عرفان احمد بن عبد الواحد صفوی
یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں الحاد و بے دینی اور مادہ پرستی کا دور ہے۔ اس میں نہ صرف اللہ کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے ،بلکہ سرے سے دنیا کا کوئی خالق ہی تسلیم نہیں کیا جاتا ، اس پوری کائنات کو ایک اتفاقی واقعہ یا حادثہ کے طور پروجود میں آئی ہوئی چیز مانا جا رہا ہے ، جس کا نہ کوئی خالق ہے، نہ کوئی مالک، نہ اس کا کوئی بنانے والا ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی انتظام کر نے والا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بس اتفاقی طور پر وجود میں آ گئی اور پھر رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرتی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ دنیا جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے ،مختلف پہلوؤں سے نہ صرف ایک علۃ العلل پر بلکہ ایک ایسے معبود حقیقی پر شاہد اور گواہ ہے، جو تمام صفاتِ کمال سے متصف ہے، اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیت کا مالک ہے، اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔اس شہادت کی بنیاد ایسے امور پر ہے جن کا ہم آئے دن خارج میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ،اور ہماری نگاہوں کے سامنے روز گھومتی رہتی ہیں، جن کے بارے میں ہماری عقل اور ہماری فطرت مجبور کرتی ہے کہ ہم ان کو کسی ایسی ذات کی طرف منسوب کریں ،جو ان کی مصور ہو سکے،یہ شہادات ہمارے اپنے اندر بھی ہیں اور خارج میں بھی۔
سب سے پہلی چیز جو ہمارے ذہن کو متوجہ کرتی ہے اور عقل انسانی جس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے،وہ اس کائنات کا حسن و جمال ہے ۔جو اس کے ہرہر گوشے سے ظاہر ہے ،اور اس کی ہرہر چیزمیں پایاجاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی سادہ اور بے رنگ نہیں ہے ۔کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہیں جو اپنی طرف کو کھینچتی نہ ہو اور جس میں دل کشی نہ پائی جاتی ہو۔آسمان
سے لے کر زمین تک کوئی بھی چپہ ایسا نہیں ہے جہاں سے انسان غافل و بے پرواہ گذر سکے۔ہر جگہ اس کے دل کو کھینچنے،اس کی آنکھوں کو بیدار کرنے اور اس کے کانوں کو کھولنے کے لیے دل فریب مناظر، بے حجاب جلوے اور شیریں نغمے موجود ہیں ۔انسان جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھتا ہے، اس دنیا کے حسین مناظراسے اپنی اپنی طرف کھینچنے لگتے ہیں۔دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے ،کہ وہ انہیں دیکھے اور دیکھتا ہی رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان حسن کا شیدائی ہے۔اس کے اندر حسن کا نہایت گہرا احساس و دیعت کیا گیا ہے۔چنانچہ جب وہ اپنے ارد گرد حسن و جمال کے ان رنگا رنگ جلوؤں اور دل فریب خوش نما مناظرکو دیکھتا ہے ،تودفعتہ اس کے اندر اس کا خیال پیدا ہو تا ہے کہ آخر انہیں کس ہستی نے وجود بخشاہے۔کس ذات نے ان کے اندر دل کشی پیدا کی ہے،اور کس نے انہیں بنا یا ہے؟۔کیوں کہ انسان یہ تصور کر نے سے بالکل قاصر ہے کہ اتنی دل فریبیوں سے معمور یہ دنیا خود بہ خود وجود میں آ گئی۔یہ ممکن نہیں کہ آسمان اور زمین کے جلوؤں کو دیکھے اور یوں ہی گزر جائے۔ اگر آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو اس دنیا کا مشاہدہ خود بہ خود انسان میں ایک خالق کا یقین پیدا کر تا ہے۔اس دنیا کی چیزیں صرف ہماری کسی مادی ضرورت ہی کو نہیں پورا کر تیں ،بلکہ ان میں سے ہر ایک کی تخلیق میں حسن خوب روئی اور کمال صفت کی ایسی نمائش ہے کہ وہ آپ سے آپ ایک اعلیٰ اور بر تر حقیقت پر ایمان لانے کے لیے متنبہ کر تی ہیں۔کیوں کہ ظاہر ہے یہ کائنات اپنے وجود و بقا کے لیے ان رنگینیوں کی محتاج نہیں ہے۔ممکن تھا کہ یہ زمین ہوتی ؛لیکن یہ لہلہاتی ہوئی کھیتیاں ،یہ ہرے بھرے سبزہ زار، یہ مہکتے ہوئے چمن ،رنگ برنگے غنچے ،وادی و کہسار اور کانوں میں رس گھولنے والا آبشار ،دل کی سرسراہٹ نہ ہوتی۔ممکن تھا یہ فضا ہوتی؛ لیکن اس میں باد نسیم کے لطیف جھونکے،پھولوں کی بھینی بھینی خوش بواور چڑیوں کی چہچہاہٹ نہ ہوتی۔یہ آسمان ہوتا مگر ستاروں کی یہ محفل ،شفق کے یہ جلوے،چاند کا حسن و جمال اور دھنک کی رنگا رنگیاں نہ ہوتیں۔کیا یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل نہیں ہیں ، کہ اس کا کوئی خالق ہے ،جو حساس طبیعت کا مالک ہے اور کمال قدرت سے متصف اور حکمت والا ہے ۔
ایک اور اہم قابل توجہ پہلو اس کائنات کے مختلف اجزاء کا باہمی توافق اور ان کی باہمی ساز گاری ہے۔اس دنیا کے مختلف اجزاء جو باہم ایک دوسرے کے بر عکس صلاحیت رکھتے ہیں ،جن کے عناصر جدا جدا ہیں ،ان کی طبیعتیں بھی مختلف ہیں، اور آپس میں ضدین اور تباین کی نسبت رکھتے ہیں۔جس میں پوری طرح ساز گاری اور موافقت پائی جاتی ہے،ہر ایک چیز دوسری کی ممدو معاون ہے۔توافق کا یہ پہلو ہم صرف ضدین ہی میں نہیں پاتے بلکہ اس کائنات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ،کہ اس میں ایک مکمل نظام پایا جا تا ہے ۔ جس کے ہرہر چیز میں توافق اور ساز گاری ہے۔ دنیا کی ہر چیز اپنی ہستی کے بقاء اور وجود کی نشوو نما کے لیے اس بات کی محتاج ہے کہ یہ پورا کار خانہ اس کے لیے سر گرم رہے۔گیہوں کے ایک دانہ کو کمال تک پہونچنے کے لیے کائنات کے تمام عناصر زمین، بارش، سورج،ہوا،شبنم اور چاند، ان میں سے ہر ایک چیز اس کی حسب ضرورت کفالت کرتی ہے۔
ایک عقل مند یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ،کیا کائنات کا ارتقاء خود بہ خود ہو رہا ہے؟کیا ہر چیز کو خود بہ خود ترقی مل رہی ہے؟ یا اس کے پیچھے ایک مدبر ہے ۔اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ یہ دنیا ایک اتفاقی واقعہ ہے ۔آپ سے آپ وجود میں آ گئی،تو کیا ان کے اندر موافقت پیدا ہو نا بھی ایک اتفاقی امر ہے۔ کوئی ہوش مند یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا کہ ہوا،پانی،آگ ،مٹی،دریا ،پہاڑ، سورج،چرند و پرند،سب کے سب اتفاقی حوادث کے تحت وجود میں آئے اور پھر اتفاقی طور سے ان میں توافق بھی پیدا ہو گیا۔یہ صورت حال اس امر کا نہایت قوی ثبوت ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک حکیم و قوی ارادہ ہے ،جواس کو وجود میں لا یا ہے۔ جو شخص دیکھتا ہے کہ بادلوں سے پانے برستا ہے ،اس سے زمین لہلہا اٹھتی ہے ،اس سے اگنے والے نباتات کو چوپائے چر تے ہیں ۔ان سے دودھ کے فوارے نکلنا شروع ہوتے ہیں جنہیں انسان پیتا ہے۔ اسی بارش کے ذریعہ پیدا ہونے والے انگوراور کھجور سے انسان اپنی غذا،لذت اور ضرورت کی طرح طرح کی چیزیں پیدا کر لیتا ہے۔
شہد کی مکھیاں پھول پھول کا رس چوس کر ان کو جمع کرتی ہیں ،ان پھولوں کے رنگ بھی مختلف اور مزے بھی جدا ہو تے ہیں ۔انسان اس کو پی کر لذت بھی حاصل کرتا ہے اور بیماریوں کے
علاج میں بھی اسے کام میں لاتا ہے ۔اگر کوئی ان ساری چیزوں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے وہ کس طرح یہ مان سکتا ہے کہ دنیا اور اس کے یہ عبرت انگیز مظاہر بالکل ایک اتفاقی حادثہ کے طور پر ظہور میں آگئے۔جس دنیا کے اتنے بعید اجزاء کے اندر اتنے گہرے رشتے ہیں اور جو اپنے متضاد اجزاء کی کشا کشوں کے اندر ہم آہنگی کے اتنے پہلو رکھتی ہے ،وہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہو سکتی۔میٹھے پانی کے دریا اور کھارے پانی کے سمندر،دن کے نور اور شب کی تاریکی،سورج کی حدت اور چاند کی برودت ان چیزوں میں کس قدر تضاد ہے، مگر اس کے باوجود یہ ساری چیزیں کائنات کے لیے مفید ہیں،اور ہر انسان ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے،تو کیا یہ سب اتفاق ہے؟یہ نظم،یہ ضابطہ کی پابندی،یہ ہم آہنگی یہ ساز گاری،کیا خود بہ خود ہے۔ اگر ان سب چیزوں کے باوجود کوئی بغیر خالق کے ہو نے پر اصرار کرتا ہے تو ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسے بس نہ ماننے کی خواہش ہے۔
خالق حقیقی کے وجود کی ایک دلیل یہ بھی ہے جو ہمارے مشاہدے میں روز آتی رہتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی اتنی ساری چھوٹی بڑی چیزیں نہ صرف قائم و باقی ہیں بلکہ اپنی اپنی وسعت اور صلاحیت کے بقدر ترقی کر رہی ہیں،اور پھل پھول رہی ہیں۔ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس کائنات کی ہر قوت شتر بے مہار کے مانند اپنی اپنی ڈگر پر بڑھتی چلی جا رہی ہے، اور کسی قانون اور ضابطہ کی پا بند نہیں معلوم ہوتی،پھر یکایک ان میں تغیر آجا تا ہے،ایسا محسوس ہو تا ہے کہ گو یا کسی نے پکڑ کر اسے دوسری راہ میں لگا دیا ہو ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نظام باطل اپنے پورے آب و تاب اور قوت کے ساتھ پھلتا پھولتا رہتا ہے ۔اسے برابر مہلت ملتی رہتی ہے۔اس کے ظلم سے اہل حق گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں ۔مصلحین کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں ۔درد مند انسان اصلاح احوال سے مایوس ہو نے لگتا ہے ۔اس سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔ایسے میں یکایک ایک لمحہ ایسا آتا ہے ،جو اس پورے نظام باطل کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے۔اسے بیخ و بن سے اکھاڑ دیتا ہے۔ سر کشوں اور ظالموں کی کمر توڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔اس چیز کے مشاہدے کے بعد عقل یہ تسلیم کر نے کے لیے تیار نہیں ہو تی کہ یہ دنیا خود سے وجود میں آگئی اور خود ہی قائم ہو گئی۔عقل انسان یہ ماننے پر
مجبور ہے کہ ،کوئی زبردست طاقت اور قوت کا مالک ہے، جو اس کا بھر پور انتظام اور تدبیر کرتا ہے ۔ ایک ماہر فلسفی اور سائنس دان لکھتا ہے: ’’کائنات پر ایک نظر دوڑاءئے تو آپ کو اس میں ایک زبردست نظم و ترتیب نظر آئے گی، یہ نظم و ترتیب ایک ناظم اور ایک مرتب کے وجود کی زندہ شہادت ہے۔اتنے وسیع و عریض کائنات کا نظم و نسق کوئی معمولی شخصیت نہیں سنبھال سکتی ۔ لہذا اس کائنات کا ناظم وہی قادر مطلق ذات ہے،جس کی قوتوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا ،یہ وہ انداز فکر ہے جس کو اختیار کر لینے کے بعد ایک تین چار سال کا بچہ بھی علت و معلول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا ہے‘‘۔
(خدا موجود ہے،باب ۳۰ حوالہ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ۔از سید جلال الدین عمری ۲۴)
آخر میں وجود باری تعالیٰ کے ثبوت میں ہم اس دنیا ہی کو پیش کر رہے ہیں ۔ اس دنیا کا وجود خود ہی ایک خالق اور صانع کے وجود کی دلیل ہے ،ہم دیکھتے ہیں ایک کار خانہ کو وجود میں لا نے کے لیے مالک، انجینےئر،مستری اور بے شمار مزدوروں کی ضرورت رہتی ہے،ان کے بغیر ایک کار خانہ وجود میں نہیں آ سکتا، دنیا کی کوئی بھی شئی لے لیجئے اور پھر دیکھئے کہ کیا وہ کسی کے بنائے بغیر وجود میں آگئی ہے؟ یہ میز ،یہ کرسیاں و فرنیچر،یہ مکانات،یہ کپڑے،یہ روٹی غرض ہر ایک چیز اسی وقت وجود میں آتی ہے جب ان کا کوئی بنا نے والا ہوتا ہے ۔ جب بات یہ ہے تو کیا یہ زمین ،یہ آسمان،یہ چاند،یہ سورج،یہ ستارے،یہ سمندر،یہ پہاڑ،یہ لہلہا تی ہوئی کھیتیاں، کیا کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گئیں؟ جب یہ کرسی، ایک ٹکڑا کپڑا،اور ایک دیوار بغیر کسی کے بنائے خود نہیں بن سکتی ہیں تو بھلا دنیا کی یہ ساری چیزیں خود بہ خود کس طرح وجود میں آسکتی ہیں؟ اس کائنات کا موجود ہونا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ایک خالق ہے۔ ہم جو بھی چیز دیکھتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے ذہن میں سوال فوراً اٹھتا ہے کہ وہ کہاں سے آئی، اسے کس نے وجود بخشا،اور جب تک ہم ایک خالق اور موجد کو مان نہیں لیتے یہ سوال برقرار رہتا ہے۔
*******
وجود باری تعالی کا ثبوت
یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں الحاد و بے دینی اور مادہ پرستی کا دور ہے۔ اس میں نہ صرف اللہ کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے ،بلکہ سرے سے دنیا کا کوئی خالق ہی تسلیم نہیں کیا جاتا ، اس پوری کائنات کو ایک اتفاقی واقعہ یا حادثہ کے طور پروجود میں آئی ہوئی چیز مانا جا رہا ہے ، جس کا نہ کوئی خالق ہے، نہ کوئی مالک، نہ اس کا کوئی بنانے والا ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی انتظام کر نے والا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بس اتفاقی طور پر وجود میں آ گئی اور پھر رفتہ رفتہ ترقی کے منازل طے کرتی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ دنیا جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے ،مختلف پہلوؤں سے نہ صرف ایک علۃ العلل پر بلکہ ایک ایسے معبود حقیقی پر شاہد اور گواہ ہے، جو تمام صفاتِ کمال سے متصف ہے، اعلیٰ درجہ کی انتظامی صلاحیت کا مالک ہے، اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔اس شہادت کی بنیاد ایسے امور پر ہے جن کا ہم آئے دن خارج میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ،اور ہماری نگاہوں کے سامنے روز گھومتی رہتی ہیں، جن کے بارے میں ہماری عقل اور ہماری فطرت مجبور کرتی ہے کہ ہم ان کو کسی ایسی ذات کی طرف منسوب کریں ،جو ان کی مصور ہو سکے،یہ شہادات ہمارے اپنے اندر بھی ہیں اور خارج میں بھی۔
سب سے پہلی چیز جو ہمارے ذہن کو متوجہ کرتی ہے اور عقل انسانی جس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے،وہ اس کائنات کا حسن و جمال ہے ۔جو اس کے ہرہر گوشے سے ظاہر ہے ،اور اس کی ہرہر چیزمیں پایاجاتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی سادہ اور بے رنگ نہیں ہے ۔کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہیں جو اپنی طرف کو کھینچتی نہ ہو اور جس میں دل کشی نہ پائی جاتی ہو۔آسمان
سے لے کر زمین تک کوئی بھی چپہ ایسا نہیں ہے جہاں سے انسان غافل و بے پرواہ گذر سکے۔ہر جگہ اس کے دل کو کھینچنے،اس کی آنکھوں کو بیدار کرنے اور اس کے کانوں کو کھولنے کے لیے دل فریب مناظر، بے حجاب جلوے اور شیریں نغمے موجود ہیں ۔انسان جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھتا ہے، اس دنیا کے حسین مناظراسے اپنی اپنی طرف کھینچنے لگتے ہیں۔دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے ،کہ وہ انہیں دیکھے اور دیکھتا ہی رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان حسن کا شیدائی ہے۔اس کے اندر حسن کا نہایت گہرا احساس و دیعت کیا گیا ہے۔چنانچہ جب وہ اپنے ارد گرد حسن و جمال کے ان رنگا رنگ جلوؤں اور دل فریب خوش نما مناظرکو دیکھتا ہے ،تودفعتہ اس کے اندر اس کا خیال پیدا ہو تا ہے کہ آخر انہیں کس ہستی نے وجود بخشاہے۔کس ذات نے ان کے اندر دل کشی پیدا کی ہے،اور کس نے انہیں بنا یا ہے؟۔کیوں کہ انسان یہ تصور کر نے سے بالکل قاصر ہے کہ اتنی دل فریبیوں سے معمور یہ دنیا خود بہ خود وجود میں آ گئی۔یہ ممکن نہیں کہ آسمان اور زمین کے جلوؤں کو دیکھے اور یوں ہی گزر جائے۔ اگر آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو اس دنیا کا مشاہدہ خود بہ خود انسان میں ایک خالق کا یقین پیدا کر تا ہے۔اس دنیا کی چیزیں صرف ہماری کسی مادی ضرورت ہی کو نہیں پورا کر تیں ،بلکہ ان میں سے ہر ایک کی تخلیق میں حسن خوب روئی اور کمال صفت کی ایسی نمائش ہے کہ وہ آپ سے آپ ایک اعلیٰ اور بر تر حقیقت پر ایمان لانے کے لیے متنبہ کر تی ہیں۔کیوں کہ ظاہر ہے یہ کائنات اپنے وجود و بقا کے لیے ان رنگینیوں کی محتاج نہیں ہے۔ممکن تھا کہ یہ زمین ہوتی ؛لیکن یہ لہلہاتی ہوئی کھیتیاں ،یہ ہرے بھرے سبزہ زار، یہ مہکتے ہوئے چمن ،رنگ برنگے غنچے ،وادی و کہسار اور کانوں میں رس گھولنے والا آبشار ،دل کی سرسراہٹ نہ ہوتی۔ممکن تھا یہ فضا ہوتی؛ لیکن اس میں باد نسیم کے لطیف جھونکے،پھولوں کی بھینی بھینی خوش بواور چڑیوں کی چہچہاہٹ نہ ہوتی۔یہ آسمان ہوتا مگر ستاروں کی یہ محفل ،شفق کے یہ جلوے،چاند کا حسن و جمال اور دھنک کی رنگا رنگیاں نہ ہوتیں۔کیا یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل نہیں ہیں ، کہ اس کا کوئی خالق ہے ،جو حساس طبیعت کا مالک ہے اور کمال قدرت سے متصف اور حکمت والا ہے ۔
ایک اور اہم قابل توجہ پہلو اس کائنات کے مختلف اجزاء کا باہمی توافق اور ان کی باہمی ساز گاری ہے۔اس دنیا کے مختلف اجزاء جو باہم ایک دوسرے کے بر عکس صلاحیت رکھتے ہیں ،جن کے عناصر جدا جدا ہیں ،ان کی طبیعتیں بھی مختلف ہیں، اور آپس میں ضدین اور تباین کی نسبت رکھتے ہیں۔جس میں پوری طرح ساز گاری اور موافقت پائی جاتی ہے،ہر ایک چیز دوسری کی ممدو معاون ہے۔توافق کا یہ پہلو ہم صرف ضدین ہی میں نہیں پاتے بلکہ اس کائنات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ،کہ اس میں ایک مکمل نظام پایا جا تا ہے ۔ جس کے ہرہر چیز میں توافق اور ساز گاری ہے۔ دنیا کی ہر چیز اپنی ہستی کے بقاء اور وجود کی نشوو نما کے لیے اس بات کی محتاج ہے کہ یہ پورا کار خانہ اس کے لیے سر گرم رہے۔گیہوں کے ایک دانہ کو کمال تک پہونچنے کے لیے کائنات کے تمام عناصر زمین، بارش، سورج،ہوا،شبنم اور چاند، ان میں سے ہر ایک چیز اس کی حسب ضرورت کفالت کرتی ہے۔
ایک عقل مند یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ،کیا کائنات کا ارتقاء خود بہ خود ہو رہا ہے؟کیا ہر چیز کو خود بہ خود ترقی مل رہی ہے؟ یا اس کے پیچھے ایک مدبر ہے ۔اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ یہ دنیا ایک اتفاقی واقعہ ہے ۔آپ سے آپ وجود میں آ گئی،تو کیا ان کے اندر موافقت پیدا ہو نا بھی ایک اتفاقی امر ہے۔ کوئی ہوش مند یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا کہ ہوا،پانی،آگ ،مٹی،دریا ،پہاڑ، سورج،چرند و پرند،سب کے سب اتفاقی حوادث کے تحت وجود میں آئے اور پھر اتفاقی طور سے ان میں توافق بھی پیدا ہو گیا۔یہ صورت حال اس امر کا نہایت قوی ثبوت ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک حکیم و قوی ارادہ ہے ،جواس کو وجود میں لا یا ہے۔ جو شخص دیکھتا ہے کہ بادلوں سے پانے برستا ہے ،اس سے زمین لہلہا اٹھتی ہے ،اس سے اگنے والے نباتات کو چوپائے چر تے ہیں ۔ان سے دودھ کے فوارے نکلنا شروع ہوتے ہیں جنہیں انسان پیتا ہے۔ اسی بارش کے ذریعہ پیدا ہونے والے انگوراور کھجور سے انسان اپنی غذا،لذت اور ضرورت کی طرح طرح کی چیزیں پیدا کر لیتا ہے۔
شہد کی مکھیاں پھول پھول کا رس چوس کر ان کو جمع کرتی ہیں ،ان پھولوں کے رنگ بھی مختلف اور مزے بھی جدا ہو تے ہیں ۔انسان اس کو پی کر لذت بھی حاصل کرتا ہے اور بیماریوں کے
علاج میں بھی اسے کام میں لاتا ہے ۔اگر کوئی ان ساری چیزوں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے وہ کس طرح یہ مان سکتا ہے کہ دنیا اور اس کے یہ عبرت انگیز مظاہر بالکل ایک اتفاقی حادثہ کے طور پر ظہور میں آگئے۔جس دنیا کے اتنے بعید اجزاء کے اندر اتنے گہرے رشتے ہیں اور جو اپنے متضاد اجزاء کی کشا کشوں کے اندر ہم آہنگی کے اتنے پہلو رکھتی ہے ،وہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہو سکتی۔میٹھے پانی کے دریا اور کھارے پانی کے سمندر،دن کے نور اور شب کی تاریکی،سورج کی حدت اور چاند کی برودت ان چیزوں میں کس قدر تضاد ہے، مگر اس کے باوجود یہ ساری چیزیں کائنات کے لیے مفید ہیں،اور ہر انسان ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے،تو کیا یہ سب اتفاق ہے؟یہ نظم،یہ ضابطہ کی پابندی،یہ ہم آہنگی یہ ساز گاری،کیا خود بہ خود ہے۔ اگر ان سب چیزوں کے باوجود کوئی بغیر خالق کے ہو نے پر اصرار کرتا ہے تو ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسے بس نہ ماننے کی خواہش ہے۔
خالق حقیقی کے وجود کی ایک دلیل یہ بھی ہے جو ہمارے مشاہدے میں روز آتی رہتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی اتنی ساری چھوٹی بڑی چیزیں نہ صرف قائم و باقی ہیں بلکہ اپنی اپنی وسعت اور صلاحیت کے بقدر ترقی کر رہی ہیں،اور پھل پھول رہی ہیں۔ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس کائنات کی ہر قوت شتر بے مہار کے مانند اپنی اپنی ڈگر پر بڑھتی چلی جا رہی ہے، اور کسی قانون اور ضابطہ کی پا بند نہیں معلوم ہوتی،پھر یکایک ان میں تغیر آجا تا ہے،ایسا محسوس ہو تا ہے کہ گو یا کسی نے پکڑ کر اسے دوسری راہ میں لگا دیا ہو ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نظام باطل اپنے پورے آب و تاب اور قوت کے ساتھ پھلتا پھولتا رہتا ہے ۔اسے برابر مہلت ملتی رہتی ہے۔اس کے ظلم سے اہل حق گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں ۔مصلحین کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں ۔درد مند انسان اصلاح احوال سے مایوس ہو نے لگتا ہے ۔اس سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔ایسے میں یکایک ایک لمحہ ایسا آتا ہے ،جو اس پورے نظام باطل کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے۔اسے بیخ و بن سے اکھاڑ دیتا ہے۔ سر کشوں اور ظالموں کی کمر توڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔اس چیز کے مشاہدے کے بعد عقل یہ تسلیم کر نے کے لیے تیار نہیں ہو تی کہ یہ دنیا خود سے وجود میں آگئی اور خود ہی قائم ہو گئی۔عقل انسان یہ ماننے پر
مجبور ہے کہ ،کوئی زبردست طاقت اور قوت کا مالک ہے، جو اس کا بھر پور انتظام اور تدبیر کرتا ہے ۔ ایک ماہر فلسفی اور سائنس دان لکھتا ہے: ’’کائنات پر ایک نظر دوڑاءئے تو آپ کو اس میں ایک زبردست نظم و ترتیب نظر آئے گی، یہ نظم و ترتیب ایک ناظم اور ایک مرتب کے وجود کی زندہ شہادت ہے۔اتنے وسیع و عریض کائنات کا نظم و نسق کوئی معمولی شخصیت نہیں سنبھال سکتی ۔ لہذا اس کائنات کا ناظم وہی قادر مطلق ذات ہے،جس کی قوتوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا ،یہ وہ انداز فکر ہے جس کو اختیار کر لینے کے بعد ایک تین چار سال کا بچہ بھی علت و معلول کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو پہچان سکتا ہے‘‘۔
(خدا موجود ہے،باب ۳۰ حوالہ، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں ۔از سید جلال الدین عمری ۲۴)
آخر میں وجود باری تعالیٰ کے ثبوت میں ہم اس دنیا ہی کو پیش کر رہے ہیں ۔ اس دنیا کا وجود خود ہی ایک خالق اور صانع کے وجود کی دلیل ہے ،ہم دیکھتے ہیں ایک کار خانہ کو وجود میں لا نے کے لیے مالک، انجینےئر،مستری اور بے شمار مزدوروں کی ضرورت رہتی ہے،ان کے بغیر ایک کار خانہ وجود میں نہیں آ سکتا، دنیا کی کوئی بھی شئی لے لیجئے اور پھر دیکھئے کہ کیا وہ کسی کے بنائے بغیر وجود میں آگئی ہے؟ یہ میز ،یہ کرسیاں و فرنیچر،یہ مکانات،یہ کپڑے،یہ روٹی غرض ہر ایک چیز اسی وقت وجود میں آتی ہے جب ان کا کوئی بنا نے والا ہوتا ہے ۔ جب بات یہ ہے تو کیا یہ زمین ،یہ آسمان،یہ چاند،یہ سورج،یہ ستارے،یہ سمندر،یہ پہاڑ،یہ لہلہا تی ہوئی کھیتیاں، کیا کسی بنانے والے کے بغیر خود بن گئیں؟ جب یہ کرسی، ایک ٹکڑا کپڑا،اور ایک دیوار بغیر کسی کے بنائے خود نہیں بن سکتی ہیں تو بھلا دنیا کی یہ ساری چیزیں خود بہ خود کس طرح وجود میں آسکتی ہیں؟ اس کائنات کا موجود ہونا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ایک خالق ہے۔ ہم جو بھی چیز دیکھتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے ذہن میں سوال فوراً اٹھتا ہے کہ وہ کہاں سے آئی، اسے کس نے وجود بخشا،اور جب تک ہم ایک خالق اور موجد کو مان نہیں لیتے یہ سوال برقرار رہتا ہے۔
*******
No comments:
Post a Comment