گوشۂ اطفال
آفتاب حسن
کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا ۔اس میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی ۔اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر پڑا غرور تھا اور اکثر غول کا سردار بننے کی سوچا کرتی؛ لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقل مند اور رحم دل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہیں چلتی تھی ۔اس کے شازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملا نے کی کئی بار کوشش کی؛ لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ ایک بھی چیونٹی اس کے ورغلا نے میں نہیں آئی۔نرمی سے کام نہیں بن سکا ،تو اپنی طاقت کے سہارے یہ ان پر ظلم و ستم کرنے لگی۔وقت بے وقت کسی نہ کسی کو مارنے لگتی اور موقع ملتے ہی ان کا دانہ چھین لیتی ۔تھوڑے ہی دنوں میں سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ہر چیونٹی اس کے ظلم سے تھرانے لگی۔جب بہت جینا دشوار ہو گیا ،تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر سردار کے پاس پہنچ گئیں۔
سردار پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سنتی رہی ،پھر بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی’’بہنو! تمہاری دکھ بھری کہانی سن کر بہت ہی دکھ ہوا اور یہ تمہارا ہی نہیں میرا بھی غم ہے ۔میری یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادی جائے۔اس لئے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کر تی ہوں ؛کیوں کہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔‘‘ پھر سردارِ چیونٹی انہیں صبر کے فائدے بتا کر صبر کرنے کی نصیحت کر نے لگی۔تمام چیونٹیوں کو اپنے سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسا تھا چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی سردار کی باتوں کو گرہ میں باندھ کر اپنے اپنے گھروں کو ہنسی خوشی چلی گئیں۔
ایک دن کا واقعہ ہے سردار چیونٹیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا دانہ دیوار پر چڑھا نے کی کوشش کر رہی تھی ؛لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ چڑھا تے چڑھا تے تو وہ ہار تھک کر نڈھال ہو جاتیں۔اس وقت بھی ایک جگہ ٹھہر کر کھڑی ہوئی سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتفاق سے موٹی مغرور چیونٹی ادھر آ نکلی، اور انہیں ہانپتے کانپتے دیکھ کر سردار کا مذاق اڑاتے ہوئے بڑے غرور سے کہنے لگی ،’’ہونہہ۔۔۔ایک معمولی سا دانہ تم لوگوں سے نہیں لے جایا جا رہا ہے ۔میں سردار ہوتی تو پلک جھپکتے ہی اوپر پہونچا دیتی !‘‘ سردار کی اس توہین کو چیونٹیاں برداشت نہیں کر سکیں اور غضبناک ہو کر اس کے گھمنڈ کا سبق دینے کے لیے اس پر دانہ لڑھکا نا چاہا ؛لیکن سردار نے انہیں فوراً ہی روک دیا ۔’’بہنو! ذرا اور صبر سے کام لو۔صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا اور غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہو تا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ اس کے غرور کو بھی بہت ہی جلد خاک میں ملا دے گا‘‘۔وہ اپنی ساتھیوں کو سمجھا تی ہوئی آہستہ سے بولی ۔چیونٹیوں کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ موٹی چیونٹی کی طرف سے نظریں ہٹا کہ سردار کے ساتھ دانہ اوپر گھسیٹنے لگیں۔انہیں خاموشی سے جاتے دیکھ کر موٹی چیونٹی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔وہ سمجھی کہ سردار اور اس کی ساتھی اس سے ڈر گئیں۔اس لیے وہ ان کے پاس جا کے سردار کی اور بھی ہنسی اڑا نے لگی ۔’’تم لوگ بیوقوف ہو ،جو ایسی کمزور اور مریل کو اپنا سردار بنا یا ہے ،جو تمہارے ساتھ مل کر بھی ایک معمولی سا بوجھ نہیں گھسیٹ سکتی۔مجھے اپنا سردار بنا لو تو اس بوجھ کو اکیلے ہی اوپر پہونچا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی سردار چیونٹی کے ہونٹوں پر سنجیدہ مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے ایک نظر نیچے ڈالی جہاں ایک گندی نالی بہہ رہی تھی۔پھر وہ کچھ سوچ کر موٹی چیونٹی سے بڑی نرمی سے بو لی،’’بہن تم سچ کہتی ہو ۔واقعی اب میں بہت کمزور ہوچکی ہوں اور سرداری نہیں کر سکتی۔اگر تم اس دانے کو اوپر پہنچادو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اور غول کے تمام چیونٹیاں تمہیں اپنا سردار تسلیم کر لیں گے۔‘‘سردار کی بات پر مغرور چیونٹی کے خوشی میں ہاتھ پیر دیوار سے اکھڑ گئے اور وہ ہوا میں چکراتی ہوئی دانے کے ساتھ نیچے گندی نالی میں جا پڑی، اور ہوش بھی ٹھکانے نہیں آئے تھے کہ ایک بھوکا کیڑا جو شکار کی تلاش میں قریب ہی تیر رہا تھا ،خدا کی بھیجی ہوئی نعمت سمجھ کر اسے فوراً چٹ کر گیا۔
*****
آفتاب حسن
مغرور چیونٹی
کسی دیوار میں ایک دراڑ تھی اور اس میں بہت سی چیونٹیوں نے اپنا گھر بنا لیا تھا ۔اس میں ایک مغرور اور موٹی چیونٹی بھی شامل تھی ۔اسے اپنی طاقت اور ذہانت پر پڑا غرور تھا اور اکثر غول کا سردار بننے کی سوچا کرتی؛ لیکن غول کی سردار چیونٹی اتنی عقل مند اور رحم دل تھی کہ اس کے آگے موٹی چیونٹی کی ایک نہیں چلتی تھی ۔اس کے شازشی ذہن نے بڑے بڑے لالچ دے کر تمام چیونٹیوں کو اپنے ساتھ ملا نے کی کئی بار کوشش کی؛ لیکن چیونٹیاں اپنی سردار سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ ایک بھی چیونٹی اس کے ورغلا نے میں نہیں آئی۔نرمی سے کام نہیں بن سکا ،تو اپنی طاقت کے سہارے یہ ان پر ظلم و ستم کرنے لگی۔وقت بے وقت کسی نہ کسی کو مارنے لگتی اور موقع ملتے ہی ان کا دانہ چھین لیتی ۔تھوڑے ہی دنوں میں سارے غول میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ہر چیونٹی اس کے ظلم سے تھرانے لگی۔جب بہت جینا دشوار ہو گیا ،تو ایک دن تمام چیونٹیاں فریاد لے کر سردار کے پاس پہنچ گئیں۔
سردار پوری توجہ اور ہمدردی سے ایک ایک کی شکایت سنتی رہی ،پھر بڑے خلوص اور سنجیدگی سے بولی’’بہنو! تمہاری دکھ بھری کہانی سن کر بہت ہی دکھ ہوا اور یہ تمہارا ہی نہیں میرا بھی غم ہے ۔میری یہی خواہش ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادی جائے۔اس لئے میں اس کا فیصلہ خدا کے سپرد کر تی ہوں ؛کیوں کہ وہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔‘‘ پھر سردارِ چیونٹی انہیں صبر کے فائدے بتا کر صبر کرنے کی نصیحت کر نے لگی۔تمام چیونٹیوں کو اپنے سردار کی نیک دلی اور عقلمندی پر پورا بھروسا تھا چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی سردار کی باتوں کو گرہ میں باندھ کر اپنے اپنے گھروں کو ہنسی خوشی چلی گئیں۔
ایک دن کا واقعہ ہے سردار چیونٹیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا دانہ دیوار پر چڑھا نے کی کوشش کر رہی تھی ؛لیکن وہ اتنا وزنی تھا کہ چڑھا تے چڑھا تے تو وہ ہار تھک کر نڈھال ہو جاتیں۔اس وقت بھی ایک جگہ ٹھہر کر کھڑی ہوئی سانس درست کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتفاق سے موٹی مغرور چیونٹی ادھر آ نکلی، اور انہیں ہانپتے کانپتے دیکھ کر سردار کا مذاق اڑاتے ہوئے بڑے غرور سے کہنے لگی ،’’ہونہہ۔۔۔ایک معمولی سا دانہ تم لوگوں سے نہیں لے جایا جا رہا ہے ۔میں سردار ہوتی تو پلک جھپکتے ہی اوپر پہونچا دیتی !‘‘ سردار کی اس توہین کو چیونٹیاں برداشت نہیں کر سکیں اور غضبناک ہو کر اس کے گھمنڈ کا سبق دینے کے لیے اس پر دانہ لڑھکا نا چاہا ؛لیکن سردار نے انہیں فوراً ہی روک دیا ۔’’بہنو! ذرا اور صبر سے کام لو۔صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا اور غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہو تا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ اس کے غرور کو بھی بہت ہی جلد خاک میں ملا دے گا‘‘۔وہ اپنی ساتھیوں کو سمجھا تی ہوئی آہستہ سے بولی ۔چیونٹیوں کا سارا غصہ جاتا رہا اور وہ موٹی چیونٹی کی طرف سے نظریں ہٹا کہ سردار کے ساتھ دانہ اوپر گھسیٹنے لگیں۔انہیں خاموشی سے جاتے دیکھ کر موٹی چیونٹی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔وہ سمجھی کہ سردار اور اس کی ساتھی اس سے ڈر گئیں۔اس لیے وہ ان کے پاس جا کے سردار کی اور بھی ہنسی اڑا نے لگی ۔’’تم لوگ بیوقوف ہو ،جو ایسی کمزور اور مریل کو اپنا سردار بنا یا ہے ،جو تمہارے ساتھ مل کر بھی ایک معمولی سا بوجھ نہیں گھسیٹ سکتی۔مجھے اپنا سردار بنا لو تو اس بوجھ کو اکیلے ہی اوپر پہونچا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی سردار چیونٹی کے ہونٹوں پر سنجیدہ مسکراہٹ پھیل گئی۔اس نے ایک نظر نیچے ڈالی جہاں ایک گندی نالی بہہ رہی تھی۔پھر وہ کچھ سوچ کر موٹی چیونٹی سے بڑی نرمی سے بو لی،’’بہن تم سچ کہتی ہو ۔واقعی اب میں بہت کمزور ہوچکی ہوں اور سرداری نہیں کر سکتی۔اگر تم اس دانے کو اوپر پہنچادو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اور غول کے تمام چیونٹیاں تمہیں اپنا سردار تسلیم کر لیں گے۔‘‘سردار کی بات پر مغرور چیونٹی کے خوشی میں ہاتھ پیر دیوار سے اکھڑ گئے اور وہ ہوا میں چکراتی ہوئی دانے کے ساتھ نیچے گندی نالی میں جا پڑی، اور ہوش بھی ٹھکانے نہیں آئے تھے کہ ایک بھوکا کیڑا جو شکار کی تلاش میں قریب ہی تیر رہا تھا ،خدا کی بھیجی ہوئی نعمت سمجھ کر اسے فوراً چٹ کر گیا۔
*****
No comments:
Post a Comment