- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, May 26, 2016


شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ
قربانی کی معنویت 
قربانی کا ایک تو ظاہری پہلو ہے ۔ قر بانی کے جانور ، اس کی عمر ، گوشت ، چمڑے ، وقت
و مقام اور طریقہ ذبح وغیرہ سے متعلق گفتگو کا تعلق اسی پہلو سے ہے ۔ احادیث صحیحہ میں اس پہلو کی تقر یباً تمام جزئیات کی تفصیل موجود ہے ۔ محدثین و فقہاء اور دیگر علماء سلف نے مستقل ابواب و فصول کے تحت اس پہلو کی ترتیب وار وضاحت کردی ہے ۔ اس شمارہ میں بھی احکام و مسائل قر بانی کے عنوان سے کتاب و سنت کی روشنی میں امکانی حد تک اس پہلو کی تشریح کی کوشش کی گئی ہے اور ان احکام 
و مسائل ، ان قواعد و شروط کو ملحوظ رکھے بغیر شریعت کی نظر میں قر بانی شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی ۔ 
قر بانی کا ایک باطنی پہلو بھی ہے ، جس کی جانب قرآن کریم نے آیت ذیل میں اشارہ کیا ہے:’’ لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ کَذَلِکَ ۔‘‘(الحج:۳۷)
یعنی’’ اللہ کو قر بانی کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ ‘‘
اور تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس پر کنٹرول کرے تاکہ اس کی توجہات کا مرکز اپنی نفسانی خواہشات نہ بنیں بلکہ اس کی ساری تگ و دو ، ہر قسم کی جدو جہد اللہ کی مقر کردہ حدود کے تابع ہو اور جب بھی شیطانی وسوسے اسے اللہ کی عطا کردہ صراط مستقیم سے ہٹانا چاہیں تو وہ سنبھل جائے اور پورے احساس و شعور کے ساتھ ان وساوس اور ہر قسم کے شیطانی دجل و فریب اور نفسانی ہوا و ہوس سے بچتا ہو ا اللہ کے بتائے ہوئے احکام و حدود کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور نفس کی ساری خواہشات کو رضائے الٰہی پر قر بان کر دے ۔ اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے اپنے رسول کو یہ تعلیم دی ہے :
’’قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہ
ِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔‘‘(انعام:۱۶۲)
’’ کہہ دیجئے کہ میری صلاۃ، قر بانیاں ، زندگی اور موت سب کی سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
دوسری آیت میں ہے :’’إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔‘‘(انعام :۷۹) 
یعنی’’ میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی جانب کر لیا جو آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے اور میں شریک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
یہ ہے تقویٰ اور یہی ہے قر بانی کی روح اور قربانی کا عظیم و جلیل مقصد ۔ قر بانی کے ظاہری احکام و مسائل اگر قر بانی کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ پہلو اس کی روحانیت ، معنویت اور حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے اور جس طرح روح کے بغیر جسم کی کوئی حیثیت نہیں بالکل 
اسی طرح قر بانی کا محرک جب تک تقویٰ نہ ہو تب تک اس کی حیثیت گوشت خوری کی خواہش کی تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
قر بانی کی تاریخ انتہائی قدیم ہے ۔ سب سے پہلی قر بانی آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے پیش کی تھی جس کا انجام یہ ہوا کہ جس بیٹے کے دل میں تقویٰ تھا اور جس کا مقصد رضاء الٰہی تھا اس کی قر بانی تو قبول ہوئی ، لیکن جس کی نیت میں فتور تھا ، اخلاص اور مقصدیت کا فقدان تھا ، اس کی قربانی نہ صرف یہ کہ ضائع ہو گئی بلکہ یہی قربانی بھائی کے قتل اور دنیا اور آخرت کی بربادی کا باعث بنی اور وہ جس کی قر بانی بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوگئی تھی اس کی قبولیت کا سبب قرآن میں کھل کر بیا ن کر دیا گیا ۔
’’إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن۔‘‘(المائدۃ:۲۷)یعنی ’’ قبولیت کا شرف صرف ارباب تقویٰ کو حاصل ہوتا ہے ۔ ‘‘
قربانی کا یہ تسلسل کبھی نہ ٹوٹا ، انبیاء علیہم السلام ہمیشہ حق اور توحید کے لیے قر بانیاں دیتے رہے اور ان قر بانیوں کا محرک ہمیشہ ہی تقویٰ اور احکام الٰہی کے سامنے تسلیم و رضا ہی کا جذبہ رہا ۔ یہاں تک کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسلام اور عقیدۂ توحید کی نئے سرے سے تجدید کی تو شرک
و کفر کے طوفان سے نبرد آزما ہوتے ہوئے انہیں اپنی ذات ، اپنی خواہشات اور اپنے تمام جذبات ، جان، مال حتیٰ کہ لخت جگر تک کو رضاء الٰہی کے لئے نچھاور کرنا پڑااور ان کی زندگی سراپا قر بانی ہی 
بن گئی ۔حیات ابراہیمی کے ساتھ تضحیات اور قر بانیوں کا رشتہ اتنا محکم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا تصور قربانی کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔
صحابہ کرام نے جب نبی اکرم ا سے قر بانی کی بابت دریافت کیا تو آپ ا نے
ارشاد فرمایا : ’’ سنۃ ابیکم ابراہیم‘‘۔ یعنی قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ نبی اکرم ا کے اس ارشاد مبارک میں واقعۂ اسماعیل کے علاوہ ان اہم اور انتہائی مخلصانہ رضاکارانہ واقعات کی جانب بھی اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی میں وقوع پذیر ہوئے اور ان تمام کا محرک تقویٰ اور ضاء الٰہی کے علاوہ اور کچھ نہ رہا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ حیات ابراہیمی کا ہر ورق ہمارے سامنے گوناگوں قر بانیوں کا مر قع بن کر آتا ہے اور ان کی زندگی کا ہر موڑ اپنے جلو میں ایثار و تضحیات کے لافانی نقوش سمیٹے ہوئے ہے ۔ موروثی جائیداد ،وطن ، جان اور خواہشات و جذبات میں سے کون سی ایسی چیز ہے جسے
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو حید، حق اور صداقت کی راہ میں قر بان نہ کردیا ہو ۔ یہی مخلصانہ عظیم
قر بانیاں تھیں جن کی وجہ سے رب العالمین نے انہیں مقام ’’ خلت‘‘ سے نوازا۔
رہا وہ عظیم واقعہ جو اس سلسلہ کی آخری کڑی ہے اور جو بجا طور پر حیات ابراہیمی کا 
سر عنوان کہلائے جانے کا مستحق ہے ، یعنی اپنے جگر بند کو حکم الٰہی کے تحت قر بان کر دینے کا واقعہ اور اس سلسلہ میں اپنے نفس ، اپنی خواہشات کو کچلتے ہوئے بڑھاپے کی اس یاد گار ، سالہا سال کی دعاؤں اور آرزوؤں کے ثمر زریں کو بغیر کسی تامل کے قر بانی کے لیے پیش کردینا اور خود اس لخت جگر کا حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر تے ہوئے اپنی جان عزیز قر بان کر دینے کے لیے تیار ہوجانا یہ ایسے لر زہ خیز واقعات ہیں آج کی مادی دنیا جن کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ دنیائے انسانیت کا ایک ایسا عظیم
و معروف واقعہ ہے جس کی یاد چار ہزار سال سے منائی جارہی ہے اور قیامت تک منائی جاتی رہے گی ۔
اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب قرآن مجیدمیں اپنے خلیل کے اس واقعہ کو عجیب دلآویز انداز میں کہیں صراحۃً اور کہیں اشارۃً مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوا:
’’ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ۰ وَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُ۰ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۰۔‘‘
’’ پس جب ان دونوں نے سرا طاعت خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل بچھاڑا اور ہم نے اسے پکارا کہ ابراہیم تو نے خواب کو سچ کر دکھایا ۔ ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔(الصافات:۱۰۳۔۱۰۵)
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس عظیم قر بانی کے سلسلہ میں بھی جس چیز کو سب سے زیادہ نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے وہ باپ اور بیٹے دونوں کا ایثار ، رضا کارانہ کر دار اور اپنے نفس اور خواہشات کو کچل کر حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے اور یہی ہے وہ تقویٰ جو قر بانی میں مطلوب و مقصود ہے اور جس کی جانب اللہ تعا لی نے ’’ لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمَْ ۔‘‘ اور ’’إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن۔‘‘ میں اشارہ فرمایا ہے اور انبیاء کرام کی زندگیاں بالخصوص ابراہیم علیہ السلام اور نبی اکرم اکی زندگی کے سارے واقعات اسی کے ترجمان ہیں ۔
اور حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا ، رضاء الٰہی کے لیے قر بان ہوجانا اور اسی کے لیے اپنا سب کچھ فنا کر دینا ہی خلاصۂ قر بانی بلکہ خلاصۂ حیات ایمانی ہے ۔ 
حصولِ رضاء الٰہی کے جذبہ میں ذرا بھی کھوٹ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ کی وعید ہمارا مقدر ہوجائے گی۔ 
’’ ُ قلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔‘‘(التوبۃ:۲۴)
’’ کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ ، بچے ، بھائی ، بیویاں، خاندان ، حاصل کردہ مال ، تجارت جس کے خسارہ سے ڈرتے رہتے ہو ، مکانات جو تمہیں پسند ہیں ، اگر یہ سب تمہاری نظر میں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو ٹھہرواللہ اپنا فیصلہ کئے دیتا ہے ۔ ‘‘
عید الاضحی چند دنوں میں آجائے گی اورہم اللہ کی راہ میں قر بانیاں دیں گے ۔ یہ قر بانیاں دیتے ہوئے اگر ہم نے ان کی معنویت کو اچھی طرح پورے شعورو احساس کے ساتھ ملحوظ رکھا تو ہماری قر بانیاں شر ف قبولیت حاصل کرلیں گی اور ہماری زندگی پر ان کا گہرا اثر پڑے گا ۔ قر بانی کرتے وقت ہمیں یہ بات اچھی طرح محسوس کرنی چاہیے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے تو حید ، حق ، صداقت ، اور رضاء الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ قر بان کر دیا ، حتیٰ کہ اپنے لخت جگر کو بھی قر بان گاہ پر چڑھادیا اور اپنے نفس اور خواہشات پر چھری پھیر دی ، اسی طرح ہمیں بھی اسلام ، ایمان اور اپنے عقیدے کی حفاظت کی راہ میں ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قر بان کرنے ، حق کے مقابل میں اپنی خواہشات ، ہو اہوس اور نفس پر چھری پھیرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ورنہ قر بانی سے 
گوشت خوری کے علاوہ کچھ نہ حاصل ہوگا۔
آج ہمارا ایمان ، اسلام ، ہمارے عقائد ، ہمارا پر سنل لا ء ، ہماری آزادی ، ہماری و ہ
تربیت گاہیں جنہیں ہم نے اپنی نئی پود کی تربیت کے لیے بنایا تھا سب خطرے میں ہیں اور سب ہم سے ہر قسم کی قر بانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ کیا ہم آج کی طاغوتی طاقتوں کے سامنے ’’قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘(انعام:۱۶۲)(کہہ دیجئے کہ میری صلاۃ، قر بانیاں ، زندگی اور موت سب کی سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اورمیں پہلا مسلمان ہوتا ہوں ) کا عملی ثبوت دینے کی طاقت اپنے اندر پاتے ہیں ؟

No comments:

Post a Comment