- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, May 26, 2016


مولانامحمد شاہد عبداللطیف السنابلی 
استاذ : المعہد ، رچھا ، بریلی
وہابی تحریک 
وقت اور حالات کے مطابق مختلف چھوٹی بڑی تحریکیں وجود میں آتی رہیں ، ان میں سے کچھ نا پید ہوگئیں اور کچھ تا حال باقی ہیں۔’’ وہابیت ‘‘ بھی انہیں تحریکوں میں سے ایک ہے ، جس کا نام ہم بار بار سنتے رہتے ہیں ، چونکہ انسان کی فطرت ہے کہ جو لفظ اس کے کانوں سے باربار ٹکراتا ہے اس کی حقیقت سے وہ آگاہ ہونے کا خواہاں بھی ہوتا ہے بنا بریں آئندہ سطور میں اسی مذکورہ تحریک کی حقیقت کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
وجہ تسمیہ :لفظ ’’ وہابی‘‘ وہاب سے اسم منسوب ہے ، اور وہاب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کا معنی ’’ بہت عطاکرنے والا ‘‘ ہے ۔ جس طرح مکہ سے مکی اور جنت سے جنتی مستعمل ہے اسی طرح وہاب سے وہابی ہے ، یعنی’’ وہاب والا ‘‘۔
عرف عام میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کے مثل عقیدۂ توحیدپر کاربند،کتاب و سنت پر
عمل پیرا مومن کو وہابی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، جو در حقیقت مخالفین کا ایجاد کردہ اور غیر قیاسی بھی ہے ۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ جزیرہ عرب کے ایک قریہ عیینہ میں ۱۱۱۵ھ ؁ مطابق ۱۷۰۳ء ؁ میں پیدا ہوئے ، دس برس کی عمر میں قرآن کریم کا حفظ کیا ، مدینہ منورہ، بصرہ اور شام وغیرہ کے علمی مراکز سے متعدد علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد گر دوپیش کا جائزہ لیا تو
صورت حال دیکھ کر تڑپ اٹھے ، جی ہاں اس صورت حال پر ہر اس انسان کو تڑپنا ہی چاہیے جس کے دل میں ایمان کی رمق موجودہو ، کیوں کہ بقول امریکی اہل قلم (Lothrop Stoddard)
’لو تھرپ اسٹاڈرڈ‘صورت حال یہ تھی : 
مذہب بھی دیگر امور کی طرح پستی میں تھا ، تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی توحید کو ڈھک لیا تھا، مسجدیں ویران اور سنسان پڑی تھیں ، جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے ، تعویذ گنڈے اور مالا میں پھنس کر گندے فقیروں اور دیوانے در ویشوں پر اعتقاد رکھتے تھے اور بزرگوں کے مزارات پر زیارت کو جاتے جن کی پر ستش بارگاہ ایزدی کے شفیع اور ولی کے طور پر کی جاتی تھی ۔۔۔(The New World of Islam:25)
چنانچہ آپ سے ضبط نہ ہوسکا اور اعلاء کلمۃ اللہ ، تبلیغ دین ، اشاعت توحید وسنت اور
جہاد فی سبیل اللہ کے لیے آپ نے کمر ہمت کس لی اور مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی اصلاح کے لیے ایک انقلابی تحریک چلا نے کا فیصلہ کیا جو تحریک اسلام کی حقیقی نشأۃ ثانیہ کا ذریعہ بنی ۔ جب آپ کی دعوت کو پذیرائی حاصل ہونے لگی ، جماعت در جماعت لوگ اسے اپناتے ہوئے شرک و بدعت سے تائب ہوکر ہدایت کی روشنی کو اپنانے لگے اور ہر چہار جانب دعوت حق کا اثرظاہر ہونے لگا تو وہ اخوان جنہیں قبر پرستی اور انواع و اقسام کی شرک و بدعت سے کافی لگاؤ تھا کیسے خاموش رہنے والے تھے ، انہوں نے اس دعوت کو دبانے کے لیے ہر طرح کی دسیسہ کاریوں کا سہارا لیا اور عامۃ المسلمین کو ا س دعوت سے متنفر کرنے کے لیے اس دعوت پر’’ وہابیت‘‘ کا لیبل لگا دیا ۔
جب کہ یہ نسبت صریحاً غلط ہے کیوں کی دعوت تو شیخ محمد رحمہ اللہ د یتے تھے ، ا ن کے والد جناب عبدالوہاب نہیں دیتے تھے ۔ اصل بات یہ تھی کہ اگر مخالفین اس دعوت کی نسبت شیخ محمد کی طرف کرتے تو پھر اس کا نام ’’دعوت محمدیہ‘‘قرار پاتا ، جس سے ان کا مذموم مقصد حاصل نہ ہوپاتا کیوں کہ پورے دین اسلام ہی کا نام محمد رسول اللہ کی طرف نسبت کی باعث ’’رسالت محمدیہ ‘‘ہے ۔ چنانچہ عام لوگ ان دونوں کے مابین تفریق نہ کرتے۔ اس لئے ان فتنہ گروں نے اس با ت کا خاص خیال رکھا کہ ا س دعوت پر ایسا بے تکا نام چسپاں کر دیا جائے جس کی قباحت وشناعت عوام کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہے ۔
وہابی نام کی ابتداء:’’ وہابی‘‘ نام کے سن ابتدا کی تعیین کرتے ہوئے نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’ اہل مکہ ومدینہ نے اہل نجد کے حق میں ۱۷۶۰ھ ؁ میں یہ نام نکالا (ترجمان وہابیہ)
ہندوستان میں کسی وقت ’’ وہابیت ‘‘ نام تھا حضرت احمد شہید (متوفی۱۸۳۱ء ؁) اور
مولانا اسماعیل شہید (متوفی۱۸۳۱ء ؁) کی تحریک تجدید دین کا اور ’’ وہابی ‘‘ نام تھا اس مجاہدانہ تحریک کے بانیوں اور حامیوں کا ، حالانکہ ہندوستان میں حضرت سیداحمد شہید کی تحریک دعوت و تجدید کی نجد کی وہابی تحریک سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ پھر ایک دوسرا دور آیا ، اس دور میں غلط فہمی سے وہابیت اور وہابی نام ہوگیا برٹش حکومت سے بغاوت اور باغی کا ، اس کے بعد تیسرا موجودہ دور آیا اس میں وہابیت نام ہوگیا شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب کی تقلید اور اتباع کا ، ’’ تقویۃ الایمان‘‘ پڑھنے پڑھانے کا اور ہر دینی امور کی ادائیگی پر دلیل مانگنے کا ۔ 
مخالفین کے شکوک و شبہات : جب مخالفین شیخ محمد بن عبدالوہاب علیہ الرحمہ کی دعوت حق کو دبانے میں بے بس ہونے لگے اور ان کا مستقبل خطرہ میں نظر آنے لگا تو انہیں سوائے آپ کی دعوت سے متعلق بے بنیاد شکو ک و شبہات عام کرنے کے کوئی متبادل شیء دکھائی نہ دی، چنانچہ آپ کی دعوت پربے جا اعتراضات کرتے ہوئے انہوں نے کئی مستقل کتابیں تصنیف کیں جن کا کافی و شافی جواب
ہر دور کے ماہر علماء نے پیش کیا ہے ۔ 
جب ہم مخالفین کی ان افترا پر دازیوں اور شکوک واعتراضات کی اصل حقیقت کا سراغ لگاتے ہیں تو در ج ذیل امور واضح ہوتے ہیں :
۱۔ ایسے شکوک و شبہات جن کی جڑیں سابقہ فرقوں میں پائی جاتی ہیں ، بلا تحقیق ان کو شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ پر جڑ دیا گیا ہے جب کہ ان کے بارے میں شیخ کی رائے ہو بہو اہل سنت
و الجماعت کی رائے کے مطابق ہے ۔ 
۲۔ یا وہ شکوک و شبہات من گھڑت ہیں ۔ شیخ کی تالیفات اور نقل شدہ اصل عبارتوں میں وہ چیزیں نہیں ملتیں ۔ بطور مثال اہل قصیم کو بھیجے گئے شیخ محمد رحمہ اللہ کے اس طویل خط کا یہ قول لے لیجئے جس میں آپ نے اپنے عقیدہ کی تفصیلی وضاحت کے علاوہ آپ سے متعلق پھیلائے گئے من گھڑت شکوک و اعتراضات کی تردید کی ہے ۔
’’۔۔۔اور(لوگ کہتے ہیں کہ )میں کہتا ہوں اگر رسول اللہ ا کا قبہ ڈھانے پر قادر ہوجاؤں تو یقیناًاسے ڈھا دوں گا اور اگر کعبے پر میرا قبضہ ہوجائے تو میں اس کا پر نالہ نکال کر وہاں لکڑی کا پرنالہ لگا دوں گا اور میں قبر نبی اکی زیارت کو حرام کہتا ہوں اور والدین و غیرھما کی قبروں کی زیارت کا انکار کرتا ہوں جو غیر اللہ کی قسم کھائے میں اسے کافر کہتا ہوں ، ابن فارض اور ابن عربی کو کافر کہتا ہوں ،دلائل الخیرات کو جلادیتا ہوں اور روض الریاحین کانام روض الشیاطین رکھتا ہوں۔
ان سارے اتہامات کے بارے میں میرا جواب ہے : سبحانک ہذا بہتان عظیم !
’’ یا اللہ تو پاک ہے ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے ‘‘۔۔۔۔۔۔(الدرالسنیۃ:۳۴)
واضح رہے کہ قصیم کے علماء نے اس خط کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا اور شیخ کی نسبت اعلان کردیا کہ وہ راہ صواب پر ہیں اور اہل قصیم نے شیخ کی دعوت حق کو قبول کر لیا ۔
۳۔ یا وہ شبہات شیخ کی اصل تحریروں سے توڑ جوڑ کیے ہوئے من پسند اقتباسات ہیں یا اپنے اصل اور صحیح معنی سے ہٹاکر تاویل شدہ ہیں ۔ اس ضمن میں معترضین کا یہ قول بھی شامل ہے 
کہ ’’ وہابی‘‘ نبی اپر درود اور آپ ا کی رسالت کا انکار کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایسی لغو اور بے بنیاد بات ہے کہ کوئی عقل مند تصدیق نہیں کر سکتا ۔
مخالفین کا ایک اہم اعتراض جو بار بار عوام و خواص میں بیان کیاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ
شیخ محمد اور ان کے پیروکار اپنے علاوہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافرو مشرک سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ایک محض دعوی بلا دلیل کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ شیخ کے خط کی یہ عبارت مخالفین کی افتراپر دازی کی تردید کرتی ہے ’’۔۔۔ ولا اشہد لاحدمن المسلمین بجنۃ ولا نار الا من شہد لہ رسول اللہ ولکنی ارجو للمحسن واخاف علی المسئی ولا اکفر احدا من المسلمین بذنب ولاأ خرجہ من دائرۃ الاسلام ۔۔۔‘‘(الدرالسنیۃ:۳۲)
’’ میں مسلمانوں میں سے کسی کے لیے جنت و جہنم کی گواہی نہیں دیتا مگر جس کے متعلق اللہ کے رسول ا گواہی دیں،البتہ نیک شخص کے لیے رحمت کا امید وار ہوں اور گناہ گار پر عذاب سے خائف ہوں ۔میں مسلمانوں میں سے کسی کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتا اور نہ ہی اسے
دائرہ اسلام سے خارج مانتا ہوں ۔‘‘
بعض لوگ ’’ وہابیت‘‘ کو ’’رستمی وہابیت ‘‘سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو رستمی وہابیت شمالی افریقہ میں خوارج کے اباضی فرقے کے ایک شخص عبدالوہاب بن عبدالرحمن بن رستم (متوفی۱۹۰ھ ؁) کی ایک تحریک تھی ۔ ان کا دونوں تحریکوں کو ضم کرنے کا مذموم مقصد عوام کو یہ بتا کر گمراہ کرنا ہے کہ ’’ وہابیت کے بطلان پر بڑے بڑے علماء کے فتوے موجود ہیں ‘‘ ، حالانکہ ان فتووں کا تعلق رستمی وہابیت سے ہے ، کیوں کہ ان میں سے اکثر فتوے ایسے ہیں جو شیخ محمد علیہ الرحمہ کی پیدائش سے پہلے کے ہیں ۔
اسی لیے بہت سارے محققین اور ریسرچروں نے ’’خارجی رستمی وہابیت اور شیخ محمد
بن عبدالوہاب کی ’’ سنی سلفی اصلاحی دعوت ‘‘ کے درمیان فرق بیان کیا ہے ۔ بعض فر ق یہ ہیں :
۱۔ منہج کے اعتبار سے دونوں الگ ہیں : اباضی ایک بدعتی فرقہ ہے جو نہ نصوص کی تعظیم کرتا ہے اور نہ صحابہ و تابعین کے فہم کے مطابق اسے سمجھتا ہے ،جبکہ دوسرا گروہ اہل سنت والجماعت کے منہج کے مطابق کتاب اللہ اور صحیح احادیث رسول پر عمل کرتا ہے ۔ 
۲۔ اعتقاد کے اعتبار سے دونوں الگ ہیں : پہلا گروہ خارجیوں کا ہے اور دوسرا گروہ سلفیوں کا ہے ۔
۳۔ وقت اور زمانے کے اعتبار سے دونوں الگ ہیں : پہلا گروہ دوسری صدی کے آخر یا تیسری صدی کے شروع میں وجود میں آیا اور دوسرا گروہ بارہویں صدی کے آخر میں ظاہر ہوا ۔
۴۔ جگہ کے اعتبار سے دونوں الگ ہیں : پہلا گروہ شمالی افریقہ میں وجود میں آیاجب کہ دوسرا گروہ نجد میں ۔
شیخ محمد اور ان کے حامیوں کی رفعت و عزت کو گھٹا نے کے لیے مخالفین اکثر اپنی تقریروں اور تحریروں میں اُن احادیث کو پیش کرتے ہیں جن میں نجد کی مذمت بیان کی گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں کرتے کہ ان احادیث میں مذکورنجد سے عراق مراد ہے ۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ کیا کسی جگہ کی مذمت سے اس جگہ کے تمام رہنے والوں اور اس کے علماء و صالحین کی مذمت لازم آتی ہے ؟ عراق مذموم ہے لیکن وہاں بھی بہت سارے صلحاء اورثقہ وراسخ علماء گزرے ہیں ۔
ایک بے بنیاد الزام یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ محمد رحمہ اللہ زندگی کے آخری حصے میں راہ راست پر قائم نہیں رہے تھے کیوں کہ انہوں نے کئی صحیح حدیثیں صر ف اس لیے رد کردی تھی کہ وہ ان کی رائے کے مطابق نہیں تھیں ۔ جب کہ یہ دعوی بھی بالکل سفید جھوٹ پر مبنی ہے ، وہ تو وفات تک سنت کا انتہائی احترام کرتے اور پوری قوت کے ساتھ اس کی طرف دعوت دیتے رہے ۔
ایک سازش یہ بھی : دور حاضر کی نہایت بدنام اور ہزاروں معصوموں کی جان لینے والی دہشت گرد
تنظیم داعش کے ساتھ وہابیت اور سلفیت جیسے محترم القاب چپکانے کی سازشیں پوری قوت کے ساتھ کی جاری ہیں ۔ اس تنظیم کو یہ لقب کس نے اور کیوں دیا ، مکمل طور پر حقیقت سے آگاہ تو
رب العالمین ، علام الغیوب ہے ۔ زیادہ قرین قیاس یہ لگتا ہے کہ دعوت حق کے دشمنوں نے اپنی سابقہ خباثت کو جاری رکھتے ہوئے یہ لقب اس تنظیم سے جوڑ دیا ہے ، تاکہ دنیا کے جس حصہ میں بھی سلفیت کو اپنانے والے موحدین ہیں سب کو داعش کے مثل خوں خوار سمجھ کر لوگ ان سے نفرت کریں اور روز بروز سلفیت کوا پنانے والوں کا سلسلہ ختم ہو ۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اس تنظیم نے سلفیت اور وہابیت کا لقب بذات خود اپنے لیے منتخب کیا ہو، دنیا کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ یہ تنظیم خالص مسلمانوں کی ہے ۔ کیوں کہ متعددغیر مسلم بھی سلفیت بالفاظ دیگر وہابیت یا اہل حدیث کی حقانیت کے معترف ہیں ۔
لیکن مشہور مقولہ ہے ’’ شیر کی کھا ل پہن لینے سے گدھا شیر نہیں بن جاتا‘‘دونوں میں جو ظاہری و باطنی فرق ہے وہ تاقیامت رہے گا ، سلفیت اور داعش کے درمیان بھی بے شمار فرق ہے ، چند کا تذکرہ بطور نمونہ پیش خدمت ہے ۔
۱۔ سلفی یا وہابی لوگ دنیا جہا ن کے لیے رحمت اور باعثِ ہدایت ہیں اور مخلوق پر سب سے زیادہ شفیق و مہر بان ہیں ، جب کہ داعش مسلمانوں کو ذبح کر نے کے لیے بنائی گئی ہے ۔ 
۲۔ سلفیوں کا مقصد لوگوں کو ان کے رب سے واقف کرانا ، ان کو اس کی بندگی کرانا اور شرک سے دور کرنا ہے جب کہ داعش کا مقصد لوگوں کو ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکا ناہے ۔
۳۔ سلفی حضرات ان کافروں سے لڑائی کو حرام قرارد یتے ہیں جن کے ساتھ معاہدہ ہوا ہو جب کہ داعش کے لوگ ان کے خون کو مباح ہی نہیں بلکہ واجب قرار دیتے ہیں ۔
۴۔ سلفی فکر کہتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر انتہاپسندوں کے قتل و خونریزی کی کارروائیاں ،دنگا فساد ہے جب کہ داعش کا نظریہ یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک دار الکفر ہیں ۔
۵۔ سلفی مسلمانوں سے شرور و فتن کو دور کرتے ہیں جب کہ داعش مسلمانوں میں شرور
و فتن پیدا کرتی ہے ۔ ۔۔۔

No comments:

Post a Comment