Oct-dec 2009گوشۂ خواتین : ضدی بچوں کو کیسے سدھاریں :آفتاب حسین - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, March 16, 2010

Oct-dec 2009گوشۂ خواتین : ضدی بچوں کو کیسے سدھاریں :آفتاب حسین

ضدی بچوں کو کیسے سدھاریں
گوشۂ خواتین
آفتاب حسین

ایک ضدی بچہ اپنے والدین کے ضبط و تحمل کا امتحان لینے کے لیے پیدا ہو تا ہے ۔یہ وہ بچہ ہے؛ جس سے جونہی کہیں گے’’پلیز! گلدان کو مت چھونا۔‘‘وہ ہی کرنے کے لیے اسی طرف لپکے گا ۔آپ حیران ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔’’کیا یہ بچہ نارمل ہے؟‘‘کیوں کہ اس کا رویہ تو انتہاپسندانہ لگتا ہے۔لیکن نہیں ۔ضدی بچے مافوق العادات یعنی اب نارمل نہیں ہو تے بل کہ وہ دنیا کے بارے میں بہت مختلف طریقے سے سیکھتے ہیں۔
فطری اعتبار سے ضدی بچے انتہائی منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں ۔اس کا یہ مطلب ہو تا ہے کہ وہ نظم و ضبط کو نہیں مانتے ۔’’کسی کی بالا دستی تسلیم نہیں کر تے اور حدود کی پاسداری نہیں کر تے بل کہ اس کی مزاحمت کرتے ہیں ۔اگر آپ ایک مرتبہ سمجھ جائیں کہ آپ کے بچے کا مزاج اس کے رویے کو کیا شکل دیتا ہے، تو آپ رفتہ رفتہ اسے سمجھنے لگیں گے۔
فطری طور پر ضدی بچوں کے والدین کوان کی بہت زیادہ رہنمائی اور اصلاح کرنی پڑتی ہے ۔لیکن اگر آپ ایک مرتبہ اپنے بچے کو اپنے پسندیدہ سانچے میں ڈھالنے کی فکرکیے بغیر اسے قبول کر لیں، تو آپ کی ذہنی پریشانیاں کم ہو سکتی ہیں ۔پھر آپ اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چھوڑ دیں گے ۔’’مجھے ہر بات بار بار کیوں دہرانی پڑتی ہے ‘‘۔آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کا بچہ آپ کے نظم و ضبط اور اصولوں کا امتحان لینے کے لیے پیدا ہوا ہے اور آپ کا کام صرف صحیح سمت میں اس کی رہنمائی کرتے رہنا ہے ۔آپ کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کا بچہ جان بوجھ کر آپ کی نا فرمانی نہیں کر رہا ہے اور آپ کے اصولوں کا منہ نہیں چڑا رہا بل کہ وہ اپنے طریقے سے دنیا کو اور سماج کے اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اس کا یہ رویہ اس کی اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
اپنے بچے کو سدھارنے کے لیے اس کے مزاج اور اس کی طبیعت کو سمجھنا نہایت اہم ہے۔کیوں کہ ایسے بچوں کا رویہ والدین کو نہ صرف برہم کردیتا ہے ،بل کہ وہ اس سے تنگ آجاتے ہیں اور اس کی طرف سے مایوس اور آزردہ ہو جاتے ہیں ۔
ایک ماں اپنی بچی کے رویہ سے اس قدر پریشان تھی کہ اس نے برملا اس کا اظہار کیا کہ ’’ہم نے اپنے دوستوں کے گھروں میں جانا چھوڑدیا ہے، کیوں کہ ہمارے لیے اپنی بچی کو کنٹرول کرنا نا ممکن ہو جا تا ہے ،جس دن وہ اسکول نہیں جاتی ،ٹیچر سکھ کا سانس لیتی ہے اور بڑے سکون سے کلاس کے دیگر بچوں کو پڑھاتی ہے۔‘‘ اگر والدین بھی اتفاق سے بد مزاج ہوں تو معاملہ اور بھی بگڑ سکتا ہے ۔فرمانبردار بچوں سے پیار کرنا بہت آسان ہو تا ہے، لیکن ایک ضدی اور خود سر بچے سے شفقت اور محبت سے پیش آنا بہت مشکل ہو تا ہے ۔لہٰذا آپ یہ سوچنا ترک کر دیں کہ آپ کے ذہن میں ایک آدرش بچے کا کیا قصور ہے اور اپنے بچے کو جیسا بھی ہوقبول کر لیں ۔ ضدی بچے نظم و ضبط ذرا مشکل طریقے سے سیکھتے ہیں ۔ایک امریکی ماہر نفسیات رابرٹ میکنزی کا کہنا ہے کہ’’جب ہماری باتیں ہمارے عمل سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں تو بچے ہماری باتوں پر کان دھرنا چھوڑ دیتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہاں ایک عام سی مثال پیش کی جارہی ہے !آٹھ سالہ جمی اپنے کھلوں نے سے کھیل رہا ہے جو فرش پر ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں وہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے ۔’’ممی کیا میں ٹام کے ساتھ کھیلنے جا سکتا ہوں ۔‘‘ ’’بالکل جا سکتے ہو۔‘‘ ماں جواب دیتی ہے ۔’’لیکن جا نے سے پہلے اپنے سارے کھلونے اُٹھا لو۔‘‘ وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل جاتی ہے ،جب تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ کمرے میں آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ سارے کھلونے جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں، اور جمی جا چکا ہے۔’’اوہ خدایا میں اس بچے کا کیا کروں ۔‘‘وہ برہمی سے بڑبڑاتی ہے اور پھر خود ہی سارے کھیلونے اُٹھا کر رکھ دیتی ہے ۔
بعد میں جب جمی گھر لوٹتا ہے، دیکھتا ہے کہ سارے کھلونے اُٹھا لیے گیے ہیں ۔وہ آپ ہی آپ مسکراتا ہے کیوں کہ اس کی ماں کے عمل نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے جو اسے پہلے سے معلوم ہے ۔جب اس کی ماں نے یہ کیا تھا کہ اپنے کھلونے اُٹھا لو تو اس کا مطلب سچ مچ یہ نہیں تھا ۔ سارے بچے یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے بڑے اپنے اصولوں پر کتنی سختی سے عمل کرتے ہیں ،بار بار انہیں پرکھتے ہیں ؛لیکن ضدی بچے اپنی اسی جستجو میں بہت زیادہ جارحیت پسند ہوتے ہیں ۔ان کے اعتبار سے لفظ ’’رکو‘‘محض ایک تھیوری کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر وہ نہیں رکیں گے تو کیا ہو گا ؟ وہ جانتے ہیں کہ یہ کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے ۔‘‘رابرٹ میکنزی کہتے ہیں ،’’والدین کو چاہئے کہ وہ ایسے بچوں کو اور وضعداری سیکھنے کا ڈھیر سارا موقع دیں، سختی اور احترام میں ایک توازن پیدا کریں،انہیں چاہئے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنے پیغام بچے تک پہنچائیں ۔انہیں ترتیب دیں اور تنبیہ لگا تار کرتے رہیں ،جو منطقی اعتبار سے ان کے رویے سے مطابقت رکھتی ہو۔ ضروری نہیں کہ یہ تنبیہ سزا ہو، لیکن تعمیری ضروری ہو ۔مثال کہ طور پر اگر بار بار کی یاد دہانی کہ باوجود اپنی بائیک دور ہٹا کر نہیں رکھتا ،اور آپ کہتے ہیں’’ کھانے میں آئسکریم نہیں ملے گی۔‘‘تو یہ تنبیہ اس کے رویے سے مطابقت نہیں رکھتی۔ منطقی اعتبار سے آپ کو یہ کہنا چاہیے۔’’ایک دن کے لیے بائیک چلانا بند۔‘‘اس طرح بچہ مزاحمت کر نے،دل گرفتہ ہونے اوربرہم ہونے کے باوجود اپنی ذمہ داری محسوس کرنے لگے گا ۔اگر آپ کے بچے آپس میں مسلسل لڑتے،جھگڑتے اور بحث کرتے رہتے ہیں، تو آپ کو کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ آےئے ایک نظر اس مکالمے پر ڈالتے ہیں ۔
ممی (عام سے لہجے میں )’’بچو،شورشرابا بند کرو اور آپس میں لڑے ،جھگڑے بغیر سکون سے ٹی ،وی دیکھنا سیکھو۔‘‘بھائی’’میں یہاں پہلے آیا تھا ،اور اس نے میرے ہاتھ سے ریموٹ چھین لیا ۔‘‘ بہن ’’یہ ہمیشہ اپنے پسند کے پروگرام دیکھنا چاہتا ہے ،یہ سراسر زیادتی ہے۔‘‘ممی ’’پروگرام منتخب کرنے کی باری کس کی ہے ؟‘‘
بھائی ’’اس کی باری ہے‘‘۔ممی’’بہت خوب،مجھے خوشی ہے کہ یہ طے ہو گیا ،اب اگر تم دونوں آپس میں لڑے تو کل ٹی،وی پروگرام سے محروم رہنا پڑے گا ۔‘‘دیکھیں،ماں نے کس طرح انہیں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے سے بد سلوکی کرنے سے روک دیا۔ایک دوسرے کا احترام کرنے اورتمیز سے بات کرنے کی تعلیم دی، ساتھ ہی انجام سے بھی با خبر کر دیا اور یہ تربیت بھی دے دی کی انہیں اپنے مسائل خود سے کیسے حل کرنا چاہئے

No comments:

Post a Comment