میراث کے ایک ضروری مسئلہ کا حل jan-jun 2010 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Monday, April 5, 2010

میراث کے ایک ضروری مسئلہ کا حل jan-jun 2010

اعجاز شفیق ریاضی

میراث کے ایک ضروری مسئلہ کا حل

سوال: کسی صاحب نے میرے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ زید کا انتقال ہو گیا، اس کی میراث ورثاء میں تقسیم ہو نی ہے، زید کے والد نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے بکرجو زندہ ہے،دوسری سے دو لڑکے زید،وعمراور دو لڑکیاں زینب وہندہ ہیں۔زیدکاسگابھائی عمراوراس کی ایک سگی بہن ہندہ مرچکی ہے۔زیدکے بھائی عمرکے چار لڑکے اور چارلڑکیاں ہیں۔ان لوگوں میں زید کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی۔جواب دے کر مشکور ہوں۔ جواب :پوچھی گئی حالت میں۔ اللہ ہماری مددفرمائے،حق تک پہونچنے اوراس پر عمل کی توفیق دے۔یہ حالت بنتی ہے کہ زیدکے بیان شدہ ورثاء میں ایک زندہ باپ شریک بھائی ،ایک سگابھائی وبہن وفات یافتہ اور ایک سگی بہن اورو فات یافتہ بھائی کے چار بیٹے ،چار بیٹیاں زندہ ہیں۔
دھیان دیں کہ جو لوگ مرچکے ہیں ان کو میراث میں کوئی حصہ نہیں ملتا،یعنی وفات یافتہ سگے بھائی اورسگی بہن کو کچھ بھی نہیں ملے گا،کیوں کہ میراث پانے کی شرطوں میں سے یہ ایک شرط ہے کہ میراث پانے والا، جس کی میراث تقسیم ہورہی اس کی وفات کے وقت زندہ ہو،اگرمیراث پانے والازندہ نہیں ہے، تواسے میراث کی تقسیم میں سرے سے شریک ہی نہیں کیاجائے گا،اور نہ ہی اس کا کوئی حصہ ہوگا۔(الفرائض:۲۲،کشاف القناع:۴؍۴۴۸،المواریث فی الشریعۃ الاسلامیۃ:۳۵)
رہے سگے بھائی کے بیٹے اور بیٹیاں توان میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں؛جس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے ان کاکوئی حصہ متعین نہیں کیاہے۔اور یہ بات دھیان رہے کہ جن لوگوں کے حصے قرآن یا حدیث میں متعین ہیں، انہیں دینے کے بعداگرکچھ بچتاہے، توحدیث رسول ’’فمابقی فلاولیٰ رجل ذکر‘‘کہ بچاہوا مال قریبی مردرشتہ دارکاہے۔(بخاری،کتاب الفرائض ،باب ابن عم احدھما....)
یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بچنے والامال قریبی مردرشتہ دارلے گا،عورت نہیں اور بیٹیاں چوں کہ عورت ہیں، اس لیے انہیں مال نہیں ملے گا۔
رہا ،باپ جاپابھائی،سگی بہن اور بھتیجے ،تو سگی بہن کا حصہ توقرآن نے متعین کیاہے، مگرسگی بہن کے ساتھ باپ جائے بھائی اور بھتیجوں کا کوئی حصہ نہیں متعین کیا۔سگی بہن کو آیت’’ان امرؤہلک لیس لہ ولد ولہ أخت فلھاالنصف‘‘کہ کوئی آدمی مرجائے اور اس کی اولاد نہ ہو،بہن ہوتواسے آدھاملے گا۔(النساء:۱۷۶) کے تحت کل مال کا آدھاملے گا۔چوں کہ اس مسئلہ میں ایک ہی وارث ایساہے؛ جس کا حصہ قرآن نے متعین کیا ہے۔ باقی ایسے ہیں جن کاحصہ متعین نہیں کیا۔توایسے لوگوں میں اوپربیان کی گئی بخاری کی حدیث لاگوہوگی ،یعنی قرآن میں متعین حصہ والوں کو دینے کے بعد قریبی مردرشتہ دارکودیاجائے گا۔اس کی روشنی میں دیکھیں کہ باپ جائے بھائی اور بھتیجوں میں زیادہ قریبی مردرشتے دارباپ جایابھائی ہے، لہٰذا بچاہوامال اسے ہی مل جائے گا اور بھتیجے چوں کہ اس کے مقابلے میں دورکے ہیں، لہٰذا وہ محروم ہوں گے۔شکل یہ ہوگی۔
یہ ہے وہ بات جو دلائل کی روشنی میں ہم پرظاہرہوئی اور درست بات کا علم تواللہ ہی کوہے۔
ہمارا بیان کیاگیایہ مسئلہ کئی کتابوں کا خلاصہ ہے جن میں،منارالسبیل، سراجی فی علم المیراث،تیسرالفرائض ،المورایث فی الشریعۃ الاسلامیۃ،الملخص الفقہی الاقناع،شرح عمدۃ الفقہ،شرح الزرکشی جیسی اہم کتابیں شامل ہیں۔اللہ ہماری لغزشوں کو معاف فرمائے اور سب کو نیک عمل کی توفیق بخشے۔آمین۔

No comments:

Post a Comment