عورت مذاہب کی نظر میں jan-jun-2010 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Monday, April 5, 2010

عورت مذاہب کی نظر میں jan-jun-2010

عبد الرشید حقیق اللہ

عورت مذاہب کی نظر میں

اسلام سے پہلے عرب میں عورتوں کی قدر و عزت نہ تھی اور نہ ہی اس کی معاشرت میں ان کے حقوق کی کچھ اہمیت تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ ان کے اذہان عورتوں کے حقوق سے خالی تھے۔ لوگ جتنی عورتوں سے چاہتے شادی کر لیتے ۔ اور ان سے جیسا سلوک چاہتے کر تے۔ حتی کہ آج انسان جو فعل حیوان کے ساتھ کر نے سے باز اور دور رہتا ہے عرب وہ فعل عورتوں سے کر نے میں
کو ئی دریغ نہیں کر تے تھے۔ کیونکہ عورت ان کے معاشرہ میں شرم و حیا کا باعث تھی۔ چنانچہ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ قرآن مجید خود ان کے اخلاق کا نقشہ کھینچتا ہے۔
’’ اور جب ان میں سے کسی کو مؤنث کی ولادت کی بشارت دی جاتی ہے، تو اس کا چہرہ کالا ہو جاتا ہے ، اس حال میں کہ وہ مغموم ہو جا تا ہے اور خوشخبری کی برائی سے اپنا چہرہ قوم سے چھپا تا ہے۔ کیا یہ اس کو ذلت پر روک رکھے گا، یا مٹی میں لت پت ہو جائے گا ۔ کتنا بر ایہ فیصلہ ہے ‘‘۔(النحل ع۱) ’’ اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس جرم و گناہ کی پاداش میں مقتول ہوئی‘‘۔(التکویر پ ۳۰)
غرض کہ عورتوں کے ساتھ مردوں کی محبت بھی عورتوں کے حق اور ان کی قدر کی بنا پر نہ تھی۔ بلکہ اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے تھی۔ اسی لیے جب کسی عورت سے نفس کی سیری ہو جاتی تو اس کی محبت بھی ختم ہو جاتی ۔
ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ’’ ہم لوگ عورتوں کو کسی توجہ کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ مدینہ میں عورتوں کی کچھ قدر تھی ۔ لیکن وہ بھی اتنی نہیں جتنی ہو نی چاہئے‘‘۔
(سیرۃ النبی ؐ ج۲) ۔
جیسا کہ محمد جمیل بیہم نے اپنی کتاب ’’المرأۃ فی التاریخ والشرائع‘‘ میں لکھا ہے کہ یورپین اپنی متاخرہ شریعت میں اس بات کے حریص تھے کہ عورت کو زمین کی کوئی بھی ملکیت نہ سونپی جائے۔ جیسا کہ تورانجین (THURINIGEN ) کی شریعت میں دور کے مذکر کو مالک بنایا جا تا تھا، اور قریبی مؤنث اس سے محروم رکھی جاتی تھیں اور یہی حال(SALIQUE)شریعت کا بھی تھا، اور ان کا خیال تھا کہ مہر کے ذریعہ عورتوں کو لونڈی بنا لیا جائے۔(المر أۃ فی التاریخ والشرائع)
جیسا کہ سید رشید رضا اپنی کتاب ’’ نداء للجنس اللطیف‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’فیلسوف‘‘ انگریز اپنی کتاب ’’ علم وصف الاجتماع‘‘ میں لکھتا ہے کہ: انجلزا میں پانچویں صدی ہجری سے گیا رہویں صدی ہجری تک ایک ایسا بازار لگتا تھا ؛جس میں خالص عورتوں کی خرید و فروخت اور بیع و شراء ہوتی تھی ،بس یہی نہیں بلکہ گیارہویں صدی کے آخر میں حاکم کنیسہ نے یہ قانون نافذ کیا تھا کہ شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو عاریتہ دیدے یا اس آدمی کی منشا کے مطابق معینہ مدت تک اس تک منتقل کر دے ، اور اس سے بدتر یہ قانون تھا کہ شریعت میں حاکم (روحانی حاکم ہو یا وقتی) کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی عورت سے شادی کے بعد ۲۴؍ گھنٹے فائدہ اٹھائے ۔(ماذا عن المرأۃ:۹)
اور ان کا یہ نظریہ تھا کہ عورت ایک ایسی مخلوق ہے کہ دنیا میں سوائے لعنت اور کسی چیز کی مستحق نہیں ۔(الاسلام والمرأۃ: ۱۴) اور ۱۵۶۷ ؁ھ میں یرلمان اس کو تلاندی سے یہ قرار داد پاس ہوئی کہ عورت کو کسی بھی چیز کی ملکیت دینا قطعاً جائز نہیں ، اور سب سے تعجب خیز اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ یرلمان انگریز نے انجلزا کے بادشاہ ہندی ثامن کے دورِ حکومت میں یہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت کے لیے ’’عہدِ جدید‘‘ کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ممنوع ہے۔ یعنی ان پر اناجیل اور مسیح کے رسولوں کی کتابوں کو پڑھنا بالکل حرام ہے۔(ماذا عن المرأۃ:۹، المرأۃ بین الفقہ والقانون: ۲۱۱)
اور دکتور نور الدین عتر اپنی کتاب ’’ ماذا عن المرأۃ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ یونان جو فلاسفہ کا گہوارہ تھا، اس کے اندر قد ماء یونان عورتوں کو بازاروں میں ایسے ہی فروخت کرتے تھے جیسے
کہ سامان کی بیع و شراء ہو تی ہے۔(ماذا عن المرأۃ)
اور ہندوستان کے ہندو(جو ایک بت پرست قوم ہے) بھی اسی روشنی اور طرز عمل پر باقی رہے جس پر عرب کے بت پرست عمل کرتے چلے آئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے غلو سے یورپ کی تقلید بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ گوستا ولی یان اپنی کتاب حضارات الہند میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی عورت اپنے شوہر کو ایک معبود کی طرح سمجھتی تھی، اور خاص طور سے وہ عورت جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو یا سرے سے شادی نہ ہوئی ہو، ہندو سماج و سوسائٹی میں منبوذہ(پھینکی ہوئی) شمار کی جاتی تھی،اور منبوذہ کی قدر و منزلت ہندوؤں کی نظر میں اتنی تھی ،جتنی کہ ایک جانور کی ہوتی ہے۔
گویا کہ ہندو شوہر کی موت اس کی بیوی کے حق میں سم قاتل اور اس کی پیٹھ کو دوہری اور توڑنے والی ہو تی تھی۔ جس کے بعد اس کو معاشرہ میں کھڑے ہونے کی طاقت و سکت نہیں ہوتی تھیں ۔ چنانچہ جب ہندوستانی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا تھا تو وہ اپنی بقیہ تمام تر عمر شوہر کے سوگ میں گذار دیتی تھی۔ اور وہ اتنی گری ہوئی ہوجاتی تھی کہ لوگ اس کی نظر کو نظر نحوست خیال
کر تے۔ اور جس چیز کو وہ اپنے ہاتھ سے چھودے اس کو ناپاک تصور کرتے تھے۔ اور اس کے حق میں سب سے افضل تر بات یہی تھی کہ وہ اپنے نفس کو اس چتا میں جلاکر راکھ کر دے، جس کے اندر اس کے شوہر کے جسم کو جلا یا جاتا تھا ۔ اور اگر ایسا نہ کرتی تو اسے ہندو معاشرہ اور سماج میں ایسی ذلتوں کا سامنا کر نا پڑتا جو آگ کے عذاب سے بڑھ کر ہو تی تھیں ۔(حضارات الہند ص :۶۔۶۴۴)۔

No comments:

Post a Comment