’وآتیتم احد اہن قنطارافلا تا خذوا منہ شےئا‘‘ (النساء :۲۰) تم کسی عورت کو ڈھیر سارا مال دو ،تو اس میں سے کچھ مت لو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس عورت کی بات سن کر فوراً منبر پر واپس آئے اور رجوع کرتے ہوئے فرمایا : اب جو شخص جتنا چاہے مہر مقرر کرے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ظاہر ہے یہ ایک اجتہاد ی لغزش تھی !جس سے انہوں نے رجوع فرمالیا ،جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم و فضل کا اندازہ ذیل کی حدیث سے کیا جا سکتا ہے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے دودھ کا
پیالہ دیا گیا ہے ۔ میں نے دودھ پیا یہاں تک کہ اس کی تری میں نے ناخن کے کناروں سے بہتی ہوئی محسوس کی، اور اپنا بچا ہوا دودھ میں نے عمر کو دے دیا ۔ صحابہ نے دریافت کیا : اللہ کے رسولﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’العلم‘‘، علم سے مراد کتاب و سنت کا علم ہے ۔
یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم و فضل اور دینی فہم و فراست کا واضح ثبوت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیالات اور ان کا مزاج نبوت سے کافی حد تک میل کھاتا تھا ۔ ان کی رائے کے مطابق قرآن میں متعدد آیتیں نازل ہوئیں؛ لیکن اندازہ کیجئے کہ اتنے ذہین،فطین،فقیہ اور آشنائے اسرارِ شریعت صحابی سے مہر کی تحدید میں اجتہاد ی غلطی کا صدور ہو گیا اور انہوں نے فوراً رجوع فرمایا ۔ اس واقعہ کی روشنی میں آسانی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ جب غلطی کا صدور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابئ رسول ﷺ سے ممکن ہے، تو جو شرف صحابیت سے محروم ہوں ان سے اجتہادی غلطی کا صدور بدرجہ اولیٰ ممکن ہے، اور جب ان کی بات ایک عورت کے اعتراض پر دلیل کی روشنی میں رد کی جا سکتی ہے تو دوسروں کی بات بدرجہ اولیٰ دلیل سے رد کی جا سکتی ہے۔ سلفیت اسی کا نام ہے۔ یہی حضرت عمررضی اللہ عنہ ہیں ایک مرتبہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، اتفاق سے دونوں جنبی ہو گئے اور غسل کر نے کے لیے پانی نہیں ملا۔حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے غسل کے بدلے تیمم نہیں کیا ؛لیکن حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کو یہ مسئلہ معلوم تھاکہ پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کے بدلے پاک مٹی سے تیمم کر کے پاکی حاصل کی جا سکتی ہے ،لہذا غسل کے بدلے مٹی سے پاکی حاصل کرلی ۔ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ غسل اور وضو کا تیمم ایک ہے، اس لیے انہوں نے قیاس کیا کہ غسل وضو کے مقابلے میں بڑاہے۔ اس لیے اس کا تیمم بھی بڑاہے۔ یعنی وضو کے تیمم کے مقابلے میں غسل کا تیمم بڑاہے۔ لہذا وہ قیاس پر عمل کر تے ہوئے زمین پر لوٹ گئے۔عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے الفاظ حدیث میں اس طرح ہیں:
’’ فتمرغت کما تمرغ الدابۃ‘‘ یعنی زمین پر اس طرح لوٹ گیا ،جس طرح جانور زمین پر لوٹتا ہے۔
جب یہ دونوں حضرات مدینہ واپس آئے، تو اپنا واقعہ اللہ کے رسول ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’کان یکفیک ہذا‘‘ یعنی تم صرف اتنا ہی کرتے تو کافی تھا ۔ مطلب آپ کا یہ تھا کہ جیسے وضو کا تیمم ہے ،ویسے ہی غسل کا بھی ہے، کسی کا چھوٹا اور کسی کا بڑا نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جلالت علم کا حال تو معلوم ہی ہے؛ لیکن حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اجلۂ صحابہ میں سے ہیں۔ قدامتِ اسلام کا شرف انہیں حاصل ہے ؛لیکن دونوں صحابہ میں سے کسی کو اس وقت تک غسل کے تیمم کا طریقہ نہیں معلوم تھا۔ عمار بن یاسررضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں قیاس کیا ۔ لیکن دربارِ رسالت ﷺ میں پہنچنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ان کا قیاس و اجتہاد صحیح نہ تھا ۔ یہ ان لوگوں کی مثالیں ہیں جو براہِ راست زبانِ رسالت سے فیض پا رہے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے خلوت اور جلوت کے ساتھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’ذہبت انا و ابوبکر و عمر، دخلت انا و ابوبکر و عمر ،خرجت انا و ابوبکر و عمر‘‘۔(ابن ماجہ: ) اسی واقعہ میں ایک پہلو یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اس تیمم کے واقعہ کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ واقعہ بھول چکے تھے، اس لیے انہوں نے
لا علمی ظاہر کر دی۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہو تا ہے کہ صحابہ کرام اعلیٰ دماغ اور زبردست قوت حافظہ رکھنے کے باوجود بھول جایا کر تے تھے ۔ نسیان کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واقعات مشہور ہیں۔ جب صحابہ کرام سے نسیان کا صدور ہو سکتا ہے، تو بعد کے لوگوں سے نسیان کا صدور بدرجۂ اولیٰ ہو سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نسیان ، عدم واقفیت، یا اجتہادی غلطیوں کے واقعات تو حدیث کی کتابوں میں بکثرت ملتے ہیں۔ سب کا استقصا مقصود بھی نہیں ہے۔ لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک اجتہاد مزید وضاحت کے لیے قابلِ ذکر ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ تشریف لائے اور وہاں
گیہوں کے صدقہ فطر کے بارے میں فرمایا:کہ شام کا دو مد گیہوں ایک صاع کھجور کے مساوی ہوتا ہے، لہٰذا صدقہ فطر میں اگر نصف صاع گیہوں نکالا جائے تو کافی ہو گا۔ ترمذی کی روایت کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قیاس کو تسلیم نہیں کیا، لیکن لوگوں نے تسلیم کر لیا تھا۔ صدقۂ فطر میں گیہوں کتنا نکالا جائے ،یہ ایک الگ بحث ہے اس سے ہم صرف نظر کر تے ہیں اور صرف یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک قیاس جس کی بنیاد قیمتوں کی کمی اور زیادتی پر منحصر ہے، اس لیے کہ کھجور کے صدقہ فطر میں جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک صاع کے قائل ہیں، اسی طرح عام گیہوں میں بھی ۔ لیکن شام کے گیہوں کی قیمت کھجور کے مقابل میں دو گنا تھی۔ اسی لیے انہوں نے قیمتوں کے تفاوت کا لحاظ کر تے ہو ئے فرمایا کہ اگر شام کا گیہوں صدقۂ فطر میں دو مد یعنی نصف صاع بھی نکالا جائے تو وہ ایک صاع کھجور کے مساوی ہو گا۔
اس قیاس کو اگر آج گیہوں اور کھجور کی قیمتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ بر عکس نظر آئے گا۔ اس وقت گیہوں مہنگا اور کھجور سستی تھی؛ لیکن آج گیہوں سستا اور کھجور کئی گنا مہنگی ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قیاس اگر صحیح تسلیم کر لیا جائے ،تو زیادہ سے زیادہ وقتی اعتبار سے یہ قیاس صحیح ہو سکتا ہے۔ لیکن آج یہ قیاس قابلِ عمل نہیں ہو سکتا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک قیاس اگر کسی وقت قابلِ عمل ہوگا تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی وہ قابلِ عمل ہو۔ اگر کسی صحابی کا قیاس حالات و ظروف کے پیشِ نظرمتروک ہو سکتا ہے ،تو بعد کے ائمہ مجتہدین کا کیوں نہیں ہو سکتا؟۔
چونکہ انبیاء کرام علیہم السلام کا ہر قول و فعل اللہ کی ہدایت اور راہنمائی کے بعد ہو تا ہے۔ اور ائمہ کے اقوال اور فتاویٰ قیاسی اور اجتہادی ہو تے ہیں۔ اس لیے ان میں غلطیوں کا امکان ہو تا ہے۔ چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس امت کے سب سے زیادہ متقی اور اسرارِ شریعت سے واقف تھے؛ لیکن پھر بھی ان سے اجتہادی غلطیوں کا صدور ہوا۔ اس لیے بعد کے ائمہ کرام سے غلطیوں کا صدور بدرجۂ اولیٰ ممکن ہے۔ اس پسِ منظر میں خود ہی یہ فیصلہ کیاجا سکتا ہے کہ اہل حدیث
حضرات اپنے موقف میں صحیح ہیں یا غلط ،اور جو لوگ کسی ایک امام کا قلادوہ اپنی گردن میں ڈالے ہوئے ہیں ،وہ اپنے مؤقف میں صحیح ہیں یا غلط؟۔

*****

No comments:

Post a Comment