ابو عائشہ جمال احمد السلفی
’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: لا یحل لمسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاث لیال یلتقیان فیعرض ھذا و یعرض ھذا و خیرھما الذی یبدأ با لسلام‘‘ ( صحیح بخاری،کتاب الادب، صحیح مسلم، کتاب البر تحریم الھجر فوق ثلاث)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ تعلق منقطع رکھے،دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اس سے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے اس لئے اس میں انسان کے فطری امور و معاملات کی مناسب حد تک رعایت کی گئی ہے۔ انسان مدنیّ الطبع ہے ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رھنا عموماً پسند کرتا ہے، اس میل ملاپ کی وجہ سے ان میں کبھی کبھار تلخی و کشیدگی اور طبیعت میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے ،جس کی وجہ سے بسا اوقات دوسرے شخص کے تعلق سے دل میں کدورت و نفرت بیٹھ جاتی ہے، اور وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرنا اور تعلق قائم رکھنا پسند نہیں کرتے۔ شریعت نے اس فطری انقباض کو ایک حد تک گوارا کیا ،اور تین دن تک بول چال بند رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ لیکن زیادہ دنوں تک قطع کلامی اور ترک تعلق شدید بغض و عناد کا باعث بنتا ہے ،جس سے معاشرہ میں لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے کو زیر و کمزور کرنے کی عادت عام ہو جاتی ہے، قرابتدارانہ ،دوستانہ مراسم میں شدید خلل پڑتا ہے اور آپسی ماحول سے امن و سکون غارت ہو تا ہے۔ مذھبِ اسلام نے عارضی تلخی و کشیدگی کو گوارا کیا اور اسے تین دن سے زیادہ باقی رکھنے سے روک دیا، تاکہ انسان کو اپنے
دل کے غبار کو باھر نکالنے اور جذبات کوصاف ستھرا کرنے کا موقع مل جائے ۔آج مسلمان نبی ﷺ کے اس فرمان کو بھول چکا ہے، اور مختلف آپسی چھوٹے بڑے اختلافات کو انا کا مسئلہ بناکر دوسرے سے علیحدگی و کنارہ کشی میں اپنی عزت و شان سمجھتا ہے ۔حالانکہ اعتماد باھمی ،کسر نفسی اور حسن ظن کی بدولت بڑے بڑے اختلافات و معاملات سلجھ جاتے ہیں اور بات جہاں سے چلی تھی وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو کشادہ قلبی کے ساتھ اخوت ایمانی بر قرار رکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
*****
قطع کلام ہے عمل حرام
’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: لا یحل لمسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاث لیال یلتقیان فیعرض ھذا و یعرض ھذا و خیرھما الذی یبدأ با لسلام‘‘ ( صحیح بخاری،کتاب الادب، صحیح مسلم، کتاب البر تحریم الھجر فوق ثلاث)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ تعلق منقطع رکھے،دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اس سے اور وہ اس سے منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے اس لئے اس میں انسان کے فطری امور و معاملات کی مناسب حد تک رعایت کی گئی ہے۔ انسان مدنیّ الطبع ہے ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رھنا عموماً پسند کرتا ہے، اس میل ملاپ کی وجہ سے ان میں کبھی کبھار تلخی و کشیدگی اور طبیعت میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے ،جس کی وجہ سے بسا اوقات دوسرے شخص کے تعلق سے دل میں کدورت و نفرت بیٹھ جاتی ہے، اور وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرنا اور تعلق قائم رکھنا پسند نہیں کرتے۔ شریعت نے اس فطری انقباض کو ایک حد تک گوارا کیا ،اور تین دن تک بول چال بند رکھنے کی اجازت دی ہے ۔ لیکن زیادہ دنوں تک قطع کلامی اور ترک تعلق شدید بغض و عناد کا باعث بنتا ہے ،جس سے معاشرہ میں لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے کو زیر و کمزور کرنے کی عادت عام ہو جاتی ہے، قرابتدارانہ ،دوستانہ مراسم میں شدید خلل پڑتا ہے اور آپسی ماحول سے امن و سکون غارت ہو تا ہے۔ مذھبِ اسلام نے عارضی تلخی و کشیدگی کو گوارا کیا اور اسے تین دن سے زیادہ باقی رکھنے سے روک دیا، تاکہ انسان کو اپنے
دل کے غبار کو باھر نکالنے اور جذبات کوصاف ستھرا کرنے کا موقع مل جائے ۔آج مسلمان نبی ﷺ کے اس فرمان کو بھول چکا ہے، اور مختلف آپسی چھوٹے بڑے اختلافات کو انا کا مسئلہ بناکر دوسرے سے علیحدگی و کنارہ کشی میں اپنی عزت و شان سمجھتا ہے ۔حالانکہ اعتماد باھمی ،کسر نفسی اور حسن ظن کی بدولت بڑے بڑے اختلافات و معاملات سلجھ جاتے ہیں اور بات جہاں سے چلی تھی وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو کشادہ قلبی کے ساتھ اخوت ایمانی بر قرار رکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
*****
No comments:
Post a Comment