مولاناحمید اللہ ندوی
’’قل أ تعلمون اللہ بدینکم واللہ یعلم ما فی السمٰوٰت وما فی الارض واللہ بکل شئی علیم،یمنون علیک ان اسلموا،قل لا تمنوا علی اسلامکم،بل اللہ یمن علیکم ان ھداکم للایمان ان کنتم صادقین‘‘۔ (سورۃ الحجرات ۔۱۶)
اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ کو اپنی دینداری جتلانا چاہتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین پر ہے ،اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ،وہ لوگ آپ پر احسان جتا تے ہیں کہ اسلام لائے، اے نبیؐ آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتلاؤ ،بلکہ اللہ نے تم پر احسان کیا کہ تم کو ایمان کی ھدایت بخشی اگر تم سچے ہو۔
تشریح:۔ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے ،بندوں پر اس کے بے شمار احسانات ہیں۔ اس کا سب سے بڑا احسان کسی بندے پر یہ ہے کہ اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا۔ گمراہی کی گھٹا ٹوپ تاریکی سے نکا کر ھدایت کی روشنی عطا کی۔ اب جس بندے کو یہ بیش قیمت دولتِ ایمان حاصل ہو گئی اس کے لیے واجب ہے کہ اپنے معبودِ حقیقی کا شکریہ ادا کرے، اور اس کی اطاعت اپنی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی سمجھے،نہ کہ الٹا اللہ پاک پر احسان جتائے کہ ہم اس کی وحدانیت پر ایمان لائے ۔ اس کے رسول کی رسالت کو تسلیم کیا ۔جیسا کہ خود پرست جاہل اور گنوار لوگ آج اسی خیال میں مست ہو کر سطح زمین پر قدم اتارنا نہیں چاہتے۔ اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے اس بات
کے دعویدار ہیں کہ ہم اللہ والے ہیں۔ ہم حاجی و نمازی ہیں ۔اسی احساس برتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کے اعمال اور نکو کاری کو حقیر سمجھتے ہیں۔ قدم قدم پر تقویٰ و پرہیز گاری کا ڈھڈھورا پیٹ کر ہر طرح کے دنیاوی مفاد کے حصول کی تمنا دل میں بسائے ہوتے ہیں۔
مذکورہ آیات میں ایسے ہی خواب کی دنیا میں رہنے والوں کو ادب سکھا یا گیا ہے،کہ تم اسلام لا کر اپنی مسلمانیت کا مظاہرہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے نہ کرو،کیوں کہ اللہ تو
عالم الغیب ہے وہ ہر کے اسلام اور اس سے بڑھکر جو درجہ ہے ایمان شرعی کا اس کو بخوبی معلوم ہے ۔ احسان سناش بندے پر سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہدایت کی توفیق ملنے کے بعد اسلام کے احکام کو دل سے تسلیم کر ے اور پھران کو عملی شکل میں لائے۔جب یہ شان کسی بندے کے اندر پیدا ہو جائے گی تو اس کو اوروں کے سامنے اپنے اسلام کے بیان کرنے کی ضرورت نہ ہو گی ،بلکہ اس سے خوف کھائے گا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا اسلام اللہ کے نزدیک معتبر نہ ہو اور ریا و بمود نے ہماری نیکیون کو کھا لیا ہو،اور ہم آخرت میں محرومی کے شکار ہو جائیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی اسلام کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
ہدایت احسان الٰہی ہے
’’قل أ تعلمون اللہ بدینکم واللہ یعلم ما فی السمٰوٰت وما فی الارض واللہ بکل شئی علیم،یمنون علیک ان اسلموا،قل لا تمنوا علی اسلامکم،بل اللہ یمن علیکم ان ھداکم للایمان ان کنتم صادقین‘‘۔ (سورۃ الحجرات ۔۱۶)
اے نبیؐ ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ اللہ کو اپنی دینداری جتلانا چاہتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین پر ہے ،اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ،وہ لوگ آپ پر احسان جتا تے ہیں کہ اسلام لائے، اے نبیؐ آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتلاؤ ،بلکہ اللہ نے تم پر احسان کیا کہ تم کو ایمان کی ھدایت بخشی اگر تم سچے ہو۔
تشریح:۔ اللہ تعالیٰ منعم حقیقی ہے ،بندوں پر اس کے بے شمار احسانات ہیں۔ اس کا سب سے بڑا احسان کسی بندے پر یہ ہے کہ اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا۔ گمراہی کی گھٹا ٹوپ تاریکی سے نکا کر ھدایت کی روشنی عطا کی۔ اب جس بندے کو یہ بیش قیمت دولتِ ایمان حاصل ہو گئی اس کے لیے واجب ہے کہ اپنے معبودِ حقیقی کا شکریہ ادا کرے، اور اس کی اطاعت اپنی سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی سمجھے،نہ کہ الٹا اللہ پاک پر احسان جتائے کہ ہم اس کی وحدانیت پر ایمان لائے ۔ اس کے رسول کی رسالت کو تسلیم کیا ۔جیسا کہ خود پرست جاہل اور گنوار لوگ آج اسی خیال میں مست ہو کر سطح زمین پر قدم اتارنا نہیں چاہتے۔ اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے اس بات
کے دعویدار ہیں کہ ہم اللہ والے ہیں۔ ہم حاجی و نمازی ہیں ۔اسی احساس برتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کے اعمال اور نکو کاری کو حقیر سمجھتے ہیں۔ قدم قدم پر تقویٰ و پرہیز گاری کا ڈھڈھورا پیٹ کر ہر طرح کے دنیاوی مفاد کے حصول کی تمنا دل میں بسائے ہوتے ہیں۔
مذکورہ آیات میں ایسے ہی خواب کی دنیا میں رہنے والوں کو ادب سکھا یا گیا ہے،کہ تم اسلام لا کر اپنی مسلمانیت کا مظاہرہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے نہ کرو،کیوں کہ اللہ تو
عالم الغیب ہے وہ ہر کے اسلام اور اس سے بڑھکر جو درجہ ہے ایمان شرعی کا اس کو بخوبی معلوم ہے ۔ احسان سناش بندے پر سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہدایت کی توفیق ملنے کے بعد اسلام کے احکام کو دل سے تسلیم کر ے اور پھران کو عملی شکل میں لائے۔جب یہ شان کسی بندے کے اندر پیدا ہو جائے گی تو اس کو اوروں کے سامنے اپنے اسلام کے بیان کرنے کی ضرورت نہ ہو گی ،بلکہ اس سے خوف کھائے گا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا اسلام اللہ کے نزدیک معتبر نہ ہو اور ریا و بمود نے ہماری نیکیون کو کھا لیا ہو،اور ہم آخرت میں محرومی کے شکار ہو جائیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی اسلام کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment